جہاد اور اسلام
اسلامی تعلیمات سے یہ حقیقت روز روشن کی طرح واضح ہے کہ جہاد اسلام کا ایک اہم ستون ہے، یہ محض قتال، جنگ یا دشمن کے ساتھ محاذ آرائی کا نام نہیں۔ یہ رکن اس وقت ہر مومن پر فرض ہو جاتا ہے جب کفار مسلمانوں کے خلاف کھلی جنگ پر اتر آئیں، اور ان پر ناحق ظلم و ستم کا بازار گرم کریں۔
جہاد کے لغوی معنی: سعی و کوشش ہے، اﷲ کے راستے میں ہر قسم کی سعی و کوشش اور حق کو سربلند کرنے کے لئے ہر طرح کی جدوجہد ہر مسلمان کے لئے ضروری قرار دی گئی ہے،یہ جدوجہد زبان سے ہو یا قلم سے یا مال سے یا زور بازو سے اس آخری صورت کو جہاد بالسیف اور قتال فی سبیل اﷲ بھی کہا جاتا ہے ،قرآن کریم میں جہاد کا لفظ اپنے مذکور بالا عمومی معنی میں جابجا استعمال ہواہے ؛چنانچہ فرمایا:" اﷲ کے راستہ میں کوشش کا حق ادا کرو" یہاں مسلمانوں سے کہا گیا ہے کہ وہ راہ حق میں تن ، من ، دھن کی بازی لگادیں اور حق کو سربلند کرنے کے لئے جو کچھ کرسکتے ہیں کر گزریں، پھر ضروری نہیں کہ یہ جہا د یا جدوجہد دوسروں ہی کے مقابلہ پر ہو، اپنے خلاف بھی ہوسکتی ہے؛ بلکہ اپنے نفس کو زیر کرنا جو سینہ پر چڑھا بیٹھا ہے؛ چونکہ سب سے زیادہ مشکل ہے اس لئے اسے" جہاد اکبر" سب سے بڑا جہاد قرار دیا گیا ہے ، ارشاد نبوی ہے :
" سب سے بہتر جہاد یہ ہے کہ آدمی اپنے نفس اور اپنی خواہش کے خلاف جہاد کرے"جہاد ایک مسلسل عمل ہے اور اس کی درجِ ذیل اقسام ہیں :
1۔ جہاد بالعلم
3۔ جہاد بالمال
2۔ جہاد بالعمل
4۔ جہادبالنفس
5۔ جہاد بالقتال
1۔ جہاد بالعلم
یہ وہ جہاد ہے جس کے ذریعے قرآن و سنت پر مبنی احکامات کا علم پھیلایا جاتا ہے تاکہ کفر وجہالت کے اندھیرے ختم ہوں اور دنیا رشد و ہدایت کے نور سے معمور ہو جائے۔
2۔ جہاد بالعمل
جہاد بالعمل کا تعلق ہماری زندگی سے ہے۔ اس جہاد میں قول کے بجائے عمل اور گفتار کی بجائے کردار کی قوت سے معاشرے میں انقلاب برپا کرنا مقصود ہے۔ جہاد بالعمل ایک مسلمان کیلئے احکامِ الٰہیہ پر عمل پیرا ہونے اور اپنی زندگی کو ان احکام کے مطابق بسرکرنے کا نام ہے۔
3۔ جہاد بالمال
اپنے مال کو دین کی سر بلندی کی خاطر اﷲ کی راہ میں خرچ کرنے کو جہاد بالمال کہتے ہیں۔
4۔ جہاد بالنفس
جہاد بالنفس بندۂ مومن کیلئے نفسانی خواہشات سے مسلسل اور صبر آزما جنگ کا نام ہے۔ یہ وہ مسلسل عمل ہے جو انسان کی پوری زندگی کے ایک ایک لمحے پر محیط ہے۔ شیطان براہ راست انسان پر حملہ آور ہوتا ہے۔ اگر نفس کو مطیع کر لیا جائے اور اس کا تزکیہ ہو جائے تو انسان شیطانی وسوسوں سے محفوظ رہ سکتا ہے۔
5۔ جہاد بالقتال
یہ جہاد میدانِ جنگ میں کافروں اور دین کے دشمنوں کے خلاف اس وقت صف آراء ہونے کا نام ہے جب دشمن سے آپ کی جان مال یا آپ کے ملک کی سرحدیں خطرے میں ہوں۔ اگر کوئی کفر کے خلاف جنگ کرتا ہوا مارا جائے تو قرآن کے فرمان کے مطابق اسے مردہ نہ کہا جائے بلکہ حقیقت میں وہ زندہ ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے :
وَلاَ تَقُولُواْ لِمَنْ يُقْتَلُ فِي سَبِيلِ اللّهِ أَمْوَاتٌ بَلْ أَحْيَاءٌ وَلَكِن لاَّ تَشْعُرُونَO
اور جو لوگ اللہ کی راہ میں مارے جائیں انہیں مت کہا کرو کہ یہ مردہ ہیں، (وہ مردہ نہیں) بلکہ زندہ ہیں لیکن تمہیں (ان کی زندگی کا) شعور نہیں۔
البقره، 2 : 154
جہاد فی سبیل اللہ در حقیقت دو محاذوں پر روبہ عمل آتا ہے ایک داخلی جہاد اور دوسرا خارجی جہاد : داخلی جہاد سے مراد انسان کا خود اپنے آپ کو پہچاننا اور رب سے ملانا ہے ، جبکہ خارجی جہاد سے مراد ہے دوسرے لوگوں کو ان کی ذات اور رب سے ملانا، پہلی قسم کو جہاد اکبر اور دوسری قسم کو جہاد اصغر کہا جاتا ہے۔ یعنی سب سے پہلے انسان خود کو سمجھے اپنے آپ اور اپنے نفس کے درمیان موجود رکاوٹوں کو عبور کرے یہاں تک کہ معرفت الہی، محبت الٰہی اور روحانی مٹھاس کو پالے ۔ جبکہ دوسری قسم میں ایسی تمام رکاوٹوں کو دور کرنا ہوتا ہے جو انسانیت اور ایمان باللہ کے درمیان حائل ہوں چاہے یہ رکاوٹیں پیہم جد وجہد سے دور ہوں یا قتال سے ، تاکہ انسا ن کو اللہ سے ملا دیا جائے.جہاد کی دونوں قسمیں ایک دوسرے کے ساتھ مربوط ہیںدونوں ہی ایک قسم کی جنگ ہیں.
کفار اور محاربین کے ساتھ جنگ فرض کفایہ ہے۔۔۔ اگر کچھ لوگ یہ فریضہ سر انجام دے رہے ہوں تو باقی لوگوں پرفرض ساقط ہو جاتا ہے۔۔۔ اس لیے کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
اور یہ مناسب نہیں کہ سارے مسلمان نکل پڑیں، پس ایسا کیوں نہ کیا کہ ہر قوم میں سے چند آدمی نکلیں تا کہ دین کی سمجھ حاصل کر سکیں اور جب اپنی قوم میں آئیں تو ان کو ڈرائیں تا کہ وہ (برے کاموں سے) بچ سکیں۔ (سورۃ توبہ آیت نمبر 122)
جہاد صرف میدان جنگ میں جاکر لڑنے کا ہی نام نہیں ہے۔ میدان عمل و اخلاق میں سعی پیہم اور سیاسی و تحقیقاتی امور میں تعاون و شراکت بھی جہاد کا درجہ رکھتی ہے۔ معاشرے میں صحیح طرز فکر اور ثقافت کی ترویج بھی جہاد ہے، کیونکہ دشمن کی جانب سے گمراہ کن اقدامات کا خدشہ رہتا ہے۔ وہ ہماری فکریں منحرف کر سکتا ہے، ہمیں غلطیوں کا شکار بنا سکتاہے۔ جو شخص بھی عوام کی ذہنی بیداری و آگاہی کے لئے کام کرے، فکری انحراف کا سد باب کرے، غلط فہمی پھیلنے سے روکے، چونکہ وہ دشمن کے مد مقابل کھڑا ہے اس لئے اس کی یہ سعی و کوشش جہاد کہلائے گی۔ یہ سب جہاد فی سبیل اللہ کے زمرے میں آتا ہے۔
اسلام ہر سطح پر اور ہر موقع پر احترام انسانیت کا درس دیتا ہے ۔معمولی قسم کی دہشتگردی بھی خلاف اسلام ہے ۔جہاد کا معنی انسان کی نجی و اجتماعی اور ظاہری و باطنی بھلائی کے لیے بھرپور کوشش ہے۔جہاد کا لفظ 35مرتبہ قرآن میں آیا ہے اور صرف 4مقامات پر جارح دشمن سے اپنے دفاع کے معنی میں استعمال ہوا ہے۔ جبکہ بقیہ 31مقامات پر جہاد کہیں بھی قتال یا لڑائی کے معنی میں نہیں آیا۔
