Announcement

Collapse
No announcement yet.

Unconfigured Ad Widget

Collapse

لشکر جھنگوی ، ایک فرقہ ورانہ دہشت گرد تنظی

Collapse
X
 
  • Filter
  • Time
  • Show
Clear All
new posts

  • لشکر جھنگوی ، ایک فرقہ ورانہ دہشت گرد تنظی

    لشکر جھنگوی ، ایک فرقہ ورانہ دہشت گرد تنظیم
    لشکر جھنگوی ایک دیو بندی عقائد رکھنے والا، فرقہ ورانہ ,سفاک ا ور بے رحم ,جہادی گروپ ہے، 1996 میں معرض وجود میں آیا۔لشکر جھنگوی ایک عرصہ سے شیعہ مسلمانوں کے خلاف وحشیانہ حملے کرنے کی وجہ سے شہرت رکھتاہے اور اب تک ہزاروں اہل تشعیہ کو موت کے گھاٹ اتار چکا ہے۔ لشکر جھنگوی کو القائدہ کا فرقہ ورانہ چہرہ بھی کہا جاتا ہے ۔یہ گروپ جنوبی پنجاب سے اپنے کارکن بھرتی کرتا ہے مگر اب کچھ عرصہ سے پاکستان کے قبائلی علاقوں مین منتقل ہو چکا ہے جہاں یہ القائدہ کے ساتھ مل کر تربیت حاصل کرتا ہے۔ اس گروپ کا الحاق طالبان و القائدہ سے ہے اور لشکر جھنگوی شیعہ مسلمانوں کو کافر گردانتا ہے ۔یاد رہے کہ پاکستان میں لشکر جھنگوی کی سرگرمیوںپر 2001 میں پابندی لگا دی گئی تھی۔ کچھ مبصرین سمجھتے ہیں کہ لشکر جھنگوی کا دوسرا نام ،پنجابی طالبان ہے جو جنوبی پنجاب میں سرگرم ہیں۔دہشت گردی کے زیادہ تر واقعات کی ذمہ داری لشکر جھنگوی نے قبول کی ہے۔
    لشکر جھنگوی العالمی اس کا ایک اور گروپ ہے جس کا سربراہ مولانا عبدالخلیل ،ایک مفرور دہشت گرد،جس کا تعلق سنٹرل پنجاب سے ہے اور یہ گروپ سنٹرل پنجاب اور قبائلی علاقوں میں کاروائیاں کر تا ہے۔ لشکر جھنگوی کے دوسرے گروپوں میں ایشین ٹائگرز ،جنداللہ ، جنودالحفصہ اور پنجابی طالبان وغیرہ وغیرہ ہین۔ گروپ بنانے کا مقصد یہ دکھائی دیتا ہے کہ لشکر جھنگوی اپنے تمام انڈے ایک ٹوکری میں نہ رکھنا چاہتی ہے۔ اور یہ ایک مثالی گوریلا جنگ اور شہری دہشت گردی کی تکنیک ہے۔ بکھرے ہوے سیلز ان کی اب تک زندگی کا راز ہیں۔ملک میں طالبان ,لشکر جھنگوی اور القاعدہ کی مثلث موجود ہے جو ایک دوسرے کی مدد سے کارروائیاں کرتے ہیں۔ لشکر جھنگوی ،لشکرطیبہ اور جیش محمد، طالبان اور القاعدہ دہشت گردوں کی ذیلی تنظیمیں ہیں پاکستان کے وزیرداخلہ عبدالرحمن ملک نے کہا ہے کہ لشکر جھنگوی لشکر طیبہ اور جیش محمد جیسی شدت پسند تنظیمیں طالبان اور القاعدہ دہشت گردوں کو مدد بہم پہنچاتی ہیں۔ لشکر جھنگوی اور شمالی وزیرستان میں موجود حقانی نیٹ ورک ، دونوں القائدہ کے قابل فخر دوست ہیں۔
    یہ حقیقت روز روشن کی طرح عیان ہے کہ تمام دہشت گردوں کا صرف ایک ایجنڈا ہے اور وہ یہ کہ صرف اور صرف مسلمانوں کو نقصان پہنچایا جائے اور صرف مسلمانوں کا خون بہایا جائے اور وہ اس مقصد میں کس حد تک کامیاب ہیں اس کا فیصلہ اس مضموں کے قاری کریگے؟
    لش2011ء کو رہا کردیاہے۔
