کالا جادو اور عوام
کالاجادو او رٹونا کرنے والوں نے صوبائی دارلحکومت میں ہزاروں کی تعداد میں ڈیرے بنا لیے جعلی عاملوں اور جادوگروں نے اپنے جادو ٹونے اور موکلوں کے زور پر ایک خوفناک عفریت کی شکل اختیار کر لی اور آکٹوپس کی مانند معصوم لوگوں کو اپنے شکنجے میں جکڑ کر نہ صرف انھیں لوٹنا شروع کر دیا بلکہ مخالفین سے بھاری رقوم لے کر کالے جادو اور زہریلے تعویزوں کے ذریعے لوگوںکے گھر برباد کرناشروع کر دیے معاشی اور سماجی بے چینیوں میں مبتلا لوگ روزی اور روٹی کی طلب میں ان باتونی اور چالباز عاملوں کی باتوں میں آ کر نہ صرف حقیقت کی دنیا سے دور ہو جاتے ہیں بلکہ اپنا دین اور ایمان بھی گنواءدیتے ہیں جبکہ خواتین اپنی عزتوں سے ہاتھ دھو بیٹھی ہیں ۔دیکھتی آنکھوں اس ہونے والے ظلم اور زیادتی کے خلاف نہ کبھی کسی مذہبی یا سماجی تنظیم نے ان لوگوں کے خلاف آواز بلند کی اور نہ ہی کسی سرکاری ادارے نے ان کے خلاف کاروائی کی۔گڑھی شاہو میں عامل قادری باوا نامی ایک عامل نے جادو کے ذریعے واپڈا کے ملازم کو محکمانہ ترقی دلوانے کا جھانسہ دیکر ایک لاکھ باسٹھ ہزار روپے سے محروم کر دیا اور واپسی کا تقاضہ کرنے پر سنگین نتائج کی دھمکیاں دینی شروع کردی ۔پولیس سے رجوع کرنے پر پولیس نے بھی جھوٹے عامل کے خلاف کاروائی کرنے سے انکار کر دیا۔نشاط کالونی کینٹ کا رہائشی واپڈا کا سب انجینئر محمد یوسف اپنی محکمانہ ترقی کا منتظر تھا مگر اسے کوئی راہ نہیں دکھائی دے رہی تھی چنانچہ اس نے کسی شخص سے سنا کہ تاج سنیما کے قریب عامل قادری باوا نامی ایک عامل ہے جو اپنے علم کے ذریعے ہر کام چند دنوں میں کروا دیتا ہے چنانچہ محمد یوسف بھی اپنی دلی مراد لیکر اس کے ٹھکانے پر پہنچ گیا ۔عامل باوا نے اپنی چکنی چپڑی باتوں سے محمد یوسف کو اپنے جال میںپھنسا لیا اور اس سے وقتاً فوقتاً ایک لاکھ باسٹھ ہزار روپے لے لیے اور وعدہ کیا کہ صرف سات یوم میں کام ہو جائے گا وگرنہ رقم واپس کر دوں گا جس پر محمد یوسف نے اس سے رقم کی وصولی کی رسید بھی لے لی مگر ترقی نہ دلوا سکنے پر محمد یوسف نے اپنی رقم کی واپسی کا مطالبہ کیا مگر اس نے ٹال مٹول کرنا شروع کر دی چنانچہ محمد یوسف نے دیگر لوگوں کے ذریعے عامل سے اپنی رقم کی واپسی کا مطالبہ شروع کر دیا جس پر عامل نے 11مارچ کو 2004کو ایک اقرار نامہ بحق محمد یوسف تحریر کر دیا کہ 25مارچ تک وہ رقم واپس کر دے گا مگر اس نے حسب وعدہ رقم واپس نہ کی ۔آخر کار 14ہزار روپے اور دو عدد سونے کی چوڑیاں دیکر بقایا رقم دینے کا وعدہ کر لیا مگر رقم نہ دے سکا ۔اور محمد یوسف اور اس کے اہل خانہ کو سنگین نتائج کی دھمکیاں دینی شروع کر دی جس پر محمد یوسف نے تھانہ قلعہ گجر سنگھ میں اس کے خلاف درخواست دی مگر پولیس نے عامل کے خلاف کسی بھی قسم کی کوئی کاروائی کرنے سے انکار کر دیا ۔
