تحریک طالبان پاکستان کی ڈانواں ڈول کشتی
تحریک طالبان کی کشتی ڈانواں ڈول ہے ،اس کے پیندے میں بے شمار ناقابل مرمت، بڑے بڑے سوراخ ہو چکے ہیں جس کی وجہ سے کشتی میں مسلسل پانی بھر رہا ہے اور اس پر تماشہ یہ کہ کشتی بھنور میں پھنس کر رہ گئی ہے اور اس کشتی کے کنارے لگنے کے چانسز صفر سے بھی کم ہیں۔ اس کشتی کے مسافر ،اپنی جانیں بچانے کے لئے کوشان ہیں اور کچھ مسافر تیر کر کنارے پر پہنچ گئے ہین باقی تیرنے کی ناکام کوشش کرتے ہوئے جان کی بازی ہار گئے ہیں۔ کشتی کا ناخدا ایک انتہائ نا تجربہ کار ،نااہل اور تنظیمی صلاحیتوں سے عاری شخص ہے، جس کا پیدائشی نام ذوالفقار تھا مگر اس نے حکیم اللہ کا نام اختیار کر لیا۔ اس ذوالفقار میں نہ تو ذولفقار حیدری والی کاٹ ہے اور نہ ہی یہ حکیم ،حکمت کا مالک ہے۔ کشتی طالبان کا یہ حال اس شخص کی نااہلیوں ،ناتجربہ کاریوں اور کوتاہ اندیشیوں کی وجہ سے ہوا ہے۔ اس کشتی کے عملہ کے لوگ موقع پرست،نا اہل اور اور تنظیمی صلاحیتوں اور اپنے کام سے، اپنے ناخدا کی طرح ناواقف ہیں۔ کشتی طالبان کے ہونے والے مسافر اس کشتی کی مزید افادیت اور کارکردگی سے انتہائی مایوس ہیں اور اس کے ناخدا سے نالاں و بیزار ہیں اور اس پر کسی قسم کا اعتماد کرنے کے لئے تیار نہ ہیں اور دوسری طرف دیکھ رہے ہیں۔
اگست 2009 میں ایک ڈرون حملے کے نتیجے میں اپنے بااثر رہنما ، بیعت اللہ محسود کی ہلاکت کے بعد سے تحریک طالبان پاکستان ایک متحدہ کمان کی صلاحیت سے محروم ہو چکی ہے۔ تحریک طالبان مختلف گروپوں کا ایک ڈھیلا ڈھالہ وفاق ہے جو اپنی سوچ میں مختلف الخیال ہیں اور دیو بندی عقائد پر یقین رکھتے ہیں۔
تحریک طالبان پاکستان ،جو القائدہ سے الحاق شدہ ہے،کو قیادت کا بحران درپیش ہے کیونکہ اس کا موجودہ سربراہ حکیم اللہ محسود قیادت کے لحاظ سے انتہائی ناتجربہ کار اور نااہل ہے جبکہ باجوڑ ایجنسی کا ایک ممتاز کمانڈر مولوی فقیر بھی اسے متحد رکھنے کی پوزیشن میں نہیں ہے اور نہ ہی نائب کماندار ولی الرحمن اس سلسلہ میں کچھ کر سکتا ہے۔ بیت اللہ محسود کی ہلاکت کے بعد تحریک میں اختلافات کی خبریں سامنے آنے لگیں۔ یہ اختلافات کمانڈر حکیم اللہ محسود، ایک اہم کمانڈر ولی الرحمٰن اور باجوڑ ایجنسی میں بیت اللہ کے ایک نائب مولوی فقیر کے درمیان ابھرے اور ان سے ایسے تنازعے کا آغاز ہوا جو آج تک جاری و ساری ہے۔ تحریک طالبان پاکستان کئی دھڑوں میں تقسیم ہو کر 100سے زائد گروپوں میں بٹ گئے ہیں، پاک فوج نے آپریشن اور امریکی ڈرونز کےحملوں نے ان کا بھرکس نکال کر رکھ دیا ہے، پاکستان حکومت کے ساتھ ، ان کی کمزوری کے بعد ،امن مذاکرات کے بیانات آرہے ہیں ،مالی لحاظ سے تحریک طالبان انتہائی مشکلات کا شکار ہے۔ فاٹا میں ایک سینئر محقق منصور محسود نے کہا ہے کہ "آج تحریک طالبان کا ڈھانچہ تقسیم اور کمزور ہوچکا ہے او ر انکے پاس رقم ختم ہوچکی ہے۔ یہ صورت حال پاک فوج اور حکومت کے لئے وسیع پیمانے پر معاون ثابت ہوئی ۔ حکومت کے ساتھ امن مذاکرات جیسے بیانات اسی پس منظر کی وجہ سے سامنے آرہے ہیں۔
طالبان کی طرف سے ہونے والے خودکش حملوں میں عام شہریوں کی ہلاکت کے بار بار واقعات اور بعض علاقوں میں ان کے خلاف عام لوگوں کے اٹھ کھڑے ہو جانے سے آجکل طالبان کی حمایت، عوام میں بہت زیادہ کم ہونے کی اطلاعات ہیں۔ خیال ر ہے کہ قبائلی علاقوں اور پاکستان کے دوسرے علاقوں میں طالبان کی مقبولیت کا گراف اب وہ نہیں رہا جو کبھی پہلے ہوا کرتا تھا۔
