Announcement

Collapse
No announcement yet.

Unconfigured Ad Widget

Collapse

پاک افغان طالبان کا تمام توجہ اتحادی افواž

Collapse
X
 
  • Filter
  • Time
  • Show
Clear All
new posts

  • پاک افغان طالبان کا تمام توجہ اتحادی افواž

    http://www.jang.net/urdu/archive/taz...asp?nid=134154
    بعض تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ نیا اتحاد شوری مراقبہ ،القائدہ کی کوششوں سے معرض وجود میں آیا ہے اور یہ القائدہ کی اپنی ساکھ اور قد کو کو بڑھانے کی ایک غیر متاثر کن اور بھونڈی کوشش ہے۔ القائدہ پاکستانی فوجوں کی کاروائی اور مسلسل امریکی کوششوں و ڈرون حملوں کے نتیجہ میں بڑی حد تک عضو معطل ہو کر رہ گئی ہے ۔ القائدہ کے فنڈز کے سوتے اور نئی بھرتی کے ذرایع بند ہوچکے ہین اور اسامہ اور دوسرے بڑے لیڈروں کی ہلاکت کے بعد القائدہ کی ساکھ کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا ہے اور القائدہ کے مقصد میں لوگوں کی دلچسپی اب نہ ہونے کے برابر ہے۔ القائدہ کے غبارے کی رہی سہی ہوا عرب سپرنگ نے نکال دی اور عام لوگوں کو یہ احساس ہوا کہ مسلح جدوجہد کے بجائے پر امن جمہوری اور سیاسی عمل کے ذرایع سے جدوجہد ان کو جلد حقوق دلا سکتی ہے۔
    نام نہاد معاہدہ کی ایک شق کے مطابق طالبان اغوا برائے تاوان میں ملوث نہ ہونگے۔ یاد رہے کہ طالبان عمومی طور پر اغوا برائے تاوان کے مرتکب ہوتے ہیں تاکہ اس روپے پیسہ سے اپنے گروپوں کی مالی اعانت کرسکیں۔
    شوری مراقبہ ایک چون چون کا مربہ ہے۔ اس کے ممبران ایک دوسرے کے گلے کاٹنے کو دوڑ رہے ہیں۔ حکیم اللہ محسود اپنے نائب ولی الرحمن کو قتل کروانے کے درپے ہے۔یہ کیسے ممکن ہے کہ اچھے اور برے طالبان ایک صف میں کھڑے ہو جائین اور شیر و میمنے مل بیٹھیں۔
    القائدہ ،پاکستان کی کبھی دوست نہ تھی اور نہ ہی ہو گی۔ القائدہ کے تعاون و اشتراک سے طالبان نے پاکستان کے معصوم لوگوں کے خلاف خون کی ہولی کھیلی۔۔
    مزید اس اتحاد کے دعووں کی آزاد ذرائع سے ابھی تک تصدیق نہ ہو سکی ہے اور نہ ہی اس دعوے کا کوئی ثبوت مل سکا۔ آج ہی روزنامہ ایکسپرس میں طالبان کی طرف سے آیا ہے کہ طالبان پاکستان نے افواج پاکستان کے خلاف حملے بند کرنے کا کوئی فیصلہ نہ کیا ہے۔
    پاک انسٹیٹیوٹ برائے مطالعہ امن کے ڈائریکٹر محمد عامر رانا نے کہا ہے کہ عسکریت پسندوں کا اتحاد کوئی نئی چیز نہیں ہے اور یہ ماضی میں بھی واضح وجوہات کی بناء پر ہوتا رہا ہے۔ اس نئے اتحاد سے پاکستان کی صورت حال پر کچھ خاص اثر نہیں پڑے گا۔ تاہم یہ بات ضرور ہے کہ اگر مختلف اطراف سے افغانستان میں نئے جنگجو داخل ہونا شروع ہو گئے تو اس سے ملک میں موجود نیٹو اور اتحادی فورسز کے لئے مشکلات میں اضافہ ہو جائے گا۔
