Announcement

Collapse
No announcement yet.

Unconfigured Ad Widget

Collapse

بھارت سے تعلقات کی قیمت

Collapse
X
 
  • Filter
  • Time
  • Show
Clear All
new posts

  • بھارت سے تعلقات کی قیمت

    کنٹرول لائن پر بھارت کی دہشت گردی بڑھتی جارہی ہے اور بھارتی سیاسی وعسکری قیادت کی طرف سے پاکستان کو سبق سکھانے، سزا دینے کے نعرے بھی لگ رہے ہیں۔ ایسے میں وزیراعظم پاکستان میاں نواز شریف کی طرف سے امن کی فاختائیں چھوڑی جارہی ہیں۔ برطانوی اخبار کو دیے گئے انٹرویو میں وہ یہاں تک کہہ گئے کہ انہیں تو بھارت کے ساتھ امن کا مینڈیٹ ملا ہے اور یہی ان کی انتخابی فتح کا سبب ہے۔ گو کہ مسلم لیگ ن کی انتخابی مہم میں میاں صاحب نے کبھی کھل کر یہ نہیں کہا کہ مجھے مینڈیٹ دیا گیا قومیں ہر قیمت پر بھارت سے دوستی کروں گا خواہ وہ قیمت کنٹرول لائن پر مسلسل اشتعال انگیزی اور پاکستانی جوانوں اور شہریوں کی جانوں ہی سے کیوں نہ چکانی پڑے۔ بھارت سمیت پڑوسی ممالک سے اچھے تعلقات کے بارے میں میاں صاحب رسمی باتیں کرتے تھے اور اس سے کسی کو بھی اختلاف نہیں کہ تعلقات اچھے ہونے چاہئیں اور امن قائم رہنا چاہیے۔ مگر یہ ممکن نہیں کہ ایک فریق تو شاخ زیتون پکڑے کھڑا رہے اور دوسرا اس پر آگ برساتا رہے۔ صاف ظاہر ہورہا ہے کہ اگر میاں صاحب نے بھارت سے دوستی کا مینڈیٹ حاصل کیا ہے تو بھارتی حکومت اور انتہا پسندبی جے پی کے پاس پاکستان سے دشمنی مول لینے کا مینڈیٹ ہے۔ بی جے پی کی طرف سے گجرات کا قسائی اور مسلمانوں کے قتل عام کا مصدقہ مجرم نریندر مودی وزارت عظمیٰ کا امیدوار ہے اور وہ مسلمان دشمنی اور پاکستان دشمنی کے انتخابی ایجنڈے پر عمل پیرا ہے۔ اس کا مقابلہ کرنے کے لیے کانگریس کی حکومت بھی یہی ہتھکنڈے استعمال کررہی ہے اور فی الوقت اس کے لیے کنٹرول لائن کے قریب 5 بھارتی فوجیوں کی ہلاکت کو جواز بنایا گیا ہے۔ اس کا الزام پاک فوج پر لگایا جارہا ہے گو کہ بھارتی وزیر دفاع اے۔ کے۔ انتھونی نے اپنے پہلے ردعمل میں یہ الزام خود مسترد کردیا تھا مگر جب اس پر انتہا پسند ہندوئوں کانگریس پر حملے شروع کردیے تو صرف ووٹ حاصل کرنے کے لیے وزیردفاع سمیت پوری من موہن حکومت پسپا ہوگئی اور یہاں نواز شریف کی طرف سے مذاکرات کی پیشکش مسترد کردی۔ بھارتی پارلیمنٹ پر حملہ اور ممبئی حملہ کیس کے بارے میں گھر کی گواہی یہ ہے کہ یہ حملے خود بھارتی حکومت نے کروائے۔ کنٹرول لائن پر بھارتی فوجیوں کی ہلاکت بھی مشکوک ہے۔ بھارت کی گولہ باری سے ہلاکتوں کے علاوہ روزانہ شہری زخمی بھی ہورہے ہیں اور سرحدی علاقوں میں لوگوں کا گھروں سے نکلنا مشکل ہوگیا ہے۔ گزشتہ ہفتہ کے دن ہی نکیال میں ایک خاتون اور بچی زخمی ہوئے ہیں۔ عباس پور میں بھارتی فوج نے ہلکے اور بھاری ہتھیاروں سے فائرنگ کی جس سے ایک گھر تباہ ہوگیا۔ ایسی صورتحال میں میاں نواز شریف کا بار بار دوستی اور امن کا پیغام بھیجنا ان کا مینڈیٹ تو ہوسکتا ہے، پاکستانی عوام کا نہیں۔ یہ امریکا کا مینڈیٹ بھی ہوسکتا ہے چنانچہ امریکی وزیر خارجہ جان کیری نے میاں صاحب کو یہ خوش خبری دے کر کہ اوباما ان سے ملاقات منتظر ہیں، یہ ہدایت بھی کردی ہے کہ بھارت کی اشتعال انگیزی پر پاکستان صبروتحمل کا مظاہرہ کرے۔ یعنی بھارت جو کرتا ہے کرتا رہے۔ پاکستان کی طرف سے تو ہر سطح پر تحمل ہی کا مظاہرہ ہورہا ہے۔ ذرائع ابلاغ میں بھی کوئی اشتعال انگیزی نہیں ہے بلکہ امن کی آشا کے پروگرام بھی چل رہے ہیں جب کہ بھارتی ذرائع ابلاغ آگ اگل رہے ہیں۔ اس پس منظر میں ایک بھارتی خاتون صحافی سیما سین گپتا نے اپنے تجزیے میں لکھا ہے کہ ’’نئی دہلی پاکستان کی داخلی فرقہ واریت کو سب سے مؤثر ہتھیار کے طور پر استعمال کرتے ہوئے طویل عرصہ سے اسلام آباد کو شہ مات دیتا آیا ہے۔ امریکا کے سلامتی امور سے متعلق حکام کو بھی اس حقیقت کا علم ہے کہ بھارتی خفیہ ادارے بلوچ قوم پرستوں کی بھرپور مدد کررہے ہیں لیکن امریکی حکام نے اس لیے اغماض برتا کہ نئی دہلی نے جارج بش کے دور صدارت میں واشنگٹن کو افغانستان میں شمالی اتحاد کے ساتھ روابط قائم کرنے میں مدد دی تھی۔‘‘ میاں صاحب کو یہ بتانے کی ضرورت نہیں کہ دہلی اور واشنگٹن کا یہ گٹھ جوڑ بڑھا ہے، کم نہیں ہوا۔ بھارت کی اشتعال انگیزی کو امریکی آشیرواد حاصل ہے اور اس کا پس منظر آج بھی افغانسان کی صورتحال اور وہاں سے ممکنہ امریکی انخلا ہے۔ بھارت امریکا کی جگہ لینے کی تیاری کرچکا ہے۔، ایسے میں میاں صاحب کو بھارت سے اپنی بے تحاشہ محبت پر قابو پانا ہوگا ورنہ پاکستان کے عوام بے قابو ہوسکتے ہیں۔ امریکا کے بعد بھارت کی غلامی اور اس کا ایجنڈا قبول نہیں کیا جاسکتا۔



