فوج پر حملے اور مذاکرات--ایک تجزیہ
پشاور: تحریک طالبان پاکستان نے منگل کو ایک بیان میں کہا ہے کہ وہ اب بھی پاکستانی افواج سے حالت جنگ میں ہیں کیونکہ امن مذاکرات کا آغاز ہونا باقی ہے اور پاکستانی افواج تاحال ان کے خلاف آپریشن میں مصروف ہیں۔
یاد رہے کہ یہ بیان ایک ایسے موقع پر سامنے آیا ہے جب دو روز قبل پاکستانی طالبان کی جانب سے فوجی قافلے کو نشانہ بنایا گیا جس کے نتیجے میں میجر جنرل ثنااللہ، لفٹیننٹ کرنل توصیف احمد اور سپاہی عرفان اللہ ہلاک ہو گئے تھے۔
تحریک طالبان پاکستان(ٹی ٹی پی) کے ترجمان شاہد اللہ شاہد نے نامعلوم مقام سے اے ایف سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ‘جنگ ابھی جاری ہے، اسے حکومت نے شروع کیا تھا اور انہیں ہی اسے روکنا ہو گا’۔
رواں سال مئی میں ہونے والے عام انتخابات میں کامیابی کے بعد وزیر اعظم منتخب ہونے والے نواز شریف نے امن مذاکرات پر زور دیا تھا اور گزشتہ ہفتے تمام بڑی سیاسی اور مذہبی جماعتوں نے ان کے اس عمل کی حمایت بھی کی تھی۔
ماہرین نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ اتوار کو کیے گئے طالبان حملے سے شدت پسندوں سے مجوزہ مذاکرات متاثر ہو سکتے ہیں۔
اس حوالے سے پیر کو آرمی چیف جنرل اشفاق پرویز کیانی نے بھی واضح موقف اختیار کرتے ہوئے کہا تھا کہ شدت پسندوں کو امن مذاکرات کی پیشکش کا فائدہ اٹھانے نہیں دیں گے۔
تاہم طالبان کا کہنا ہے کہ وہ مزید حملے بھی کریں گے کیونکہ ہمیں امن مذاکرات کی باقاعدہ دعوت نہیں دی گئی۔
‘امن مذاکرات کے لیے کسی نے بھی ہم سے رابطہ نہیں کیا حتیٰ کہ قبائلی جرگہ نے بھی ہم سے بات نہیں کی، اگر وہ یہ جنگ ختم کرنا چاہتے ہیں تو انہیں جنگ بندی کا اعلان کرنا ہو گا’۔
طالبان نے اتوار کو شدت کے خاتمے اور مذاکرات کے لیے اپنی شرائط کا اعلان کرتے ہوئے قبائلی علاقوں سے فوج سے واپسی اور قیدیوں کی رہائی کا مطالبہ کیا تھا۔
لیکن اتوار کو فوج نے ایک بیان میں کہا تھا کہ وہ امن مذاکرات کے لیے طالبان باغیوں کو شرائط طے کرنے کی اجازت نہیں دیں گے۔
طالبان ترجمان سے جب مستقبل کے لائحہ عمل کے حوالے سے سوال کیا گیا تو ان کا کہنا تھا کہ ہم فوج پر حملے کا کوئی موقع ضائع نہیں کریں گے۔
http://urdu.dawn.com/2013/09/17/pakistan-taliban-says-still-at-war-with-government-troops/
عساکر پاکستان پر حملے اورمذاکرات ساتھ ساتھ نہ چلیں گے۔یاد رہے کہ حکومت نے اے پی سی کے بعد ، دہشت گردوں کو امن مذاکرات کی دعوت دی مگر طالبان نے جواب میں پاک فوج کے اعلیٰ افسران کو شہید کر کے حکومت پیغام دیا ہے کہ وہ بہت طاقت ور ہیں اور حکومت کو نقصان پہنچا سکتے ہیں اوریہ کہ حکومت انہیں ختم نہیں کرسکتی؟ لگتا ہے کہ ایسا طالبان نے حکومت کو دباؤ میں لانے کے لیے کیا ہے تاکہ وہ حکومت سے اپنی شرائط منوائیں سکیں اور حکومت سے مذاکرات میں بہتر پوزیشن میں آجائیں۔ مگر یہ حملہ پاکستان کے لیے بہت بڑاچیلنج ہے کیونکہ اس میں حکومت کو براہ راست چیلنج کیا گیا ہے۔
