بسم اللہ الرحمن الرحیم
القاعدہ نے عرب بغاوتوں کی حمایت کیوں کی؟
ترجمہ: انصار اللہ اردو ٹیم
القاعدہ نے عرب بغاوتوں کی حمایت کیوں کی؟
ترجمہ: انصار اللہ اردو ٹیم
الحمد لله والصلاة والسلام على رسول الله وعلى آله وصحبه ثم بعد :
جب سے عرب بغاوتیں شروع ہوئیں ہیں مجاہدین کے حامیوں کے ذہنوں میں بہت سے سوالات گردش کررہے ہیں۔ ان میں سے کچھ یہ ہیں:
القاعدہ نے اُن عرب بغاوتوں کی تائید کیوں کی جن کے نعرے آزادی اورجمہوریت تھے، جبکہ اُنہوں نے اسلام کا نعرہ بھی بلند نہیں کیا؟
کیا القاعدہ کے لئے یہ زیادہ بہترنہیں تھا کہ وہ جاری حالات کے بارے میں غیرجانبدارموقف اختیار کرتی ؟
کیاان عرب بغاوتوں نے القاعدہ(کے مفادات)کونقصان پہنچایا، یا القاعدہ اوراس کے خلافتِ راشدہ کے پروگرام کو فائدہ پہنچایا؟
اللہ تعالی اپنی کتاب حکیم میں فرماتا ہے کہ:
(وَالَّذِينَ جَاهَدُوا فِينَا لَنَهْدِيَنَّهُمْ سُبُلَنَا)
" جو لوگ ہماری خاطر مجاہدہ کریں گے انہیں ہم اپنےراستے دکھائیں گے"
" جو لوگ ہماری خاطر مجاہدہ کریں گے انہیں ہم اپنےراستے دکھائیں گے"
امام احمد بن حنبلؒ اور امام عبداللہ بن مبارکؒ نے فرمایا:
"إذا اختلف الناس في شيء فعليكم بأهل الثغر؛ فإن الحق معهم؛ لقول الله -عز وجل-: (وَالَّذِينَ جَاهَدُوا فِينَا لَنَهْدِيَنَّهُمْ سُبُلَنَا وَإِنَّ اللَّهَ لَمَعَ الْمُحْسِنِينَ) (العنكبوت:69")
"اگرلوگ کسی چیز میں اختلاف کریں توآپ اہل ثغور (محاذ والوں) سے پوچھیں کیونکہ حق انکے ساتھ ہے۔ اللہ تعالی کے اس فرمان کی وجہ سے: "جو لوگ ہماری خاطر مجاہدہ کریں گے انہیں ہم اپنے راستے دکھائیں گے، اور یقیناً اللہ نیکو کاروں ہی کے ساتھ ہے"۔
میں اللہ کی مدد سے کہتاہوں کہ:
بلاشبہ القاعدہ نے ایک ایسا فطری موقف اختیارکیاہے کہ جواسے ان عرب بغاوتوں کی مدد کے لئے لازمی طورپراختیار کرنا چاہیے تھا ۔ تعجب انگیزمعاملہ تو اس وقت ہوتاکہ اگر اللہ نہ کرے ، القاعدہ عرب بغاوتوں کےخلاف ہوتی یا ان سے غیرجانبدار موقف اختیار کرتی ، کیونکہ ایسی صورت میں اُس کا یہ موقف اس کے خود اپنی ہی اُس دعوت سے پیچھے ہٹنا شمارہوتا کہ جس کی طرف وہ اپنی بنیاد رکھنے سے لیکر ہمارے آج کے دن تک دعوت دیتی رہی۔
لہذا القاعدہ جب سے قائم ہوئی ، اُس نے یہی آواز لگائی، بلکہ اُسکی قیادت نے تو مسلمان عوام کو چیخ چیخ کر بآواز بلند کہا، کہ اے مسلمان عوام: ان ظالم وسرکش کے خلاف انقلاب لاؤ، کہ جنہوں نے اُمتِ مسلمہ کوذلیل کیا، اس کے دین کوحقیر جانا،اسکی کرامت کو روند ڈالا اوراُسے عالمی کفر کو کم ترین قیمت میں فروخت کردیا۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ القاعدہ کے اُمت کو ان جابرانہ نظاموں کےخلاف اُبھارنے کا مقصد اُمت سے ظلم کو رفع کرنا اوراُس کی عزت وکرامت کوواپس لانا تھا۔ لہذا یہ ایک فطری سی بات ہے کہ لوگوں کی تحریک (بیداری) سے القاعدہ کوکامیابی حاصل ہوئی۔ کیونکہ القاعدہ تمام معاملات کو شریعت کے پیمانے پر پرکھتی ہے۔