طالبان نے نہ تو مساجد کے تقدس کا خیال کیا اور نہ ہی اولیا اللہ اور بزرگوں کے مزارات کی حرمت کا۔ مؑصوم اور بے گناہ لوگوں کا خوں پانی کی طرح بہایا۔ ہر چیز کی ایک حد ہوتی ہے اور طالبان کے ظلم و جبر ،بربریت و سفاکی تمام حدیں پھلانگ گئی ،جس سے رائے عامہ ان ظالموں اور بھیڑیوں کے خلاف ہو گئی۔
طالبان کے خلاف نفرت پھیلنے کی ایک وجہ مزارات اور مساجد کی تباہی بھی ہے اور مزارات کی توہین کو خوش عقیدہ قبائلیوں اور پاکستانیوں کی بریلوی اکثریت اور غیرت مند جوانوں نے فراموش نہیں کیا۔ طالبان دہشت گردون نے پچھلے ۱۰ سالون مین لا تعداد مساجد کو بے رحمانہ طریقے سے اپنی دہشت گردی کا نشانہ بنایا اور ۱۱۶۵ نمازیون کو قتل کر کے اپنی بربریت کا نشانہ بنایا اور ۲۹۰۰ نمازیوں کو زخمی کر دیا، جن مین بچے،بوڑھے اور نوجوان شامل ہین۔ آجکل مساجد میں عبادت گزار ون کو اللہ تعالیٰ کے ذکر کی لذت اورعبادت کی سعادت کی بجائے اپنی جان کے لا لے پڑے ہوتے ہیں۔
طالبان کی طرف سے صوبہ خیبر پختونخواہ مین ایک ہزار سے زیادہ اسکولوں، مساجد اور عام لوگوں کو خود کش بم حملوں کے ذریعے ہلاک کئے جانے کو قبائلی علاقوں اور پاکستان کے دوسرے علاقوں مین اب پسندیدگی کی نظر سے نہیں دیکھا گیا۔طالبان نے ستمبر ۲۰۱۰ تک ۱۰۰۰ سے زیادہ طلبہ و طالبات کے سکولون کو تباہ و برباد کر کے قرآن ،رسول اکرم کی احادیث اور آیمہ کرام کے احکامات کی صریحا خلاف ورزی کے مرتکب ہوئے ہین۔ طالبان درندوں نے اپنے حملوں کے دوران سکولوں کے بچوں ، بچیوں اور اساتذہ کو بھی نہین بخشا۔
ان حملوں کی وجہ سے قبائلی باشندے آہستہ آہستہ طالبان کے بے اصول جہادی رویے سے تنگ آ گئے ہیں اور طالبان کی مقبولیت میں کمی واضح طور پر دیکھنے مین آئی ہے اور محسوس بھی کی جا رہی ہے۔ بہت سے دفاعی اور سیاسی تجزیہ نگاروں کا خیال ہے کہ طالبان بہت جلد فاٹا کی قبائلی پٹی میں بھی معدوم ہو جائیں گے کیونکہ عام لوگ مسلسل اپنے عزیزوں اور بچوں کی ہلاکت کے باعث غمزدہ ہونے کے ساتھ ساتھ ان کی سرگرمیوں کی وجہ سے معاشی اور معاشرتی پریشانی کی چکی میں بری طرح پس کر رہ گئے ہیں۔ پاکستان بھر مین اور بالخصوص صوبہ خیبر پختونخواہ میں تمام معاشی سرگرمیاں ختم ہو چکی ہیں جس سے معیشت کو زبردست نقصان پہنچا ہے۔ پہلے سے انتہائی غریب اور پسماندہ پاکستانی اور قبائلی معاشرہ اب مزید پریشانی کا شکار ہو چکا ہے۔
فرقہ وارانہ تنازعات کے گڑھ کرم ایجنسی کے سنی علاقوں میں فضل سعید حقانی کا کافی اثر و رسوخ ہے۔ وہ کسی زمانے میں تحریک طالبان پاکستان سے وابستہ تھا مگر علاقے میں تحریک طالبان پاکستان کے خلاف فوجی کارروائی سے کچھ ہی عرصہ قبل جون 2010 میں اس نے حکیم اللہ سے اپنی راہیں جدا کر لیں۔
سوات سے تعلق رکھنے والے ایک طالب علم رئیس کا کہنا ہےکہ ان کے آبائی ضلع میں طالبان تمام اقسام کی جابرانہ اور ظالمانہ کارروائیوں میں ملوث تھے۔ انہوں نے کہا کہ طالبان اپنے مخالفین کی لاشوں کو قبروں سے نکال کر سر عام پھانسی دیا کرتے تھے جو کہ دین اسلام کی خلاف ورزی ہے۔ انہوں نے کہا کہ طالبان کی اس طرح کی حماقتوں سے ان کی شہرت داغدار ہو گئی اور عوام کے دلوں میں ان کے خلاف نفرت پیدا ہو گئی ہے۔