اس سے پہلے طالبان پاکستان کے شاہد اللہ شاہد نے امن مذاکرات شروع کرنے سے قبل اپنی شرائط پیش کرتے ہوئے کہا کہ اگر حکومت مذاکرات میں سنجیدہ ہے‘ توہمارے ساتھی طالبان قیدی رہا کرے اور فاٹا سے فوج واپس بلائے‘ اور اس طرح اعتماد سازی کا ماحول بنائے۔
لگتا ہے طالبان ایسا القائدہ کےا شاروں پر کر رہے ہیں اور مذاکرات کو سبوتاژ کرنے کے درپے ہیں کیونکہ ایمن الظواہری پاکستان کو مجاہدین کے لیے محفوظ ٹھکانہ بنانا چاہتے ہیں، تاکہ پاکستان کواسلامی نظام قائم کرنے کے لیے جدوجہد کی غرض سے استعمال کیا جائے۔ طالبان اور القاعدہ کے اپنے اپنے مفادات اور اہداف ہیں.طالبان کو بجائے القائدہ کے آلہ کار بننے کے خود کو اپنے ملک کے مفادات سے ہم آہنگ کریں‘ اور سیاسی زیرکی کا مظاہرہ کریں، اور اس نادر موقع سے فائدہ اٹھائیں۔ وگرنہ آل پارٹیز کانفرنس میں شریک بیشتر سیاسی جماعتیں طالبان کے خلاف فوجی آپریشن کا متفقہ مطالبہ کریں گی اور پاکستانی عوام اس آپریشن کی حمایت کریں گے۔
ایسا لگتا ہے کہ طالبان لمبے چوڑے، ناممکن و ناقابل عمل و قبول مطالبات و پیشگی شرائط پیش کر رہے ہیں جن سے مذاکرات کا عمل شروع ہونے سے قبل ہی ختم ہو جانے کا قوی خدشہ موجود ہےاور ان حالات میں مذاکرات کی یہ بیل منڈھے چڑہتی نظر نہ آتی ہے۔
بعض مبصرین کا خیال ہے کہ تحریک طالبان نے پاک فوج پر حملے جاری رکھنے کے اعلان کے ساتھ حکومت پاکستان سے مذاکرات کے دروازے عملاً بند کردیئے ہیں ۔ تحریک طالبان کی جانب سے یہ کہنا کہ وہ پاکستانی فوج پر حملے جاری رکھے گی اور اس سلسلے میں ہر موقع استعمال کرے گی ، یہ عملاً پاکستانی قوم کو پیغام ہے کہ طالبان پاکستان کے ساتھ کسی بھی مثبت مذاکرات کے لئے فی الحال تیار نہیں ہیں۔
مبصرین کے مطابق اصل مسئلہ تحریک طالبان پاکستان سے بات کرنے کا ہے یہ بہت سارے گروپ ہیں اور ہر ایک گروپ کا اپنا ایجنڈا اور قبلہ ہے. کیا طالبان کے تمام گروہ بشمول مولوی فضل اللہ اور صوفی محمد اس مذاکراتی عمل کا حصہ ہونگے یا سب سے علیحدہ علیحدہ بات ہوگی؟اس بات کی کیا گارنٹی ہے کہ د وسرے گروپ مذاکرات کے عمل کو سبوتاژ نہیں کریں گے اور مذاکرات کے نتائج کو بخوشی قبول کریں گے؟
پاک فوج کے سربراہ جنرل اشفاق پرویز کیانی نے کہا تھا کہ کسی کو یہ گمان نہیں ہونا چاہیے کہ دہشتگردوں کی شرائط تسلیم کی جائیں گی۔ سیاسی عمل کے ذریعے قیامِ امن کی کوششوں کو ایک موقع دینا سمجھ میں آتا ہے لیکن کسی کو اس غلط فہمی کا شکار نہیں ہونا چاہیے کہ دہشتگرد ہمیں اپنی شرائط تسلیم کرنے پر مجبور کر سکتے ہیں۔ انہوں نے کہا تھا کہ پاکستانی فوج قوم کی امنگوں کے مطابق ہر قیمت پر دہشتگردی کے عفریت سے لڑنے کے لیے پرعزم ہے اور اس جنگ کو منطقی انجام تک پہنچانے کی صلاحیت اور عزم موجود ہے۔ دہشتگردوں کو قیامِ امن کے لیے سیاسی عمل کا فائدہ نہیں اٹھانے دیا جائے گا۔
