السلامُ علیکم
سنتے تھے ،پڑھتے تھے کہتے تھے کہ ہم نے یہ غم سینے پہ پتھر رکھ کر سہا،لیکن ان الفاظ کی کاٹ کا ادراک نہ ہوتا تھا۔
اے اہل کوئیٹہ اے ریکارڈ سردی میں اپنے بچوں بوڑھوں خواتین کے ساتھ 86 چٹانیں سینے پر رکھ کر جس طرح تم نے دھرنا دیا اس کی مثال نہ کہیں سنی نہ دیکھی نہ پڑھی
کیا بیت رہی ہے تم پر میں اس کا اندازہ بھی نہیں لگا سکتا
میں نے چاہا!
میں نے یہ چاہا کہ کچھ دیر کو آنکھیںبند کیں اور
میں سوچوں ،میں اندازہ کرنے لگا کہ اپنے زندہ افراد خانہ کے ساتھ ٹھٹرتی سردی میں زمیں پر بیٹھا ہوں اور اپنے کمسن و معصوم بچوں کے ساتھ سرد رات گزار رہا ہوں
میں نے سوچا !
میں نے یہ سوچا کہ میں اپنے عزیز کے جسد خاکی کے ساتھ مقتل گاہ میں ٹھہروں میں ٹھہروں اُس دم تک کہ جب تک قاتل کو پشیمانی نہ ہونے لگے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہ سوچتے ہوئے یہ قیاس کرتے ہوئے
میرے دل پر بوجھ بڑھ گیا میں گھبراگیا میری آنکھیں کھل گئیں میں ناکام ہوا اس تصور کو زیادہ دیر تک قائم رکھنے میں۔۔۔۔۔۔۔۔
اور تم ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اے اہل کوئٹہ تم !!!!!!!!!! تم یہ سب کچھ کر رہے ہو تو کیا بیت رہی ہے تم پر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔میرا شعور اس کا اندازہ لگانے سے قاصر ہے۔
دنیا کی قوموں کے سامنے پشیماں ہوں میں شرمندہ ہوں میں لائق حقارت ہوں اس ہجوم کا حصہ بننے پر
ہم لاکھوں کروڑوں سارے
ہم لاکھوں کروڑوں
اِک دوجے کا سینہ کھود کے ڈھونڈ رہے ہیں پََر
خوں اُنڈیل کے بنیادوں میں ڈال رہے ہیں گھر
اِک دوجے سے اپنی قامت بڑھانے کی خاطر
اپنی اپنی جڑیں اُکھاڑ کے گروی رکھ آئے
ناپ رہے ہیں تاریکی سے آزادی کی لاش
دیکھ رہے ہیں سورج کی آنکھوں میں ڈال کے آنکھ
لزت کے پاتال میں بیٹھ کے کھُرچ رہے ہیں جسموں کے ناسور
ہم محصور خیالوں والے ہم بے بس مجبور
ہم لاکھوں کروڑوں سارے ہم لاکھوں کروڑوں؟؟؟
فرحت عباس کے چاہنے والوں سے معذرت کہ چند الفاظ تبدیل کر دئے۔
سنتے تھے ،پڑھتے تھے کہتے تھے کہ ہم نے یہ غم سینے پہ پتھر رکھ کر سہا،لیکن ان الفاظ کی کاٹ کا ادراک نہ ہوتا تھا۔
اے اہل کوئیٹہ اے ریکارڈ سردی میں اپنے بچوں بوڑھوں خواتین کے ساتھ 86 چٹانیں سینے پر رکھ کر جس طرح تم نے دھرنا دیا اس کی مثال نہ کہیں سنی نہ دیکھی نہ پڑھی
کیا بیت رہی ہے تم پر میں اس کا اندازہ بھی نہیں لگا سکتا
میں نے چاہا!
میں نے یہ چاہا کہ کچھ دیر کو آنکھیںبند کیں اور
میں سوچوں ،میں اندازہ کرنے لگا کہ اپنے زندہ افراد خانہ کے ساتھ ٹھٹرتی سردی میں زمیں پر بیٹھا ہوں اور اپنے کمسن و معصوم بچوں کے ساتھ سرد رات گزار رہا ہوں
میں نے سوچا !
میں نے یہ سوچا کہ میں اپنے عزیز کے جسد خاکی کے ساتھ مقتل گاہ میں ٹھہروں میں ٹھہروں اُس دم تک کہ جب تک قاتل کو پشیمانی نہ ہونے لگے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہ سوچتے ہوئے یہ قیاس کرتے ہوئے
میرے دل پر بوجھ بڑھ گیا میں گھبراگیا میری آنکھیں کھل گئیں میں ناکام ہوا اس تصور کو زیادہ دیر تک قائم رکھنے میں۔۔۔۔۔۔۔۔
اور تم ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اے اہل کوئٹہ تم !!!!!!!!!! تم یہ سب کچھ کر رہے ہو تو کیا بیت رہی ہے تم پر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔میرا شعور اس کا اندازہ لگانے سے قاصر ہے۔
دنیا کی قوموں کے سامنے پشیماں ہوں میں شرمندہ ہوں میں لائق حقارت ہوں اس ہجوم کا حصہ بننے پر
ہم لاکھوں کروڑوں سارے
ہم لاکھوں کروڑوں
اِک دوجے کا سینہ کھود کے ڈھونڈ رہے ہیں پََر
خوں اُنڈیل کے بنیادوں میں ڈال رہے ہیں گھر
اِک دوجے سے اپنی قامت بڑھانے کی خاطر
اپنی اپنی جڑیں اُکھاڑ کے گروی رکھ آئے
ناپ رہے ہیں تاریکی سے آزادی کی لاش
دیکھ رہے ہیں سورج کی آنکھوں میں ڈال کے آنکھ
لزت کے پاتال میں بیٹھ کے کھُرچ رہے ہیں جسموں کے ناسور
ہم محصور خیالوں والے ہم بے بس مجبور
ہم لاکھوں کروڑوں سارے ہم لاکھوں کروڑوں؟؟؟
فرحت عباس کے چاہنے والوں سے معذرت کہ چند الفاظ تبدیل کر دئے۔
Comment