یہ واضح شریعت اسلامی مسلمان پر مظلوم کی مدد کرنے اورظالم سے اُس کا حق دلانے کوفرض قراردیتی ہے،خواہ وہ مظلوم کافر ہی کیوں نہ ہو۔ توپھر اگر مظلوم مشرق سے لیکر مغرب تک امت مسلمہ ہو تو ایسے مظلوم کے بارے میں آپ کا کیا کہنا ہے ۔ شاید مسلم عوام کا آزادی ،جمہوریت اور عوامی سول حکومت کا مطالبہ کرنا اور شریعت کےنفاذ کا مطالبہ نہ کرنا ہی وہ سبب ہے کہ جس کی وجہ سے بعض لوگ القاعدہ کا ان بغاوتوں کی مددکرنے کو نا پسند کررہے ہیں ۔کیونکہ القاعدہ ایسے شخص کی مدد کیسے کرسکتی ہے کہ جودلی اورعملی طورپر شریعت کے مخالف جمہوری حکمرانی کا مطالبہ کررہا ہو ، لہذا میں کہتاہوں:
اول:الفضول والے سال کا اتحاد) ایک واضح دلیل ہے۔ سواس کے باوجوداس اتحاد کے داعی کفار قریش تھے مگر چونکہ اس کا مقصد ظالم کےخلاف مظلوم کی مدد کرناتھا، اس لئے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے بارےمیں فرمایا تھا کہ:
"میں عبداللہ بن جدعان کے گھر میں ایک ایسے اتحاد میں حاضر ہوا تھاکہ سرخ گھوڑے بھی مجھے اس سے زیادہ پسندنہیں اوراگر اسلام میں مجھ کو اس کی دعوت دی گئی تو میں ضرور قبول کروں گا۔"
سو اگرہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم مظلوم کی مدد کے ساتھ ہوں، خواہ وہ کافر ہی ہو اور اسکے لئے خود کفار نے ہی پکارا ہو۔ توپھرآپ کا کیا خیال ہے اُن کمزور مسلمانوں کی مدد کے بارے میں کہ جن کی مددکرنا اللہ نے ہم پرفرض کیاہے۔ جبکہ اہل علم کے نزدیک یہ بھی معلوم ہے کہ کسی مسلمان کی ولایت (اخوت) صرف اُس کی ردّت کی صورت میں ہی ختم ہوسکتی ہے۔ تو اے عقل والو۔۔! کیا مسلم عوام مرتد ہوچکی ہے کہ جس کی بناءپر اہل جہاد اُن کے مخالف یا غیر جانبدار موقف اپنائیں؟!
دوئم:
بلاشبہ آج اکثر لوگ آزادی اورایسی سول (عوامی) حکومت کا نعرہ لگاتے ہیں، کہ جس کا بنیادی ستون متعدد اوراکثریت کی حکمرانی پر ہے، خواہ یہ کتاب وسنت کی صریح نص (دلیل) کےخلاف ہی کیوں نہ ہو۔مگر اُن کا اعتقاد تویہ ہوتاہےکہ اُن کے یہ مطالبے شریعت کےمخالف نہیں ہیں۔ بلکہ وہ تو یہ گمان کرتے ہیں کہ وہ اپنے ان مطالبات کے ذریعے شریعت کی مدد کرتے ہیں۔ اس کامطلب یہ ہوا کہ اکثر لوگ یہ اعتقاد رکھتے ہیں کہ وہ جمہوریت اورعوامی حکومت کے ذریعے اللہ تعالی کا قرب حاصل کرتے ہیں اوراُن کا خیال ہوتاہےکہ وہ اپنے ان مطالبات کی وجہ سے اللہ کےہاں مأجور ہوں گے۔
