﷽
فرق صرف سوچ کا ہے!
میں نے ایک مدت ہوئی لکھنا چھوڑ دیا، کیونکہ ہم ایک ایسے معاشرے میں رہتے ہیں جہاں چار جماعتیں پڑھ کر ہر بندہ یہ سمجھ بیٹھا ہے جیسا وہ عقل و شعور کی ایک ایسی بلندی پر جا پہنچا ہے، جہاں اسے کسی دوسرے کے تجربے سے سیکھنااور اس پر عمل کرنا تو درکنار، اس کی بات کو سوچنے ، سمجھنے اور پرکھنے کی بھی حاجب نہیں رہی۔ ایسے میں لکھ کر قلم کی سیاہی ختم کرنا اور ورق کو کالا کرنا باعثِ ندامت کے اور کچھ نہیں۔
مگر آج فیس بک پر کسی صاحب کی ایک پوسٹ نے پھر سے قلم اٹھانے پر مجبور کر ہی دیا۔ پہلے ان صاحب کی پوسٹ دیکھ لیجیے:
شاہجان کو مرے کئی ایک سو سال گزر چکے ہیں، وہ کیسا بادشاہ تھا، کیسا حکمران تھا، اس نے کیا کیا، کیا نہیں کیا، یہ سب ماضی کا حصہ بن چکا ہے، اب شاہجان کو کوسنے سے فائدہ؟ اس کو اللہ تعالیٰ نے جتنی مہلت دینی تھی، دیدی، اب اسکے حساب کا وقت ہے اور یہ بھی اللہ تبارک تعالیٰ پر ہے کہ وہ اسکا کیسا حساب لے گا۔
(ان صاحب کا قصہ بھی بتاتا چلوں کہ میں انکی فیس بک پر یہ امیج لینے کے لیے گیا، انہوں نے مجھے چیٹ کے لیے پنگ کیا، اور جو پہلا جملہ لکھا وہ انگریزی میں "hay" تھا۔ میں نے جوابا لکھا کہ "I think you should say Assalamo Allaikum" اسکے بعد ان صاحب نےکوئی جواب نہ دیا اور لوگ آف کر گئے ، فرق ہے صرف سوچ کا)۔
آتے ہیں اصل موضوع کی طرف، کیا ہم نے کبھی اپنے حال پر نگاہ دوڑائی ہے؟ کیا ہم نے اپنے موجودہ دور کے حکمرانوں کے قرتوت دیکھے ہیں؟ ہمارے اپنے ملک میں کتنے کینسر ہسپتال ہیں جو سرکاری سطح پر کام کررہے ہیں؟ 2012 میں آکر بھی ہمارا ملک چھٹی صدی عیسوی میں کھڑا ہے۔ کونسا محکمہ ہے جو ترقی کی راہوں پر گامزن ہے سوائے چوربازاری کے؟ تو پھر ہم کئی سو سال پہلے مرے ہوئے بادشاہ کو آج کوسنے کے حق دار ہیں؟
ایک وینا ملک نے ہندوستانی فلموں میں بیہودگی دکھائی ہے تو ملک بھر میں اسکے خلاف باتیں ہوئی ہیں، فتوے تک دلوائے گئے ہیں، ذرا اپنے اپنے گریبانوں میں جھانک کر دیکھیے، کیا آپ اپنے گھروں میں وہی بیہودہ اور عریانی سے بھرپور ہندوستانی فلمیں نہیں دیکھتے؟دو کپڑوں میں ناچتی ہوئی عریاں ہیروئین دیکھ کر عش عش کر اٹھتے ہیں کہ کیا ڈانس کرتی ہے، کیا یہ جائز ہے؟ یا ان کے لیے اپنے ضمیروں کو خاموش کروا لیتے ہیں کہ یہ تو انٹرٹینمنٹ ہے؟ وینا ملک کے لیے ہمارا قومی شعور جاگ اٹھتا ہے کہ اس نے پاکستان کو بدنام کروایا ہے، مگر ہمارے کرکٹرز جو کارنامے سرانجام دے رہے ہیں، انہیں ہم دشمن کی سازش کا نام دے کر اپنے آپ کو مطمئن کر لیتے ہیں؟ آپ میں میری طرح اتنا حوصلہ ہے کہ ان واہیات فلموں کا ہمیشہ ہمیشہ کے لیے بائیکاٹ کریں؟
واویلا مچایا جاتا ہے کہ انگریزوں اور امریکیوں نے ہمیں تباہ کر دیا، کبھی ہم نے اپنی رگوں میں چھپے ہوئے اِن ناسوروں کو دیکھا ہے؟
Sheikh Mansour buys Manchester City
یہ ابوظہبی کا وہ عیاش خاندان ہے (اس خاندان کے متعلق میں اپنے ایک دوسرے مضمون میں بھی لکھ چکا ہوں کہ اس خاندان نے رحیم یارخان میں جنسی عیاشی کے جو اڈے بنا رکھے ہیں) جس نے انگلینڈ کے ایک گھٹیا کلب کوکھربوں میں خرید کر اسے راتوں رات دنیا کا امیر ترین فٹبال کلب بنا دیا۔تصویر کے نیچے دئیے گئے حاشیے پر ذرا غور کیجیے!!! اب تک خریدے جانے والے کھلاڑیوں کی جو قیمت ان عربوں نے پے کی ہے، اسکی مالیت تقریبا 800 میلین پونڈ بتائی جاتی ہے، اسکے بعد ایک ایک کھلاڑی کو جو تنخواہ دی جارہی ہے اسکا اندازہ کیجیے:-
ایک کافر کو ایک ہفتے کا تقریبا دولاکھ پونڈ دئیے جا رہے ہیں ، جو کہ اِن عیاش عربوں کی جیب سے نکل رہے ہیں۔ یہ وہ کلب ہے جو اپنے اخراجات بھی بامشکل پورے کر پاتا تھا، میری انگلش فٹبال میں بہت گہری دلچسپی ہے اور میں اس ٹیم کے ایک ایک کھلاڑی کی نسبت جانتا ہوں کہ یہ انتہائی اوسط درجے کے کھلاڑی ہیں، مگر اس وقت دنیا کے امیر ترین فٹبالر ہیں، مانچسٹر سٹی شیخ منصور کو پیار کیوں نہ کرے؟؟؟
یہ مالاگا جو سپین کا ایک نہ تین نہ تیرہ میں کلب ہے، اسے راتوں رات امیر بنانے کی تصویر ہے۔
ابوظہبی کے شیخوں نے مانچسٹرسٹی خریدا تو کویتی شیخوں نے کہا کہ ہم کیوں کسی سے دور رہیں، انہیں نے فرانس میں پی ایس جی کو خرید لیا، ایک کلب جو مانچسٹرسٹی کی طرح کسمپرسی کی زندگی گزار رہا تھا، اسے شیخوں نے مالامال کر دیا، اور اب جو بھی بڑے نام کا کھلاڑی ریٹائرمنٹ کے قریب ہوتا ہے اسے ایسے کلب خرید لیتے ہیں اور مالامال کر دیتا ہے، بیوقوف کون بنے مسلمان!