    بریگیڈیر اسد منیر نے لکھا ہے کہ پاک افغان سرحد پر جتنے بھی گروپ ہیں جیسا کہ القاعدہ ،لشکر جھنگوی سپاہ صحابہ یہ سارے مل کر حقانی نیٹ ورک کے ساتھ کام کر رہے ہیں افغان امور پر گہری نگاہ رکھنے والے پاکستانی صحافی طاہر خان کا کہنا ہے کہ افغانستان کی موجودہ صورتحال میں پاکستان کا خود کو حقانی نیٹ ورک سے الگ کرنے کا فیصلہ آسان نہیں ہوگا پاکستانی حکومت چاہتی ہے کہ افغانستان سے امریکی فوج کے انخلاء کے بعد وہاں اس کے مفادات کا تحفظ کرنے والا بھی کوئی موجود ہو تاہم طاہر خان کے بقول موجودہ صورتحال نے پاکستان کو ایک دوراہے پر لاکھڑا کیا ہے پاکستان اب اس وجہ سے پھنس گیا ہے کہ اسے اپنے مفادات کے لیے باامر مجبوری امریکہ کی نظر میں کچھ اقدامات کرنے پڑ رہے ہیں اور اس سلسلے میں دباؤ اتنا بڑھ گیا ہے کہ پاکستان ایک مشکل صورتحال سے دوچار ہے اور اب دیکھنا یہ ہے کہ پاکستان کی فوجی اور سویلین قیادت کس طرح خود کو اس مشکل صورتحال سے نکالتی ہے ۔
    لشکر جھنگوی نے ابتداء میں شیعہ کمیونٹی کے اندر حملے کئے اور 1997ء میں کراچی میں امریکی انجینئروں کی ہلاکت کی ذمہ داری بھی قبول کی۔ پاکستانی وزیراعظم نوازشریف کو 1999ء میں قتل کرنے کی کوشش بھی لشکر جھنگوی نے کی جبکہ خود ریاض بسرا 2002ء میں اس وقت مارا گیا جبکہ وہ ملتان میں شیعہ فرقہ پر حملہ پلان کر رہا تھا۔ اس دوران وہ پولیس مقابلے میں مارا گیا۔ دیگر کارروائیوں میں 2002ء میں لشکر جھنگوی نے 11 فرانسیسی ٹیکنیشن کی ایک بس پر بم کا حملہ کیا اور پندرہ افراد کو ہلاک کردیا جبکہ 17 مارچ 2002ء کو اسلام آباد کے ایک چرچ پر بھی بم کا حملہ کیا جس کے نتیجے میں پانچ افراد ہلاک اور 40 زخمی ہوگئے اور پولیس نے چرچ سانحے کی ذمہ دار جھنگوی ارکان کو گرفتار کرلیا اور لشکر جھنگوی نے بیان دیا کہ چرچ پر حملہ امریکہ کا افغانستان پر حملے کا جواب ہے۔
    27 دسمبر 2007ء کو محترمہ بے نظیر کے قتل کے سلسلے میں بھی پاکستانی حکومت انٹیریئر منسٹری نے محترمہ کے قتل کے ذمہ دار لشکر جھنگوی کو قرار دیا جبکہ اعلیٰ اتھارٹیز کا دعویٰ ہے کہ مارچ 2009ء میں سری لنکا کی قومی ٹیم پر حملے کی کوشش بھی لشکر جھنگوی ہی نے کی تھی۔ لشکر جھنگوی نے 20 ستمبر 2011ء کو 26 شیعہ زائرین کی ہلاکت کی ذمہ داری بھی قبول کی جو ایران زیارت پر جا رہے تھے اور اب افغانستان یوم عاشور کے موقع پر سائیکل میں نصب بم بلاسٹ کی ذمہ داری بھی صدر کرزئی نے لشکر جھنگوی پر عائد کی ہے جس میں کم و بیش 59 افراد لقمۂ اجل بنے ہیں۔ لشکر جھنگوی العالمی کا نام قبائلی علاقوں میں فوجی آپریشن کے دوران سامنے آیا اور جب بھی بریلوی یا شیعہ مسلک کے افراد یا مذہبی مقامات پر حملے ہوں اس کی جانب سے ذمہ داری قبول کرنے کی خبر آجاتی ہے۔
    لشکر جھنگوی دراصل مارشل لا کی پیداوار ہے ۔یہ مذہبی انتہا پسندوں پر مشتمل ایک چھوٹا سا گروہ تھا کہ جس نے جنرل ضیا الحق کے دور میں آنکھ کھولی۔ ابتدائی مرحلے میں پنجاب اور پھر پورے ملک میں دہشت گردانہ کاروائیاں انجام دیں۔اس دہشت گرد گروہ کے جتنے ارکان بھی پکڑے گئے سب کے سب معجزانہ طور پر پنجہ عدالت سے بچ نکلنے میں کامیاب ہو گئے۔ وفاقي وزير داخلہ نے کہا کہ پنجاب ميں لشکر جھنگوي کے لوگ سرگرم ہيں اور افسروں کے ساتھ گھومتے پھرتے ہيں- لشکري جھنگوي کا ہيڈ کوارٹر جھنگ ميں ہے ليکن ان کے خلاف کوئي کارروائي نہيں ہوئي-دراصل دہشت گردوں کا ووٹ بینک اتنا مضبوط اور قوی ہے کہ وفاقی اور صوبائی حکومت سنجیدہ اور ٹھوس کاروائی کر کے اس کو اپنے ہاتھ سے گنوانا نہیں چاہتی۔