پیو کےعالمی رجحانات منصوبے کے جاری کردہ رائے عامہ کے جائزے میں 51 فی صد افراد تحریک طالبان پاکستان کے مخالف جبکہ اس کے مقابلے میں محض 18 فی صد اس کے حامی ہیں۔ علماء کے قتل، مزاروں کی توہین، مساجد کی تباہی اور اسکولوں کے بموں سے اڑا دیے جانے سے قبائلی عوام پریشان ہیں اور ایسے امکانات کو تقویت حاصل ہو رہی ہے کہ کل جن طالبان کو قبائلیوں نے خوش آمدید کہا تھا، اب وہ ان کے خلاف خود ہی منظم ہو رہے ہین۔
گیلپ سروے کے مطابق دہشت گردی کے واقعات میں عام لوگوں کو نشانہ بنائے جانے کے واقعات میں اضافے کیساتھ پاکستان اور افغانستان میں طالبان کی مقبولیت میں نمایاں کمی آئی ہے۔سروے کے مطابق جون 2009 میں مجموعی طور پر طالبان کو15 فیصد پاکستانیوں کی حمایت حاصل تھی۔ جو نومبر دسمبر میں کم ہو کر صرف4 فیصد رہ گئی۔ صوبہ سرحد سے تعلق رکھنے والوں کی صرف ایک فیصد تعدادنے نومبر دسمبر2009کے دوران کیے گئے اس سروے میں طالبان کی حمایت کی،جبکہ جون میں طالبان کے حامیوں کی تعداد11فیصدتھی۔ بلوچستان میں بھی طالبان کے حامیوں میں کمی آئی ہے،جون میں کیے گئے سروے کے مطابق صوبے میں طالبان کے حامی26فیصدتھے جبکہ نومبردسمبرمیں صرف5فیصدافرادنے طالبان کی حمایت کی۔یہ سروے پاکستان میں گزشتہ سال نومبردسمبر میں15سال یااس سے زیادہ عمرکے1147افراد سے کیا گیا۔ لوگوں سے طالبان کی حمایت یا مخالفت کے بارے میں رائے لی گئی اورپھر اس کا موازنہ چھ ماہ قبل کیے گئے سروے کے نتائج سے کیا گیا۔ سروے کے مطابق افغانستان میں جون اورنومبرمیں کیے گئے دونوں سروے کے نتائج کے مطابق10میں سے8افرادطالبان کی موجودگی کو ناپسندیدگی کی نظرسے دیکھتے ہیں۔
وفاق کے زیر انتظام قبائلی علاقوں میں سلامتی کے امور کے سابق سربراہ ریٹائرڈ بریگیڈیر محمود شاہ نے کہا کہ ڈاکٹر فاروق خان، مولانا حسن جان اور مفتی نعیمی سمیت ماہرین تعلیم کے اغوا اور مذہبی علماء کے قتل سے طالبان کا تصور داغدار ہو گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ طالبان کھیلوں کے مخالف ہیں، وہ اسپتالوں اور اسکولوں میں کام کرنے والی خواتین کی مخالفت کرتے ہیں اور وہ خواتین کے گھروں سے باہر نکلنے کے بھی خلاف ہیں۔ ان پر عوامی اعتماد کیسے برقرار رہ سکتا ہے؟
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ اگست 2009 میں تحریک طالبان پاکستان کے رہنما بیت اللہ محسود کی ہلاکت کے بعد اندرونی چپقلشوں اور کافی عرصے سے قیادت کے بحران کے باعث اس تنظیم کے اثر و رسوخ میں کمی واقع ہو چکی ہے۔ کسی زمانے میں وفاق کے زیر انتظام قبائلی علاقوں میں مختلف عسکریت پسند گروپ تحریک طالبان پاکستان کے جھنڈے تلے جمع تھے۔
چونکہ تمام طالبان ایک مشترکہ خصوصیت کے حامل ہیں اور انکے پیچھے کارفرما ذہن ایک مخصوص طرز فکر رکھنے والا ذہن ہے۔ان میں سے بعض شعوری طور پر اور بعض لاشعوری طور پر دین اسلام کو نابود کرنا چاہتے ہیں۔یہ گروہ اپنی منفرد مذھبی روایات اور مخصوص انتہا پسندانہ طرز زندگی کو اسلام کے نام پر پاکستانی معاشرے پر مسلط کرنا چاہتا ہے اور ان میں موجود اسلام کے شعوری دشمن ، غیر انسانی اور غیر قرآنی مذھبی روایات اور قبائلی ثقافت کو اسلام کی اقدار و ثقافت قرار دے کر دین اسلام کی روز افزوں مقبولیت کو کم کرنے کی کوشش کر رہے ہیں اور غیر مسلموں کو اسلام سے دور بھگا رہے ہین۔
بہت سے طالبان پاکستان سےسے بھاگ کر افغانستان میں پناہ لے چکے ہیں یا پناہ لینے کی سعی کر رہے ہین۔ ان کے روپے ،پیسے اور فنڈز کے حصول کے ذرائع بند ہوچکے ہین اور طالباں روپیہ پیسا اکٹھا کر نے کے لئے ،بلیک نائٹ گروپ کے ذریعہ اغوا برائے تاوان،چوری و ڈاکہ زنی اور بنک ڈکیتویوں کے ذریعہ تحریک کو چلانے کے لئے رقم اکٹھی کر رہے ہین۔