محمد یوسف کے بیٹے بشارت حسین کا کہنا ہے کہ جعلی عامل نے اپنی باتوں سے میرے والد کو ورغلا کر ان سے ایک لاکھ باسٹھ ہزار روپے بٹور لیے۔ جب ہم نے اس سے رقم کی واپسی کا مطالبہ کیا تو اس نے ہمیں مختلف غنڈوں سے دھمکیاں دینی شروع کر دی اور کہا کہ اگر اب رقم کی واپسی کا مطالبہ کیا تو جھوٹے مقدمات مین ملوث کروا دوں گا ۔ انھوں نے مزید بتایا کہ جعلی عامل جسکا اصل نام ندیم قادری ہے مگر اب سہیل قادری کے نام سے لوگوں کو لوٹ رہا ہے جبکہ باوا کہلاتا ہے۔ انھوں نے بتایا کہ جب پہلی مرتبہ اس کے پاس گیا تو مجھے کسی بھی طرح کوئی عامل نظر نہیں آیا بلکہ وہ ایک فراڈیا ہے جو لوگوں سے فراڈ کرتا ہے۔
سہیل احمد قادری عرف عامل قادری باوا نے بتایا کہ میری عمر اس وقت 24سال ہے اور میں 14سال کی عمر سے یہ کام کر رہا ہوں میرے والد اور دادا بھی یہی کام کرتے تھے۔ انھوں نے بتایا کہ محمد یوسف نامی شخص کے میں نے کوئی پیسے نہیں دینے بلکہ یہ میرے پاس جادو کے ذریعے اپنے کسی دشمن کو مروانے کے لئے آیا تھا جو میں نے انکار کر دیا جس پر یہ میرا دشمن بن گیا اور ایک دن یہ اپنے آدمیوں کے ساتھ آیا اور مجھے گن پوائینٹ پر اغوا کر کے لے گیا اور زبردستی مجھ سے ایک لاکھ باسٹھ ہزار روپے کی ادائیگی کا اشٹام پیپر مجھ سے دستخط کر وا لیا۔انھوں نے بتایا بعد میں پھر یہ لوگ آئے اور گن پوائینٹ پر میرے دفتر سے میرا موبائل اور دو عدد سونے کی چوڑیا ں بھی لے گئے تھے۔ انھوں نے بتایا کہ میں نے ان کے خلاف پولیس کو درخواست دی تھی مگر کوئی کاروائی نہیں ہوئی۔
تھانہ قلعہ گجر سنگھ سے معلوم کر نے پر پتہ چلا کہ کسی بھی پارٹی نے کبھی بھی کوئی درخواست نہیں دی ۔ڈیوٹی محرر نے بتایا کہ اگر کوئی ہمارے پاس درخواست لیکر آے گا تو ہم ضرور قانونی کاروائی کریں گے۔
لاہور شہر میں 5 ہزار سے زاہد افراد نے جادو ٹونے کرنے کے ڈیرے بنائے ہوئے ہیں جبکہ بہت سے لوگوں نے یہ دھندا اپنے گھروں پر شروع کیا ہوا ہے جادو کی تاریخ انسانی تاریخ کی مانند بہت قدیم ہے جادو ایک علم ہے جس کے ذریعے لوگوں کے دلوں میں وسوسے پیدا کر کے انھیں سیدھے راستے سے بھٹکایا جاتا ہے اور یہ کہنا غلط نہیں ہو گا کہ جادو کابانی ابلیس تھا جس نے انسانوں کے دلوں میں وسوسے ڈالے اور انہیں گمراہ کرنے کا چیلنج کیا تھا اور خدا نے اس کے وسوسوں سے بچنے کی تاکید کی تھی حضرت موسی ؑکے دور میں سامری جادو گر بہت مشہور تھا مگر حضرت موسیؑ کی خدائی طاقت اور ایمان کے سامنے اس کی تمام شعبدے بازیاں کام نہ کر سکیں ۔