    پچھلے دنوں ، القاعدہ اور طالبان کی حمایت یافتہ دہشت گرد تنظیم لشکر جھنگوی العالمی نے کابل،مزارشریف سمیت کئی شہروں میں عزاداروں پرحملوں کی ذمہ داری قبول کرلی ہے۔افغانستان میں کابل اور مزار شریف میں عزاداروں پر حملوں میں 50 سے زائد افراد شہید ہوگئے ہیں اور سو سے زیادہ زخمی، جو اس بات کی نشاندہی ہے کہ فرقہ واریت کا عفریت افغانستان تک پہنچ گیا ہے. فغانستان میں تین عشروں پر محیط خانہ جنگی اور ایک عشرے تک اس ملک پر امریکہ کے قبضے کے عرصے میں افغانستان میں کبھی بھی فرقہ وارانہ فسادات نہیں ہوئے تھے، اس سارے عرصے میں افغانستان میں تمام اقوام اور مذاہب سے تعلق رکھنے والے افراد اپنی ارضی سالمیت اور خود مختاری کے تحفظ کے لئے ایک صف میں شامل تھے،اب افغانستان میں لشکر جھنگوی کے سرگرم ہونے سے اس بات کی نشاندہی ہوتی ہے کہ دہشت گرد گروہ نے افغانستان میں فرقہ واریت اور مختلف مذاہب کے پیرووں کے درمیان لڑائیوں کا بیڑا اٹھایا ہے ۔ افغانستان میں ایک دہائی سے جاری جنگ میں شیعہ مسلمانوں پر کیا جانے والا یہ پہلا حملہ ہے جس میں فرقہ واریت کا رنگ جھلکتا ہے۔ لشکر جھنگوی جیسی دہشت گردی تنظیمیں دونوں ممالک کے لیے حقیقی خطرہ ہیں۔ افغانستان میں بھی شیعہ اقلیت اور سنی اکثریت میں کشیدگی رہتی ہے تاہم عراق اور پاکستان کی طرح افغانستان میں اتنے بڑے پیمانے فرقہ وارانہ تشدد کبھی کبھار دیکھا گیا ہے۔
    اس سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ کم از کم بعض عسکریت پسند گروپوں نے اپنی حکمت عملی تبدیل کر لی ہے اور اب وہ ہزارہ قوم کے افراد کو نشانہ بنا رہے ہیں۔ ہزارہ قوم کے زیادہ تر افراد شیعہ مسلمان ہیں اور افغان حکومت اور اس کے مغربی اتحادیوں کے حامی ہیں۔ تاہم اس بات پر بھی شک کا اظہار کیا جا رہا ہے کہ آیا کوئی غیر معروف گروپ افغانستان میں اتنے مربوط انداز میں حملے کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ اس سے قبل لشکر جھنگوی کی افغانستان میں کارروائیوں کا کوئی ریکارڈ نہیں ملتا۔
    یاد رہے کہ حکومت پاکستان نے لشکر جھنگوی اور سپاہ صحابہ جیسے دہشت گرد گروہوں کی سرگرمیوں پر پابندی لگا رکھی ہے اور ان کے خلاف کارروائی بھی ہوتی رہتی ہے افغانستان کے عوام بھی توقع رکھتے ہیں کہ پاکستان کی حکومت دہشت گرد گروہوں کے خلاف سخت ایکشن لیتے ہوئے افغانستان میں دہشتگردی کے فروغ کی کوششوں کو ناکام بنا دے گی، افغان صدر حامد کرزئی نے کابل اور مزار شریف دھماکوں کا الزام لشکر جھنگوی پر لگاتے ہوئے پاکستان سے انصاف کا مطالبہ کیا ہے۔ حامد کرزئی نے کہا کہ حملہ کے لئے پاکستان کی سرزمین استعمال ہوئی۔ دوسری جانب افغان پارلیمنٹ کی دفاعی کمیٹی نے اعلان کیا ہے کہ لشکر جھنگوی العالمی کو پاکستان کی حمایت حاصل ہے، یوم عاشور پر ہونے والی کاروائی قابل مذمت ہے۔ پاکستان نے ایک بار پھر ثابت کر دیا ہے کہ وہ افغانستان میں استحکام نہیں چاہتا۔ کمیٹی کے سربراہ شکریہ بارکزئی نے کہا کہ پاکستانی وزیر داخلہ کے طالبان کے شکریہ ادا کرنے کے بیان سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ پاکستان نے جانتے ہوئےدہشت گرد گروپ کو افغانستان میں کاروائی کی اجازت دی۔