اگر حکومت اور دیگر سیاسی جماعتیں دہشت گردوں سے مذاکرات کرنا چاہتی ہیں تو وہ اپنا یہ عمل ضرور جاری رکھیں کیونکہ اگر اس طریقے سے معاملات سدھرتے ہیں تو اسے ضرور بروئے کار لانا چاہیے لیکن مخالف فریق کو یہ تاثر نہیں دیا جانا چاہیے کہ وہ طاقتور ہے اور ریاست کمزور پوزیشن پر ہےاور نہ ہی دہشت گردوں کو یہ غلط فہمی ہونی چاہئیے کہ حکومت کمزور ہے۔
“طالبان کی طرف سے ایسے اقدامات کئے گئے جن سے اس تاثر کا اظہار ہوتا ہے کہ وہ امن کی اس خواہش کو ریاست کی کمزوری پر محمول کر رہے ہیں۔ پہلے تو انہوں نے مذاکرات کی حمایت کا عندیہ دیا مگر پھر شرائط پیش کرنا شروع کر دیں اور ساتھ ہی اپنی طاقت کے مظاہرے کیلئے قبائلی علاقوں میں دہشت گردی کی کارروائیاں تیز کر دیں۔ ایک کارروائی میں ملک کا ایک مایہ ناز جرنیل ایک جری لیفٹیننٹ کرنل اور ایک لائس نائیک کے ہمراہ شہید ہو گیا. کیا ایسی صورتحال میں مذاکرات کا انعقاد اور کامیابی ممکن ہے کہ ریاستی فوجوں پر حملے کئے جا رہے ہوں اور اسکے میجر جنرل کی سطح کے اور لیفٹیننٹ کرنل کی سطح کے افسروں کو نشانہ بنایا جا رہا ہو۔ فوج اور ملک کو نقصان پہنچانے کی حسرت رکھنے والوں کو بعض کامیابیاں مل جائیں مگر سب سے زیادہ نقصان طالبان کا اپنا ہوگا۔ طالبان کے لئے بہترین راستہ یہی ہے کہ وہ غیر مشروط طور پر مذاکرات کی میز پر آئیں۔ انہیں چاہئے کہ اپنی شرائط ڈکٹیٹ نہ کریں۔انتہا پسندی ترک کر کے مذاکرات کی میز پر آئیں امن کو موقع دیں اور حکومت کی مصالحانہ پالیسی سے فائدہ اٹھائیں..... اگر جنگ ہوئی تو یہ ایک مکمل جنگ ہو گی اور سب سے زیادہ نقصان طالبان ہی کا ہو گا۔ اگر انہوں نے مصالحانہ رویہ اختیار کیا تو اس کا فائدہ بھی سب سے زیادہ انہیں پہنچے گا ”
http://beta.jang.com.pk/NewsDetail.aspx?ID=129992
جمعیت علمائے اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمان نے کہا ہے کہ کچھ قوتیں طالبان سے مذاکرات کو سبوتاژ کرنا چاہتی ہیں۔ اپر دیر جیسے واقعات کو طالبان سے مذاکرات میں رکاوٹ نہیں بننا چاہئیں. انہوں نے کہا کہ حکومت اور طالبان دونوں کو ایسے عناصر پر نظر رکھنا چاہیے جو مذاکرات کو سبوتاژ کرنا چاہ رہے ہیں، اپر دیرواقعے کے ساتھ ساتھ گومل زام کے مغویوں کی رہائی جیسے خیر سگالی کے اقدامات کو بھی مد نظر رکھنا ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ سیاست دانوں اور عسکری قیادت نے مل کر مذاکرات کا مینڈیٹ حکومت کو دیا تھا اب اسے پایہٴ تکمیل تک پہنچانا چاہیے۔