  • #2
    Re: بھارت سے تعلقات کی قیمت

    gol maal hai sab gol maal hai....

    Comment


    • #3
      Re: بھارت سے تعلقات کی قیمت

      نیلم دریا کا 65 فی صد پانی کشن گنگا کا ہے کشن کنگا تاو بٹ کے مقام پر نیلم سے ملتا ہے جہاں نیلم محض ایک ندی برابر ہے۔۔نیل دریا پہ پاکستان بجلی گھر بھی بنا رہا ہے لیکن بھارت نے کشن کنگا پہ ایک متنازعہ ڈیم بنانا شروع کر دیا ہے اور تازہ اطلاع کے مطابق اس کے لیے سرنگ کھودی جا چکی ہے۔۔عالمی بنک میں اس کے خلاف پاکستان نے اپیل کرنی تھی اور اس اپیل کی تاریخ گزر چکی ہے لیکن عزت ماب نواز شریف صاحب نے ایسا نہیں کیا اور بیان دیا ہے کہ وہ بھارت سے بجلی درامد کریں گے۔۔مزید براں عالمی بنک ہی کے دباو پر بھاشا ڈیم کا منصوبہ ختم کر دیا گیا ہے اور اب داسو ڈیم کی باتیں کی جا رہیں ہیں۔۔وزٹ پاک میں میں نے نیلم کے اس مقام کی تصویر پوسٹ کی ہے جہاں کشن گنگا نیلم سے ملتا ہے۔اب نیلم پاور پروجیکٹ اور اس پہ لگے اربوں روپے نہ صرف ڈوبیں گے بلکہ وادی کا حسن بھی گہنا جا ئے گا ۔لیکن کیا کیا جائے آلو پیاز اور پان کے پتوں کی تجارت کی خاطر یہ قوم اپنا سسب کچھ قربان کر سکتی ہے حتی کے مکتی باہنی کے درندوں کو شہیدوں کا لقب دے کر ان کے درجات بلند کرنے کی دعا بھی مانگ سکتی ہے۔۔۔ملک سیلاب میں ڈوب رہا اور ہم موٹروے بناننے پہ تلے ہوئے ہیں
      :(

      Comment


      • #4
        Re: بھارت سے تعلقات کی قیمت

        nice sharing.............

        Comment


        • #5
          Re: بھارت سے تعلقات کی قیمت

          تکلیف دہ پہلو یہ بھی ہےکہ حکومت کی اس یک طرفہ دوستی کی راگنی میں حکومت سے باہر جماعتیں بھی برابر شریک ہیں

          پاکستان میں کوئی بھی سیاسی جماعت کھل کر بھارت مخالفت نہیں کر رہی نہ ہی آج تک کسی سیاسی جماعت نے بھارت مخالف نعرہ بلند کرتے ہوئے الیکشن لڑا ہے۔
          نواز شریف کے اس بیان سے مجھے بھی سخت ترین نفرت ہوئی تھی کہ جی مجھے بھارت دوستی کا مینڈیٹ ملا ہے ۔۔۔۔جو کہ سراسر غلط بیانی ہے ان کو لوڈشیڈنگ اور امن و امان کےنعرے پر ووٹ ملے تھے اب وہ اس داخلی امن کی باتوں کو سرحدی امن تک کھینچ کر لے گئے تو الگ بات ہے لیکن بھارت سے خوفزدہ ہوکر یہ قوم نہیں جینا چاہتی۔

          مجھے زاتی طور پر خوشی ہوگی کہ انتہا پسند بھارت میں نریندر مودی جیتے اور یہاں جو لوگ امن کی آشا کے گیت الاپتے ہوئے یہ کہتے ہیں کہ وہاں کے عوام امن پسند ہیں بس حکومتیں پاکستان مخالف ہیں اُن کی اس ڈھکوسلے بازی سے پردہ اُٹھ جائے اور ان کو معلوم ہوجائے کہ پاکستان مخٰالفت بھارت کے بچے بچے میں رچی بسی ہوئی ہیں ۔

          بھارتی میڈیا اپنے پروگراموں میں دکھاتا ہے کہ بھارت کی فوجی صلاحیت کیا ہے اس کے کون کون سے میزائل پاکستان کے کس کس شہر کا صفایہ کرتے ہوئے انہیں صفحہ ہستی سے مٹا سکتا ہے اور ہمارا میڈیا دکھا رہا ہوتا ہے کہ چنائی ایکسرپس نے کتنا بزنس کیا ؟؟؟
          :star1:

          Comment


          • #6
            Re: بھارت سے تعلقات کی قیمت

            Originally posted by Dr Faustus View Post
            نیلم دریا کا 65 فی صد پانی کشن گنگا کا ہے کشن کنگا تاو بٹ کے مقام پر نیلم سے ملتا ہے جہاں نیلم محض ایک ندی برابر ہے۔۔نیل دریا پہ پاکستان بجلی گھر بھی بنا رہا ہے لیکن بھارت نے کشن کنگا پہ ایک متنازعہ ڈیم بنانا شروع کر دیا ہے اور تازہ اطلاع کے مطابق اس کے لیے سرنگ کھودی جا چکی ہے۔۔عالمی بنک میں اس کے خلاف پاکستان نے اپیل کرنی تھی اور اس اپیل کی تاریخ گزر چکی ہے لیکن عزت ماب نواز شریف صاحب نے ایسا نہیں کیا اور بیان دیا ہے کہ وہ بھارت سے بجلی درامد کریں گے۔۔مزید براں عالمی بنک ہی کے دباو پر بھاشا ڈیم کا منصوبہ ختم کر دیا گیا ہے اور اب داسو ڈیم کی باتیں کی جا رہیں ہیں۔۔وزٹ پاک میں میں نے نیلم کے اس مقام کی تصویر پوسٹ کی ہے جہاں کشن گنگا نیلم سے ملتا ہے۔اب نیلم پاور پروجیکٹ اور اس پہ لگے اربوں روپے نہ صرف ڈوبیں گے بلکہ وادی کا حسن بھی گہنا جا ئے گا ۔لیکن کیا کیا جائے آلو پیاز اور پان کے پتوں کی تجارت کی خاطر یہ قوم اپنا سسب کچھ قربان کر سکتی ہے حتی کے مکتی باہنی کے درندوں کو شہیدوں کا لقب دے کر ان کے درجات بلند کرنے کی دعا بھی مانگ سکتی ہے۔۔۔ملک سیلاب میں ڈوب رہا اور ہم موٹروے بناننے پہ تلے ہوئے ہیں
            پاکستان کے تین دریا ایوب خان بیچ گیا
            ستلج، چناب،روای
            بقہ رہی سہی کسر شرفو گدھے نے پوری کردی کہ اُس وقت جب بھارت نے ان دریاوں پر ڈیم بنانا شروع کئے تو ہم بالکل خاموش رہے چونکہ سند طاس معاہدے کی رو سے اگر پاکستان کو بھارت کے کسی ایسے ڈیم پر اعتراض ہوگا جو کہ پاکستان میں داخل ہونے والے دریاوں پر بنایا جا رہا ہو تو پاکستان پچاس فیصد کام شروع ہونے سے قبل اس پر اعتراض کر سکتا ہے لیکن افسوس شرفو گدھے اور زردآری کے ادوار میں بھارت کچھ ڈیم مکمل کر چکا اور کچھ پر پچاس فیصد سے زیادہ کام ہوچکا اس لئے اب پاکستان کا وایلا ایسے ہی ہےجیسے سانپ گزرجانےکے بعد لکیر پیٹی جائے

            کیونکہ پاکستان کے کسی بھی اعتراض کی صورت میں بھارت سندھ طاس سامنے لر کر رکھ دے گا (جس میں ایک شِق یہ بھی تھی کہ اگر پاکستان نے آئندہ بیس سالوں میں ان دریاوں سے حاصل شدہ پانی کو استعمال کرنے کا موثر انتظام نہ کیا تو بھارت اس پانی کو استعمال کر سکتا ہے )۔
            ہم لوگ پہلے گیارہ سالہ ضیا اور پھر لنگڑی لولی جمہوریتوں کے بعد شرفو کے طویل ادوار میں اس پانی کو سمدنر برد کر کے بھارت کو یہ حق دے چکے کہ ہم جو پانی ضائع کر رہے ہیں بھارت اُسے قابل استعمال بنالے :(۔
            :star1:

            Comment

            Working...
            X