Announcement

Collapse
No announcement yet.

Unconfigured Ad Widget

Collapse

تحریر: اوریا مقبول جان

Collapse
X
 
  • Filter
  • Time
  • Show
Clear All
new posts

  • تحریر: اوریا مقبول جان

    Assalamalikukm

    source--Fb




    تحریر: اوریا مقبول جان
    ٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭




    الجزائر، مراکش اور مصر کے بعد ان تمام مغربی طاقتوں کو اس بات کا مکمل اندازہ ہو چکا ہے کہ گزشتہ پچاس سال کی سیکولر آمریتوں نے عرب دنیا میں ایک ایسی فضا تیار کر دی ہے جس کے رد عمل میں عوام کی اکثریت ان نظریات اور خیالات کی پرجوش حامی ہو چکی ہے جو دنیا میں خلافت الٰہیہ کی بازگشت سناتے ہیں۔ عرب ممالک، جن کے سینے پر عالمی استعماری قوتوں نے اسرائیل کی ناجائز ریاست کو ایک ناسور کے طور پر مسلط کیا اور پھر آج تک اس کی ہر لحاظ سے پشت پناہی جاری رکھی، گزشتہ ساٹھ سال کے تجربوں سے اس بات کے قائل ہوتے جا رہے ہیں کہ ان پر مسلط کی گئی آمریتیں جو کبھی کمیونسٹ نعروں کی صورت میں وجود میں آئیں اور کبھی مکمل طور پر سیکولر نظریات کی حامی بن کر، دراصل نہ ان کے مسائل حل کر سکیں اور نہ ہی اسرائیل کے وجود سے انہیں نجات دلا سکیں۔ یہی وجہ ہے کہ جس ملک میں بھی ان آمریتوں کا زور ٹوٹا وہاں سے جنم لینے والی تحریکوں اور عوام کی اکثریت نے اسلام اور اس کے سیاسی اور معاشی نظام کے حق میں اپنی رائے دی۔ سب سے پہلے الجزائر کے الیکشنوں کا دوسرا مرحلہ نہ آنے پایا۔ مغربی امداد پر پلنے والی فوج نے راستہ روکا تو ملک گزشتہ دس سالوں سے خانہ جنگی کا شکار ہے۔ دوسرا مرحلہ گزشتہ دو سالوں میں آنے والی عوامی لہر تھی جسے عرب بہار کا نام دیا جاتا ہے۔ دنیا بھر کے دانشور یہ کہتے رہے کہ یہ دراصل آمریت کے خلاف انسانی حقوق اور آزادی کی جدوجہد ہے لیکن اس کے نتیجے میں جب مراکش اور مصر میں ایسے لوگ برسراقتدار آئے جو اسلام کے نظامِ عدل کو نافذ کرنا چاہتے تھے، تو سب کے سب چونک گئے۔ فیصلہ ہوگیا کہ بس اب اس سے آگے کسی کو مہلت نہیں دیں گے۔ اب جو بھی برسراقتدار آئے گا، خواہ وہ اسلام کی بات کرے یا سیکولرزم کی، ہمارے اشاروں پر ناچے گا اور پمارے ٹکڑوں پر پلے گا۔ ہم کسی ایسے گروہ کو اقتدار میں نہیں رہنے دیں گے جس میں ذرا سی بھی غیرت و حمیت باقی ہو۔


