Announcement

Collapse
No announcement yet.

Unconfigured Ad Widget

Collapse

امریکی فوج کا پاکستانی علاقوں میں زمینی ک

Collapse
X
 
  • Filter
  • Time
  • Show
Clear All
new posts

  • امریکی فوج کا پاکستانی علاقوں میں زمینی ک

    امریکی فوج کا پاکستانی علاقوں میں زمینی کارروائیوں پر غور

    افغانستان میں امریکی فوج کے اعلیٰ کمان دار پاکستان کے سرحدی قبائلی علاقوں میں موجود مبینہ جنگجوٶں کے خلاف خصوصی فورسزکی زمینی کارروائیوں پر غورکر رہے ہیں جبکہ وائٹ ہاٶس نے خاموشی سے بغیر پائیلٹ جاسوس طیاروں کے پاکستانی علاقوں میں حملوں کا دائرہ کار بڑھانے کی منظوری دے دی ہے۔

    اس بات کا انکشاف امریکی اخبار نیویارک ٹائمز نے اپنے انٹرنیٹ ایڈیشن پر سوموار کی اشاعت میں کیا ہے۔اخبار نے نامعلوم ذرائع کے حوالے سے لکھا ہے کہ صدر اوباما نے اسی ہفتے ڈرون حملوں کو وسعت دینے کی منظوری دی ہے۔پاکستان کے صوبہ بلوچستان میں بھی ڈرون حملوں پر غور کیا جارہا ہے۔ ڈرون حملوں کا دائرہ کار بڑھانے کے ساتھ ساتھ پاکستانی علاقوں میں زمینی کارروائیوں کی بھی منصوبہ بندی کی جارہی ہے۔

    فوجی کمانڈروں نے اخبار کو بتایا ہے کہ خصوصی کارروائیوں سے جنگجوٶں کی گرفتاری کی صورت میں زیادہ بہتر انٹیلی جنس اطلاعات حاصل ہو سکیں گی کیونکہ انہیں گرفتار کرکے افغانستان میں تفتیش کے لیے لایا جائے گا،تاہم اوباما انتظامیہ نے ابھی خصوصی فوجی آپریشنز کی منظوری نہیں دی ہے۔

    امریکی حکام کا کہنا ہے کہ وہ افغانستان میں غیرملکی فوجوں کے خلاف برسر پیکار حقانی نیٹ ورک سے تعلق رکھنے والے جنگجوٶں کوہلاک کرنے کے بجائے انہیں زندہ گرفتار کرنے میں دلچسپی رکھتے ہیں تاکہ ان کی مستقبل کی کارروائیوں کے بارے میں انٹیلی جنس معلومات حاصل کی جاسکیں۔ایک امریکی عہدے دار کا کہنا ہے کہ ''سرحد پار کارروائی کے لیے جتنے ہم اب تیاریا قریب ہیں ،اس سے قبل کبھی نہیں تھے''۔

    نیویارک ٹائمز میں شائع ہونے والے مضمون کے جواب میں امریکا میں متعین پاکستانی سفیر حسین حقانی کا کہنا ہے کہ''ان کا ملک جنگجوٶں کے خطرے سے نمٹنے کی صلاحیت رکھتا ہے اورغیرملکی فوجوں کو ہم اپنے خودمختار علاقے میں کارروائی کی اجازت نہیں دیں گے''۔

    امریکا کے چئیرمین جائنٹ چیفس آف اسٹاف ایڈمرل مائیک مولن نے گذشتہ ہفتے ہی پاکستان اور افغانستان کا دورہ کیا ہے اور انہوں نے ممکنہ طورپرپاکستان کی فوجی قیادت سے اس حوالے سے بات کی ہے لیکن پاکستانی سفیر کا کہنا ہے کہ ''دورے میں نیٹو فوج کی افغانستان سے باہر کسی یک طرفہ کارروائی کا کوئی اشارہ نہیں ملا''۔

    واضح رہے کہ پاکستان کے شمال مغربی علاقوں میں دہشت گردوں اور جنگجوٶں کے خلاف جنگی کارروائیوں میں 2002ء سے اپریل 2010 ء تک آرمی اور پیراملٹری فورسز کے دوہزار چارسواکیس نوجوان شہید ہوئے تھے اور سات ہزار دو سو زخمی ہوئے تھے جبکہ گذشتہ نوسال سے جاری افغان جنگ میں اب تک امریکی فوج کا اتنا جانی نقصان نہیں ہواہے۔
    سرحدپار کارروائی سے مسائل

