شکارپور کی تین کم سن بچیاں’ ونی‘ قرار
پاکستان میں جاہلانہ دور کی فرسودہ رسمیں تاحال رائج ہیں، اورقبائلی جرگوں پرحکومتی پابندی کے باوجود ایسے جرگوں کے غیر قانونی اور انسانیت سوز فیصلے کئے جاتے ہیں
صوبہٴپنجاب کے ضلع شکارپور میں جتوئی برادری کے دو گروپوں میں تنازعے پر جرگے کے فیصلے کے مطابق تین کم سن بچیوں کو ’ونی‘ قرار دینے سمیت ملزم فریق پر دو لاکھ روپے جرمانہ بھی عائد کیا گیا۔
بتایا جاتا ہے کہ امان اللہ جتوئی اور وحید جتوئی کے درمیاں تنازعہ چل رہا تھا۔ وحید جتوئی کا الزام تھا کہ امان اللہ جتوئی کے اس کی بیوی سے مراسم ہیں، جس کے نتیجے میں وحید جتوئی کی بیوی کو خاندان والوں نے ’کاری‘ قرار دے کر قتل کر دیا تھا۔
واضح رہے کہ ’کاروکاری‘ کی فرسودہ رسم کے تحت غیرت کے نام پرخواتین کو قتل کردینا قبائلی برادریوں میں معیوب بات نہیں سمجھی جاتی۔
جرگے کے سربراہان اور مقامی وڈیرے عبدالوہاب نے دونوں کے موٴقف سننے کےبعد ملزم امان اللہ کے خاندان سے تین لڑکیوں کو ’ونی‘ کے طور پر مخالف فریق کودینے سمیت دو لاکھ روپے کی رقم جرمانے میں دینے کا فیصلہ سنایا۔
نجی ٹی وی چینل ’دنیا نیوز‘ کی خبر کےمطابق ونی قرار دی گئی تینوں لڑکیوں میں ملزم امان اللہ کی دو بچیاں اور ایک بھتیجی شامل ہے۔تینوں کم سن بچیوں کی عمریں 4 سے 8 سال کے لگ بھگ ہیں۔
ایس ایس پی شکارپور پرویز چانڈیو نے میڈیا سے گفتگو کے دوران کہا ہے کہ جرگے سے متعلق اطلاعات ملنے کےبعد پولیس کی جانب سے تحقیقات کا عمل جاری ہے جسکے بعد ہی کوئی کاروائی عمل میں آئیگی۔
خواتین کے حقوق کیلئے کام کرنے والی سماجی تنظیم ’عورت فاوٴنڈیشن‘ کی رپورٹ کے مطابق ماہ جنوری سے جون تک صوبہٴپنجاب کی 20 لڑکیاں ونی قرار دی جاچکی ہیں۔ تاہم، یہ سلسلہ بدستور جاری ہے۔ اس سے قبل ماہ اکتوبر میں بلوچستان کے ضلع ڈیرہ بگٹی کی 13 لڑکیوں کو جرگے کے فیصلے میں ہی ونی قراردیدیاگیا تھا۔
’ونی‘ جاہلانہ رسم ورواج کی ایک رسم ہے ، جِس میں دو قبائلوں میں تنازعے کی صلح کرانے کی غرض سے لڑکیوں کو دوسرے فریق کو دیدیا جاتا ہے۔ اِن کم سن لڑکیوں کو بڑی عمر کے افراد کے ساتھ بیاہ دیاجاتا ہے۔ رسم کو نہ ماننےوالے فرد یا لڑکی کو جرگے کی طرف سے قتل کردیاجاتا ہے۔
پاکستان میں جاہلانہ دور کی فرسودہ رسمیں تاحال رائج ہیں۔قبائلی جرگوں پرحکومتی پابندی کےباوجود ایسے جرگے منعقد کئے جاتے ہیں اور ان جرگوں کےتحت غیر قانونی اور انسانیت سوز فیصلے کئے جاتے ہیں، جس کی بڑی وجہ قانونی اداروں کی جانب سے سخت کاروائی کا نہ ہونا ہے۔
