جنرل(ر) شاہد عزیز
ترجمہ: انصار اللہ اردو
میرے جیٹ طیارے نیلے آسمان کی سرد ہواوں کو چیرتے ہوئے مسلم بستیوں کی جانب رواں دواں ہیں۔ زمین سے اتنی بلندی پر، مجھے کچھ خاص نہیں دکھائی دے رہا، ہر شے بہت چھوٹی اور بے وقعت محسوس ہو رہی ہے۔ مجھے اطمینان ہے کہ میں یہ نہیں دیکھ پاؤں گا کہ میں کن کو قتل کرنے جا رہا ہوں، یعنی بھوری آنکھوں والے معصوم بچے۔ میرے حلق میں کچھ کھٹکا۔ یہ میں کیا کرنے جارہا ہوں؟ ۔۔۔ لیکن میں تو اس کا ذمہ دار نہیں۔ یہ فیصلہ میرا تو نہیں، میں تو صرف اپنی ملازمت کر رہا ہوں، جنہوں نے یہ حکم دیا ہے، یہ ذمہ داری بھی انہی کی ہے۔ اور یہ بچے؟۔۔۔ یہ محض ضمنی نقصان ہے۔ جی ہاں، یہ ایک قابلِ قبول اصطلاح بن چکی ہے۔ لیکن میرے دل کی گہرائیوں میں ایک خلا کا احساس پر نہیں ہوپا رہا۔
اب ہم ہد ف کے قریب پہنچ رہے ہیں۔ مجھے توجہ مرکوز کرنے کی ضرورت ہے۔ میں تو بس ایک سپاہی ہوں، ایک قاتل مشین جو اپنا کام کر رہی ہے۔
”پریتی تشکیل (Phantom Formation)، سوئچوں کا جائزہ لو، فضا سے زمین“، میں نے اپنے ونگ مین کو حکم دیا اور مرکزی ہتھیار کے سوئچ کو گھمایا۔ میں مطمئن ہوں کہ میں ان کے بکھرتے ہوئے جسموں کو نہیں دیکھ پاؤں گا، نہ ہی ان کی چیخیں سن پاؤں گا۔ میں نے حملے کے لئے جیٹ طیارے کی نوک کو زمین کے رخ پر کیا۔
”پریت قیادت میں ہے، بصری ہدف“۔
میری ہتھیلیاں پسینے سے تر ہیں۔ جیسے جیسے میری بلندی کم ہو رہی ہے ویسے ویسے زمین پر گھر بڑے نظر آرہے ہیں، جیسے جیسے میں پستی کی طرف آرہا ہوں میری روح کانپ رہی ہے۔ اب مستحکم۔ میں ایک لمبا سانس لیتا ہوں اور سرخ بٹن دبا دیتا ہوں۔ جیسے ہی بم نکلتے ہیں تو میری ریڑھ کی ہڈی میں ایک کپکپاہٹ اور ہلکا سا جھٹکا سا محسوس ہوتا ہے۔
”قیادت ختم ہوتی ہے، پمپنگ، سیدھے رخ مڑیں“۔
اپنے کندھوں پر بھاری وزن کے ساتھ، میں تباہ شدہ گھروں میں سے آگ اور دھواں اٹھتا دیکھ رہا ہوں۔ کوئی چیخوں کی آواز نہیں، صرف خاموش دھواں۔ محض ضمنی نقصان۔ میں گھر کی طرف واپس مڑتا ہوں، اپنے بچوں کی طرف۔ میں ان کو اس تمغے کے بارے میں نہیں بتاؤں گا جو میں نے پہن رکھا ہے۔ بلکہ میں ان کو پریوں کا افسانہ سنا وں گا۔
ہوا کا سینہ چیرتے ہوئے، سنسناتے بم اپنے ہدف کو نشانہ بناتے ہیں۔ منہدم ہوتی دیواریں، گرتی ہوئی چھتیں، ملبہ، دھول، دھواں، اپنے پیاروں کی تلاش میں سرگرساں آوازیں، سسکیاں اور خاموش آہیں، سب مل کر اس گردش کرتی دنیا میں دکھ اور درد کا ایک نیا باب رقم کرتی ہیں۔ ایک نوجوان دھول میں سے اٹھتا ہے اور لوہے اور پتھروں کے ڈھیر میں سے اپنی بہن کو کھینچ کر نکالتا ہے، جو خون میں لت پت، مگر ابھی زندہ ہے، اپنے بے جان بچے کو اپنے سینے سے لگائے، خاموشی سے کچھ پڑھ رہی ہے، شاید کہ وہ کوئی دعا ہے۔ طبیب کہتے ہیں کہ وہ زندہ رہے گی لیکن اپنی بینائی اور سماعت کھو چکی ہے۔ اور یہ بھی غنیمت ہے، کیونکہ وہ اپنے بچے کے علاوہ اب کچھ بھی دیکھنا نہیں چاہتی، اور اس کی معصوم آوازوں کے علاوہ کچھ اور سننا نہیں چاہتی۔ اور اس کے لئے دیکھنے کو بچا ہی کیا ہے، جلتے ہوئے مزید گھر؟ اور سننے کے لئے بچا ہی کیا ہے؟ بے غیرت مسلم حکمرانوں کی بڑ بڑاہٹ؟ کیا کوئی ہوشمندی بچی بھی ہے یہاں؟ اس نوجوان کے لئے ہوشمندی تو بس جنون ہی ہے۔ اب وہ دوسرے پار جائے گا، اور نہ صرف خود مر جائے گا، بلکہ اپنے ساتھ ان ہوشمندی کے
بہروپیوں کو بھی ساتھ لے جائے گا، جنہوں نے اپنا ضمیر شیطان کو بیچ دیا ہے۔ اب اس کو نہ ہی کسی کا خوف ہے اور نہ ہی کوئی پابندی۔ اب وہ دہشت ہے اصل کرداروں کو پہچان گیا ہے۔
ارضِ مقدس، فلسطین سے آتی تصاویر دلخراش ہوتی ہیں، ملبے کا ڈھیر جو کہ کبھی گھر ہوا کرتے تھے، کچلے ہوئے اجسام جنہیں ملبے سے نکالا جارہا ہے، فٹ پاتھ پر قطار میں رکھےنومولود بچوں کی میتیں، ایک بے بسی سے روتی کرب میں مبتلا بزرگ خاتون۔ میں سوچتا ہوں کہ یہ مناظر کہیں پاکستان کے کسی حصے کے تو نہیں، اور دبے ہوئے ضمیر کا یہ پائلٹ کہیں ہمارا تو نہیں۔
کیا عجیب بات ہے کہ ارضی مقدس فلسطین سے گھر لوٹتے وقت، ہم اپنے رویوں کو جذبات سے ہٹا کر خود ساختہ مصلحت کوشی کی جانب لے جاتے ہیں اور فوراً جانبدار بن جاتے ہیں۔ کیا ہم جذبات کو مصلحت سے الگ کر سکتے ہیں جبکہ ہمارے اپنے پیارے ہی داؤ پر لگے ہوں؟ وہ ضمیر تو دوسروں کے دکھ پر بے چین نہ ہوں، مردہ ہوتے ہیں۔ کراچی میں ۲۰ ہلاکتیں، دلبدین میں ۴۰ افراد قتل، ڈبوری میں ۸۰؛ محض اعداد و شمار ہی بڑھ رہے ہیں، جن کی کوئی وقعت ہی نہیں۔ اور پتھر دل دو بارہ اپنے معمولاتِ زندگی میں کھو جاتے ہیں۔
ٹیلی ویژن پر جاری مباحثے اس با ت کا ثبوت ہیں کہ ہم بحیثیتِ معاشرہ بے حسی کی کس سطح پر کھڑے ہیں۔ نام نہاد ہوشمندی کے راستے پر چلتے رہنے کے دہائیوں کا لامتنا ہی سلسلہ ہوشربا ہے۔ ہم نے اپنا سب کچھ قابلِ فروخت بنا دیا ہے، اپنی عزت، غیرت، سلامتی، آزادی اور اپنے نظریات، یہاں تک کہ اپنا رب بھی۔ اور اس کے بدلے ہم نے حاصل کیا کیا ہے؟
پچھلے ۱۲ سال سے ہم اپنے لوگوں کے ذہنوں میں یہ خیال ٹھونس رہے ہیں کہ یہ ہماری جنگ ہے۔ پچھلے ۱۲ سال سے ہم ایک دوسرے کا گلا کاٹ رہے ہیں، اور اپنی نام نہاد حکمت کا ڈھنڈورا پیٹ رہے ہیں، جبکہ کٹھ پتلی سر براہ ہمارے ضمیر سے کھیل رہا ہے۔ کیا بادی نظر میں اس کا کوئی اختتام یا امید کی کوئی کرن بھی ہے؟ جی ہاں، یہ جنگ تو ہماری ہی ہوتی لیکن ہم نے بد قسمتی سے غلط خیمہ چن لیا ہے۔