وقت کے ساتھ ساتھ جیسے حق کی قوتیں کام کرتی رہیں ویسے ہی بدی کی طاقتیں بھی اپنا اثرورسوخ بڑھاتی رہیں ،حق کے ماننے والے نوری علم سے جہاں پر لو گوں کے مسائل حل کرنے میں لگے ہوئے ہیںاور قرآن کی تعلیم کے ذریعے انہیں ذہنی آسودگی دیتے ہیں وہاں پر بدی کا ساتھ دینے والے شیطانی علوم سے عوام الناس کو مختلف مصائب میں مبتلا کرتے رہتے ہیں یہ لوگ نہ صرف کالے علم کی مختلف اقسام جیسے جنتر، منتر اور تنتر سے لوگوں کے دلوں میں وسوسے ڈال کر گمراہ کرتے ہیں بلکہ گندی روحوں ، موکلوں اور د یگر کالی شکتیوں جیسے ہنومان ،کھیترپال ،بھیرو، ناگ دیوتا ، لوناچماڑی، چڑیل، لکشمی دیوی ، کالا کلوا ، پاروتی دیوی ، کلوسادھن، پیچھل پیری ،ڈائن ،ہر بھنگ آکھپا جیسی دیگر بلاﺅں کے ذریعے لوگوں کے دلوں میں وسوسے ڈال کر ایک دوسرے کا مخالف بنا دیتے ہیں اور اس کے عوض ان سے ہزاروں روپے بٹورتے ہیں جبکہ بعض چالباز اور دولت کے پجاری عامل زہر سے لکھ کر تعویز دیتے ہیں جس کو گھول کر پینے والا نہ صرف مختلف قسم کی بیماریوں میں مبتلا ہو جاتا ہے بلکہ بسااوقات ہلاک ہو جاتا ہے اور بعض اوقات زہر کے اثر کی وجہ سے پاگل ہوجاتاہے اور بعض اوقات عالم دیوانگی میں خود کشی کر کے ہلاک ہوجاتا ہے ۔لاہور شہرکاکوئی ایسا محلہ ،گلی ،بازار یا علاقہ نہیں ہے کہ جہاں پر کالے علم کے ذریعے کام کرنے والے جادوگر موجود نہ ہوں۔ معاشی ،سماجی اور گھریلو حالات سے پریشان ہو کر لوگ ان کے پاس چلے جاتے ہیں اور ان کی چکنی چپڑی باتوں میں آ کر اپنا سب کچھ حتی کہ دین اور ایمان بھی گنواءبیٹھے ہیں جبکہ عورتیں گھریلو جھگڑوں جیسے شوہر بیوی کی ناچاقی ، ساس سسر کا مسلہ، نندوںکے طعنوں سے تنگ آ کر ان کے پاس جاتی ہیں جن میں سے اکثر اپنی عزت بھی گنواءدیتی ہیں ۔یہ کالے جادوگر لوگوں کو اپنی طرف راغب کرنے کیلئے بلند وبانگ دعوے کرتے ہیں اور خود کو روحانی سکالر ، روحانی ڈاکڑ، عاملوں کا سردار ،جنات کا بادشاہ ،موکلوں کامالک اور زندہ پیر کامل اور جنات والے ظاہر کرتے ہیں اور اپنا تعلق بنگال،کیرالا، کالی گھاٹ ،تبت، نیپال اور سندر کے ہندو پجاریوں سے ملاتے ہیں جبکہ بعض جعلی عامل خود