    اس پالیسی کا پہلا شکار لیبیا تھا۔ یہاں پردوسرے عرب ممالک کی طرح معمرقذافی کے خلاف تحریک کا آغاز ہوا۔ لیکن جیسے ہی یہ تحریک اپنی کامیابی کی منازل طے کرنے لگی تو امریکہ اپنے حواریوں کے ساتھ کود پڑا۔ انسانی حقوق اور جمہوریت کے نام پر اس نے گرم لوہے پر ضرب کاری لگائی وار وہاں ایک ایسی حکومت قائم کروا دی، جس کی وجہ سے لیبیا آج تک خانہ جنگی کا شکار ہے۔ ادھر مصر میں عمومی اندازے یہ تھے کہ معاشرے میں سیکولر اثر و نفوذ زیادہ ہے، اس لئے مرضی کی حکومت آ جائے گی، لیکن اخوان المسلمون کی تقریباً 80 سال کی قربانیاں رنگ لائیں اور انتخاب نے حیران و ششدر کر دیا۔ آخر کتنے دن ! اپنے پالتو میڈیا کے ذریعے پہلے اس پر اقلیتوں کے حقوق غصب کرنے کا الزام لگایا گیا، اسے ایک سخت گیر مسلمان کے طور پر پیش کیا گیا، پھر چند لاکھ لوگوں کا ایک پجوم قاہرہ میں اکھٹا کر کے ستر فیصد عوام کے ووٹوں سے منتخب حکومت پر اپنی پروردہ فوج کو چڑھا دیا گیا۔ احتجاج شروع ہوا تو تاریخ کے بدترین مظالم سامنے آئے، لیکن کسی کو نہ معصوم بچوں کی میتیں نظر آئیں اور نہ ہی عوام پر گولیوں کی بوچھاڑ کرتے ٹینک۔ اپنی مرضی کے سلام پسندوں کو فوج کی حمایت کا حکم دیا گیا تاکہ اگر کل کوئی ایسی حکومت وہاں لانا ضروری ہو تو یہ لوگ ایک شدت پسند مسلمان کا چہرہ پیش کر دیں اور جسے علاقے میں موجود امریکی اشاروں پر ناچنے والی حکومتوں کی حمایت بھی حاصل ہو۔ ورنہ کم از کم اگلے دس پندرہ سال یہاں خانہ جنگی تو چلائی جا سکتی ہے۔

    اب شام نے پریشان کر دیا تھا، گزشتہ چالیس سال سے وہاں ایک سیکولر بعث پارٹی کی حکومت تھی جسے وہاں کی دس فیصد سے کم اقلیت علوی یا نصیری عقیدہ رکھنے والوں نے قائم کیا تھا۔ میں عقیدے کی بحث میں نہیں پڑنا چاہتا لیکن گزشتہ ایک ہزار سالہ تاریخ میں اثنا عشریہ عقیدہ رکھنے والے شیعہ بھی انہیں گمراہ تصور کرتے ہین اور سنی تو تمام کے تمام ان کے عقائد سے اختلاف رکھتے ہیں۔ یہاں معاملہ عقیدے کا نہیں تھا۔ معاملہ حافظ الاسد کے اس ظلم و تشدد کا تھا جو اس نے اپنے دور میں اپنے عوام پر روا رکھا اور وہ خالصتاً سیکولر آمریت کا قائل تھا۔ "عرب بہار" آئی تو یہاں کے لوگوں کے زخم بھی تازہ ہوگئے۔ یہاں اختلاف کی وہ بدترین شکل سامنے آئی جسے عرب و عجم کا اختلاف کہتے ہیں۔ بشار الاسد کی حمایت نہ اس لئے کی جا رہی ہے کہ وہ شیعہ ہے کیونکہ شیعہ فقہ کی کتابیں نصیروں اور علویوں کے بارے میں الزامات سے بھری پڑی ہیں اور نہ ہی ان کے خلاف لڑنے والوں کی امداد عرب ریاستوں کی جانب سے اس لئے کی جا رہی ہے کہ یہ ریاستیں عوام کی خواہشات کے مطابق اسلام کا نظام چاہتی ہیں۔ دونوں کی سیاسی غلبے کی جنگ ہے جس میں اب تک دو لاکھ کے قریب لوگ مارے جا چکے ہیں۔ لیکن خوف وہی ہے کہ اب یہ جدوجہد کامیابی کے کنارے جا پہنچی ہے۔ کئی ایدے شہر ہیں جہاں باغیوں کا اقتدار قائم ہے۔



