دسمبر 2012 اور دنیا کا اختتام
پیش گوئی غلط سہی مگر۔ ۔ ۔
میں نے اس پیش گوئی کی اساسات کو غور سے دیکھا ہے ۔ اس کی بنیادیں کوئی علمی حقیقت نہیں بلکہ ظن و تخمین اور اوہام پرستی ہیں ۔ میری پختہ رائے یہ ہے کہ 21 دسمبر 2012 کے حوالے سے پھیلائی جانے والی تمام تر سنسنی خیزی محض میڈیا کی کرشمہ سازی ہے ۔ سائنسدانوں اور اہل علم کی بھی یہی رائے ہے اور وہ اسے اس مشہورِ عالَم فراڈ یعنی Y2K سے تشبیہ دے رہے ہیں جس کا مشاہدہ دنیا نے سن 2000 کے آغاز پر کیا تھا جس میں برسوں تک یہ سنسنی پھیلائی جاتی رہی کہ 31 دسمبر 1999 کی رات نئے سال کے آغاز کے موقع پر تمام کمپیوٹر فیل ہوجائیں گے اور دنیا بھر کا نظام ناکارہ ہوجائے گا۔
تاہم دنیا کے خاتمے کے تصور کو لوگوں میں جو غیر معمولی مقبولیت حاصل ہوئی ہے وہ دراصل میری آج کی گفتگو کا اصل موضوع ہے ۔ اس سے یہ بات بالکل واضح ہے کہ دنیا بھر کے انسان ذہناً اس بات کے لیے تیار ہیں کہ یہ دنیا جلد یا بدیر اپنے خاتمے کی طرف بڑ ھ رہی ہے ۔ اس بات کی ہمارے لیے کیا اہمیت ہے ، میں اس بات پر بعد میں گفتگو کروں گا۔ پہلے میں قدرے تفصیل سے یہ بیان کروں گا کہ لوگ اس طرح کیوں سوچ رہے ہیں ۔
قیامت: مذاہب کا بنیادی تصور
آج سے تقریباً چار ہزار برس قبل تمام دنیا میں شرک کا غلبہ ہو چکا تھا۔ اس وقت اللہ تعالیٰ نے اپنے جلیل القدر پیغمبر حضرت ابراہیم علیہ السلام کو اس مشن کے ساتھ مبعوث کیا کہ وہ مڈل ایسٹ کے تمام ممالک میں دعوت حق پہنچائیں گے ۔ ان کی اس دعوت کا جواب سو فیصد نفی میں دیا گیا۔ چنانچہ اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے یہ فیصلہ کیا کہ مڈل ایسٹ کا علاقہ جو دنیا کا مرکز ہے ، اسے رہتی دنیا تک حضرت ابراہیم کی اولاد کو دے دیا جائے اور پھر یہ لوگ دنیا کے مرکز میں رہ کر دنیا بھر میں توحید کی منادی کرتے رہیں گے ۔ اسی فیصلے کا نتیجہ ہے کہ پچھلے چار ہزار برس سے حضرت ابراہیم ؑ کی اولاد اور وابستگان کا انسانیت کے مرکزی دھارے میں اہم ترین کردار رہا ہے ۔ یہود و نصاریٰ اور مسلمانوں کی شکل میں یہی لوگ معاشرتی، معاشی، سیاسی اور نظریاتی حوالے سے پچھلے چار ہزار برسوں میں انسانیت کی امامت کرتے رہے ہیں ۔ مسلمانوں کی طرح یہود و نصاریٰ بھی اپنی نسبت حضرت ابراہیم ہی کی طرف کرتے ہیں اور اپنی تمام فکری اور عملی گمراہیوں کے باوجود انہی کے عطا کردہ دین حنیف کی بنیادی تعلیمات کو اپنی بنیاد قرار دیتے ہیں ۔