اور ابھی تو اس سے بھی بد تر ہمارا منتظر ہے۔ وہ اب ہمیں اندرونی انہدام کے لئے تیار کر رہے ہیں۔ غیر مسلح سیاسی تسلط کا مرحلہ اب اختتام پذیر ہے، اب وقت آگیا ہے آخری اقدام کا، یعنی معاشرے میں اس حد تک خانہ جنگی اور انتشارکروایا جائے جو کہ ملک کے حصے بخرے کرنے پر منتج ہو، جو کہ ایٹمی ہتھیاروں سے غیر مسلح کرنے کا آغاز ہوگا۔ اور اس تمام تر تباہی میں حکومت حصہ دار بنی ہوئی ہے۔ ان کی لوٹ مار بذاتِ خود امریکی کھیل کا حصہ ہے، لیکن اس سے بڑھ کر یہ طبقہ ہمارے دشمن کے ہاتھ میں کھیلتا ہوا ہمارے محرمات تک کی توہین پر تلا ہوا ہے، جس سے ہمارے معاشرے میں دڑاریں پڑ رہی ہیں، بے چینی میں اضافہ ہورہا ہے اور مایوسی اپنے عروج پر ہے، کراچی جل رہا ہے، بلوچستان کو غیر مستحکم کیا جارہا ہے اور دونوں اطراف میں دہشت کو فروغ دیا جارہا ہے۔ یہ کھیل ہماری اندرونی غلامانہ حصہ داری کے بغیر نہیں کھیلا جارہا۔اصل مجرم
فرار ہوجائیں گے، جن کا یہاں کوئی مفاد نہیں ہے۔ ہمیں سازشی مفروضوں کی اصل حیثیت کو سمجھنا ہوگا، کہ شاید سازش وہی ہے کہ جو کچھ ظاہر میں ہے اور سچ وہ ہے جسے چھپایا جارہا ہے۔
اشاعتِ اول کی تاریخ: ۱۲ دسمبر۲۰۱۲ء
ترجمہ: انصار اللہ اردو
میرے جیٹ طیارے نیلے آسمان کی سرد ہواوں کو چیرتے ہوئے مسلم بستیوں کی جانب رواں دواں ہیں۔ زمین سے اتنی بلندی پر، مجھے کچھ خاص نہیں دکھائی دے رہا، ہر شے بہت چھوٹی اور بے وقعت محسوس ہو رہی ہے۔ مجھے اطمینان ہے کہ میں یہ نہیں دیکھ پاؤں گا کہ میں کن کو قتل کرنے جا رہا ہوں، یعنی بھوری آنکھوں والے معصوم بچے۔ میرے حلق میں کچھ کھٹکا۔ یہ میں کیا کرنے جارہا ہوں؟ ۔۔۔ لیکن میں تو اس کا ذمہ دار نہیں۔ یہ فیصلہ میرا تو نہیں، میں تو صرف اپنی ملازمت کر رہا ہوں، جنہوں نے یہ حکم دیا ہے، یہ ذمہ داری بھی انہی کی ہے۔ اور یہ بچے؟۔۔۔ یہ محض ضمنی نقصان ہے۔ جی ہاں، یہ ایک قابلِ قبول اصطلاح بن چکی ہے۔ لیکن میرے دل کی گہرائیوں میں ایک خلا کا احساس پر نہیں ہوپا رہا۔
اب ہم ہد ف کے قریب پہنچ رہے ہیں۔ مجھے توجہ مرکوز کرنے کی ضرورت ہے۔ میں تو بس ایک سپاہی ہوں، ایک قاتل مشین جو اپنا کام کر رہی ہے۔
”پریتی تشکیل (Phantom Formation)، سوئچوں کا جائزہ لو، فضا سے زمین“، میں نے اپنے ونگ مین کو حکم دیا اور مرکزی ہتھیار کے سوئچ کو گھمایا۔ میں مطمئن ہوں کہ میں ان کے بکھرتے ہوئے جسموں کو نہیں دیکھ پاؤں گا، نہ ہی ان کی چیخیں سن پاؤں گا۔ میں نے حملے کے لئے جیٹ طیارے کی نوک کو زمین کے رخ پر کیا۔