    اس حملے کے بعد افغان اور دوسرے میڈیا میں ایک مرتبہ پھر آئی ایس آئی پر انگلیاں اٹھائی جا رہی ہیں- اور یہ الزام تواتر سے لگایا جاتا رہا ہے کہ وہ لشکر جھنگوی ،القائدہ اور طالبان جیسے گروپوں سے رابطہ رکھے ہوئے ہے-اور ان کو افغانستان میں اپنے لئے استعمال کر رہی ہے- مگر پاک فوج کے ترجمان ڈی جی آئی ایس پی آر جنرل اطہر عباس نے افغان حکام کی جانب سے لشکر جھنگوی العالمی کے ساتھ روابط کا الزام اور افغان صدر حامدکرزئی کی جانب سے کارروائی کرنے کے مطالبہ کو سختی سے مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ شدت پسند تنظیم پاک فوج کیخلاف بھی کئی حملوں میں ملوث ہے۔ جنرل اطہر عباس نے فرقہ وارانہ عزائم رکھنے والی شدت پسند تنظیم لشکر جھنگوی کے حوالے سے واضح الفاظ میں کہا کہ اس کاپاکستان کے کسی بھی انٹیلی جنس ادارے سے کوئی تعلق یا رابطہ نہیں۔ انہوں نے کہاکہ لشکر جھنگوی کیخلاف پاک فوج نے کئی کارروائیاں کیں جن میں کریک ڈاون بھی شامل ہے۔ واضح رہے کہ اس سے قبل افغان صدر حامدکرزئی نے الزام عائد کیا کابل میں عاشور پر خودکش حملے میں پاکستانی انتہا پسند تنظیم لشکر جھنگوی ملوث ہے اور پاکستان اس کے ذمہ داران کیخلاف کارروائی کرے۔
    اس حملے کے بعد عالمی میڈیا میں یہ تاثر پایا گیا ہے کہ بون کانفرنس میں پاکستان کی عدم شرکت کے بعد یہ حملہ دراصل پاکستان کی طرف سے یہ پیغام دینے کی کوشش ہے کہ وہ جب چاہیں افغانستان کا امن تباہ کر سکتے ہیں-اے ایف پی نے رپورٹ کیا کہ لشکر جھنگوی کے القائدہ کے ساتھ گہرے تعلقات ہیں اور وہ اس پر ہزاروں شیعوں کو قتل کرنے کا الزام ہے۔
    ڈاکٹر حسن عسکری نے کہا ہے کہ طالبان کے کچھ گروپ بھی یہ کرسکتے ہیں کیونکہ وہ لشکر جھنگوی کے ساتھ عقائد شئیر کرتے ہی لیکن دیکھنا یہ ہے کہ لشکر جھنگوی کا دعوی کس حد تک قابل اعتبار ہے۔
    رحیم اللہ یوسفزئی نے کہا ہے کہ دہشت گرد گروپ کی وسعت اب پاکستان میں بھی بہت کم ہے اور اس چیز کا قوی امکان ہے کہ القائدہ،طالبان یا کسی اور گروپ نے افغانستان کے اندر سے لشکر جھنگوی کی مدد کی ہو ۔
    راقم کا خیال یہ کہ لشکر جھنگوی اپنے آپ ، اس طرح کا غیر معمولی حملہ افغانستان کے اندر کرنے کی اسطاعت نہ رکھتا ہے اور یہ حملہ یقینا طالبان کے گروپوں اور القائدہ کے اشتراک و تعاون سے ہی پایہ تکمیل کو پہنچا۔
    پاکستان کے وزیر داخلہ رحمان ملک نے کہا ہے کہ کراچی کے دہشتگردانہ واقعات میں بیرونی عناصر کا ہاتھ نہیں ہے بلکہ یہ دہشت گردانہ کاروائياں داخلی ممنوعہ تنظیموں نے کی ہیں۔رحمان ملک نے بتایا کہ لشکر جھنگوی کراچی کے حالیہ دہشت گردانہ واقعات کی ذمہ دار ہے۔رحمان ملک نے کہا کہ کراچی دھماکوں میں کالعدم لشکر جھنگوی ملوث ہے۔بمبار باہر سے نہیں آیا، ملک کا ہی ہوتا ہے۔انہوں نے کہا کہ طالبان اور لشکر جھنگوی کا دہشت گردی میں الحاق ہے۔

