طالبان کی مزید دہشت گردی کی دہمکی
کالعدم تحریک طالبان نے دھمکی دی ہے کہ آنے والے دن اور ہفتے ملک کیلئے تباہ کن ہوں گے، ہم حکومت اور سکیورٹی اداروں کو اپنے لیڈر حکیم اﷲ محسود کے قتل پر سبق سکھائیں گے۔ تحریک طالبان کے ترجمان شاہد اﷲ شاہد نے گزشتہ روز بنوں میں سیکیورٹی فورسز پر ہونے والے حملے کی ذمہ داری قبول کرتے ہوئے کہا کہ یہ پہلا حملہ تھا، ہم پاکستانی حکومت کو امریکہ کی مدد کا سبق سکھائیں گے۔ انہوں نے کہا کہ ملک کے مختلف علاقوں میں خود کش حملہ آور بھیج دیئے گئے ہیں جو اہم حکومتی اور فوجی حکام سمیت پیپلزپارٹی‘ اے این پی اور ایم کیو ایم کے رہنمائوں کو نشانہ بنائیں گے۔ ان تینوں جماعتوں نے حکیم اﷲ محسود کے قتل کی توثیق کی ہے اس لئے وہ اس کے مستحق ہیں۔ ایک رپورٹ کے مطابق ٹی ٹی پی راولپنڈی ڈویژن کے رہنماء ہونے کا دعویٰ کرنے والے احمد علی انتقامی نے کہا کہ ہم جلد ڈی آئی جی اور ڈپٹی کمشنر راولپنڈی کو نشانہ بنائیں گے جنہوں نے راولپنڈی کے فوارہ چوک میں ہونے والے واقعہ میں حملہ آوروں کو مدد فراہم کی، ہم انہیں تین دن میں نشانہ بنائیں گے۔ نامعلوم مقام سے صحافیوں کو ٹیلی فون پر احمد علی انتقامی نے کہا کہ اس حملے میں بے گناہ لوگ مارے گئے اور ہم ان کا بدلہ لیں گے علمائے کرام کو بھی ہمارا ساتھ دینا چاہئے۔
طالبان دہشت گرد تو پہلے ہی پاکستان کے عوام ،مسلح افواج اور قانوں نافذ کرنے والے اداروں سے جنگ میں مصروف ہیں اور دن رات پر تشدد کاروائیوں میں مصروف ہیں۔ طالبانی دہشت گردوں نے اسلام اور پاکستان کا امیج اپنی دہشت گردی اور غیر انسانی کاروائیوں جن میں 50000 سے زیادہ بے گناہ اور معصوم پاکستانی مرد،خواتین اور بچے شامل ہیں کو ناحق قتل کر کے اور پاکستان کو ناقابل تلافی اقتصادی نقصانات پہنچا کر خراب کر کے رکھ دیا ہے۔ پاکستانی آئین کو یہ نہ مانتے ہیں اور جمہوریت کو غیر اسلامی جانتے ہیں۔ طالبان پاکستان اور دنیا میں دہشتگردی کے میزبان ہیں اور پاکستانی ریاست کی بالادستی تسلیم کرنے کو تیا ر نہیں ہیں.