لگتا ہے کہ طالبان نے عرب سپرنگ سے سبق حاصل کیا ہے اور ان کی سمجھ میں یہ بات ٓ آچکی ہے کہ القائدہ کا مسلح جدوجہد کا راستہ انہیں کہیں لیکر نہیں جائے گا بلکہ پر امن ذرائع سے جدوجہد کر کے اور قومی دہارے میں شامل ہو کر طالبان بے پناہ سیاسی فوائد حاصل کر سکتے ہیں لہذا انہوں نے حکومت سے بات چیت شروع کر دی ہے۔ طالبان کی جنگ و جدال کے نتیجہ مین ہمارے ملک کو ۶۸ ارب ڈالر سے زیادہ کا معاشی نقصان ہو چکا ہے اور ۳۵۰۰۰ سے زیادہ لوگ اپنی جانیں گنوا بیٹھے ہیں۔ تشدد مسائل کا حل نہ ہے بلکہ مزید مسائل کو جنم دیتا ہے۔ ایک فرانسیسی کہاوت ہے کہ تلوار کے زور پر سب کچھ کیا جا سکتا ہے مگر تلوار پر بیٹھا نہیں جا سکتا۔
فاٹا کے 27 ہزار 2 سو 20 مربع کلومیٹر رقبے پر 1 سو 30 بڑے اور چھوٹے عسکریت پسند گروپ موجود ہیں جن میں سے بعض تو وہ ہیں جو تحریک طالبان پاکستان سے الگ ہو چکے ہیں۔
ریٹائرڈ بریگیڈیر محمود شاہ کا کہنا ہے کہ جنوبی وزیرستان، باجوڑ اور مہمند ایجنسیوں میں کامیاب فوجی حکمت عملی کے نتیجے میں تحریک طالبان پاکستان کی کمر توڑ دی گئی ہے اور تنظیم کے قدم اکھڑ رہے ہیں۔ صورت حال اس وقت تبدیل ہو گئی جب فوج نے حکیم اللہ محسود کے عسکریت پسندوں پر فوجی دباؤ ڈال کر انہیں جنوبی وزیرستان کے اپنے گڑھ سے نکل کر شمالی وزیرستان میں جانے پر مجبور کر دیا۔ اس کے بعد سے قبائلی خطوں میں تحریک طالبان پاکستان مختلف گروپوں میں بکھرنا شروع ہو گئی ہے۔
بریگیڈیر شاہ نے تحریک طالبان پاکستان سے الگ ہونے والے عسکریت پسند گروپوں کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ کسی کو بھی معلوم نہیں ہے کہ اس وقت ان عسکریت پسند گروپوں کی کیا تعداد ہے۔ رہی سہی کسر امریکی ڈرون حملوں نے پوری کر دی اور طالبان کی قیادت اور دوسرے لیڈروں کو چن چن کر نشانہ بنایا جس کے نتیجہ میں طالبان سو سے زیادہ گروپوں میں تقسیم ہو چکے ہیں۔ یہ صورتحال فوج اور پاکستانی حکومت اور بین الاقوامی برادری کے لئے فائدہ مند ہے کیونکی طالبان اب تقسیم ہو چکے ہین۔ اس کے علاوہ پاکستانی فوج کی ۔ تقسیم کرو اور فتح کروـ کی پالیسی بھی اس معاملے بڑی ممد و معاون ثابت ہو رہی ہے۔ اس پالیسی کی وجہ سے بہت سے کمانڈر طالبان سے علیحدہ ہو چکے ہیں اور مختلف ایریاز میں، اپنی کمزوری کی وجہ سے حکومت سے بات چیت کر رہے ہین یا کرنے کے خواہشمند ہیں اور اس سے تحریک طالبان مزید کمزور ہو رہی ہے۔ طالبان کی اس کمزوری کا اثر افغانستاں کی جنگ پر ہونا ایک لازمی امر ہو گا۔
قبائلی علاقوں میں رہنے والوں کی اکثریت دہشت گرد نہ ہے۔ گاجر اور چھڑیStick & Carrot)) کی پالیسی جاری رہنی چاہئے اور طاقت کے استعمال کے ساتھ ساتھ ، مائل بہ امن طالبان کے ساتھ مذاکرات کے دروازے کھلے رکھنے چاہیں تاکہ گم گشتہ راہ طالبان ،دوبارہ قومی دہارے مین شامل ہو کر ملکی ترقی میں اپنا کردار ادا کر سکیں مگر جو طالبان مائل بہ امن نہ ہوں ان کو کچل دیا جائے ۔ یہ امر ہمارے ملک کے بہترین مفاد میں ہے۔
ان حالات کی وجہ سے طالبان ایک ایسے ٹمٹماتے چراغ کی مانند ہیں جو گل ہونے کے بہت قریب ہے اور امید ہےکہ تحریک طالبان بہت جلد ہی تاریخ کے اوراق میں گم ہو جاے گی اور تاریخ میں اس کا ذکر خوارج اور دوسرے باغی گروہوں کے ساتھ آئے گا۔