ظاہری طور پر تو یہ لوگ طالبان ہیں جو کہ مذاکرات کے عمل کو سبوتاژ کر رہے ہیں۔
ماضی کے طالبان سے مذاکرات کے تلخ تجربات کے باوجود اگر حکومت یہ سمجھتی ہے کہ مذاکرات کے ذریعے دہشت گردی کا کوئی حل نکل سکتا ہے تو حکومت کے اس فیصلہ پر کسی کو اعتراض نہیں ہونا چاہیے لیکن ہمیں زمینی حقائق کا ادراک ہونا چاہئیے اور ان حقائق کو نظرانداز نہیں کرنا چاہیے۔
طالبان سے مذاکرات کر کے امن و آتشتی کی راہ ہموار کرنا وقت کی اہم ضرورت ہےاور خود طالبان کے حق میں بہتر ہے کیونکہ اس سے خون خرابہ ختم ہو گا اور ملک میں امن قائم ہو سکتا ہے اور طالبان قومی سیاسی دھارے میں بھی آ سکتے ہیں مگر طالبان کو بھی امن کی اس خواہش کو پاکستان کی کمزوری نہ سمجھنا چاہئیے۔ طالبان کو یہ سمجھ لینا چاہئیے کہ انہیں دہشت گردی ترک کرنے اور القائدہ و لشکر جھنگوی جیسی دہشت گرد و فرقہ پرست جماعتوں سے قطع تعلق کرنا ہی ہو گا۔
طالبان کو تاریخ اور القائدہ کی پر تشدد تحریک کی ناکامی سے سبق حاصل کرنا چاہئیےکیونکہ تشدد و دہشت گردی سے لوگوں کو اپنے ساتھ نہ ملایا جاسکتا اور نہ ہی لوگوں کے دل جیتے جا سکتے ہیں اور نہ ہی تشدد سے کامیابی حاصل ہو سکتی ہے۔مذاکرات اور پر امن جمہوری جدوجہد سے ہی مسائل کا دیر پا حل ممکن ہےدنیا بھر میں آج تک صرف اور صرف پر امن جمہوری تحریکیں ہی کا میابی سے ہمکنار ہوئی ہیں جس میں تحریک حصول پاکستان شامل ہے۔
پشاور: تحریک طالبان پاکستان نے منگل کو ایک بیان میں کہا ہے کہ وہ اب بھی پاکستانی افواج سے حالت جنگ میں ہیں کیونکہ امن مذاکرات کا آغاز ہونا باقی ہے اور پاکستانی افواج تاحال ان کے خلاف آپریشن میں مصروف ہیں۔
یاد رہے کہ یہ بیان ایک ایسے موقع پر سامنے آیا ہے جب دو روز قبل پاکستانی طالبان کی جانب سے فوجی قافلے کو نشانہ بنایا گیا جس کے نتیجے میں میجر جنرل ثنااللہ، لفٹیننٹ کرنل توصیف احمد اور سپاہی عرفان اللہ ہلاک ہو گئے تھے۔
تحریک طالبان پاکستان(ٹی ٹی پی) کے ترجمان شاہد اللہ شاہد نے نامعلوم مقام سے اے ایف سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ‘جنگ ابھی جاری ہے، اسے حکومت نے شروع کیا تھا اور انہیں ہی اسے روکنا ہو گا’۔
رواں سال مئی میں ہونے والے عام انتخابات میں کامیابی کے بعد وزیر اعظم منتخب ہونے والے نواز شریف نے امن مذاکرات پر زور دیا تھا اور گزشتہ ہفتے تمام بڑی سیاسی اور مذہبی جماعتوں نے ان کے اس عمل کی حمایت بھی کی تھی۔
ماہرین نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ اتوار کو کیے گئے طالبان حملے سے شدت پسندوں سے مجوزہ مذاکرات متاثر ہو سکتے ہیں۔
اس حوالے سے پیر کو آرمی چیف جنرل اشفاق پرویز کیانی نے بھی واضح موقف اختیار کرتے ہوئے کہا تھا کہ شدت پسندوں کو امن مذاکرات کی پیشکش کا فائدہ اٹھانے نہیں دیں گے۔