جب انگلش سپورٹس چینلSky Sports Newsپر ناٹنگھم فارسٹ کے ایک اور کویتی شیخ کے ہاتھوں بیچے جانے کی خبر آئی تو اس کلب کے شائقین مستی میں جھوم اٹھے اور یہ تاثر ان کے زبان پر تھا کہ"ہمیں کیا کہ شیح الحساوی کون ہے؟ ہمیں تو صرف پیسے سے غرض ہے"۔ ذرا سی این این کے اس خبر پر غور کیجیے:-
ہم میں سے کتنے باغیرت مسلمانوں نے اس وقت ماتھے پر شنکیں ڈالیں تھیں، جب قطر کے عیاشوں نے وورلڈکپ 2022 کے انعقاد کے لیے فیفا کے کرپٹ صدر سیپ بلیٹر کو لاکھوں کی رشوت دیکر فٹبال کا یہ ٹورنامنٹ قطر میں منعقد کروانے کی اجازت لی؟
کیا یہ اہل اسلام کے شایانِ شان ہے؟
یہ چند ایک تراشے امت مسلمہ کے اصل دشمنوں اور ناسوروں کو اجاگر کرنے کے لیے کافی ہیں، مگر کیا ہم میں سے کسی کے کان پر جوں تک رینگی ہے کہ ان عربوں نے اسلام کے اثاثے اس قوم پر لٹانے کی ٹھانی ہوئی ہے جو ان ہی کی رقم سے پیسے نکال کر یہودیوں کو دیتی ہے اور پھر وہی یہودی اصلحہ کے انبار کھڑے کر کے فلسطینوں اور لبنانیوں پر برسا رہے ہیں، مسلمانوں کے قاتل کون ہیں؟ یہودی یا مسلمان خود؟ سعودیہ کی حکومت پچھلے کئی برسوں سے امریکہ کے بجٹ کا چھ فیصد حصہ برداشت کر رہی ہے، وہ پیسے جو افغانیوں پر اور عراقیوں پر آگ بن کر برس رہے ہیں،مگر ہماری جرات نہیں کہ ہم احتجاج کر سکیں۔
یہ جتنا بھی پیسہ عیاشی اور کھیل تماشے پر خرچ ہو رہا ہے، اگر اسکا ایک تہائی بھی اسلام کی بقا کے لیے خرچ کیا جائے تو کیا مجال ہے کہ مسلمان کسمپرسی کی زندگی گزاریں؟ مگر اِن ناسوروں کا دماغ انگریزوں نے اس طرح محسور کیا ہوا ہے کہ انہیں عیاشی کی طرف لگائے رکھو، اگر اسلامی دنیا میں ایک سائنس کی رصدگاہ تعمیر ہوگئی تو کہیں مسلمان ہم سے بہتر اصلحہ نہ تیار کر لیں، کہیں مسلمان فلاسفر نہ پیدا کر لیں۔کہیں مسلمان پھر سے بیدار نہ ہوجائیں ، انہیں اسی کھیل تماشے میں لگائے رکھو۔
فرق صرف سوچ کا ہے۔
رہی سہی کسر ہم مسلمان خود پوری کر رہے ہیں۔ رمضان المبارک کا بابرکت اور رحمتوں سے بھرا مہینہ جب بھی آتا ہے، ہمارے میڈیا پر خیراتی انجمنیں ڈیرہ ڈال دیتی ہیں، ٹوٹے پھوٹے، معذور، لنگڑے لولے، اندھے لوگ دکھا کراور اوپر سے قرآن کی آیتیں سنا سنا کر اللہ کے غضب کا خوف دلا کر عام سطح کے لوگوں سے پیسہ بٹورا جاتا ہے۔
وہ لوگ جو hand-to-mouth ہوتے ہیں انہیں ذہنی ٹارچر کیا جاتا ہے۔ کئی کئی گھنٹے ایک چینل پر پروگرام پیش کیا جاتا ہے اور اس سے جو آمدنی ہوتی ہے وہ چینل والے بھی لیتے ہیں، ایڈمینسٹریشن میں بھی جاتی ، کچھ اوپر کے اخراجات پورے کیے جاتے ہیں اور باقی اگر کچھ بچتا ہے تو وہ اصل مستحقین تک پہنچتا ہے۔ کبھی ان خیراتی اداروں نے شیخ منصور کا دروازہ کھٹکایا ہے؟ کیا اسے خدا کا خوف دلایا ہے کہ کافروں پر کھربوں ڈالر خرچنے کی بجائے امتِ مسلمہ کی فکر کرے؟کیا کبھی حکومتِ سعودیہ کو یہ پوچھا گیا ہے کہ وہ امریکی بجٹ کا چھ فیصد کیوں ادا کررہے ہیں؟ ؟؟
کبھی ہم نے فیس بک پراپنے ملک کے عیاشوں، عرب عیاشوں کے لمحہ فکریہ کی حد تک بڑھتی ہوئی بے غیرتی کو بے نقاب کیا ہے؟؟
نہیں؟ تو پھر کئی ایک سو سال پہلے مرے ہوئے شاہجان بادشاہ، جو انصاف کرنےمیں لاثانی تھا، اور جسکے دورِ حکومت کو مغلوں کی گولڈن ایج کہا جاتا ہے، اسے اکیسویں صدی میں کوسنے سے فائدہ؟؟ سچ کہافرق صرف سوچ کا ہے۔
فرق صرف سوچ کا ہے!