مٹے نامیوں کے نشان کیسے کیسے۔
تحریک طالبان کی کشتی ڈانواں ڈول ہے ،اس کے پیندے میں بے شمار ناقابل مرمت، بڑے بڑے سوراخ ہو چکے ہیں جس کی وجہ سے کشتی میں مسلسل پانی بھر رہا ہے اور اس پر تماشہ یہ کہ کشتی بھنور میں پھنس کر رہ گئی ہے اور اس کشتی کے کنارے لگنے کے چانسز صفر سے بھی کم ہیں۔ اس کشتی کے مسافر ،اپنی جانیں بچانے کے لئے کوشان ہیں اور کچھ مسافر تیر کر کنارے پر پہنچ گئے ہین باقی تیرنے کی ناکام کوشش کرتے ہوئے جان کی بازی ہار گئے ہیں۔ کشتی کا ناخدا ایک انتہائ نا تجربہ کار ،نااہل اور تنظیمی صلاحیتوں سے عاری شخص ہے، جس کا پیدائشی نام ذوالفقار تھا مگر اس نے حکیم اللہ کا نام اختیار کر لیا۔ اس ذوالفقار میں نہ تو ذولفقار حیدری والی کاٹ ہے اور نہ ہی یہ حکیم ،حکمت کا مالک ہے۔ کشتی طالبان کا یہ حال اس شخص کی نااہلیوں ،ناتجربہ کاریوں اور کوتاہ اندیشیوں کی وجہ سے ہوا ہے۔ اس کشتی کے عملہ کے لوگ موقع پرست،نا اہل اور اور تنظیمی صلاحیتوں اور اپنے کام سے، اپنے ناخدا کی طرح ناواقف ہیں۔ کشتی طالبان کے ہونے والے مسافر اس کشتی کی مزید افادیت اور کارکردگی سے انتہائی مایوس ہیں اور اس کے ناخدا سے نالاں و بیزار ہیں اور اس پر کسی قسم کا اعتماد کرنے کے لئے تیار نہ ہیں اور دوسری طرف دیکھ رہے ہیں۔
اگست 2009 میں ایک ڈرون حملے کے نتیجے میں اپنے بااثر رہنما ، بیعت اللہ محسود کی ہلاکت کے بعد سے تحریک طالبان پاکستان ایک متحدہ کمان کی صلاحیت سے محروم ہو چکی ہے۔ تحریک طالبان مختلف گروپوں کا ایک ڈھیلا ڈھالہ وفاق ہے جو اپنی سوچ میں مختلف الخیال ہیں اور دیو بندی عقائد پر یقین رکھتے ہیں۔
تحریک طالبان پاکستان ،جو القائدہ سے الحاق شدہ ہے،کو قیادت کا بحران درپیش ہے کیونکہ اس کا موجودہ سربراہ حکیم اللہ محسود قیادت کے لحاظ سے انتہائی ناتجربہ کار اور نااہل ہے جبکہ باجوڑ ایجنسی کا ایک ممتاز کمانڈر مولوی فقیر بھی اسے متحد رکھنے کی پوزیشن میں نہیں ہے اور نہ ہی نائب کماندار ولی الرحمن اس سلسلہ میں کچھ کر سکتا ہے۔ بیت اللہ محسود کی ہلاکت کے بعد تحریک میں اختلافات کی خبریں سامنے آنے لگیں۔ یہ اختلافات کمانڈر حکیم اللہ محسود، ایک اہم کمانڈر ولی الرحمٰن اور باجوڑ ایجنسی میں بیت اللہ کے ایک نائب مولوی فقیر کے درمیان ابھرے اور ان سے ایسے تنازعے کا آغاز ہوا جو آج تک جاری و ساری ہے۔ تحریک طالبان پاکستان کئی دھڑوں میں تقسیم ہو کر 100سے زائد گروپوں میں بٹ گئے ہیں، پاک فوج نے آپریشن اور امریکی ڈرونز کےحملوں نے ان کا بھرکس نکال کر رکھ دیا ہے، پاکستان حکومت کے ساتھ ، ان کی کمزوری کے بعد ،امن مذاکرات کے بیانات آرہے ہیں ،مالی لحاظ سے تحریک طالبان انتہائی مشکلات کا شکار ہے۔ فاٹا میں ایک سینئر محقق منصور محسود نے کہا ہے کہ "آج تحریک طالبان کا ڈھانچہ تقسیم اور کمزور ہوچکا ہے او ر انکے پاس رقم ختم ہوچکی ہے۔ یہ صورت حال پاک فوج اور حکومت کے لئے وسیع پیمانے پر معاون ثابت ہوئی ۔ حکومت کے ساتھ امن مذاکرات جیسے بیانات اسی پس منظر کی وجہ سے سامنے آرہے ہیں۔
طالبان کی طرف سے ہونے والے خودکش حملوں میں عام شہریوں کی ہلاکت کے بار بار واقعات اور بعض علاقوں میں ان کے خلاف عام لوگوں کے اٹھ کھڑے ہو جانے سے آجکل طالبان کی حمایت، عوام میں بہت زیادہ کم ہونے کی اطلاعات ہیں۔ خیال ر ہے کہ قبائلی علاقوں اور پاکستان کے دوسرے علاقوں میں طالبان کی مقبولیت کا گراف اب وہ نہیں رہا جو کبھی پہلے ہوا کرتا تھا۔