علمائے اسلام ایسے جہاد اور اسلام کو فساد فی الارض اور دہشت گردی قرار دیتے ہیں جس میں اپنے مخالف علماء ومشائخ کے گلے کاٹیں جائیں ،بے گناہ لوگوں حتی کہ عورتوں اور سکول کے بچوں کو بے دردی کیساتھ شہید کیا جائے ،لڑکیوں کو گھروں سے اٹھا کر ان سے جبراً نکاح کیا جائے، جس میں اسلامی سٹیٹ کو تباہ اور بے گناہوں کو شہید کرنے کیلئے خود کش حملہ آوروں کو جنت کے ٹکٹ دیئے جائیں، جس میں جہاد فی سبیل اللہ کی بجائے جہاد فی سبیل غیر اللہ ہو، جس میں مساجد اور مزارات اولیاء پر بم دھماکے کر کے نمازیوں اور قرآن خوانی کرنے والوں کو بے دردی کیساتھ شہید کیاجائے۔
جو شخص زمین میں فتنہ و فساد برپا کرے، ڈکیتی و رہزنی اور قتل و غارت کا بازار گرم کرے اور اپنے ان مذموم افعال کے ذریعہ امن و امان کو ختم کر کے خوف و دہشت کی فضا پیدا کرے، تو اس قسم کی صورت حال کو قرآن مجید میں حرابہ سے تعبیر کیا گیا ہے۔ یہ انسانی معاشرے کے خلاف ایک سنگین جرم ہے لہٰذا اسلام میں اس کی سزا بھی سنگین ہے، ارشاد باری تعالیٰ ہے:
{إِنَّمَا جَزَاء الَّذِينَ يُحَارِبُونَ اللّهَ وَرَسُولَهُ وَيَسْعَوْنَ فِي الأَرْضِ فَسَادًا أَن يُقَتَّلُواْ أَوْ يُصَلَّبُواْ أَوْ تُقَطَّعَ أَيْدِيهِمْ وَأَرْجُلُهُم مِّنْ خِلافٍ أَوْ يُنفَوْاْ مِنَ الأَرْضِ ذَلِكَ لَهُمْ خِزْيٌ فِي الدُّنْيَا وَلَهُمْ فِي الآخِرَةِ عَذَابٌ عَظِيمٌ } (33) سورة المائدة
جو لوگ اللہ اور اس کے رسول سے لڑائی کریں اور ملک میں فساد کرنے کو دوڑتے پھریں، ان کی یہی سزا ہے کہ قتل کر دئیے جائیں یا سولی چڑھا دئیے جائیں یا ان کے ایک طرف کے ہاتھ اور ایک طرف کے پاﺅں کاٹ دئیے جائیں یا ملک سے نکال دئیے جائیں۔ یہ تو دنیا میں ان کی رسوائی ہے اور آخرت میں ان کے لےے بڑا (بھاری) عذاب ہے۔
قرآن مجید کی حرابہ کی یہ اصطلاح اپنے عموم کی وجہ سے دہشت گردی کی اصطلاح سے زیادہ وسیع اور جامع ہے، کیونکہ یہ خوف و دہشت، ظلم و ستم، قتل و غارت، ڈکیتی و رہزنی اور فتنہ و فساد کی تمام صورتوں کو محیط ہے، خواہ ان کا ارتکاب سیاسی، ذاتی، انفرادی، اجتماعی اور مادی کسی بھی قسم کے اغراض و مقاصد کی خاطر کیا گیا ہو، اس سے بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ اسلام فتنہ و فساد اور دہشت گردی کا کتنا شدید مخالف ہے۔
اسلام نے واضح کر دیا ہے کہ ظلم، سرکشی، دہشت گردی، اور جبر کے خاتمے کے لئے مسلح جدوجہد کی جا سکتی ہے لیکن یہ جدوجہد صرف اور صرف حکومت ہی کا حق ہے۔ اسلام افراد اور گروہوں کو اس بات کی اجازت نہیں دیتا کہ وہ جہاد کے مقدس نام پر پرائیویٹ افواج تیار کریں اور اس کے بعد عوام الناس کو دہشت گردی کا نشانہ بنائیں۔ اس بات پر چودہ صدیوں کے مسلم اہل علم کا اتفاق اور اجماع ہے۔ اس حقیقت کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم نے ان الفاظ میں واضح فرمایا ہے۔ أخبرنا عمران بن بكار قال حدثنا علي بن عياش قال حدثنا شعيب قال حدثني أبو الزناد مما حدثه عبد الرحمن الأعرج مما ذكر أنه سمع أبا هريرةيحدث عن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال : إنما الإمام جنةيقاتل من ورائه ويتقي به فإن أمر بتقوى الله وعدل فإن له بذلك أجرا وإن أمر بغيره فإن عليه وزرا۔