”پریت قیادت میں ہے، بصری ہدف“۔
میری ہتھیلیاں پسینے سے تر ہیں۔ جیسے جیسے میری بلندی کم ہو رہی ہے ویسے ویسے زمین پر گھر بڑے نظر آرہے ہیں، جیسے جیسے میں پستی کی طرف آرہا ہوں میری روح کانپ رہی ہے۔ اب مستحکم۔ میں ایک لمبا سانس لیتا ہوں اور سرخ بٹن دبا دیتا ہوں۔ جیسے ہی بم نکلتے ہیں تو میری ریڑھ کی ہڈی میں ایک کپکپاہٹ اور ہلکا سا جھٹکا سا محسوس ہوتا ہے۔
”قیادت ختم ہوتی ہے، پمپنگ، سیدھے رخ مڑیں“۔
اپنے کندھوں پر بھاری وزن کے ساتھ، میں تباہ شدہ گھروں میں سے آگ اور دھواں اٹھتا دیکھ رہا ہوں۔ کوئی چیخوں کی آواز نہیں، صرف خاموش دھواں۔ محض ضمنی نقصان۔ میں گھر کی طرف واپس مڑتا ہوں، اپنے بچوں کی طرف۔ میں ان کو اس تمغے کے بارے میں نہیں بتاؤں گا جو میں نے پہن رکھا ہے۔ بلکہ میں ان کو پریوں کا افسانہ سنا وں گا۔
ہوا کا سینہ چیرتے ہوئے، سنسناتے بم اپنے ہدف کو نشانہ بناتے ہیں۔ منہدم ہوتی دیواریں، گرتی ہوئی چھتیں، ملبہ، دھول، دھواں، اپنے پیاروں کی تلاش میں سرگرساں آوازیں، سسکیاں اور خاموش آہیں، سب مل کر اس گردش کرتی دنیا میں دکھ اور درد کا ایک نیا باب رقم کرتی ہیں۔ ایک نوجوان دھول میں سے اٹھتا ہے اور لوہے اور پتھروں کے ڈھیر میں سے اپنی بہن کو کھینچ کر نکالتا ہے، جو خون میں لت پت، مگر ابھی زندہ ہے، اپنے بے جان بچے کو اپنے سینے سے لگائے، خاموشی سے کچھ پڑھ رہی ہے، شاید کہ وہ کوئی دعا ہے۔ طبیب کہتے ہیں کہ وہ زندہ رہے گی لیکن اپنی بینائی اور سماعت کھو چکی ہے۔ اور یہ بھی غنیمت ہے، کیونکہ وہ اپنے بچے کے علاوہ اب کچھ بھی دیکھنا نہیں چاہتی، اور اس کی معصوم آوازوں کے علاوہ کچھ اور سننا نہیں چاہتی۔ اور اس کے لئے دیکھنے کو بچا ہی کیا ہے، جلتے ہوئے مزید گھر؟ اور سننے کے لئے بچا ہی کیا ہے؟ بے غیرت مسلم حکمرانوں کی بڑ بڑاہٹ؟ کیا کوئی ہوشمندی بچی بھی ہے یہاں؟ اس نوجوان کے لئے ہوشمندی تو بس جنون ہی ہے۔ اب وہ دوسرے پار جائے گا، اور نہ صرف خود مر جائے گا، بلکہ اپنے ساتھ ان ہوشمندی کے
بہروپیوں کو بھی ساتھ لے جائے گا، جنہوں نے اپنا ضمیر شیطان کو بیچ دیا ہے۔ اب اس کو نہ ہی کسی کا خوف ہے اور نہ ہی کوئی پابندی۔ اب وہ دہشت ہے اصل کرداروں کو پہچان گیا ہے۔
ارضِ مقدس، فلسطین سے آتی تصاویر دلخراش ہوتی ہیں، ملبے کا ڈھیر جو کہ کبھی گھر ہوا کرتے تھے، کچلے ہوئے اجسام جنہیں ملبے سے نکالا جارہا ہے، فٹ پاتھ پر قطار میں رکھےنومولود بچوں کی میتیں، ایک بے بسی سے روتی کرب میں مبتلا بزرگ خاتون۔ میں سوچتا ہوں کہ یہ مناظر کہیں پاکستان کے کسی حصے کے تو نہیں، اور دبے ہوئے ضمیر کا یہ پائلٹ کہیں ہمارا تو نہیں۔