طالبان نے نہ تو مساجد کے تقدس کا خیال کیا اور نہ ہی اولیا اللہ اور بزرگوں کے مزارات کی حرمت کا۔ مؑصوم اور بے گناہ لوگوں کا خوں پانی کی طرح بہایا۔ ہر چیز کی ایک حد ہوتی ہے اور طالبان کے ظلم و جبر ،بربریت و سفاکی تمام حدیں پھلانگ گئی ،جس سے رائے عامہ ان ظالموں اور بھیڑیوں کے خلاف ہو گئی۔
طالبان کے خلاف نفرت پھیلنے کی ایک وجہ مزارات اور مساجد کی تباہی بھی ہے اور مزارات کی توہین کو خوش عقیدہ قبائلیوں اور پاکستانیوں کی بریلوی اکثریت اور غیرت مند جوانوں نے فراموش نہیں کیا۔ طالبان دہشت گردون نے پچھلے ۱۰ سالون مین لا تعداد مساجد کو بے رحمانہ طریقے سے اپنی دہشت گردی کا نشانہ بنایا اور ۱۱۶۵ نمازیون کو قتل کر کے اپنی بربریت کا نشانہ بنایا اور ۲۹۰۰ نمازیوں کو زخمی کر دیا، جن مین بچے،بوڑھے اور نوجوان شامل ہین۔ آجکل مساجد میں عبادت گزار ون کو اللہ تعالیٰ کے ذکر کی لذت اورعبادت کی سعادت کی بجائے اپنی جان کے لا لے پڑے ہوتے ہیں۔
طالبان کی طرف سے صوبہ خیبر پختونخواہ مین ایک ہزار سے زیادہ اسکولوں، مساجد اور عام لوگوں کو خود کش بم حملوں کے ذریعے ہلاک کئے جانے کو قبائلی علاقوں اور پاکستان کے دوسرے علاقوں مین اب پسندیدگی کی نظر سے نہیں دیکھا گیا۔طالبان نے ستمبر ۲۰۱۰ تک ۱۰۰۰ سے زیادہ طلبہ و طالبات کے سکولون کو تباہ و برباد کر کے قرآن ،رسول اکرم کی احادیث اور آیمہ کرام کے احکامات کی صریحا خلاف ورزی کے مرتکب ہوئے ہین۔ طالبان درندوں نے اپنے حملوں کے دوران سکولوں کے بچوں ، بچیوں اور اساتذہ کو بھی نہین بخشا۔
ان حملوں کی وجہ سے قبائلی باشندے آہستہ آہستہ طالبان کے بے اصول جہادی رویے سے تنگ آ گئے ہیں اور طالبان کی مقبولیت میں کمی واضح طور پر دیکھنے مین آئی ہے اور محسوس بھی کی جا رہی ہے۔ بہت سے دفاعی اور سیاسی تجزیہ نگاروں کا خیال ہے کہ طالبان بہت جلد فاٹا کی قبائلی پٹی میں بھی معدوم ہو جائیں گے کیونکہ عام لوگ مسلسل اپنے عزیزوں اور بچوں کی ہلاکت کے باعث غمزدہ ہونے کے ساتھ ساتھ ان کی سرگرمیوں کی وجہ سے معاشی اور معاشرتی پریشانی کی چکی میں بری طرح پس کر رہ گئے ہیں۔ پاکستان بھر مین اور بالخصوص صوبہ خیبر پختونخواہ میں تمام معاشی سرگرمیاں ختم ہو چکی ہیں جس سے معیشت کو زبردست نقصان پہنچا ہے۔ پہلے سے انتہائی غریب اور پسماندہ پاکستانی اور قبائلی معاشرہ اب مزید پریشانی کا شکار ہو چکا ہے۔
فرقہ وارانہ تنازعات کے گڑھ کرم ایجنسی کے سنی علاقوں میں فضل سعید حقانی کا کافی اثر و رسوخ ہے۔ وہ کسی زمانے میں تحریک طالبان پاکستان سے وابستہ تھا مگر علاقے میں تحریک طالبان پاکستان کے خلاف فوجی کارروائی سے کچھ ہی عرصہ قبل جون 2010 میں اس نے حکیم اللہ سے اپنی راہیں جدا کر لیں۔
سوات سے تعلق رکھنے والے ایک طالب علم رئیس کا کہنا ہےکہ ان کے آبائی ضلع میں طالبان تمام اقسام کی جابرانہ اور ظالمانہ کارروائیوں میں ملوث تھے۔ انہوں نے کہا کہ طالبان اپنے مخالفین کی لاشوں کو قبروں سے نکال کر سر عام پھانسی دیا کرتے تھے جو کہ دین اسلام کی خلاف ورزی ہے۔ انہوں نے کہا کہ طالبان کی اس طرح کی حماقتوں سے ان کی شہرت داغدار ہو گئی اور عوام کے دلوں میں ان کے خلاف نفرت پیدا ہو گئی ہے۔