(نسائی، ابو داؤد ، کتاب الامارۃ) افراد اور گروہوں کو جہاد کی اجازت نہ دینے کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ اگر انہیں ایسا کرنے کی اجازت دے دی جائے تو اس کا نتیجہ اس کے سوا کچھ نہیں نکل سکتا کہ مختلف گروہ جنگ میں حصہ لیں گے اور جب ان کا مشترک دشمن ختم ہوگا تو اس کے بعد یہ گروہ آپس میں ٹکرا جائیں۔ پرائیویٹ آرمیز کی موجودگی میں کبھی کسی معاشرے میں امن قائم نہیں کیا جا سکتا. {إِنَّمَا جَزَاء الَّذِينَ يُحَارِبُونَ اللّهَ وَرَسُولَهُ وَيَسْعَوْنَ فِي الأَرْضِ فَسَادًا أَن يُقَتَّلُواْ أَوْ يُصَلَّبُواْ أَوْ تُقَطَّعَ أَيْدِيهِمْ وَأَرْجُلُهُم مِّنْ خِلافٍ أَوْ يُنفَوْاْ مِنَ الأَرْضِ ذَلِكَ لَهُمْ خِزْيٌ فِي الدُّنْيَا وَلَهُمْ فِي الآخِرَةِ عَذَابٌ عَظِيمٌ } (33) سورة المائدة
جو لوگ اللہ اور اس کے رسول سے لڑائی کریں اور ملک میں فساد کرنے کو دوڑتے پھریں، ان کی یہی سزا ہے کہ قتل کر دئیے جائیں یا سولی چڑھا دئیے جائیں یا ان کے ایک طرف کے ہاتھ اور ایک طرف کے پاﺅں کاٹ دئیے جائیں یا ملک سے نکال دئیے جائیں۔ یہ تو دنیا میں ان کی رسوائی ہے اور آخرت میں ان کے لےے بڑا (بھاری) عذاب ہے۔
قرآن مجید کی حرابہ کی یہ اصطلاح اپنے عموم کی وجہ سے دہشت گردی کی اصطلاح سے زیادہ وسیع اور جامع ہے، کیونکہ یہ خوف و دہشت، ظلم و ستم، قتل و غارت، ڈکیتی و رہزنی اور فتنہ و فساد کی تمام صورتوں کو محیط ہے، خواہ ان کا ارتکاب سیاسی، ذاتی، انفرادی، اجتماعی اور مادی کسی بھی قسم کے اغراض و مقاصد کی خاطر کیا گیا ہو، اس سے بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ اسلام فتنہ و فساد اور دہشت گردی کا کتنا شدید مخالف ہے۔
جو لوگ قتال فی سبیل اللہ میں عملاً حصہ لینا چاہتے ہوں، ان کے لئے اسلام کے نقطہ نظر سے جہاد کی عملی صورت یہی ہے کہ اگر وہ اپنی حکومتوں کے اخلاق اور کردار سے مطمئن ہوں تو حکومت کی فوج، پولیس یا کسی اور سکیورٹی فورس میں شامل ہو جائیں۔ اس کے بعد وہ ڈاکوؤں، چوروں، اسمگلروں، منشیات فروشوں اور دہشت گردوں کے خلاف جہاد کریں۔ عام لوگ ٹیکسوں کی صورت میں اس جہاد میں شریک ہوتے ہی ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ عام لوگ ان مجاہدین کو لاجسٹک سپورٹ فراہم کر سکتے ہیں۔
اسلام میں صرف دفاعی جنگ کی اجازت ہے اور کسی مصلحانہ جنگ کے نام پر جارحانہ جہاد کی اجازت نہیں ہے۔
موجودہ دور میں بھی جہاد کی وہی دو صورتیں ہیں جو کہ ہر دور میں رہی ہیں: ایک پرامن جہاد اور دوسرا مسلح جہاد۔ ان کی عملی صورتوں کو ہم یہاں بیان کریں گے۔ پرامن جہاد
پرامن جہاد کا آغاز انسان کی اپنی ذات سے ہونا چاہیے۔ اپنی ذات کو اخلاقی عیوب سے پاک رکھنا اور اس میں نیکی کے اوصاف پیدا کرنا اعلی ترین جہاد ہے۔ اپنی ذات کے ساتھ ساتھ دین کی ان اخلاقی حدود و قیود سے اپنی اولاد، خاندان، دوستوں، معاشرے اور حکومت کو آگاہ کرتے رہنے کا نام جہاد ہے۔ یہ وہ جہاد ہے جو ہر مسلمان ہر وقت جاری رکھ سکتا ہے۔ مسلح جہاد