اس تعلیم میں عقیدۂ آخرت کا وہ تصور بھی شامل ہے جس کے مطابق روز قیامت یہ دنیا ایک عظیم تباہی کے ساتھ ختم ہوجائے گی۔ اس لیے یہ تینوں مذاہب جو اصطلاحاً الہامی مذاہب کہلائے جاتے ہیں دنیا کے خاتمے اور اس کے بعد خیر کے غلبے کا ایک واضح تصور رکھتے ہیں ۔ دنیا کے دیگر مذاہب بھی درحقیقت ایک زمانے میں الہامی مذاہب ہی تھے ، مگر چونکہ ان کے پیغمبروں کی تاریخی حیثیت پر وقت کی گرد پڑ گئی اس لیے انہیں غیر الہامی مذاہب کہا جاتا ہے ۔ لیکن ان کی تعلیمات کا علمی مطالعہ یہ بتاتا ہے کہ یہ بھی دراصل توحید و آخرت کی بنیاد ہی پر کھڑ ے تھے ۔ اسی لیے ان میں بھی اس زندگی کے بعد ایک دوسری زندگی، دنیا کے خاتمے ، خیر کے مکمل غلبے کے تصورات، چاہے بگڑ ی ہوئی شکل ہی میں سہی مگر پائے جاتے ہیں ۔
اس تفصیل سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ دنیا کا خاتمہ دراصل ایک مذہبی تصور ہے جو اللہ تعالیٰ کے نبی اور رسول عرصے سے انسانیت تک پہنچاتے چلے آ رہے ہیں اور یہی مذہبی تصور 21 دسمبر 2012 کی پیش گوئی کو عمومی توجہ دلانے کا سبب بنا ہے کیونکہ لوگ مذہبی تصورات اور تعلیم کی بنا پر ذہناً دنیا کے خاتمے کے لیے تیار ہیں ۔ میری اس بات کا سب سے بڑ ا ثبوت یہ ہے کہ ویب بوٹ کے جس سافٹ وئیر کا میں نے اوپر ذکر کیا ہے وہ تمام تر اس بنیاد پر کام کرتا ہے کہ انسانیت مجموعی طور پر کیا سوچ رہی ہے اور اس کی سوچ پر کس چیز کا غلبہ ہے ۔ ظاہر ہے کہ یہ واقعہ انسانی شعور کی داخلی کیفیت کا اظہار ہے جس کا کسی خارجی پیش گوئی سے کوئی تعلق نہیں ۔
یہی زمانہ کیوں ؟
پیش گوئی غلط سہی مگر۔ ۔ ۔
میں نے اس پیش گوئی کی اساسات کو غور سے دیکھا ہے ۔ اس کی بنیادیں کوئی علمی حقیقت نہیں بلکہ ظن و تخمین اور اوہام پرستی ہیں ۔ میری پختہ رائے یہ ہے کہ 21 دسمبر 2012 کے حوالے سے پھیلائی جانے والی تمام تر سنسنی خیزی محض میڈیا کی کرشمہ سازی ہے ۔ سائنسدانوں اور اہل علم کی بھی یہی رائے ہے اور وہ اسے اس مشہورِ عالَم فراڈ یعنی Y2K سے تشبیہ دے رہے ہیں جس کا مشاہدہ دنیا نے سن 2000 کے آغاز پر کیا تھا جس میں برسوں تک یہ سنسنی پھیلائی جاتی رہی کہ 31 دسمبر 1999 کی رات نئے سال کے آغاز کے موقع پر تمام کمپیوٹر فیل ہوجائیں گے اور دنیا بھر کا نظام ناکارہ ہوجائے گا۔
تاہم دنیا کے خاتمے کے تصور کو لوگوں میں جو غیر معمولی مقبولیت حاصل ہوئی ہے وہ دراصل میری آج کی گفتگو کا اصل موضوع ہے ۔ اس سے یہ بات بالکل واضح ہے کہ دنیا بھر کے انسان ذہناً اس بات کے لیے تیار ہیں کہ یہ دنیا جلد یا بدیر اپنے خاتمے کی طرف بڑ ھ رہی ہے ۔ اس بات کی ہمارے لیے کیا اہمیت ہے ، میں اس بات پر بعد میں گفتگو کروں گا۔ پہلے میں قدرے تفصیل سے یہ بیان کروں گا کہ لوگ اس طرح کیوں سوچ رہے ہیں ۔
قیامت: مذاہب کا بنیادی تصور