پاکستان میں جاہلانہ دور کی فرسودہ رسمیں تاحال رائج ہیں، اورقبائلی جرگوں پرحکومتی پابندی کے باوجود ایسے جرگوں کے غیر قانونی اور انسانیت سوز فیصلے کئے جاتے ہیں
صوبہٴپنجاب کے ضلع شکارپور میں جتوئی برادری کے دو گروپوں میں تنازعے پر جرگے کے فیصلے کے مطابق تین کم سن بچیوں کو ’ونی‘ قرار دینے سمیت ملزم فریق پر دو لاکھ روپے جرمانہ بھی عائد کیا گیا۔
بتایا جاتا ہے کہ امان اللہ جتوئی اور وحید جتوئی کے درمیاں تنازعہ چل رہا تھا۔ وحید جتوئی کا الزام تھا کہ امان اللہ جتوئی کے اس کی بیوی سے مراسم ہیں، جس کے نتیجے میں وحید جتوئی کی بیوی کو خاندان والوں نے ’کاری‘ قرار دے کر قتل کر دیا تھا۔
واضح رہے کہ ’کاروکاری‘ کی فرسودہ رسم کے تحت غیرت کے نام پرخواتین کو قتل کردینا قبائلی برادریوں میں معیوب بات نہیں سمجھی جاتی۔
جرگے کے سربراہان اور مقامی وڈیرے عبدالوہاب نے دونوں کے موٴقف سننے کےبعد ملزم امان اللہ کے خاندان سے تین لڑکیوں کو ’ونی‘ کے طور پر مخالف فریق کودینے سمیت دو لاکھ روپے کی رقم جرمانے میں دینے کا فیصلہ سنایا۔
نجی ٹی وی چینل ’دنیا نیوز‘ کی خبر کےمطابق ونی قرار دی گئی تینوں لڑکیوں میں ملزم امان اللہ کی دو بچیاں اور ایک بھتیجی شامل ہے۔تینوں کم سن بچیوں کی عمریں 4 سے 8 سال کے لگ بھگ ہیں۔
ایس ایس پی شکارپور پرویز چانڈیو نے میڈیا سے گفتگو کے دوران کہا ہے کہ جرگے سے متعلق اطلاعات ملنے کےبعد پولیس کی جانب سے تحقیقات کا عمل جاری ہے جسکے بعد ہی کوئی کاروائی عمل میں آئیگی۔
خواتین کے حقوق کیلئے کام کرنے والی سماجی تنظیم ’عورت فاوٴنڈیشن‘ کی رپورٹ کے مطابق ماہ جنوری سے جون تک صوبہٴپنجاب کی 20 لڑکیاں ونی قرار دی جاچکی ہیں۔ تاہم، یہ سلسلہ بدستور جاری ہے۔ اس سے قبل ماہ اکتوبر میں بلوچستان کے ضلع ڈیرہ بگٹی کی 13 لڑکیوں کو جرگے کے فیصلے میں ہی ونی قراردیدیاگیا تھا۔
’ونی‘ جاہلانہ رسم ورواج کی ایک رسم ہے ، جِس میں دو قبائلوں میں تنازعے کی صلح کرانے کی غرض سے لڑکیوں کو دوسرے فریق کو دیدیا جاتا ہے۔ اِن کم سن لڑکیوں کو بڑی عمر کے افراد کے ساتھ بیاہ دیاجاتا ہے۔ رسم کو نہ ماننےوالے فرد یا لڑکی کو جرگے کی طرف سے قتل کردیاجاتا ہے۔
پاکستان میں جاہلانہ دور کی فرسودہ رسمیں تاحال رائج ہیں۔قبائلی جرگوں پرحکومتی پابندی کےباوجود ایسے جرگے منعقد کئے جاتے ہیں اور ان جرگوں کےتحت غیر قانونی اور انسانیت سوز فیصلے کئے جاتے ہیں، جس کی بڑی وجہ قانونی اداروں کی جانب سے سخت کاروائی کا نہ ہونا ہے۔
Comment