خدا اور اس کے رسول کے احکامات کی کھلی خلاف ورزی کرتے ہوئے، اسلام نافذ کرنے کے بہانے، بے گناہوں اور معصوم بچوں،مردوں اور عورتوں کا خون بے دریغ اور ناحق بہایا جا رہا ہے ۔ سکولوں ،مساجد اور امام بارگاہوں کو تباہ کیا جا رہا ہے اور افواج پاکستا ن اور پولیس اور تھانوں پر حملے کئے جا رہے ہیں۔ کون سا اسلام ان چیزوں کی اجازت دیتا ہے؟ ملک کا وجود ان دہشت گردوں نے خطرے میں ڈال دیا ہے۔ اسلام کے نام پر بننے والا پاکستان آج دہشستان بن گیا ۔یہ دہشت گرد مسلمان نہیں بلکہ ڈاکو اور لٹیرے ہیں ، اسلام کے مقدس نام کو بدنام کر رہے ہیں۔ مسلمان تو کیا غیر مسلموں کو بھی اسلام سے متنفر کر رہے ہیں۔
طالبان پاکستان میں اسلامی نظام نافذ کرنے کے داعی ہیں (مگر خود اسلام پر عمل پیرا نہیں)اس مقصد کے حصول کے لئے وہ تمام غیر اسلامی کام برملا کر رہے ہیں جو قران و حدیث ،سنت نبوی اور اسلامی شرعیہ کے خلاف ہیں، لہذا ان کا اسلامی نظام نافذ کرنے کا دعویٰ انتہائی مشکوک اور ناقابل اعتبار یقین ہے.طالبان کا یہ کیسا جہاد ہے کہ خون مسلم ارزاں ہو گیا ہے اور طالبان دائیں بائیں صرف مسلمانوں کو ہی مار رہے ہیں۔بچوں اور بچیوں کے اسکول جلاتے ہیں۔ طالبعلموں اور اساتذہ کے قتل اور اغوا میں ملوث ہیں۔ اغوا برائے تاوان بھی کرتے ہیں اور ڈرگز کی تجارت بھی۔مساجد اور بازاروں پر حملے کرتے ہیں اور پھر بڑی ڈھٹائی سے، ان برے اعمال کی ذمہ داری بھی قبول کرتے ہیں۔ جہاد تو الہہ تعالی کی خشنودی و رضا حاصل کرنے کے لئے الہہ کی راہ میں کیا جاتا ہے۔ ذاتی بدلہ لینا قبائلی روایات اور پشتون ولی کا حصہ تو ہو سکتا ہے مگر جہاد نہیں ہے۔ کسی بھی مسلم حکومت کے خلاف علم جنگ بلند کرتے ہوئے ہتھیار اٹھانا اور مسلح جدوجہد کرنا، خواہ حکومت کیسی ہی کیوں نہ ہو اسلامی تعلیمات میں اجازت نہیں۔ یہ فتنہ پروری اور خانہ جنگی ہے،اسے شرعی لحاظ سے محاربت و بغاوت، اجتماعی قتل انسانیت اور فساد فی الارض قرار دیا گیا ہے. دہشت گرد ،اسلام کے نام پر غیر اسلامی و خلاف شریعہ حرکات کے مرتکب ہورہے ہیں اور اس طرح اسلام کو بدنام کر رہے ہیں۔ بے گناہ انسانوں کو سیاسی ایجنڈے کی تکمیل کے لیے قتل کرنا بدترین جرم ہے اور ناقابل معافی گناہ ہے.
علمائے اسلام ایسے جہاد اور اسلام کو’’ فساد فی الارض ‘‘اور دہشت گردی قرار دیتے ہیں جس میں اپنے مخالف علماء ومشائخ کے گلے کاٹیں جائیں ،بے گناہ لوگوں حتی کہ عورتوں اور سکول کے بچوں کو بے دردی کیساتھ شہید کیا جائے ،لڑکیوں کو گھروں سے اٹھا کر ان سے جبراً نکاح کیا جائے، جس میں اسلامی سٹیٹ کو تباہ اور بے گناہوں کو شہید کرنے کیلئے خود کش حملہ آوروں کو جنت کے ٹکٹ دیئے جائیں، جس میں جہاد فی سبیل اللہ کی بجائے جہاد فی سبیل غیر اللہ ہو، جس میں مساجد اور مزارات اولیاء پر بم دھماکے کر کے نمازیوں اور قرآن خوانی کرنے والوں کو بے دردی کیساتھ شہید کیاجائے۔