میری رائے کے مطابق اس (سوچ )کے کئی اسباب ہیں۔ ان میں ایک یہ کہ لوگ عہدجاہلیت سے زیادہ قریب رہےہیں کیونکہ لوگوں سےشریعت کی حکمرانی ،سقوط خلافت عثمانیہ کےزمانے سےغائب ہے۔ اس کا مطلب یہ ہواکہ لوگوں کی کئی نسلیں غیر اسلامی حکمرانی کے ادوار میں پیداہوئیں ،بلکہ اُن کی اکثریت اسلام کی حکمرانی کو ایک مرتبہ بھی دیکھے بغیرہی فوت ہوگئی۔اس بات میں کوئی شک نہیں کہ لوگوں سے شریعت کا نفاذغائب ہونے کی وجہ سے اُنکےدینی ودنیاوی معاملات بگڑجاتے ہیں ، اوراُن میں بہت سے ایسے غلط عقائد وتصورات پھیل جاتے ہیں کہ جنہیں وہ سمجھتے تونیکی ہوتے ہیں، مگر درحقیقت وہ صرف برائی ہی ہوتے ہیں۔پھریہاں ایک اور ایسامعاملہ بھی ہے کہ جس کا نقصان ،لوگوں کے بہت سے مفاہیم واعتقادات کے آپس میں خلط ملط (مکس) ہوجانے سے کسی طرح کم نہیں، اوروہ ہے (اسلامی) اطراف اورجماعتوں کا کفری تصورات کواپنانا ،لوگوں کو یہ دھوکہ دیتے ہوئے کہ شریعت ان تصورات کو تسلیم کرتی ہے۔ لہذاآج عوامی اورجمہوری حکومت کا نعرہ لگانے والے اکثر لوگ وہ ہیں جو اسلامی جماعتیں کہلاتی ہیں۔ جیسے "اخوان المسلمین" ہے کہ جو پارلیمنٹ کی نشستوں کی خاطرلڑتےہیں اوروہ اپنے افراد کو اس کی راہ میں(قربانی کے لئے) پیش کرتے ہیں۔ معاملہ اس حد تک پہنچ گیا ہے کہ اُن کے ایک لیڈر نے توآج یہ بیان جاری کیاہے کہ اگرمصر کی حکمران عسکری کونسل نے پارلیمنٹ کے انتخابات کے وعدے کی پابندی نہ کی تو"اخوان المسلمین" اس کےلئے (شہداء کی قربانی) پیش کرنے کےلئے تیارہے۔ لہذا ایسی جماعتوں کہ جواسلام سے تعلق کا دعویٰ کرتیں ہیں ، کی جانب سے اس طرح کے بدترین دعوے ہی تولوگوں کے عوامی اورجمہوری حکومت جیسے مطالبوں کا بنیادی اوربراہ راست سبب بنے ہیں۔ جبکہ اس مسئلے کے حل کے لئے داعی حضرات سے بڑی جدوجہد کی ضرورت ہے اوریہ ایک ایسامعاملہ ہےکہ جس کی یہ طاغوتی نظام اجازت نہیں دیں گے لیکن ان نظاموں کے خاتمے کے بعد اس (دعوتی ) کام کےلئے بڑاکھلا میدان ہوگا۔ لہذا اب اوّلیت ان طاغوتی نظاموں کے گرانے کے کام کوحاصل ہونی چاہیے ۔پھراُس کے بعد ان بُرے اعتقادات کی بات آئے گی۔ اوران کا علاج لوگوں کے ساتھ گھلنے ملنے اورنرم دلوں اورزبانوں کے ذریعے اُنکے ساتھ متوجہ ہونے سے ہوگا۔
جیساکہ ہمارے بڑوں ،اُن جہادی قائدین نے اس کی نصیحت کی کہ جنہوں نے اوّلیت وفوقیت کے کاموں کی فقہ اورحالات وواقعات کی فقہ کو بڑی گہرائی سے سمجھا ۔لہذا آپ دیکھیئے کہ شیخ اُسامہ بن لادن رحمہ اللہ نے ان متحرک وبیدار مسلم عوام کو جمہوریت کے نعرے لگانے کے باوجود ،اُن پر ترس کھاتے ہوئے اوراُنکے حقوق کی پاسداری کرتے ہوئے ، میری "اُمتِ مسلمہ"، میری "گرانقدراُمت" جیسے الفاظ کے ذریعے مخاطب کیا ۔ اس بات کا یقین دلاتے ہوئے کہ "القاعدہ" اوراُسکی قیادت اُمت کے ساتھ کھڑی ہے اوروہ بھی اس اُمت کا ایک حصہ ہیں ۔ جواسکی خوشی کے ساتھ خوش اوراسکے غم ومصیبت کے ساتھ غمگین ہوتےہیں۔