تاہم طالبان کا کہنا ہے کہ وہ مزید حملے بھی کریں گے کیونکہ ہمیں امن مذاکرات کی باقاعدہ دعوت نہیں دی گئی۔
‘امن مذاکرات کے لیے کسی نے بھی ہم سے رابطہ نہیں کیا حتیٰ کہ قبائلی جرگہ نے بھی ہم سے بات نہیں کی، اگر وہ یہ جنگ ختم کرنا چاہتے ہیں تو انہیں جنگ بندی کا اعلان کرنا ہو گا’۔
طالبان نے اتوار کو شدت کے خاتمے اور مذاکرات کے لیے اپنی شرائط کا اعلان کرتے ہوئے قبائلی علاقوں سے فوج سے واپسی اور قیدیوں کی رہائی کا مطالبہ کیا تھا۔
لیکن اتوار کو فوج نے ایک بیان میں کہا تھا کہ وہ امن مذاکرات کے لیے طالبان باغیوں کو شرائط طے کرنے کی اجازت نہیں دیں گے۔
طالبان ترجمان سے جب مستقبل کے لائحہ عمل کے حوالے سے سوال کیا گیا تو ان کا کہنا تھا کہ ہم فوج پر حملے کا کوئی موقع ضائع نہیں کریں گے۔
http://urdu.dawn.com/2013/09/17/pakistan-taliban-says-still-at-war-with-government-troops/
عساکر پاکستان پر حملے اورمذاکرات ساتھ ساتھ نہ چلیں گے۔یاد رہے کہ حکومت نے اے پی سی کے بعد ، دہشت گردوں کو امن مذاکرات کی دعوت دی مگر طالبان نے جواب میں پاک فوج کے اعلیٰ افسران کو شہید کر کے حکومت پیغام دیا ہے کہ وہ بہت طاقت ور ہیں اور حکومت کو نقصان پہنچا سکتے ہیں اوریہ کہ حکومت انہیں ختم نہیں کرسکتی؟ لگتا ہے کہ ایسا طالبان نے حکومت کو دباؤ میں لانے کے لیے کیا ہے تاکہ وہ حکومت سے اپنی شرائط منوائیں سکیں اور حکومت سے مذاکرات میں بہتر پوزیشن میں آجائیں۔ مگر یہ حملہ پاکستان کے لیے بہت بڑاچیلنج ہے کیونکہ اس میں حکومت کو براہ راست چیلنج کیا گیا ہے۔
اس سے پہلے طالبان پاکستان کے شاہد اللہ شاہد نے امن مذاکرات شروع کرنے سے قبل اپنی شرائط پیش کرتے ہوئے کہا کہ اگر حکومت مذاکرات میں سنجیدہ ہے‘ توہمارے ساتھی طالبان قیدی رہا کرے اور فاٹا سے فوج واپس بلائے‘ اور اس طرح اعتماد سازی کا ماحول بنائے۔
لگتا ہے طالبان ایسا القائدہ کےا شاروں پر کر رہے ہیں اور مذاکرات کو سبوتاژ کرنے کے درپے ہیں کیونکہ ایمن الظواہری پاکستان کو مجاہدین کے لیے محفوظ ٹھکانہ بنانا چاہتے ہیں، تاکہ پاکستان کواسلامی نظام قائم کرنے کے لیے جدوجہد کی غرض سے استعمال کیا جائے۔ طالبان اور القاعدہ کے اپنے اپنے مفادات اور اہداف ہیں.طالبان کو بجائے القائدہ کے آلہ کار بننے کے خود کو اپنے ملک کے مفادات سے ہم آہنگ کریں‘ اور سیاسی زیرکی کا مظاہرہ کریں، اور اس نادر موقع سے فائدہ اٹھائیں۔ وگرنہ آل پارٹیز کانفرنس میں شریک بیشتر سیاسی جماعتیں طالبان کے خلاف فوجی آپریشن کا متفقہ مطالبہ کریں گی اور پاکستانی عوام اس آپریشن کی حمایت کریں گے۔
ایسا لگتا ہے کہ طالبان لمبے چوڑے، ناممکن و ناقابل عمل و قبول مطالبات و پیشگی شرائط پیش کر رہے ہیں جن سے مذاکرات کا عمل شروع ہونے سے قبل ہی ختم ہو جانے کا قوی خدشہ موجود ہےاور ان حالات میں مذاکرات کی یہ بیل منڈھے چڑہتی نظر نہ آتی ہے۔