    انہوں نے کہا کہ سب سے پہلی چیز تو یہ ہے کہ افغان بحران کو حل کرنے کے لئے امن مذاکرات کی کوششیں تیز ہونے کے دوران طالبان زیادہ سے زیادہ متعلقہ فریقوں کو اپنے کیمپ میں شامل کرنا چاہتے ہیں تا کہ مذاکرات کرنے کے لئے ان کی پوزیشن مضبوط ہو۔ دوسری چیز یہ ہے کہ وہ اپنی اس عوامی ساکھ کو بھی بڑھانا چاہتے ہیں کہ وہ ایک طاقتور فریق ہیں جو امن کے لئے کوشاں ہے۔ رانا کا یہ بھی کہنا تھا کہ حکیم اللہ محسود کی زیر قیادت تحریک طالبان پاکستان اور دیگر ذیلی تنظیموں مثلاً افغانستان میں مقیم ملا فضل اللہ گروپ، طارق آفریدی گروپ اور فقیر محمد کی زیر قیادت باجوڑ طالبان کی جانب سے اس قسم کا کوئی وعدہ نہیں کیا گیا کہ وہ پاکستان پر حملے نہیں کریں گے۔ اس کے علاوہ ہمیں یہ بھی معلوم نہیں ہے کہ آیا چھوٹے گروپ بھی اس معاہدے کا حصہ ہوں گے یا نہیں۔ رانا نے کہا کہ اگر قبائلی علاقوں میں القاعدہ کی موجودگی میں اضافہ ہوا تو پاکستانی فوج مزید دباؤ میں آ جائے گی۔
    تجزیہ کاروں کا خیا ل ہے کہ طالبان کی جانب سے مختلف دھڑوں کو متحد کرنے کی کوششیں کا دعوی امن عمل کے تناظر میں اپنی ساکھ کو بڑھانے اور افغانستان کے مستقبل کے سیاسی نظام میں اپنی جگہ کو مستحکم کرنے کی جانب قدم ہے اور یہ ایک پبلک ریلشنز سٹنٹ بھی ہو سکتا ہے تاکہ لوگوں کو باور کرایا جا سکے کی دہشت گردوں کے تمام دہڑے ایک ہو چکے ہیں۔
    یہ بھی ہو سکتا ہے کہ یہ نام نہاد اتحاد ایک ڈس انفرمیشن کا حصہ ہو جو طالبان کے مختلف گروپوں اور القائدہ نے اپنے مقاصد حاصل کر نے کے لئے پہیلایا ہو اس ایک مقصد کسی اور کو پیغام پہنچانا ہو ۔
    بریگیڈیر محمود شاہ نے کہا کہ اتحاد کے بارے میں بات چیت طالبان کا شورش پسندوں پر دباؤ بڑھانے کا ایک ہتھکنڈا ہے جس کا مقصد مستقبل کے افغانستان میں اپنی جگہ بنانا ہے۔ بصورت دیگر وہ افغانستان اور پاکستان میں بے وقعت ہو کر رہ جائیں گے۔ انہوں نے کہا کہ شورش پسندوں کا نیا اتحاد بین الاقوامی قانون کی خلاف ورزی ہے مگر وہ حالات کا رخ موڑنے کی صلاحیت نہیں رکھتا۔
    ان کے بقول بین الاقوامی قوانین کی رو سے افغانستان سے پاکستان کے معاملات میں دخل اندازی غیر قانونی ہے اور افغانستان سے پاکستان کو ہدایات جاری کرنا کسی بھی لحاظ سے قانونی فعل نہیں ہے۔ یہ طالبان کا شورش پسندوں پر دباؤ بڑھانے کا ایک ہتھکنڈا ہو سکتاہے۔
    نئے اتحاد میں کوئی نئی بات نہیں ہے کیونکہ قبائلی علاقوں میں کامیاب فوجی کارروائیوں کے باعث غیر منظم اور بکھرے ہوئے گروپوں نے پہلے ہی راہ فرار اختیار کر رکھی ہے، جبکہ افغان گروپوں کے اپنے ہی بہت سے مسائل ہیں جن کی پاکستانی طالبان کے نزدیک کوئی اہمیت نہیں ہے۔ انہوں نے خیال ظاہر کیا کہ اگر ملا عمر کی درخواست پر پاکستانی طالبان کے گروپ پاکستانی فورسز پر حملے کرنا چھوڑ دیں تو یہ پاکستان کی خوش قسمتی ہو گی مگر ایسا ہوتا دکھائی نہیں دیتا۔

Working...
X