میں نے ایک مدت ہوئی لکھنا چھوڑ دیا، کیونکہ ہم ایک ایسے معاشرے میں رہتے ہیں جہاں چار جماعتیں پڑھ کر ہر بندہ یہ سمجھ بیٹھا ہے جیسا وہ عقل و شعور کی ایک ایسی بلندی پر جا پہنچا ہے، جہاں اسے کسی دوسرے کے تجربے سے سیکھنااور اس پر عمل کرنا تو درکنار، اس کی بات کو سوچنے ، سمجھنے اور پرکھنے کی بھی حاجب نہیں رہی۔ ایسے میں لکھ کر قلم کی سیاہی ختم کرنا اور ورق کو کالا کرنا باعثِ ندامت کے اور کچھ نہیں۔
مگر آج فیس بک پر کسی صاحب کی ایک پوسٹ نے پھر سے قلم اٹھانے پر مجبور کر ہی دیا۔ پہلے ان صاحب کی پوسٹ دیکھ لیجیے:
شاہجان کو مرے کئی ایک سو سال گزر چکے ہیں، وہ کیسا بادشاہ تھا، کیسا حکمران تھا، اس نے کیا کیا، کیا نہیں کیا، یہ سب ماضی کا حصہ بن چکا ہے، اب شاہجان کو کوسنے سے فائدہ؟ اس کو اللہ تعالیٰ نے جتنی مہلت دینی تھی، دیدی، اب اسکے حساب کا وقت ہے اور یہ بھی اللہ تبارک تعالیٰ پر ہے کہ وہ اسکا کیسا حساب لے گا۔
(ان صاحب کا قصہ بھی بتاتا چلوں کہ میں انکی فیس بک پر یہ امیج لینے کے لیے گیا، انہوں نے مجھے چیٹ کے لیے پنگ کیا، اور جو پہلا جملہ لکھا وہ انگریزی میں "hay" تھا۔ میں نے جوابا لکھا کہ "I think you should say Assalamo Allaikum" اسکے بعد ان صاحب نےکوئی جواب نہ دیا اور لوگ آف کر گئے ، فرق ہے صرف سوچ کا)۔
آتے ہیں اصل موضوع کی طرف، کیا ہم نے کبھی اپنے حال پر نگاہ دوڑائی ہے؟ کیا ہم نے اپنے موجودہ دور کے حکمرانوں کے قرتوت دیکھے ہیں؟ ہمارے اپنے ملک میں کتنے کینسر ہسپتال ہیں جو سرکاری سطح پر کام کررہے ہیں؟ 2012 میں آکر بھی ہمارا ملک چھٹی صدی عیسوی میں کھڑا ہے۔ کونسا محکمہ ہے جو ترقی کی راہوں پر گامزن ہے سوائے چوربازاری کے؟ تو پھر ہم کئی سو سال پہلے مرے ہوئے بادشاہ کو آج کوسنے کے حق دار ہیں؟
ایک وینا ملک نے ہندوستانی فلموں میں بیہودگی دکھائی ہے تو ملک بھر میں اسکے خلاف باتیں ہوئی ہیں، فتوے تک دلوائے گئے ہیں، ذرا اپنے اپنے گریبانوں میں جھانک کر دیکھیے، کیا آپ اپنے گھروں میں وہی بیہودہ اور عریانی سے بھرپور ہندوستانی فلمیں نہیں دیکھتے؟دو کپڑوں میں ناچتی ہوئی عریاں ہیروئین دیکھ کر عش عش کر اٹھتے ہیں کہ کیا ڈانس کرتی ہے، کیا یہ جائز ہے؟ یا ان کے لیے اپنے ضمیروں کو خاموش کروا لیتے ہیں کہ یہ تو انٹرٹینمنٹ ہے؟ وینا ملک کے لیے ہمارا قومی شعور جاگ اٹھتا ہے کہ اس نے پاکستان کو بدنام کروایا ہے، مگر ہمارے کرکٹرز جو کارنامے سرانجام دے رہے ہیں، انہیں ہم دشمن کی سازش کا نام دے کر اپنے آپ کو مطمئن کر لیتے ہیں؟ آپ میں میری طرح اتنا حوصلہ ہے کہ ان واہیات فلموں کا ہمیشہ ہمیشہ کے لیے بائیکاٹ کریں؟
واویلا مچایا جاتا ہے کہ انگریزوں اور امریکیوں نے ہمیں تباہ کر دیا، کبھی ہم نے اپنی رگوں میں چھپے ہوئے اِن ناسوروں کو دیکھا ہے؟
Sheikh Mansour buys Manchester City
یہ ابوظہبی کا وہ عیاش خاندان ہے (اس خاندان کے متعلق میں اپنے ایک دوسرے مضمون میں بھی لکھ چکا ہوں کہ اس خاندان نے رحیم یارخان میں جنسی عیاشی کے جو اڈے بنا رکھے ہیں) جس نے انگلینڈ کے ایک گھٹیا کلب کوکھربوں میں خرید کر اسے راتوں رات دنیا کا امیر ترین فٹبال کلب بنا دیا۔تصویر کے نیچے دئیے گئے حاشیے پر ذرا غور کیجیے!!! اب تک خریدے جانے والے کھلاڑیوں کی جو قیمت ان عربوں نے پے کی ہے، اسکی مالیت تقریبا 800 میلین پونڈ بتائی جاتی ہے، اسکے بعد ایک ایک کھلاڑی کو جو تنخواہ دی جارہی ہے اسکا اندازہ کیجیے:-
ایک کافر کو ایک ہفتے کا تقریبا دولاکھ پونڈ دئیے جا رہے ہیں ، جو کہ اِن عیاش عربوں کی جیب سے نکل رہے ہیں۔ یہ وہ کلب ہے جو اپنے اخراجات بھی بامشکل پورے کر پاتا تھا، میری انگلش فٹبال میں بہت گہری دلچسپی ہے اور میں اس ٹیم کے ایک ایک کھلاڑی کی نسبت جانتا ہوں کہ یہ انتہائی اوسط درجے کے کھلاڑی ہیں، مگر اس وقت دنیا کے امیر ترین فٹبالر ہیں، مانچسٹر سٹی شیخ منصور کو پیار کیوں نہ کرے؟؟؟
یہ مالاگا جو سپین کا ایک نہ تین نہ تیرہ میں کلب ہے، اسے راتوں رات امیر بنانے کی تصویر ہے۔
ابوظہبی کے شیخوں نے مانچسٹرسٹی خریدا تو کویتی شیخوں نے کہا کہ ہم کیوں کسی سے دور رہیں، انہیں نے فرانس میں پی ایس جی کو خرید لیا، ایک کلب جو مانچسٹرسٹی کی طرح کسمپرسی کی زندگی گزار رہا تھا، اسے شیخوں نے مالامال کر دیا، اور اب جو بھی بڑے نام کا کھلاڑی ریٹائرمنٹ کے قریب ہوتا ہے اسے ایسے کلب خرید لیتے ہیں اور مالامال کر دیتا ہے، بیوقوف کون بنے مسلمان!