کو حکومت کا منظور شدہ عامل بتلاکر پرائز بانڈ کا نمبر دینے کا دھندا بھی کرتے ہیں اور لوگوں کو دھوکہ دیکر ان سے ہزاروں روپے بٹور لیتے ہیں جبکہ بعض فراڈیوں نے اپنے ڈیروں پر ایسے مرد اور عورتیں ملازم رکھی ہوئیں ہیں جو ضروت مندوں کا ورغلا کر لاتے ہیں یہ لوگ مجبوروں سے پیسے بٹور کر ان سے کام ہونے کے عوض ایسی ایسی شرائط بھی رکھ دیتے ہیں جو ناممکن ہوتی ہیں ان لوگوں کی وجہ سے آج ہر دسواں گھر نت نئے مسائل میں مبتلا ہو چکا ہے اور معاشرے میں کفر اور شرک پھیلانے کا سبب بھی بن رہے ہیں ان کا خلاف آج تک کبھی کسی مذہبی یا سماجی تنظیم نے کوئی آواز بلند نہیں کی اور نہ ہی کسی سرکاری ادارے نے کوئی کاروائی کی لوگ ان کے ہاتھوں لٹ رہے ہیں اور لٹتے ہیں گئے ۔
جبکہ عبداللہ شاہ نامی ایک عامل کا کہنا ہے کہ انسان اشرف المخلوقات ہے اور یہ تمام علوم پر بھاری رہتا ہے اب یہ انسان کی مرضی ہے کہ وہ فلاح کے راستے کا انتخاب کرے یا بربادی کا راستہ چنے ۔انھوں نے بتایا کہ ہر انسان میں مختلف حِس پائی جاتی ہیں اور کوئی حِس کسی میں کم ہوتی ہے اور کسئی کسی میں زیادہ پائی جاتی ہیں جیسے سونگھنے کی حِس کسی میں کم اور کسی میں زیادہ ہوتی ہے ۔یہ بات قابل ذکر ہے کہ نہ صرف ہرانسان سے بلکہ ہر ذی روح سے ہر وقت مختلف نوعیت کی لہریں خارج ہوتیں رہتی ہیں جن کا دوسرے ذی روح پر اثر ہوتا ہے۔اب اگر کوئی شخص کسی کے بارے میں اچھی سوچ رکھتا ہے تو اس سے خارج ہونے والی لہریں دوسرے پر اثر کریں گی کسی کے حق میں دعا کرنا یا بد دعا دینا اس کی مثال ہے۔انھوں نے بتایا کہ جہاں تک کالے علم کا تعلق ہے تو یہاں کے لوگ اس سے زیادہ متاثر ہوتے ہیں اور اگر کوئی کالا علم کا دعویٰ کرتا ہے تو لوگ اس سے رجوع کرتے ہیں اس کی سب سے بڑی وجہ تو وہی ہے کہ ہمارا ایمان کمزور ہوتا ہے اور دوسرے کیونکہ چھ سات سو سال قبل یہاں سب ہندو ہوتے تھے اور بعد میں مسلمان ہوئے تو ابھی تک ہم انھی کی تعلیم اور ٹوٹکوں سے متاثر ہیں جیسے ابھی تک بعض افراد کالی بلی کا سامنے سے گزرنا نحوست سمجھتے ہیں حالانکہ ایسی کوئی بات نہیں ۔انھوں نے کہا کہ ایسے جادوگروں کا خاتمہ ہونا چاھیے جو غریبوں کو لوٹتے ہیں ان کے خاتمے کے لئے قانون بنایا جانا ضروری ہے۔