کیا عجیب بات ہے کہ ارضی مقدس فلسطین سے گھر لوٹتے وقت، ہم اپنے رویوں کو جذبات سے ہٹا کر خود ساختہ مصلحت کوشی کی جانب لے جاتے ہیں اور فوراً جانبدار بن جاتے ہیں۔ کیا ہم جذبات کو مصلحت سے الگ کر سکتے ہیں جبکہ ہمارے اپنے پیارے ہی داؤ پر لگے ہوں؟ وہ ضمیر تو دوسروں کے دکھ پر بے چین نہ ہوں، مردہ ہوتے ہیں۔ کراچی میں ۲۰ ہلاکتیں، دلبدین میں ۴۰ افراد قتل، ڈبوری میں ۸۰؛ محض اعداد و شمار ہی بڑھ رہے ہیں، جن کی کوئی وقعت ہی نہیں۔ اور پتھر دل دو بارہ اپنے معمولاتِ زندگی میں کھو جاتے ہیں۔
ٹیلی ویژن پر جاری مباحثے اس با ت کا ثبوت ہیں کہ ہم بحیثیتِ معاشرہ بے حسی کی کس سطح پر کھڑے ہیں۔ نام نہاد ہوشمندی کے راستے پر چلتے رہنے کے دہائیوں کا لامتنا ہی سلسلہ ہوشربا ہے۔ ہم نے اپنا سب کچھ قابلِ فروخت بنا دیا ہے، اپنی عزت، غیرت، سلامتی، آزادی اور اپنے نظریات، یہاں تک کہ اپنا رب بھی۔ اور اس کے بدلے ہم نے حاصل کیا کیا ہے؟
پچھلے ۱۲ سال سے ہم اپنے لوگوں کے ذہنوں میں یہ خیال ٹھونس رہے ہیں کہ یہ ہماری جنگ ہے۔ پچھلے ۱۲ سال سے ہم ایک دوسرے کا گلا کاٹ رہے ہیں، اور اپنی نام نہاد حکمت کا ڈھنڈورا پیٹ رہے ہیں، جبکہ کٹھ پتلی سر براہ ہمارے ضمیر سے کھیل رہا ہے۔ کیا بادی نظر میں اس کا کوئی اختتام یا امید کی کوئی کرن بھی ہے؟ جی ہاں، یہ جنگ تو ہماری ہی ہوتی لیکن ہم نے بد قسمتی سے غلط خیمہ چن لیا ہے۔
اور ابھی تو اس سے بھی بد تر ہمارا منتظر ہے۔ وہ اب ہمیں اندرونی انہدام کے لئے تیار کر رہے ہیں۔ غیر مسلح سیاسی تسلط کا مرحلہ اب اختتام پذیر ہے، اب وقت آگیا ہے آخری اقدام کا، یعنی معاشرے میں اس حد تک خانہ جنگی اور انتشارکروایا جائے جو کہ ملک کے حصے بخرے کرنے پر منتج ہو، جو کہ ایٹمی ہتھیاروں سے غیر مسلح کرنے کا آغاز ہوگا۔ اور اس تمام تر تباہی میں حکومت حصہ دار بنی ہوئی ہے۔ ان کی لوٹ مار بذاتِ خود امریکی کھیل کا حصہ ہے، لیکن اس سے بڑھ کر یہ طبقہ ہمارے دشمن کے ہاتھ میں کھیلتا ہوا ہمارے محرمات تک کی توہین پر تلا ہوا ہے، جس سے ہمارے معاشرے میں دڑاریں پڑ رہی ہیں، بے چینی میں اضافہ ہورہا ہے اور مایوسی اپنے عروج پر ہے، کراچی جل رہا ہے، بلوچستان کو غیر مستحکم کیا جارہا ہے اور دونوں اطراف میں دہشت کو فروغ دیا جارہا ہے۔ یہ کھیل ہماری اندرونی غلامانہ حصہ داری کے بغیر نہیں کھیلا جارہا۔اصل مجرم
فرار ہوجائیں گے، جن کا یہاں کوئی مفاد نہیں ہے۔ ہمیں سازشی مفروضوں کی اصل حیثیت کو سمجھنا ہوگا، کہ شاید سازش وہی ہے کہ جو کچھ ظاہر میں ہے اور سچ وہ ہے جسے چھپایا جارہا ہے۔
اشاعتِ اول کی تاریخ: ۱۲ دسمبر۲۰۱۲ء
Comment