پیو کےعالمی رجحانات منصوبے کے جاری کردہ رائے عامہ کے جائزے میں 51 فی صد افراد تحریک طالبان پاکستان کے مخالف جبکہ اس کے مقابلے میں محض 18 فی صد اس کے حامی ہیں۔ علماء کے قتل، مزاروں کی توہین، مساجد کی تباہی اور اسکولوں کے بموں سے اڑا دیے جانے سے قبائلی عوام پریشان ہیں اور ایسے امکانات کو تقویت حاصل ہو رہی ہے کہ کل جن طالبان کو قبائلیوں نے خوش آمدید کہا تھا، اب وہ ان کے خلاف خود ہی منظم ہو رہے ہین۔
گیلپ سروے کے مطابق دہشت گردی کے واقعات میں عام لوگوں کو نشانہ بنائے جانے کے واقعات میں اضافے کیساتھ پاکستان اور افغانستان میں طالبان کی مقبولیت میں نمایاں کمی آئی ہے۔سروے کے مطابق جون 2009 میں مجموعی طور پر طالبان کو15 فیصد پاکستانیوں کی حمایت حاصل تھی۔ جو نومبر دسمبر میں کم ہو کر صرف4 فیصد رہ گئی۔ صوبہ سرحد سے تعلق رکھنے والوں کی صرف ایک فیصد تعدادنے نومبر دسمبر2009کے دوران کیے گئے اس سروے میں طالبان کی حمایت کی،جبکہ جون میں طالبان کے حامیوں کی تعداد11فیصدتھی۔ بلوچستان میں بھی طالبان کے حامیوں میں کمی آئی ہے،جون میں کیے گئے سروے کے مطابق صوبے میں طالبان کے حامی26فیصدتھے جبکہ نومبردسمبرمیں صرف5فیصدافرادنے طالبان کی حمایت کی۔یہ سروے پاکستان میں گزشتہ سال نومبردسمبر میں15سال یااس سے زیادہ عمرکے1147افراد سے کیا گیا۔ لوگوں سے طالبان کی حمایت یا مخالفت کے بارے میں رائے لی گئی اورپھر اس کا موازنہ چھ ماہ قبل کیے گئے سروے کے نتائج سے کیا گیا۔ سروے کے مطابق افغانستان میں جون اورنومبرمیں کیے گئے دونوں سروے کے نتائج کے مطابق10میں سے8افرادطالبان کی موجودگی کو ناپسندیدگی کی نظرسے دیکھتے ہیں۔
وفاق کے زیر انتظام قبائلی علاقوں میں سلامتی کے امور کے سابق سربراہ ریٹائرڈ بریگیڈیر محمود شاہ نے کہا کہ ڈاکٹر فاروق خان، مولانا حسن جان اور مفتی نعیمی سمیت ماہرین تعلیم کے اغوا اور مذہبی علماء کے قتل سے طالبان کا تصور داغدار ہو گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ طالبان کھیلوں کے مخالف ہیں، وہ اسپتالوں اور اسکولوں میں کام کرنے والی خواتین کی مخالفت کرتے ہیں اور وہ خواتین کے گھروں سے باہر نکلنے کے بھی خلاف ہیں۔ ان پر عوامی اعتماد کیسے برقرار رہ سکتا ہے؟
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ اگست 2009 میں تحریک طالبان پاکستان کے رہنما بیت اللہ محسود کی ہلاکت کے بعد اندرونی چپقلشوں اور کافی عرصے سے قیادت کے بحران کے باعث اس تنظیم کے اثر و رسوخ میں کمی واقع ہو چکی ہے۔ کسی زمانے میں وفاق کے زیر انتظام قبائلی علاقوں میں مختلف عسکریت پسند گروپ تحریک طالبان پاکستان کے جھنڈے تلے جمع تھے۔
چونکہ تمام طالبان ایک مشترکہ خصوصیت کے حامل ہیں اور انکے پیچھے کارفرما ذہن ایک مخصوص طرز فکر رکھنے والا ذہن ہے۔ان میں سے بعض شعوری طور پر اور بعض لاشعوری طور پر دین اسلام کو نابود کرنا چاہتے ہیں۔یہ گروہ اپنی منفرد مذھبی روایات اور مخصوص انتہا پسندانہ طرز زندگی کو اسلام کے نام پر پاکستانی معاشرے پر مسلط کرنا چاہتا ہے اور ان میں موجود اسلام کے شعوری دشمن ، غیر انسانی اور غیر قرآنی مذھبی روایات اور قبائلی ثقافت کو اسلام کی اقدار و ثقافت قرار دے کر دین اسلام کی روز افزوں مقبولیت کو کم کرنے کی کوشش کر رہے ہیں اور غیر مسلموں کو اسلام سے دور بھگا رہے ہین۔
بہت سے طالبان پاکستان سےسے بھاگ کر افغانستان میں پناہ لے چکے ہیں یا پناہ لینے کی سعی کر رہے ہین۔ ان کے روپے ،پیسے اور فنڈز کے حصول کے ذرائع بند ہوچکے ہین اور طالباں روپیہ پیسا اکٹھا کر نے کے لئے ،بلیک نائٹ گروپ کے ذریعہ اغوا برائے تاوان،چوری و ڈاکہ زنی اور بنک ڈکیتویوں کے ذریعہ تحریک کو چلانے کے لئے رقم اکٹھی کر رہے ہین۔