ضلع شیخوپورہ کے علاقے مریدکے میں اپریل 2004سے اب تک چار سال سے چھ سال کی عمر کے چھ بچے ہلاک ہو چکے ہیں ۔ان سب کے قتل میں ایک بات مشترک ہے کہ ان سب کے کسی نے چھری سے گلے کاٹے ہیں اور ان قتلوں کے بارے میں اکثر لوگوں کی یہی رائے ہے کہ کسی جادو یا ٹونے میں ان بچوں کا خون استعمال کرنے کے لئے انھیں قتل کیا گیا ہے ۔گذشتہ دنوں میں لاہور کے علاقے مغل پورہ فتح گڑھ میں الیاس گجر نامی شخص کے پانچ بچے ہو جمعہ کی شام فوت ہوجاتے تھے جبکہ انھیں کسی قسم کی کوئی بیماری وغیرہ بھی نہیں تھی ان اموات کے بارے میں بھی یہی کہا جاتا ہے کہ ان سب بچوں کو کالا جادو کے ذریعے قتل کیا گیا۔شریف پارک لاہور کے ایک گھر میں پتھروں کی بارش کے واقعے نے بھی لاہوریوں کو حیرت زدہ رکھا اور اس کی کوئی عقلی دلیل پیش نہ ہوسکی ۔ اس کے بارے میں بھی یہی کہا جاتا تھا کہ یہ بھی کسی جادو وغیرہ کا اثر تھا ۔وفاقی کالونی کے رہائشی ایک شخص کی زندگی اس وقت اجیرن ہوگئی کہ جب کوئی نادیدہ شے نے اسے تنگ کرنا شروع کردیا اور وہ شے کبھی اس کی بیوی کی شکل میں ظاہر ہو جاتی اور کبھی اس کے گھر آئے مہمانوں کو پریشان کرتی جب اس سلسلے میں ماعلوں سے رجوع کیا گیا تو یہ بھی جادو کا چکر نکلا۔ایسے بے شمار واقعات انسانی زندگی میں ہوتے ہیں کہ جن کی کوئی عقلی دلیل نہیں ہوتی ۔
بھارت میںکالے جادو کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ گذشتہ برس سابقہ حکومت کے وفاقی وزیر سنجے پسوان نے اس علم کو ابتدائی جماعتوں میں نصابی کورس میں شامل کرنے کی سفارش پیش کی تھی جبکہ بھارت میں اب ایسے قبیح فعلوں کی روک تھام کے لئے قانون بھی موجود ہے اور موصوف خود ایم ایس سی فزکس تھے۔ انھوں 26ستمبر2003کو ایک ایسی تقریب میں شرکت کے دوران یہ بات کہی تھی یہ تقریب اُن 51طالب علموں کے اعزاز میں دی گئی تھی جنہوں نے کالے جادو کی ایک اکیڈمی سے تعلیم حاصل کی تھی اس جادوئی تقریب میں لوگوں نے اپنے گلوں میں کالے ناگ ڈال کر آگ پر رقص بھی پیش کیا تھا۔
ہندو مذہب میں کالی ماتا (کالی دیوی) ایک بربادی اور تباہی کی دیوی سمجھی جاتی ہے اس کا مندر مغربی بنگال کے شہر کلکتہ میں واقع ہے اور اسے کالی گھاٹ بھی کہا جاتا ہے۔کالی دیوی اصل میں درگا دیوی کے پسینے سے پیدا ہونے والی سات دیویوں میں سے ایک ہے جبکہ دیگر دیویاں شیراں والی دیوی ، ویشنو دیوی ، لکشمی دیوی ، سرسوتی دیوی ، اورسنتوشی دیوی ہیں۔کالی دیوی ایک کالے سیاہ رنگ کی عورت ہے جو آٹھ ہاتھ رکھتی ہے ایک میں تلوار دوسرے میں انسانی سر اور دیگر ہاتھوں میں بھی مختلف ہتھیار ہوتے ہیں اس کے گلے میں انسانی کھوپٹریوں کا ہار اور بدن پر انسانی چہروں اور بازﺅں کا زیر جامہ ہوتا ہے اس کی آنکھیں سرخ ،گالوں اور سینے پر انسانی خون لگا ہوتا ہے جبکہ ایک انسانی لاش کے اوپر یہ کھڑی ہوتی ہے۔