    رحمان ملک نے لشکر جھنگوی کا نام پہلی مرتبہ نہیں لیا اور میڈیا والوں سے گفتگو کرتے ہوئے وہ بارہا اس گروہ کا نام لے چکے ہیں۔ کوئٹہ پہنچنے کے بعد صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہاکہ القاعدہ ٗ کالعدم تحریک طالبان پاکستان اورکالعدم لشکر جھنگوی کے دہشت گرد مسلمان نہیں نہ ہی وہ پاکستان اور اسلام کے خیرخواہ ہیںیہ لوگ اس حد تک گر چکے ہیں کہ اب انہوں نے خواتین اور بچوں کو بھی نشانہ بنانا شروع کردیا ہے۔وفاقی وزیر داخلہ رحمن ملک نے کہا ہے کہ القاعدہ ٗ تحریک طالبان اور لشکر جھنگوی کے دہشت گرد لوگوں کی لاشیں گرا رہے ہیں ٗ خیبرپختونخواہ میں مصروف عمل دہشت گردوں نے اب بلوچستان کا رخ کرلیا ٗ یہ کرائے کے قاتل ہیں جو ملک دشمن عناصر کے آلہ کار بنے ہوئے ہیں ٗ کالعدم تنظیموں نے پاکستان کے خلاف ایکا کررکھا ہے ان کا جند اللہ اور بی ایل اے سے بھی واسطہ ہے ٗ سکیورٹی ادارے دہشت گردوں کیخلاف کارروائیاں کررہے ہیں۔
    پاکستان کی وفاقی پولیس نے ایک رپورٹ میں انکشاف کیا ہے کہ دارالحکومت اسلام آباد میں گزشتہ ایک سال کے دوران دہشت گردی کے اکثر واقعات میں لشکر جھنگوی،سپاہ صحابہ اور طالبان گروہوں کے اہم دہشت گرد ملوث ہیں، جن کا تعلق جنوبی پنجاب سے ہے. جولائی 2011ء میں رحمان ملک نے لشکر جھنگوی اور سپاہ صحابہ کے بارے میں بیان دیا تھا کہ یہ کرائے کے قاتل ہیں اور انہیں پنجاب میں دہشت گردی نہیں کرنے دی جائے گی۔ وہ داتا دربار پر بم بلاسٹ کے موقع پر اظہار خیال کر رہے تھے۔
    پاکستان کے وزیر داخلہ رحمان ملک نے کہا ہے کہ طالبان دہشت گرد اور لشکر جھنگوی والے کافر ہیں، علماء اہلسنت نے ان کے کفر پر واضح فتوے دیئے ہیں اور ان کی کارروائیوں کو غیر اسلامی اور غیر انسانی قراردیا ہے۔
    لشکر جھنگوی افواج پاکستان و انٹیلی جنس اداروں کے افراد کو قتل کرنے لگی۔ فوجی ڈکٹیٹر جنرل ضیاء نے بیرونی طاقتوں کی ایما پر بریلوی اہلسنت و شیعہ مسلمانوں کو قتل کرنے کے لئے لشکر جھنگوی کی ریاستی سرپرستی میں ٹریننگ کروائی لیکن اب لشکر جھنگوی کے دہشتگرد آستین کے سانپ بن کر اپنے ہی محسنوں کو کاٹنے لگے ہیں۔ جس پر افسوس ہی کیا جا سکتا ہے۔اللہ کے ہاں دیر ہے لیکن اندھیر نہیں ۔ اب بھی وقت ہے ہمارے ملک کے مقتدر اداروں اور ان میں موجود ضیاء آمریت کی باقیات بعض کالی بھیڑوں کے ساتھ ساتھ آستین کے ان سانپوں دہشتگرد لشکر جھنگوی سے چھٹکارا پا لیں وگرنہ عوام کے ساتھ ساتھ یہ دہشتگرد ان مقتدر اداروں کو بھی چھوڑنے والے نہیں۔
    ایک خبررساں ایجنسی کے مطابق حساس اداروں کی رپورٹ میں انکشاف کیا ہے کہ کالعدم لشکر جھنگوی،کالعدم حرکۃ الجہاد اور کالعدم تحریک طالبان ملک بھر سمیت خصوصاً پنجاب میں دہشت گردی کی کاروائیوں میں ملوث ہیں اور اب تک پنجاب میں ہونے والی دہشتگردی کے 49واقعات میں ان دہشت گرد تنظیموں کے ملوث ہونے کے شواہد ملے ہیں ۔رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ حرکۃ الجہاد اور تحریک طالبان کو چلانے اور دہشت گردی کے منصوبوں کی تکمیل میں القاعدہ کے دہشت گرد ماسٹر مائنڈ الیاس کشمیری کے ملوث ہونے کے شواہد بھی مل چکے ہیں،اور واضح ہوا ہے کہ یہی تین دہشت گرد گروہ پنجاب میں ہونے والے دہشت گرد حملوں میں ملوث ہیں۔
    پہلا گروپ جو کہ لشکر جھنگوی ہے افغانستان سے تربیت حاصل کر کے پاکستان میں اپنی سر گرمیوں کو جاری رکھے ہوئے ہے ،رپورٹ میں بیان کیا گیا ہے کہ لشکر جھنگوی جو کہ ایک دہشت گرد گروپ ہے دہشت گردی کی کاروائیوں کے لئے اپنی رپورٹس کو الیاس کشمیری( الیاس کشمیری ایک ڈرون حملے میں مارا جاچکا ہے) تک پہنچاتا تھا جبکہ بعد میں ان اطلاعات کو تحریک طالبان تک پہنچایا جاتا ہے اور اس کے بعد دوسرا گروہ خود کش بمبار کی فراہمی میں مدد فراہم کرتا ہے اور اسی طرح تیسرا دہشت گرد گھروہ جو کہ لوکل طالبان یعنی تحریک طالبان پاکستان کے نام سے اپنی سر گرمیاں انجام دے رہاہے دہشت گردی کے حملوں کو یقینی بناتا ہے اور تیسرا گروہ ان دہشت گرد گروہوں کو اسلحہ کی فراہمی اور خود کش بمبار کی جیکٹ کی فراہمی میں مدد فراہم کرتا ہے۔