جب انگلش سپورٹس چینلSky Sports Newsپر ناٹنگھم فارسٹ کے ایک اور کویتی شیخ کے ہاتھوں بیچے جانے کی خبر آئی تو اس کلب کے شائقین مستی میں جھوم اٹھے اور یہ تاثر ان کے زبان پر تھا کہ"ہمیں کیا کہ شیح الحساوی کون ہے؟ ہمیں تو صرف پیسے سے غرض ہے"۔ ذرا سی این این کے اس خبر پر غور کیجیے:-
ہم میں سے کتنے باغیرت مسلمانوں نے اس وقت ماتھے پر شنکیں ڈالیں تھیں، جب قطر کے عیاشوں نے وورلڈکپ 2022 کے انعقاد کے لیے فیفا کے کرپٹ صدر سیپ بلیٹر کو لاکھوں کی رشوت دیکر فٹبال کا یہ ٹورنامنٹ قطر میں منعقد کروانے کی اجازت لی؟
کیا یہ اہل اسلام کے شایانِ شان ہے؟
یہ چند ایک تراشے امت مسلمہ کے اصل دشمنوں اور ناسوروں کو اجاگر کرنے کے لیے کافی ہیں، مگر کیا ہم میں سے کسی کے کان پر جوں تک رینگی ہے کہ ان عربوں نے اسلام کے اثاثے اس قوم پر لٹانے کی ٹھانی ہوئی ہے جو ان ہی کی رقم سے پیسے نکال کر یہودیوں کو دیتی ہے اور پھر وہی یہودی اصلحہ کے انبار کھڑے کر کے فلسطینوں اور لبنانیوں پر برسا رہے ہیں، مسلمانوں کے قاتل کون ہیں؟ یہودی یا مسلمان خود؟ سعودیہ کی حکومت پچھلے کئی برسوں سے امریکہ کے بجٹ کا چھ فیصد حصہ برداشت کر رہی ہے، وہ پیسے جو افغانیوں پر اور عراقیوں پر آگ بن کر برس رہے ہیں،مگر ہماری جرات نہیں کہ ہم احتجاج کر سکیں۔
یہ جتنا بھی پیسہ عیاشی اور کھیل تماشے پر خرچ ہو رہا ہے، اگر اسکا ایک تہائی بھی اسلام کی بقا کے لیے خرچ کیا جائے تو کیا مجال ہے کہ مسلمان کسمپرسی کی زندگی گزاریں؟ مگر اِن ناسوروں کا دماغ انگریزوں نے اس طرح محسور کیا ہوا ہے کہ انہیں عیاشی کی طرف لگائے رکھو، اگر اسلامی دنیا میں ایک سائنس کی رصدگاہ تعمیر ہوگئی تو کہیں مسلمان ہم سے بہتر اصلحہ نہ تیار کر لیں، کہیں مسلمان فلاسفر نہ پیدا کر لیں۔کہیں مسلمان پھر سے بیدار نہ ہوجائیں ، انہیں اسی کھیل تماشے میں لگائے رکھو۔
فرق صرف سوچ کا ہے۔
رہی سہی کسر ہم مسلمان خود پوری کر رہے ہیں۔ رمضان المبارک کا بابرکت اور رحمتوں سے بھرا مہینہ جب بھی آتا ہے، ہمارے میڈیا پر خیراتی انجمنیں ڈیرہ ڈال دیتی ہیں، ٹوٹے پھوٹے، معذور، لنگڑے لولے، اندھے لوگ دکھا کراور اوپر سے قرآن کی آیتیں سنا سنا کر اللہ کے غضب کا خوف دلا کر عام سطح کے لوگوں سے پیسہ بٹورا جاتا ہے۔
وہ لوگ جو hand-to-mouth ہوتے ہیں انہیں ذہنی ٹارچر کیا جاتا ہے۔ کئی کئی گھنٹے ایک چینل پر پروگرام پیش کیا جاتا ہے اور اس سے جو آمدنی ہوتی ہے وہ چینل والے بھی لیتے ہیں، ایڈمینسٹریشن میں بھی جاتی ، کچھ اوپر کے اخراجات پورے کیے جاتے ہیں اور باقی اگر کچھ بچتا ہے تو وہ اصل مستحقین تک پہنچتا ہے۔ کبھی ان خیراتی اداروں نے شیخ منصور کا دروازہ کھٹکایا ہے؟ کیا اسے خدا کا خوف دلایا ہے کہ کافروں پر کھربوں ڈالر خرچنے کی بجائے امتِ مسلمہ کی فکر کرے؟کیا کبھی حکومتِ سعودیہ کو یہ پوچھا گیا ہے کہ وہ امریکی بجٹ کا چھ فیصد کیوں ادا کررہے ہیں؟ ؟؟
کبھی ہم نے فیس بک پراپنے ملک کے عیاشوں، عرب عیاشوں کے لمحہ فکریہ کی حد تک بڑھتی ہوئی بے غیرتی کو بے نقاب کیا ہے؟؟
نہیں؟ تو پھر کئی ایک سو سال پہلے مرے ہوئے شاہجان بادشاہ، جو انصاف کرنےمیں لاثانی تھا، اور جسکے دورِ حکومت کو مغلوں کی گولڈن ایج کہا جاتا ہے، اسے اکیسویں صدی میں کوسنے سے فائدہ؟؟ سچ کہافرق صرف سوچ کا ہے۔
Comment