    اب پوری مغربی دنیا میں یہ خوف ہے کہ اگر وہاں کوئی ایسی حکومت آ گئی جو واقعی خلافتِ الٰہیہ کی قائل ہوئی اور مغرب کی آنکھوں مین آنکھیں ڈال کر بات کرنے لگی تو پھر سنبھلنا مشکل ہوگا۔ اب یہ سب طاقتیں انسانی حقوق اور مدد کے نام پر میدان میں کود رہی ہیں۔ تبصرہ نگار کہتے ہیں کہ روس اور چین شام کے ساتھ ہوں گے۔ دلیل کت طور پر روس کی دھمکی کو پیش کیا جا رہا ہے۔ کس قدر سادہ لوح ہیں یہ لوگ۔ اقوام متحدہ کے چارٹر کے مطابق اور سکیورٹی کونسل میں جنگ کے حق میں رائے شماری ہو رہی ہو تو بائیکاٹ کرنے والوں کا ووٹ "ہاں" میں شمار ہوگا اور روس اور چین نے بائیکاٹ کیا۔ یہ ویسے ہی ہے جیسے پرویز مشرف نے عراق کے خلاف جنگ کے دوران سکیورٹی کونسل کا بائیکاٹ کر کے عوام کو دھوکہ دیا تھاکہ ہم کس قدر غیرت مند ہیں کہ امریکہ کا ساتھ نہیں دیا۔ سید الانبیاءﷺکی وہ حدیث ان طاقتوں کے رویوں کا پتہ دیتی ہے۔ آپؐ نے فرمایا جس کا مفہوم ہے: کفر ایک ملت ہے یعنی سب مسلمانوں کے خلاف متحد ہیں۔ یہی صورتحال بوسنیا میں ہوئی تھی۔ جب وہاں مسلمانوں کی تحریک غلبے کے قریب ہوئی تو امریکہ نے حملہ کر کے وہاں اپنی مرضی کی حکومت بنوا دی تاکہ کوئی باغیرت اسلامی حکومت نہ بن سکے۔ اب شام میں دو اہداف ہیں۔ ایک یہ کہ وہاں ایک کمزور حکومت قائم ہو جو ان کے سامنے سرنگوں رہے۔ لیکن شاید اب وقت بدل چکا ہے۔ وہ زمانہ قریب آ پہنچا ہے جس کی خبر سید الانبیاء ﷺ نے دی تھی۔ آپؐ نے فرمایا" جزیرۃ العرب اس وقت تک خراب نہ ہوگاجب تک مصر خراب نہ ہوجائے اور جنگ عظیم اس وقت تک نہ ہوگی جب تک کوفہ خراب نہ ہوجائے" (الفتن)۔ پھر فرمایا " عنقریب تم افواج کو پاؤ گے، شام میں، عراق میں اور یمن میں"۔ عبداللہ بن حوالہ نے پوچھا " میرے لئے کیا حکم ہے؟" فرمایا تم شام کو لازم پکڑنا (للبہیقی) فرمایا ایمان فتنوں کے وقت شام میں ہوگا (للبہیقی) اور آپؐ نے متنبہ کرتے ہوئے فرمایا " جب شام میں فساد ہو تو تمہاری خیر نہیں (مسند احمد بن حنبل) اور پھر اس حدیث پر غور کریں "قیامت قائم نہ ہوگی یہاں تک کہ اہل عراق کے اچھے لوگ شام کی طرف منتقل نہ ہوجائیں اور اہل شام کے شریر لوگ عراق کی طرف منتقل نہ ہوجائیں" اور فرمایا " تم شام کو لازم پکڑے رہنا" (مسنداحمد بن حنبل) یہ وہ شام ہے جو امام مہدی کا ہیڈ کوارٹر ہوگا، یہیں حضرت عیسیٰ ؑ کا نزول ہوگا۔ یہیں سے ایک لشکر جہاد ہند کی نصرت کے لئے روانہ کیا جائے گا۔ غیب کا علم تو صرف اللہ کو ہے اور وقت بھی اسی ذات باری کے قبضے میں ہے۔ لیکن شاید وہ لمحات قریب ہیں کہ جس وقت میں فتنہ دجال سے رسول اللہ ﷺ نے اکثر نمازوں میں تشہد میں پناہ مانگی اور سورۃ کہف پڑھنے کی ہدایت کی تاکہ اس فتن کے دور میں عافیت میں رہیں اور حق کی پہچان ہوتی رہے۔


    Attached Files
    اللھم صلی علٰی محمد وعلٰی آل محمد کما صلیت علٰی ابراھیم وعلٰی آل ابراھیم انک حمید مجید۔
    اللھم بارک علٰی محمد وعلٰی آل محمد کما بارکت علٰی ابراھیم وعلٰی آل ابراھیم انک حمید مجید۔


  • #2
    Re: تحریر: اوریا مقبول جان

    -1-
    Attached Files
    اللھم صلی علٰی محمد وعلٰی آل محمد کما صلیت علٰی ابراھیم وعلٰی آل ابراھیم انک حمید مجید۔
    اللھم بارک علٰی محمد وعلٰی آل محمد کما بارکت علٰی ابراھیم وعلٰی آل ابراھیم انک حمید مجید۔

    Comment

    Working...
    X