    رپورٹ کے مطابق کہا گیا ہے کہ گذشہ ڈیڑھ برس کے عرصے میں ان کالعدم دہشت گرد تنظیموں کی دہشت گردوں نے پنجاب میں 49حملے کئے جس میں 687بے گناہ جانوں کا نقصان ہوا جن میں 69پولیس افسران بھی شامل ہیں ،جبکہ 1834افراد ذخمی ہو ئے جن میں 268افراد پولیس اہلکار تھے ۔49میں سے 21ویں دہشت گردی کے حملے کے بعد قانون نافذ کرنے والے اور حساس اداروں کی کاروائی کے بعد 37دہشت گرد جن کا تعلق درج بالا دہشت گرد تنظیموں سے تھا گرفتار ہوئے ،جبکہ 24پولیس مقابلوں میں مارے گئے اور اسی طرح 27دہشت گرد کود کش بمبار تھے جو خود کش دھماکوں میں مارے گئے ۔
    وزیر داخلہ رحمن ملک نے کہا ہے کہ بلوچستان میں ٹارگٹ کلنگ
    یکم ستمبر کو حضرت علیؓ کے یوم شہادت کے موقع پر عقیدت مندوں کے جلوس پر خودکش حملوں کے نتیجے میں ہونے والے جانی نقصان اور ڈیڑھ سو کے قریب زخمی ہونے والے واقعات سے ملک بھر میں سوگواری کی فضا برقرار تھی کہ جمعہ کے دن کوئٹہ میں خودکش حملے میں 65 افراد جاں بحق اور ڈیڑھ سو سے زائد زخمی ہو گئے اور سوگواری کی فضا دوچند ہو گئی ۔ دونوں دھماکوں کی ذمہ داری لشکر جھنگوی العالمی نے قبول کر لی ہے۔دنیائے تصوف کے برگزیدہ ہستی و ولی حضرت داتا گنج بخش ہجویری کی اخری ارام گاہ میں وحشت کا جو گھناوئنا کھیل کھیلا گیا تھا لشکر جھنگوی نے اس بہیمانہ واردات کی زمہ داری قبول کرلی تھی۔
    داتا دربار اور ماتمی جلوسوں میں اللہ اکبر کا نعرہ لگا کر خون کے دریا بہانے والے لشکر جھنگوی کے بھیڑیوں کو جو کہ خود ساختہ جہادی اور خدا کے باغی بن چکے، جان لینا چاہیے کہ رب العالمین نے ایک بے گناہ کے قتل کو پوری انسانیت پر ظلم کے مترادف قرار دیا ہے۔ لشکر جھنگوی کے بھیڑیوں کو پتہ ہونا چاہیے کہ خدا کے باغیوں کا کیا انجام ہوا کرتا ہے؟
    پاکستان کے پشتون خطے سے طالبان، پنجاب سے لشکر جھنگوی اور کشمیر سے لشکرطیبہ کے جہادی گروپوں نے اب یکجا ہو کر کارروائیاں شروع کر دی ہیں۔ اس دفعہ شدت پسندوں کا ٹارگٹ پنجاب ہے۔ یہ بات برطانوی اخبار فنانشل ٹائمز نے اپنے اداریے میں لکھی ہے۔ اخبار کے مطابق اب ان کو روکنا اور شکست دینا پاکستان کے لئے لازمی ہو گیا ہے۔ اب یہ جہادی گروپ بھارت کی بجائے پاکستان کے وجود کے لئے زیادہ خطرہ بن چکے ہیں۔ اخبار کے مطابق پاکستان کے مختلف شہروں میں حالیہ دہشت گردی کی لہر نے ثابت کر دیا ہے کہ جہادی گروپ مضبوط ہو رہے ہیں جہادی گروپ طالبان رہنما بیت اللہ محسود کی ہلاکت کے بعد اپنی کارروائیوں میں شدت لائے۔ ان جہادی گروپوں کو بھارت کیخلاف مضبوط کیا گیا کیونکہ بھارت اپنی نصف فوج کشمیر میں تعینات کر چکا تھا اور افغانستان سے اسٹرٹیجک تعلقات کو مضبوط بنا رہا تھا۔ اخبار کے مطابق پاکستان کی سیکورٹی اسٹیبلشمنٹ کچھ مخصوص اہداف کیخلاف آپریشن کرنا چاہتی تھی لیکن بے نظیر کی شہادت، مشرف پر حملے، پولیس یونٹس، اقوام متحدہ کے دفاتر، ہوٹلز حتیٰ کہ چند دن قبل جی ایچ کیو پر حملے نے ملٹری مائینڈ سیٹ کو تبدیل کردیا۔ اخبار لکھتا ہے کہ تحریک طالبان پشتون دیہاتی علاقے میں صرف دس فیصد آبادی میں اپنا اثرورسوخ رکھتی ہے۔