بعض مبصرین کا خیال ہے کہ تحریک طالبان نے پاک فوج پر حملے جاری رکھنے کے اعلان کے ساتھ حکومت پاکستان سے مذاکرات کے دروازے عملاً بند کردیئے ہیں ۔ تحریک طالبان کی جانب سے یہ کہنا کہ وہ پاکستانی فوج پر حملے جاری رکھے گی اور اس سلسلے میں ہر موقع استعمال کرے گی ، یہ عملاً پاکستانی قوم کو پیغام ہے کہ طالبان پاکستان کے ساتھ کسی بھی مثبت مذاکرات کے لئے فی الحال تیار نہیں ہیں۔
مبصرین کے مطابق اصل مسئلہ تحریک طالبان پاکستان سے بات کرنے کا ہے یہ بہت سارے گروپ ہیں اور ہر ایک گروپ کا اپنا ایجنڈا اور قبلہ ہے. کیا طالبان کے تمام گروہ بشمول مولوی فضل اللہ اور صوفی محمد اس مذاکراتی عمل کا حصہ ہونگے یا سب سے علیحدہ علیحدہ بات ہوگی؟اس بات کی کیا گارنٹی ہے کہ د وسرے گروپ مذاکرات کے عمل کو سبوتاژ نہیں کریں گے اور مذاکرات کے نتائج کو بخوشی قبول کریں گے؟
پاک فوج کے سربراہ جنرل اشفاق پرویز کیانی نے کہا تھا کہ کسی کو یہ گمان نہیں ہونا چاہیے کہ دہشتگردوں کی شرائط تسلیم کی جائیں گی۔ سیاسی عمل کے ذریعے قیامِ امن کی کوششوں کو ایک موقع دینا سمجھ میں آتا ہے لیکن کسی کو اس غلط فہمی کا شکار نہیں ہونا چاہیے کہ دہشتگرد ہمیں اپنی شرائط تسلیم کرنے پر مجبور کر سکتے ہیں۔ انہوں نے کہا تھا کہ پاکستانی فوج قوم کی امنگوں کے مطابق ہر قیمت پر دہشتگردی کے عفریت سے لڑنے کے لیے پرعزم ہے اور اس جنگ کو منطقی انجام تک پہنچانے کی صلاحیت اور عزم موجود ہے۔ دہشتگردوں کو قیامِ امن کے لیے سیاسی عمل کا فائدہ نہیں اٹھانے دیا جائے گا۔
اگر حکومت اور دیگر سیاسی جماعتیں دہشت گردوں سے مذاکرات کرنا چاہتی ہیں تو وہ اپنا یہ عمل ضرور جاری رکھیں کیونکہ اگر اس طریقے سے معاملات سدھرتے ہیں تو اسے ضرور بروئے کار لانا چاہیے لیکن مخالف فریق کو یہ تاثر نہیں دیا جانا چاہیے کہ وہ طاقتور ہے اور ریاست کمزور پوزیشن پر ہےاور نہ ہی دہشت گردوں کو یہ غلط فہمی ہونی چاہئیے کہ حکومت کمزور ہے۔
“طالبان کی طرف سے ایسے اقدامات کئے گئے جن سے اس تاثر کا اظہار ہوتا ہے کہ وہ امن کی اس خواہش کو ریاست کی کمزوری پر محمول کر رہے ہیں۔ پہلے تو انہوں نے مذاکرات کی حمایت کا عندیہ دیا مگر پھر شرائط پیش کرنا شروع کر دیں اور ساتھ ہی اپنی طاقت کے مظاہرے کیلئے قبائلی علاقوں میں دہشت گردی کی کارروائیاں تیز کر دیں۔ ایک کارروائی میں ملک کا ایک مایہ ناز جرنیل ایک جری لیفٹیننٹ کرنل اور ایک لائس نائیک کے ہمراہ شہید ہو گیا. کیا ایسی صورتحال میں مذاکرات کا انعقاد اور کامیابی ممکن ہے کہ ریاستی فوجوں پر حملے کئے جا رہے ہوں اور اسکے میجر جنرل کی سطح کے اور لیفٹیننٹ کرنل کی سطح کے افسروں کو نشانہ بنایا جا رہا ہو۔ فوج اور ملک کو نقصان پہنچانے کی حسرت رکھنے والوں کو بعض کامیابیاں مل جائیں مگر سب سے زیادہ نقصان طالبان کا اپنا ہوگا۔ طالبان کے لئے بہترین راستہ یہی ہے کہ وہ غیر مشروط طور پر مذاکرات کی میز پر آئیں۔ انہیں چاہئے کہ اپنی شرائط ڈکٹیٹ نہ کریں۔انتہا پسندی ترک کر کے مذاکرات کی میز پر آئیں امن کو موقع دیں اور حکومت کی مصالحانہ پالیسی سے فائدہ اٹھائیں..... اگر جنگ ہوئی تو یہ ایک مکمل جنگ ہو گی اور سب سے زیادہ نقصان طالبان ہی کا ہو گا۔ اگر انہوں نے مصالحانہ رویہ اختیار کیا تو اس کا فائدہ بھی سب سے زیادہ انہیں پہنچے گا ”
http://beta.jang.com.pk/NewsDetail.aspx?ID=129992
جمعیت علمائے اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمان نے کہا ہے کہ کچھ قوتیں طالبان سے مذاکرات کو سبوتاژ کرنا چاہتی ہیں۔ اپر دیر جیسے واقعات کو طالبان سے مذاکرات میں رکاوٹ نہیں بننا چاہئیں. انہوں نے کہا کہ حکومت اور طالبان دونوں کو ایسے عناصر پر نظر رکھنا چاہیے جو مذاکرات کو سبوتاژ کرنا چاہ رہے ہیں، اپر دیرواقعے کے ساتھ ساتھ گومل زام کے مغویوں کی رہائی جیسے خیر سگالی کے اقدامات کو بھی مد نظر رکھنا ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ سیاست دانوں اور عسکری قیادت نے مل کر مذاکرات کا مینڈیٹ حکومت کو دیا تھا اب اسے پایہٴ تکمیل تک پہنچانا چاہیے۔
ظاہری طور پر تو یہ لوگ طالبان ہیں جو کہ مذاکرات کے عمل کو سبوتاژ کر رہے ہیں۔
ماضی کے طالبان سے مذاکرات کے تلخ تجربات کے باوجود اگر حکومت یہ سمجھتی ہے کہ مذاکرات کے ذریعے دہشت گردی کا کوئی حل نکل سکتا ہے تو حکومت کے اس فیصلہ پر کسی کو اعتراض نہیں ہونا چاہیے لیکن ہمیں زمینی حقائق کا ادراک ہونا چاہئیے اور ان حقائق کو نظرانداز نہیں کرنا چاہیے۔
طالبان سے مذاکرات کر کے امن و آتشتی کی راہ ہموار کرنا وقت کی اہم ضرورت ہےاور خود طالبان کے حق میں بہتر ہے کیونکہ اس سے خون خرابہ ختم ہو گا اور ملک میں امن قائم ہو سکتا ہے اور طالبان قومی سیاسی دھارے میں بھی آ سکتے ہیں مگر طالبان کو بھی امن کی اس خواہش کو پاکستان کی کمزوری نہ سمجھنا چاہئیے۔ طالبان کو یہ سمجھ لینا چاہئیے کہ انہیں دہشت گردی ترک کرنے اور القائدہ و لشکر جھنگوی جیسی دہشت گرد و فرقہ پرست جماعتوں سے قطع تعلق کرنا ہی ہو گا۔
طالبان کو تاریخ اور القائدہ کی پر تشدد تحریک کی ناکامی سے سبق حاصل کرنا چاہئیےکیونکہ تشدد و دہشت گردی سے لوگوں کو اپنے ساتھ نہ ملایا جاسکتا اور نہ ہی لوگوں کے دل جیتے جا سکتے ہیں اور نہ ہی تشدد سے کامیابی حاصل ہو سکتی ہے۔مذاکرات اور پر امن جمہوری جدوجہد سے ہی مسائل کا دیر پا حل ممکن ہےدنیا بھر میں آج تک صرف اور صرف پر امن جمہوری تحریکیں ہی کا میابی سے ہمکنار ہوئی ہیں جس میں تحریک حصول پاکستان شامل ہے۔
Comment