    امریکی صدر براک اوباما کی انتظامیہ کے ایک سنئیر عہدے دار نے اپنی شناخت ظاہرکیے بغیر اخبار سے گفتگو کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ سرحد پار کارروائیوں کی حمایت نہیں کرتے کیونکہ اس طرح کی کارروائیوں سے جوابی ردعمل بھی ہو گا۔

    امریکی فورسز نےماضی میں افغانستان سے پاکستان میں داخل ہو کرخال خال ہی زمینی کارروائی کی ہے اوراس کے بجائے امریکی خفیہ ایجنسی سی آئی اے بغیر پائیلٹ جاسوس طیاروں سے پاکستان کے قبائلی علاقوں سے میزائل حملے کرتی رہتی ہے،لیکن اخبار کا کہنا ہے کہ اب چھاپہ مار کارروائیوں کو زیادہ وسعت دینے پرغور کیا جارہا ہے اور صدر براک اوباما ممکنہ طورپراس کی منظوری دیں گے لیکن پاکستان کی جانب سے اپنے علاقے میں امریکی فوج کی دراندازی کی شدید مخالفت کی جا سکتی ہے۔

    سی آئی اے نے حال ہی میں اپنے ڈرون حملوں کا دائرہ کار پاکستان کے افغان سرحد کےساتھ واقع وفاق کےزیرانتظام ایک اورقبائلی علاقے خیبرایجنسی تک پھیلا دیا ہے اور گذشتہ جمعہ کو بغیر پائیلٹ جاسوس طیاروں نے پے در پے تین میزائل حملے کیے تھےجن میں کم سے کم ساٹھ افراد ہلاک ہو گئے تھے۔

    امریکا نے پاکستان کے وفاق کے زیرانتظام قبائلی علاقوں میں اس سال اب تک اپنے بغیر پائیلٹ جاسوس طیاروں سے ایک سوسے زیادہ میزائل حملے کیےہیں۔2009ء کے دوران اس سے نصف تعداد میں باون حملے کیے گئے تھے۔اس سال زیادہ تر ڈرون حملے شمالی وزیرستان میں کیے گئے ہیں جہاں مبینہ طور پرحقانی نیٹ ورک، القاعدہ اور طالبان کے جنگجو موجود ہیں جواس علاقے کومبینہ طورپرافغانستان میں امریکی اور نیٹوفوجوں پرحملوں کے لیے استعمال کرتے رہتے ہیں۔

    افغانستان میں موجود امریکی فوج کم ہی سی آئی اے کے خفیہ میزائل پروگرام کے تحت بغیر پائلٹ جاسوس طیاروں کے پاکستانی علاقوں میں حملوں کی ذمہ داری قبول کرتی ہے لیکن امریکی حکام کا کہنا ہے کہ یہ حملے افغانستان میں القاعدہ اور طالبان کے خلاف جنگ جیتنے کے لئے ضروری ہیں۔بعض اطلاعات کے مطابق ڈرون حملوں میں جنگجوٶں کو نشانہ بنانے کے لیے انٹیلی جنس اطلاعات پاکستانی اہلکاروں کی جانب سے ہی فراہم کی جاتی ہیں۔

    واضح رہے کہ پاکستانی قیادت اپنے بیانات میں ان ڈرون حملوں کی مذمت کرتی رہتی ہے اور انہیں اپنی علاقائی خودمختاری کی خلاف ورزی قرار دیتی ہے لیکن حال ہی میں وکی لیکس کی جانب سے جاری کردہ امریکا کی سفارتی دستاویزات میں انکشاف کیا گیا ہے کہ پاکستانی حکومت ان حملوں کے سلسلہ میں امریکا کو معاونت فراہم کررہی ہےاور امریکا کواس کی خاموش حمایت حاصل ہے۔پاکستان امریکا پر یہ بھی زوردیتا چلاآرہا ہے کہ وہ ڈرون طیاروں کی ٹیکنالوجی اسےمنتقل کرے تاکہ وہ ازخود اپنے قبائلی علاقوں میں مشتبہ جنگجوٶں کے خلاف میزائل حملے کر سکے۔






  • #2
    Re: امریکی فوج کا پاکستانی علاقوں میں زمینی ک&

    hum ghulam qaum hain yeh american jo karna chahin karsaktay hain.....
    sigpic

    Comment

    Working...
    X