آج سے تقریباً چار ہزار برس قبل تمام دنیا میں شرک کا غلبہ ہو چکا تھا۔ اس وقت اللہ تعالیٰ نے اپنے جلیل القدر پیغمبر حضرت ابراہیم علیہ السلام کو اس مشن کے ساتھ مبعوث کیا کہ وہ مڈل ایسٹ کے تمام ممالک میں دعوت حق پہنچائیں گے ۔ ان کی اس دعوت کا جواب سو فیصد نفی میں دیا گیا۔ چنانچہ اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے یہ فیصلہ کیا کہ مڈل ایسٹ کا علاقہ جو دنیا کا مرکز ہے ، اسے رہتی دنیا تک حضرت ابراہیم کی اولاد کو دے دیا جائے اور پھر یہ لوگ دنیا کے مرکز میں رہ کر دنیا بھر میں توحید کی منادی کرتے رہیں گے ۔ اسی فیصلے کا نتیجہ ہے کہ پچھلے چار ہزار برس سے حضرت ابراہیم ؑ کی اولاد اور وابستگان کا انسانیت کے مرکزی دھارے میں اہم ترین کردار رہا ہے ۔ یہود و نصاریٰ اور مسلمانوں کی شکل میں یہی لوگ معاشرتی، معاشی، سیاسی اور نظریاتی حوالے سے پچھلے چار ہزار برسوں میں انسانیت کی امامت کرتے رہے ہیں ۔ مسلمانوں کی طرح یہود و نصاریٰ بھی اپنی نسبت حضرت ابراہیم ہی کی طرف کرتے ہیں اور اپنی تمام فکری اور عملی گمراہیوں کے باوجود انہی کے عطا کردہ دین حنیف کی بنیادی تعلیمات کو اپنی بنیاد قرار دیتے ہیں ۔
اس تعلیم میں عقیدۂ آخرت کا وہ تصور بھی شامل ہے جس کے مطابق روز قیامت یہ دنیا ایک عظیم تباہی کے ساتھ ختم ہوجائے گی۔ اس لیے یہ تینوں مذاہب جو اصطلاحاً الہامی مذاہب کہلائے جاتے ہیں دنیا کے خاتمے اور اس کے بعد خیر کے غلبے کا ایک واضح تصور رکھتے ہیں ۔ دنیا کے دیگر مذاہب بھی درحقیقت ایک زمانے میں الہامی مذاہب ہی تھے ، مگر چونکہ ان کے پیغمبروں کی تاریخی حیثیت پر وقت کی گرد پڑ گئی اس لیے انہیں غیر الہامی مذاہب کہا جاتا ہے ۔ لیکن ان کی تعلیمات کا علمی مطالعہ یہ بتاتا ہے کہ یہ بھی دراصل توحید و آخرت کی بنیاد ہی پر کھڑ ے تھے ۔ اسی لیے ان میں بھی اس زندگی کے بعد ایک دوسری زندگی، دنیا کے خاتمے ، خیر کے مکمل غلبے کے تصورات، چاہے بگڑ ی ہوئی شکل ہی میں سہی مگر پائے جاتے ہیں ۔
اس تفصیل سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ دنیا کا خاتمہ دراصل ایک مذہبی تصور ہے جو اللہ تعالیٰ کے نبی اور رسول عرصے سے انسانیت تک پہنچاتے چلے آ رہے ہیں اور یہی مذہبی تصور 21 دسمبر 2012 کی پیش گوئی کو عمومی توجہ دلانے کا سبب بنا ہے کیونکہ لوگ مذہبی تصورات اور تعلیم کی بنا پر ذہناً دنیا کے خاتمے کے لیے تیار ہیں ۔ میری اس بات کا سب سے بڑ ا ثبوت یہ ہے کہ ویب بوٹ کے جس سافٹ وئیر کا میں نے اوپر ذکر کیا ہے وہ تمام تر اس بنیاد پر کام کرتا ہے کہ انسانیت مجموعی طور پر کیا سوچ رہی ہے اور اس کی سوچ پر کس چیز کا غلبہ ہے ۔ ظاہر ہے کہ یہ واقعہ انسانی شعور کی داخلی کیفیت کا اظہار ہے جس کا کسی خارجی پیش گوئی سے کوئی تعلق نہیں ۔
یہی زمانہ کیوں ؟