دنیا میں ایسی بہت سی صورتیں پیش آ جاتی ہیں جب قومیں اور گروہ سرکشی پر اتر آتے ہیں اور وہ دوسروں کے لئے خطرہ بن کر ان پر ظلم و تعدی کا طوفان کھڑا کر دیتے ہیں۔ ایسی صورت میں ان سے جنگ ناگزیر ہوا کرتی ہے۔ دین اسلام نے واضح کر دیا ہے کہ ظلم، سرکشی، دہشت گردی، اور جبر کے خاتمے کے لئے مسلح جدوجہد کی جا سکتی ہے لیکن یہ جدوجہد صرف اور صرف حکومت ہی کا حق ہے۔ جہاد فی سبیل اللہ خالصتاَایک للہیٰ عمل ہے۔ مجاہد کا دل ذاتی اغراض سے پاک اور صرف رضائے الہیٰ کی تمنا لئے ہوتا ہے ۔ اسے نہ مال و دولت سے غرض ہوتی ہے نہ غنیمت کی آرزو، نہ جاہ و جلال کا عارضہ لاحق ہوتا ہے ،نہ نام و نمود کی ہوس ۔ وہ فقط کفر و باطل کے قلعے کو مسمار کرکے اور طاغوتی قوتوں کو مٹا کر خدا کی زمین پر خداکی حکومت قائم کرنے کے لئے ہی اپناتن من دھن کی بازی لگاتا ہے ۔ ایک شخص اللہ کے رسول اللہ کے پاس آیا ۔او ر عرض کیا ۔ یا رسول اللہ ۔کوئی شخص تو ناموری کی غرض سے جہاد کرتا ہے ۔اور کوئی شخص اپنی بہادری دکھانے کے لئے لڑتا ہے ۔تو فی سبیل اللہ مجاہد کون ہے ۔فرمایا ۔وہ شخص جو محض اس لئے لڑے ۔کہ اللہ کا بول بالا ہو جائے ۔تو دراصل وہ شخص مجاہد فی سبیل اللہ ہے ۔(بخاری) القاعدہ اور طالبان رد عمل کی تحریکیں ہیں اور رد عمل میں اٹھنے والی تحریکیں ان مخصوص حالات سے اوپر اٹھ کر نہیں سوچ پاتیں جن حالات میں انھوں نے جنم لیا ہو تا ہے۔ ایسی تحریکوں کے نظریات اور پالیسیاں حالات کے جبر کے تحت پہلے بنتی ہیں اور انکی تائید میں آیتیں اور حد یثیں بعد میں جمع کی جاتی ہیں۔ ایسی تحریکیں امت مسلمہ کے تمام مسائل اور حقائق کو نہ تو کما حقہ ' سمجھتی ہیں اور نہ سمجھنے کی کوشش کر تی ہیں۔ کیونکہ اس طرح انکے نظریات اور پالیسیوں پر حرف آتا ہے۔ جنگ کی کوکھ سے جنم لینے والی تحریکوں کے پاس امت کے مسائل کا حل اسکے سوا کیا ہو سکتا ہے کہ مار دو یا مر جاؤ۔ القاعدہ اور طالبان کے نظریات، پالیسیوں اور اقدامات نے اسلام اور مسلمانوں کو من حیث و جماعت کوئی فائدہ نہ پہنچایا ہے بلکہ ان دونوں تنظیموں نے بے گناہوں کے قتل،مار دھاڑ اور قتل وغارت گری میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا ہے اور قران کی غلط تشریحات کی ہیں۔القائدہ کی حماقتوں کی وجہ سے اسلام اور مسلمانوں کو ناقابل تلافی جانی و مالی نقصانات اٹھانا پڑے ہیں، آئیندہ کے لئے القائدہ ،مسلمانوں اور اسلام کو اپنی عنایات سے باز اور معاف ہی رکھے تو یہ ملت اسلامی کے حق مین بہتر ہے۔ القائدہ نے اسلامی شعار کا مذاق اڑایا اور قران کی غلط تشریحات کر کے فلسفہ جہاد کی روح کو بگاڑ کر رکھ دیا ہے۔
ملاحظہ فرمائیں میرا تازہ ترین بلاگ:
آواز پاكستانhttp://awazepakistan.wordpress.com /
Comment