Announcement

Collapse
No announcement yet.

Unconfigured Ad Widget

Collapse

Pak Iran gas Pipline

Collapse
X
 
  • Filter
  • Time
  • Show
Clear All
new posts

  • Pak Iran gas Pipline

    پاکستان کے صرد آصف علی زرداری اور احمد نژادی نے پاک ایران گس منصوبے کا سنگ بنیاد رکھ کے امریکن دھمکیوں کو ٹکے ٹوکری کر دیا ہے۔۔یہ منصوبہ امید ہے 2015 تک مکمل ہوجائ گا اس پہ جنگی بنیادوں پہ کام جاری ہے


    تقریبا بائس بلین کیوبک میٹر سالانہ گیس جس سے ہمارے توانائی کی سکیٹر کو درپیش مشکلات ختم ہو سکتی ہیں۔۔




    Click image for larger version

Name:	iran-pak-gaspipeline-670.jpg
Views:	1
Size:	73.4 KB
ID:	2489127

    Click image for larger version

Name:	3-12-2013_21528_l_T.jpg
Views:	1
Size:	33.7 KB
ID:	2489128
    :(

  • #2
    Re: Pak Iran gas Pipline

    پائپ لائن سے گیس کی درآمد سستا سودا تو ہے لیکن اس پائپ لائن کی حفاظت ایک بڑا مسئلہ ہے۔

    ایران پاکستان پائپ لائن کا 780 کلومیٹر کا ٹکڑا پاکستان میں ہے اور اس میں سے تقریباً نصف بلوچستان کے ان علاقوں میں ہے جہاں سے آئے دن مزاحمت کاروں کی جانب سے سرکاری تنصیبات کی تباہی کی خبریں آتی رہتی ہیں۔

    سوئی میں واقع پاکستان میں گیس کے مرکزی ذخائر تیزی سے ختم ہو رہے ہیں اور ابھی تک ہم اس پیمانے کے نئے دخائر دریافت نہیں کر سکے ہیں۔ آج کل پاکستان میں روزانہ چار ارب تیس کروڑ مکعب فٹ گیس دستیاب ہے اور پیٹرولیم انسٹیٹیوٹ آف پاکستان کے مطابق 2025 میں یہ مقدار ایک ارب مکعب فٹ تک رہ جائے گی۔

    سوئی، پیرکوہ اور لوٹی میں پہلے سے موجود گیس تنصیبات پر حملوں یا پھر آر سی ڈی شاہراہ کے غیر محفوظ ہونے کی داستانوں کے بعد یہ سوال بےجا نہیں کہ اس علاقے سے گزاری جانے والی پائپ لائن کو کیسے محفوظ بنایا جا سکتا ہے۔

    اس پائپ لائن پر منڈلانے والا ایک اور بڑا سوال امریکہ، یورپی یونین اور سعودی عرب کی جانب سے اس کی مخالفت کا ہے۔

    امریکہ اور یورپی یونین ایران سے کسی قسم کے کاروبار کو اس وقت تک غیرقانونی قرار دینے کے قوانین بنا چکے ہیں جب تک ایران اپنے جوہری پروگرام پر عالمی برادری سے تعاون نہیں کرتا۔

    پاکستان کے لیے اس کے دو مطلب ہیں۔ اولاً اس کے لیے عالمی بازار سے اس منصوبے کے لیے تقریباً ڈیڑھ ارب ڈالر کی رقم کا حصول ناممکن ہے۔

    ایران پائپ لائن کی تعمیر کے لیے پانچ سو ملین ڈالر بطور قرض دینے کی پیشکش کر چکا ہے لیکن اس کے باوجود پاکستان کو ایک ایسے وقت میں اس منصوبے کے لیے بہت بڑی رقم درکار ہے جب وہ خود اپنی معیشت اور زرِمبادلہ کے کم ہوتے ذخائر کو سنبھالنے کے لیے آئی ایم ایف کی مدد کا منتظر ہے۔

    پاکستان نے پائپ لائن منصوبے کے سلسلے میں چین اور روس سے بھی مدد مانگی لیکن مئی دو ہزار بارہ میں یورپی یونین کی جانب سے ایران پر پابندیاں عائد کیے جانے کے بعد وہاں سے بھی انکار ہوگیا۔

    دوسری اہم بات یہ ہے کہ پاکستان ایران سے حاصل ہونے والی گیس کی قیمت ادا کرنے کی صورت میں خود پر پابندیاں بھی لگوا سکتا ہے اور شاید اسی لیے پاکستان نے ایران کو ’بارٹر ٹریڈ‘ کے تحت گیس کے بدلے گندم کی پیشکش کی تھی جسے رد کر دیا گیا۔

    ملک میں دن بدن کم ہوتے ذخائر کو دیکھتے ہوئے پاکستان کی قدرتی گیس کے نئے ذرائع کی تلاش جتنی اہم ہے وہیں اس کی راہ میں حائل قوتیں بھی غیر اہم نہیں۔

    ایسا لگتا ہے کہ پاکستان کا معاشی مستقبل جغرافیے اور تاریخ کے درمیان پھنس کر رہ گیا ہے۔ ہمارے معاشی مستقبل کو محفوظ کرنے کی نوید دینے والا گیس ہمیں نظر تو آ رہی ہے لیکن ہاتھ بڑھا کر اسے پا لینا اتنا آسان بھی نہیں۔


    یہ مسودہ خبر ایک معتبر سائیٹ سے لی گئی حوالہ جاتی ہے ، ممکن ہے عامر پاکستان اس گیس کو حاصل کرنے میں کامیاب ہوجائے مگر پھر بھی یہ اونٹ کے منہ میں زیرہ کے برابر ہی ہے ہمیں اپنے تھر کول پراجیکٹ پہ دماغ لگانا چاہئے بلکہ امن ہوتے ہی انعام اور رائیلٹی کا اعلان کرنا چاہئے جو اس کا حل نکالے یہ ذخائر کسی بھی طرح سعودیہ کے تیل جتنے اور پاکستان کو ملینئر بنانے کی چابی
    ہیں
    ہے الف و لیلہ سی زندگی درپیش
    سو جاگتی ہوئی ، اک شہر زاد ہے دل میں

    Comment

    Working...
    X