    خفیہ اداروں نے دعوی کیا ہے کہ اٹھائیس مئی کو لاہور کے دو محتلف علاقوں ماڈل ٹاؤن اور گڑھی شاہو کے علاقوں میں احمدیوں کی دو عبادت گاہوں پر ہونے والے حملوں میں کلعدم تنظیم لشکر جھنگوی کا فرقہ وارانہ گروپ ملوث تھا۔ اس کے علاوہ بینک ڈکیتیوں میں لشکر جھنگوی سمیت دیگر دہشتگرد تنظیمیں ملوث ہیں۔ مقتول گورنر سلمان تاثیر کے صاحبزادے شہباز تاثیر کے جمعہ کو دن دہاڑے گن پوائنٹ پر اغوا کا شبہ تحریک طالبان پاکستان سے جڑی لشکر جھنگوی پر کیا جارہا ہے، جس کے ٹاپ لیڈر ملک محمد اسحاق کو چالیس دن پہلے چودہ جولائی کو پنجاب حکومت نے چودہ سال بعد جیل سے رہا کیا تھا ۔ ملک اسحاق پر درجنوں فرقہ وارنہ قتل کی وارداتوں میں ملوث ہونے کا الزام رہا ہے۔
    وزیر داخلہ رحمان ملک نے کالعدم لشکر جھنگوی اور جیش محمد کے حوالے سے کہا کہ ان گروہوں کے عناصر نے قبائلی علاقوں میں پناہ لی اور اب یہ تربیت لے کر لوٹ رہے ہیں۔ اس سے قبل ستمبر 2008ء میں اسلام آباد میں میریٹ ہوٹل میں دہشت گردی کے واقعے ، مارچ 2009ء میں لاہور میں سری لنکن کرکٹ ٹیم اور مناواں میں پولیس کے تربیتی مرکز پر حملے، مئی 2009ء میں لاہور میں انٹر سروسز انٹیلی جنس اور ریسکیو 15 پر ہونے والے حملے اورگذشتہ برس اکتوبر میں جی ایچ کیو میں دہشت گردی کے واقعات سمیت متعدد کارروائیوں میں انتہا پسندوں کے ملوث ہونے کے شواہد سامنے آچکے ہیں۔ افغان جہاد کے مجاہد کرنل امام ، قتل سے پہلے لشکر جھنگوی العالمی کے احمداللہ منصورکے قبضہ میں تھے۔
    صوبہ پنجاب اور اسلام آباد میں ہونے والے دہشت گردی کے پے درپے واقعات اور ان واقعات میں کالعدم انتہا پسند گروہوں کی القاعدہ اور طالبان کے ساتھ اعانت کے شواہد کے بعد یہ بات بڑی حدتک واضح ہوچکی ہے کہ ا ندرون ملک دہشت گردوں میں کالعدم انتہا پسند گروہ لشکر جھنگوی اور جیش محمد زیادہ اہم ہیں۔ ان گروہوں کے افراد نہ صرف قبائلی علاقوں میں موجود طالبان کو مالی امداد فراہم کرتے ہیں بلکہ خود کش بمباروں کی بھرتی کا بھی بڑا ذریعہ بھی ہیں۔ علاوہ ازیں ان جماعتوں کے لوگ اندرون ملک دہشت گردی کے واقعات کے لیے قبائلی علاقوں یا دیگر علاقوں سے آنے والے طالبان عناصر کے لیے سہولت کار کا کام بھی کرتے ہیں۔
    خوست میں 1987ء سے سپاہ صحابہ نے اپنا ٹریننگ سنٹر قائم کر لیا تھا اور ریاض بسرا اور جھنگ کا عقیل نامی ایک سابق فوجی اس مرکز کے انچارج تھے۔ بعد میں جب ریاض بسرا نے لشکر جھنگوی کی بنیاد رکھی تو یہ تربیتی مرکز لشکر جھنگوی نے اپنے قبضے میں کر لیا ۔ اس کے علاوہ لشکر جھنگوی کے دہشت گرد، طالبان کے دور میں ، کیمپ بدر ، معاویہ اور اور ولید جو کہ مشرقی افغانستان میں واقع ہیں ،تربیت حاصل کرتے رہے ہیں۔ اس طرح افغانستان میں طالبان کے قبضے کے دوران پاکستان میں فرقہ وارانہ دہشت گردی کے واقعات میں ملوث زیادہ تر دہشت گرد افغانستان ہی میں پناہ حاصل کرتے رہے ہیں۔ تاہم اکتوبر 2001ء میں افغانستان پر امریکی حملے اور کابل سے طالبان کی بے دخلی کے بعد فرقہ وارانہ دہشت گردی میں ملوث اِن گروہوں کا رخ بھی قبائلی علاقہ جات کی طرف ہو گیا۔ یوں سقوط کابل کے بعد بھی عملی طور پر ان گروہوں اور القاعدہ اور طالبان کے درمیان قریبی روابط برقرار رہے اور 2007ء میں بیت اللہ محسود کی تحریک طالبان پاکستان میں بھی سرکردہ عہدوں پر فائز ہونے والے زیادہ تر عناصر کا تعلق انہی فرقہ وارانہ متشدد گروہوں سے تھا۔
    محقق ڈاکٹر حسن عباس ایک مقالے میں لکھتے ہیں کہ پنجابی طالبان ان کالعدم فرقہ وارانہ گروہوں اور جہادی تنظیموں کا گٹھ جوڑ ہے جن کے طالبان تحریک اور قبائلی علاقہ جات کے دیگر انتہا پسند گروہوں کے ساتھ تعلقات قائم ہو چکے ہیں اور یہ گروہ قبائلی علاقہ جات اور ملک کے دیگر حصوں کے درمیان متحرک ہیں۔ اس طرح یہ گروہ قبائلی علاقہ کے انتہا پسند گروہوں کے اشارے پر اندرون ملک دہشت گردی کے واقعات میں اعانت کے علاوہ قبائلی علاقہ جات میں موجود دہشت گرد گروہوں کی افرادی، مالی اور مادی ضروریات کی تکمیل کا ایک بڑا ذریعہ بھی بن چکا ہے۔