جو شخص زمین میں فتنہ و فساد برپا کرے، ڈکیتی و رہزنی اور قتل و غارت کا بازار گرم کرے اور اپنے ان مذموم افعال کے ذریعہ امن و امان کو ختم کر کے خوف و دہشت کی فضا پیدا کرے، تو اس قسم کی صورت حال کو قرآن مجید میں حرابہ سے تعبیر کیا گیا ہے۔ یہ انسانی معاشرے کے خلاف ایک سنگین جرم ہے لہٰذا اسلام میں اس کی سزا بھی سنگین ہے، ارشاد باری تعالیٰ ہے:إِنَّمَا جَزَاء الَّذِينَ يُحَارِبُونَ اللّهَ وَرَسُولَهُ وَيَسْعَوْنَ فِي الأَرْضِ فَسَادًا أَن يُقَتَّلُواْ أَوْ يُصَلَّبُواْ أَوْ تُقَطَّعَ أَيْدِيهِمْ وَأَرْجُلُهُم مِّنْ خِلافٍ أَوْ يُنفَوْاْ مِنَ الأَرْضِ ذَلِكَ لَهُمْ خِزْيٌ فِي الدُّنْيَا وَلَهُمْ فِي الآخِرَةِ عَذَابٌ عَظِيمٌ (33) سورة المائدة
”جو لوگ اللہ اور اس کے رسول سے لڑائی کریں اور ملک میں فساد کرنے کو دوڑتے پھریں، ان کی یہی سزا ہے کہ قتل کر دئیے جائیں یا سولی چڑھا دئیے جائیں یا ان کے ایک طرف کے ہاتھ اور ایک طرف کے پاﺅں کاٹ دئیے جائیں یا ملک سے نکال دئیے جائیں۔ یہ تو دنیا میں ان کی رسوائی ہے اور آخرت میں ان کے لےے بڑا بھاری) عذاب ہے۔“
قرآن مجید، مخالف مذاہب اور عقائدکے ماننے والوں کو صفحہٴ ہستی سے مٹانے کا نہیں بلکہ ’ لکم دینکم ولی دین‘ اور ’ لااکراہ فی الدین‘ کادرس دیتاہے اور جو انتہاپسند عناصر اس کے برعکس عمل کررہے ہیں وہ اللہ تعالیٰ، اس کے رسول سلم ، قرآن مجید اور اسلام کی تعلیمات کی کھلی نفی کررہے ۔ دہشت گرد اسلام اور پاکستان کے دشمن ہیں اور ان کو مسلمان تو کجا انسان کہنا بھی درست نہ ہے.
کیا طالبان نے رسول اکرم کی یہ حدیث نہیں پڑہی، جس میں کہا گیا ہے کہ ”مسلمان وہ ہے جس کے ہاتھ اور زبان سے دوسرا مسلمان محفوظ رہے“ہمارا مذہب اسلام امن کا درس دیتا ہے، نفرت اور دہشت کا نہیں۔پاکستانی طالبان اور فرقہ وارانہ قتل و غارت میں ملوث مسلح گروہ خونریزی، قتل و غارت، عسکریت پسندی اور شدت پسندی چھوڑ کر اور ہتھیار پھینک کر امن و سلامتی کی راہ اختیار کریں اور بے گناہ انسانوں کا خون بہانا بند کر دیں کیونکہ ان کا دہشت گردانہ طرزعمل اسلام کے بدنامی، پاکستان کی کمزوری اور ہزاروں گھرانوں کی بربادی کا باعث بن رہا ہے۔ پاکستانی طالبان جان لیں کہ وہ اللہ کی بے گناہ مخلوق کا قتل عام کر کے اللہ کے عذاب کو دعوت دے رہے ہیں اور اللہ اور اس کے پیارے رسول(ص) کی ناراضگی کا سبب بن رہے ہیں. پاکستانی طالبان کو سمجھنا چاہیے کہ وہ خودکش حملے کر کے غیرشرعی اور حرام فعل کا ارتکاب کر رہے ہیں۔ بے گناہ طالبات، عورتوں، بوڑھوں، غیرملکی مہمانوں، جنازوں، ہسپتالوں، مزاروں، مسجدوں،جنازوں اور مارکیٹوں پر حملے اسلامی جہاد کے منافی ہیں اور مسلم حکومت کے خلاف مسلح بغاوت کسی بھی طرح جائز نہیں ہے۔ انتہا پسند پاکستان کا امن تباہ کرنے پر تلے ہوئے ہیں۔عورتوں اور بچوں کا قتل اسلامی تعلیمات کے مطابق حالت جنگ میں بھی جائز نہ ہے۔ اور نہ ہی عرورتوں اور بچوں کو جنگ کا ایندھن بنایا جا سکتا ہے۔شدت پسندوں کا یہ غلط واہمہ ہے کہ وہ قتل و غارت گری اور افراتفری کے ذریعے اپنے سیاسی ایجنڈے کو پاکستانی عوام پر مسلط کرنے کی اہلیت رکھتے ہیں؟