گزشتہ دنوں کچھ اچھی باتیں کی گئئ پر انہیں معاندانہ جذبے کے ساتھ سنا گیا۔۔کوئی شبہ نہیں کہ قوم میں کچھ بیداری پیدا ہو گئی ہے اور پانے حق کا شعور پہلے سے کچھ زیادہ ہے۔۔پر ایسے لوگوں کی بھی کوی کمی نہیں جو اپنے دردمندوں کی بات سن کر بھڑک اٹھتے ہیں اور اپنے ھق میں بولنے والوں کو اپنی برہمی کا نشانہ بناتے ہیں۔۔
سیساست کی دنیا میں فتوی فروشی کا ابزر گرم ہے اب ہر وہ شخص جہنمی ہے جو عوم کے ھق کی بات کرتا ہے۔۔جماعتیں اور جمعیتیں قوم کو جمع کرنے کے بجائے اس میں تفرقہ ڈال رہی ہیں۔۔دلوں میں نفرتیں بٹھائی جا رہی ہیں۔۔کچھ اتنی لغو اور بے معنی بولیاں بولی گئیں کہ سننے والوں نے تنگ اکر سننا ہی چھوڑ دیا یہ ہےحق تو یہ ہے کہ یہ قوم اپنے ھق ناشناس راہ نماوں سے تنگ اور عاجز اچکی ہے
پورا سچ تو خیر بولا ہی کہاں گیا تھا یہ لوگ تو ادھے سچ کی تاب نہیں رکھتے بلکہ انہیں وہ بات سخت گراں گزرتی ہے جو سچ سے کچھ مشاہبت رکھتی ہو۔۔۔یہ بڑی الم ناک بات ہے کہ لوگ اپنی بات کو سند قرار دے کر دوسروں کی ہر بات مسترد کر دیتے ہیں÷÷پر یاد رکھنا چاہیے یہ کلیسائی انداز قوم کے حق میں تباہ کن فتنوں کا سبب بن سکتا ہے
Comment