    جنرل (ر) پرویز مشرف کے دور میں 2001ء اور 2003ء کے دوران جب ملک میں فرقہ وارانہ تشدد میں ملوث بعض تنظیموں پر پابندی عائد کی گئی اور ان تنظیموں کے خلاف اندرون ملک کریک ڈاؤن شروع کیا گیا تو لشکر جھنگوی سمیت کئی گروہوں سے وابستہ عناصر قبائلی علاقہ جات کی طرف فرارہونا شروع ہو گئے، جہاں انہوں نے اپنے مراکز بھی قائم کر لیے۔ ان عناصر میں لشکر جھنگوی اور جیش محمد کے ساتھ وابستہ عناصر کی تعداد زیادہ تھی۔ غالباً 2007ء کے شروع میں جنوبی وزیرستان سے اِس طرح کی اطلاعات موصول ہونا شروع ہوئیں کہ وہاں پنجاب اور ملک کے دیگر علاقوں سے انتہا پسندوں کے چھوٹے گروہ آ کر بسنا شروع ہوگئے ہیں۔
    جنوبی پنجاب کا علاقہ شدت پسند گروہ لشکر جھنگوی، جیش محمد، حرکت الجہاد اسلامی اور لشکرطیبہ کا مضبوط گڑھ رہا ہے۔ اس دوران اس علاقے میں فرقہ وارانہ تشدد اور عبادت خانوں پر حملوں کے متعدد واقعات پیش آ چکے ہیں۔ جنوبی پنجاب میں انتہا پسند گروہ لشکر جھنگوی اور حرکت الجہاد اسلامی کے مضبوط نیٹ ورک کا اندازہ اس سے بخوبی لگایا جا سکتا ہے کہ ان جماعتوںکے تقریباً سبھی اہم کردار اور دہشت گردی کے بڑے واقعات میں ملوث ایسے درجنوں انتہا پسند جن کے سروں پر حکومت کی طرف سے لاکھوں روپے انعام مقرر کیا گیا ہے، کا تعلق جنوبی پنجاب ہی سے ہے۔ جنوبی پنجاب کے اضلاع میں شدت
    فرقہ وارانہ گروہوں کے القاعدہ اور طالبان کے ساتھ بڑھتے ہوئے روابط کی بنا پر جنوبی پنجاب کے اضلاع میں انتہا پسند گروہوں کے زور پکڑنے کے حوالے سے خدشات ظاہر کیے جاتے رہے ہیں۔ اس حوالے سے گذشتہ قریب ایک برس سے خبریں آتی رہی ہیں کہ جنوبی پنجاب میں دہشت گردی کا نیٹ ورک اندرون ملک دہشت گردی کے بڑے واقعات کا سبب بن سکتا ہے۔گذشتہ برس26جون کو برطانوی اخبار فنانشل ٹائمز کو دیے گئے ایک انٹر ویو میں وزیر داخلہ رحمان ملک نے جنوبی پنجاب کے علاقے میں سوات جیسی صورتحال پیدا ہونے کا خدشہ ظاہر کیا تھا۔ وزیر داخلہ کا کہنا تھا کہ یہ خدشہ ہے کہ سوات اور وزیرستان کے علاقوں سے فرار ہونے والے دہشت گرد جنوبی پنجاب کے علاقوں میں پناہ حاصل کر سکتے ہیں۔ تاہم پنجاب کے انسپکٹر جنرل پولیس اور وزیر قانون رانا ثنا اللہ سمیت پنجاب کے متعدد اعلیٰ عہدیداروں نے اس بیان پر خاصی بیان بازی کی۔
    حقائق ثابت کرتے ہیں کہ پنجاب خواہ اسے جنوبی یا شمالی یا وسطی کے نام سے پکاریں ، سے بڑی تعداد میں لشکر جھنگوی اور دوسری فرقہ وارانہ تنظیموں سے تعلق رکھنے والے عناصر قبائلی علاقوں کے انتہا پسندوںسے گہرے مراسم پیدا کر چکے ہیں اور اِن حقائق کو نہ ماننے کی روش پنجاب سمیت دیگر صوبوں کے امن کے لیے بھی انتہائی خطرناک ثابت ہو رہی ہے اور لشکر جھنگوی کے دہشت گرد ،مسلمانوں اور انسانیت کو ایک حقیقی خطرہ ہیں۔
    فرقہ ورانہ تشدد پاکستان و افغانستان کے لئے زہر قاتل ہے۔ یہ لوگ بدامنی و فرقہ ورانہ تشدد کی آگ بھڑکا کر ملک کو ٹکڑے ٹکڑے کر دینے کے درپے ہیں۔ یہ لوگ پوری انسانیت کے قاتل ہیں اس لیے کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے۔ جس نے کسی انسان کو خون کے بدلے یا زمین میں فساد پھیلانے کے سوا کسی اور وجہ سے قتل کیا گویا اس نے سارے انسانوں کو قتل کر دیا اور جس نے کسی کی جان بچائی اس نے گویا تمام انسانوں کو زندگی بخش دی۔(المائدۃ۔۳۲)

  • #2
    Re: لشکر جھنگوی ، ایک فرقہ ورانہ دہشت گرد تنظی

    یہاں لکھنے کا مقصد ِِِِِ؟؟؟

    Comment


    • #3
      http://www.awazepakistan.wordpress.com

      Comment

      Working...
      X