کالی ماتا کے ماننے والے اس کے چرنوں میں قربانی پیش کرتے ہیں جبکہ قدیم دور میں انسانوں کی قربانی بھی بھینٹ کی جاتی تھی اگرچہ اب بھی بنیاد پرست ہندووں کا یہی عقیدہ ہے اور وہ چھپ چھپا کر ایسا کام کرتے رہتے ہیں ۔بھارت کے اخبارات میں ایسی بے شمار خبریں شائع ہوتی رہتی ہیں کہ جن میں ان دیوی دیوتا کے چرنوں میں انسانی بچوں کی بھینٹ کا ذکر ہوتا ہے ۔لاہور کے رہائشی لبھا بھگت نے خبریں انسپکشن ٹیم کو بتایا کہ کالی ماتا بہت طاقت اور قوت رکھنے والی دیوی ہے جو اپنے بچوں کی حفاظت کی خاطر بیرونی طاقتوں کو تباہ و برباد کر دیتی ہے۔ انھوں نے بتایا کہ ہم بالمیکی دیوتا کو ماننے والے ہیں جو اصل میں ہندو مذہب کے بانی تھے اور انھوں نے اپنی رامائن میں آج سے دس ہزار سال پہلے رام جی کے آنے کی پیشین گوئی کی تھی مگر بعد میں ہندو پنڈتوں نے وقت کت ساتھ ساتھ ہندو مذہب میں اپنے غرض و غایت کے تحت تبدیلی کر لی وگرنہ بالمیکی جی مذہب تو امن کا درس دیتا ہے اور کسی انسانی نفس تو کیا کسی دیگر جاندار کو بھی نقصان پہنچانے سے منع کرتا ہے انھوں نے بتایا کہ بالمیکی مذہب میں کوئی ایسا علم نہیں کہ جس میں انسانی خون درکار ہو۔
محمد اکرم شیخ نامی شخص نے کہا کہ اس وقت لاہور میں سیکڑوں افراد کالا جادو کا کام کرتے ہیں دراصل یہ سب شیطان کے پیروکار ہیں انھوں نے بتایا کہ کوئی بھی الہامی مذہب ایسا نہیں ہے کہ جس میں انسانی جان کو نقصان پہنچانے کی ترغیب دی گئی ہوجبکہ تاریخ سے معلوم ہوتا ہے کہ صرف ابلیس نے نے انسانوں کو گمراہ کرنے اور انھیں نقصان پہچانے کا چیلنج کیا تھا جس پر وہ روز ازل سے عمل پیرا ہے اور اس کے لئے ہر دور میں اس نے مختلف حربے استعمال کیے ان شیطانی حربوں میں ایسا علم بھی ہے کہ جسے کالا علم کہا جا سکتا ہے۔ انھوں نے بتایا کہ ایشیا اور افریقہ اور یورپ کی قدیم تاریخ میں بھی کالا علم کاذکر ہے وہاں پر لوگ سے کام لیتے تھے اور ایک وقت ایسا تھا کہ یہ لوگ معاشرے میں سب سے زیادہ قابل عزت سمجھے جاتے تھے جبکہ لوگ ڈر اور خوف کی وجہ سے بھی ان عزت کرتے تھے اور پھر ایسا بھی دور آیا کہ جادوگروں اور جادوگرنیوں کو آگ میں زندہ جلایا جانے لگا کیونکہ یہ معاشرے میں بدی اور برائی پھیلاتے تھے اور لوگوں کو نقصان پہنچاتے تھے۔ انھوں نے کہا اب بھی حکومت کو ایسا قانون بنانا چاہیے کہ ایسے افراد کے خلاف فوری کاروئی کی جائے اور انھیں عبرتناک سزائیں دی جائیں ۔
Comment