لگتا ہے کہ طالبان نے عرب سپرنگ سے سبق حاصل کیا ہے اور ان کی سمجھ میں یہ بات ٓ آچکی ہے کہ القائدہ کا مسلح جدوجہد کا راستہ انہیں کہیں لیکر نہیں جائے گا بلکہ پر امن ذرائع سے جدوجہد کر کے اور قومی دہارے میں شامل ہو کر طالبان بے پناہ سیاسی فوائد حاصل کر سکتے ہیں لہذا انہوں نے حکومت سے بات چیت شروع کر دی ہے۔ طالبان کی جنگ و جدال کے نتیجہ مین ہمارے ملک کو ۶۸ ارب ڈالر سے زیادہ کا معاشی نقصان ہو چکا ہے اور ۳۵۰۰۰ سے زیادہ لوگ اپنی جانیں گنوا بیٹھے ہیں۔ تشدد مسائل کا حل نہ ہے بلکہ مزید مسائل کو جنم دیتا ہے۔ ایک فرانسیسی کہاوت ہے کہ تلوار کے زور پر سب کچھ کیا جا سکتا ہے مگر تلوار پر بیٹھا نہیں جا سکتا۔
فاٹا کے 27 ہزار 2 سو 20 مربع کلومیٹر رقبے پر 1 سو 30 بڑے اور چھوٹے عسکریت پسند گروپ موجود ہیں جن میں سے بعض تو وہ ہیں جو تحریک طالبان پاکستان سے الگ ہو چکے ہیں۔
ریٹائرڈ بریگیڈیر محمود شاہ کا کہنا ہے کہ جنوبی وزیرستان، باجوڑ اور مہمند ایجنسیوں میں کامیاب فوجی حکمت عملی کے نتیجے میں تحریک طالبان پاکستان کی کمر توڑ دی گئی ہے اور تنظیم کے قدم اکھڑ رہے ہیں۔ صورت حال اس وقت تبدیل ہو گئی جب فوج نے حکیم اللہ محسود کے عسکریت پسندوں پر فوجی دباؤ ڈال کر انہیں جنوبی وزیرستان کے اپنے گڑھ سے نکل کر شمالی وزیرستان میں جانے پر مجبور کر دیا۔ اس کے بعد سے قبائلی خطوں میں تحریک طالبان پاکستان مختلف گروپوں میں بکھرنا شروع ہو گئی ہے۔
بریگیڈیر شاہ نے تحریک طالبان پاکستان سے الگ ہونے والے عسکریت پسند گروپوں کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ کسی کو بھی معلوم نہیں ہے کہ اس وقت ان عسکریت پسند گروپوں کی کیا تعداد ہے۔ رہی سہی کسر امریکی ڈرون حملوں نے پوری کر دی اور طالبان کی قیادت اور دوسرے لیڈروں کو چن چن کر نشانہ بنایا جس کے نتیجہ میں طالبان سو سے زیادہ گروپوں میں تقسیم ہو چکے ہیں۔ یہ صورتحال فوج اور پاکستانی حکومت اور بین الاقوامی برادری کے لئے فائدہ مند ہے کیونکی طالبان اب تقسیم ہو چکے ہین۔ اس کے علاوہ پاکستانی فوج کی ۔ تقسیم کرو اور فتح کروـ کی پالیسی بھی اس معاملے بڑی ممد و معاون ثابت ہو رہی ہے۔ اس پالیسی کی وجہ سے بہت سے کمانڈر طالبان سے علیحدہ ہو چکے ہیں اور مختلف ایریاز میں، اپنی کمزوری کی وجہ سے حکومت سے بات چیت کر رہے ہین یا کرنے کے خواہشمند ہیں اور اس سے تحریک طالبان مزید کمزور ہو رہی ہے۔ طالبان کی اس کمزوری کا اثر افغانستاں کی جنگ پر ہونا ایک لازمی امر ہو گا۔
قبائلی علاقوں میں رہنے والوں کی اکثریت دہشت گرد نہ ہے۔ گاجر اور چھڑیStick & Carrot)) کی پالیسی جاری رہنی چاہئے اور طاقت کے استعمال کے ساتھ ساتھ ، مائل بہ امن طالبان کے ساتھ مذاکرات کے دروازے کھلے رکھنے چاہیں تاکہ گم گشتہ راہ طالبان ،دوبارہ قومی دہارے مین شامل ہو کر ملکی ترقی میں اپنا کردار ادا کر سکیں مگر جو طالبان مائل بہ امن نہ ہوں ان کو کچل دیا جائے ۔ یہ امر ہمارے ملک کے بہترین مفاد میں ہے۔
ان حالات کی وجہ سے طالبان ایک ایسے ٹمٹماتے چراغ کی مانند ہیں جو گل ہونے کے بہت قریب ہے اور امید ہےکہ تحریک طالبان بہت جلد ہی تاریخ کے اوراق میں گم ہو جاے گی اور تاریخ میں اس کا ذکر خوارج اور دوسرے باغی گروہوں کے ساتھ آئے گا۔
مٹے نامیوں کے نشان کیسے کیسے۔
Comment