جرمنی کے دارالحکومت برلن میں ایک عدالت نے دائیں بازو کے ایک گروہ کو پیغمبرِ اسلام کے متنازع خاکوں پر مبنی پلے کارڈ بنانے کی اجازت دے دی ہے۔
’پرو ڈوایچ لینڈ‘ نامی یہ گروہ آئندہ اختتامِ ہفتہ پر برلن کی مساجد کے باہر مظاہرہ کرنے کا ارادہ رکھتا ہے۔ گروہ کا کہنا تھا کہ ان کے مظاہروں کا عنوان ’اسلام کا تعلق جرمنی سے نہیں، اسلامائی زیشن روکو‘ ہوگا۔
اسی بارے میں
پیغمبرِ اسلام کے یہ بارہ متنازع خاکے سنہ دو ہزار پانچ میں ڈنمارک میں ایک اخبار میں شائع ہوئے تھے جن کے نتیجے میں دنیا بھر میں احتجاجی مظاہرے ہوئے تھے۔
اسلامی قوانین کے مطابق پیغمبرِ اسلام کی تصاویر یا عکس بنانا منع ہے۔
بی بی سی کے نامہ نگار ظہیر الدین بابر نے جرمنی میں مقیم صحافی عشرت معین سے اس معاملے میں سوالات کیے تو ان کا کہنا تھا کہ جرمنی میں مسلمانوں کو ہراساں کیا جا رہا ہے۔
انہوں نے بتایا کہ اس گروہ نے برلن کی مختلف مساجد میں تخریبی کارروائیاں بھی کیں ہیں اور ان کے باہر ’سواشٹکا‘ یعنی نازی نشان بھی بنایا ہے۔
عدالت نے برلن کی تین مساجد کے منتظمین کی جانب سے دائر کی گئی درخواست کومسترد کر دیا۔ درخواست میں عدالت سے کہا گیا تھا کہ وہ سنیچر کو ہونے والے ’پرو ڈوایچ لینڈ‘ کے مظاہروں میں پیغمبرِ اسلام کے خاکوں کے استعمال کو روکے۔
عدالت کا کہنا تھا کہ یہ خاکے اظہارِ فن کی آزادی کے زمرے میں آتے ہیں اور انہیں قانونی طور پر کسی مذہبی گروہ کی
عدالت کا کہنا تھا کہ پیغمبرِ اسلام کے خاکے دیکھانا کسی گروہ کے خلاف نفرت یا تشدد نہیں مانا جا سکتا۔
ادھر پولیس برلن میں ہونے والے احتجاجی مظاہروں میں شدید کشیدگی اور تشدد کے واقعات کو روکنے کی تیاری کر رہی ہے۔
اس سے کچھ عرصہ پہلے امریکہ میں کچھ ایسا کیا گیا ہے جو مسئلہ ابھی تک حل نہیں ہوسکا ہے
’پرو ڈوایچ لینڈ‘ نامی یہ گروہ آئندہ اختتامِ ہفتہ پر برلن کی مساجد کے باہر مظاہرہ کرنے کا ارادہ رکھتا ہے۔ گروہ کا کہنا تھا کہ ان کے مظاہروں کا عنوان ’اسلام کا تعلق جرمنی سے نہیں، اسلامائی زیشن روکو‘ ہوگا۔
اسی بارے میں
پیغمبرِ اسلام کے یہ بارہ متنازع خاکے سنہ دو ہزار پانچ میں ڈنمارک میں ایک اخبار میں شائع ہوئے تھے جن کے نتیجے میں دنیا بھر میں احتجاجی مظاہرے ہوئے تھے۔
اسلامی قوانین کے مطابق پیغمبرِ اسلام کی تصاویر یا عکس بنانا منع ہے۔
بی بی سی کے نامہ نگار ظہیر الدین بابر نے جرمنی میں مقیم صحافی عشرت معین سے اس معاملے میں سوالات کیے تو ان کا کہنا تھا کہ جرمنی میں مسلمانوں کو ہراساں کیا جا رہا ہے۔
انہوں نے بتایا کہ اس گروہ نے برلن کی مختلف مساجد میں تخریبی کارروائیاں بھی کیں ہیں اور ان کے باہر ’سواشٹکا‘ یعنی نازی نشان بھی بنایا ہے۔
عدالت نے برلن کی تین مساجد کے منتظمین کی جانب سے دائر کی گئی درخواست کومسترد کر دیا۔ درخواست میں عدالت سے کہا گیا تھا کہ وہ سنیچر کو ہونے والے ’پرو ڈوایچ لینڈ‘ کے مظاہروں میں پیغمبرِ اسلام کے خاکوں کے استعمال کو روکے۔
عدالت کا کہنا تھا کہ یہ خاکے اظہارِ فن کی آزادی کے زمرے میں آتے ہیں اور انہیں قانونی طور پر کسی مذہبی گروہ کی
عدالت کا کہنا تھا کہ پیغمبرِ اسلام کے خاکے دیکھانا کسی گروہ کے خلاف نفرت یا تشدد نہیں مانا جا سکتا۔
ادھر پولیس برلن میں ہونے والے احتجاجی مظاہروں میں شدید کشیدگی اور تشدد کے واقعات کو روکنے کی تیاری کر رہی ہے۔
اس سے کچھ عرصہ پہلے امریکہ میں کچھ ایسا کیا گیا ہے جو مسئلہ ابھی تک حل نہیں ہوسکا ہے
Comment