سوئم:
جن لوگوں کا صرف یہ اعتقاد ہے کہ القاعدہ صرف اسلحہ اُٹھانے پر یقین رکھتی ہے۔ القاعدہ اور اسکے منہج کے بارے میں لوگوں میں یہ سب سے زیادہ جاہل ہیں۔ کیونکہ القاعدہ جہادی ودعوتی کام کو صرف مسلح کاروائیوں پر ہی منحصرنہیں کرتی جیساکہ بعض لوگ گمان کرتے ہیں بلکہ وہ تو مطلوبہ تبدیلی کے لئے اُمت کوتبدیلی کے اُن تمام آلات کو استعمال کرنےکی دعوت دیتی ہے کہ جوشریعت کے مخالف نہ ہوں۔ اگر ہم تھوڑا سا پیچھے کی جانب جائیں توہم دیکھیں گے کہ حکیم الامت الظواہری (حفظہ اللہ تعالی) نے مصر میں لوگوں کو بغاوت سے پہلے ہی وہاں کے مسلمانوں کو "حسنی مبارک" کےخلاف اُٹھ کھڑے ہونے پراُبھاراتھا۔ جب آپ نے مصر میں لوگوں کی بغاوت سے پہلے اُن سے مظاہروں اورسول نافرمانی کرنے کامطالبہ کیا تھا،تو اُس وقت آپ نے لوگوں سے یہ نہیں کہا کہ "بے مبارک" نظام کےخلاف اسلحے کے ساتھ نکلو۔ کیونکہ آپ اچھی طرح سمجھتے تھے کہ لوگوں کے پاس اتنا اسلحہ نہیں کہ جس کے ساتھ وہ مصری مجرم نظام کا مقابلہ کرسکیں ۔ اس لئے آپ نے لوگوں سے اُسی چیز کامطالبہ کیا کہ جس کہ وہ استطاعت رکھتے تھے۔ لہذا اللہ کے فضل وکرم سے القاعدہ حالات وواقعات کو سمجھنے اور اُن سے حکمت کے ساتھ نبٹنے میں مکمل طورپراسی طرح ماہر ہے ،جس طرح وہ اسلحہ اُٹھانے اوراُسے کفر اوراُسکے مددگاروں کےخلاف استعمال کرنے میں مہارت رکھتی ہے ۔لہذا القاعدہ نے عرب بغاوتوں کی مدد کرکے اپنی اسٹرٹیجک پالیسی تبدیل نہیں کی ،جیسا کابعض لوگ گمان کررہے ہیں۔حالانکہ یہ عرب بغاوتیں آخرمیں القاعدہ کے مفاد میں ہی جائیں گیں، جوکہ تمام مسلمانوں کا مفادہے۔ کیونکہ اللہ تعالی کے فضل سے گرائے گئے نظاموں سےزیادہ سخت اورزیادہ سرکش نظام ہرگز نہیں آئے گا۔ اگرچہ لوگ، آزادی اورجمہوریت کے لئے اُٹھ کھڑے ہوئے، مگر اُنکی آئندہ یہ بیداری تحریک قرآن اوراُسکی حکمرانی کے لئے ہوگی۔
اللہ کی طرف دعوت دینے والے سب سے بہترین داعیان وہ ہیں جو عرب بغاوتوں کواسلام اورمسلمانوں کے مفاد کے لئے استعمال کریں ۔کتنے ہی اچھے لگے! مجھے ہمارے شیخ "اسدالجہاد۲" حفظہ اللہ کے وہ کلمات جوآپ نے اپنے ایک مضمون میں لکھے کہ اے انصار بھائیو! آپ جلدی مت کریں لوگ اپنی ان بغاوتوں کے بعد خود ہی ہمارے پاس چل کرآئیں گے۔"
چہارم:
یہ عرب بغاوتیں اورجسے "عرب بہار" کانام بھی دیاجاتاہے،اس بات کی عکاسی کرتی ہیں کہ لوگ القاعدہ اوراس کے منہج کے بہت ہی قریب ہوتے جارہے ہیں ، نہ کہ اس کےبرعکس۔ لہذا وہ جماعتیں اورداعیان حضرات کہ جوآج عرب بغاوتوں کی تائید کرتے ہیں خواہ یہ حقیقی تائید ہویاحالات کی مجبوری سے ۔ یہی لوگ کل تک طواغیت اور ان کے نظاموں کے خلاف بغاوت کے مخالف تھے۔ اسکے خلاف نکلنے کا کہتے ہوئے، وہ طاغوت کی اطاعت کی طرف بلاتے تھے۔ اورکچھ دوسری جماعتیں طاغوتی اداروں میں شامل ہوکر اُس کا جزولاینفک بن گئیں۔ جبکہ اسی وقت القاعدہ اوراسکے منہج کےحامل لوگوں نے اکیلے ہی اُمت کو طاغوتی نظاموں کے خلاف اُٹھ کھڑے ہونے پراُبھارا۔ لہذا آج لوگوں کی بغاوت القاعدہ کے منہج کی حقیقی کامیابی ہے۔ اب شعارات (نعروں) کی تبدیلی کے سوا کچھ باقی نہیں رہا اور وہ بھی میرے خیال کے مطابق ان سرکش نظاموں کے خاتمے اور بغاوتوں کے کچھ عرصہ بعد تبدیل ہوجائیں گے۔
آخر میں ' میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ :
بلاشبہ القاعدہ ہی نے سب لوگوں سے زیادہ ان عرب بغاوتوں سے فائدہ اُٹھایا اورعنقریب اس کااثر سب دیکھیں گے۔ آج واجب جس چیز کاتقاضہ کرتاہے وہ یہ ہے کہ ہر مسلمان اگلے مرحلے کے لئے اپنے کردار کوسمجھے، کہ جب بہت سے اطراف سے خبیث سازشوں کے سائے تلے لوگوں کی بغاوت کے پھل کوچرانے کی کوششیں کی جارہیں ہیں ۔ حالانکہ اہل اسلام ان پھل کےچننے کےسب سےزیادہ حقدار ہیں، کیونکہ حقیقتِ حال کہتی ہے کہ اہل اسلام ہی ان بغاوتوں کے مرکزی کردارتھے۔ جوکہ مسلمانوں کی ایک بھاری تعداد کے ساتھ چل نکلیں۔ اس میں ایک واضح اشارہ ہےکہ لوگ اسلام سے محبت کرتےہیں اوروہ اُنکے ضمیروں میں ہے ،لیکن اُنہیں ضرورت اس بات کی ہےکہ کوئی اُنکے ہاتھ پکڑ کر انہیں محفوظ کنارے پرلےجائے۔ اُن لوگوں کے لئے کہ جن کا خیال ہے کہ امریکا اوراسکے اتحادی ان بغاوتوں کے پیچھے ہیں یاجو اُن کے ساتھ چلنے والوں میں شامل ہیں۔ اُنہیں ایک حقیقت کو اچھی طرح سمجھنا چاہیے اوروہ یہ کہ ایسے موقعوں پر دانشمندوہ ہوتاہے کہ جو ان حالات کواپنی مصلحت کے لئے استعمال کریں ۔ لہذا یہ بات توفطری ہےکہ امریکا اوراسکے پِٹھو بغاوت کاپھل حاصل کرنے کےلئے مداخلت کریں گے ۔ لیکن عالمی کفر کا ان بغاوتوں سے اپنے مفادات حاصل کرنے کے کےپیچھے دوڑنے سے کسی مسلمان کے لئے یہ جواز پیدا نہیں ہوتا کہ وہ تماشائی کی طرح کھڑا رہے۔بلکہ ہرایک پر فرض ہے کہ وہ اُمتِ مسلمہ کےفائدے کے لئےکام کرے۔ ہم مسلمان ہونے کے ناطے ان بغاوتوں کے پھل کے، امریکا اورفرانس سےزیادہ حقدار ہیں کہ جن کا ایندھن امریکی وفرانسیسی شہری نہیں بلکہ مسلمان بنے ہیں۔ جبکہ سازشی نظریہ والا مقولہ مطلق طورپر بعیدازامکان ہے۔ کیونکہ دیکھیں کہ تیونس میں ابوعزیزی نے وہاں بغاوتوں کےآغاز کے لئے خود کوامریکا کےحکم پر تونہیں جلایا تھا اورنہ لاکھوں مصری "بےمبارک" نظام کےخلاف امریکا کے کہنے پر نکلے تھے۔ لہذا اس بات میں بہت فرق ہے کہ عالمی کفر کا عرب بغاوتوں کے پھل چرانے کی کوششیں کرنا کہ جوبالکل ممکنہ واقعی اورواضح معاملہ ہے، اوراس بات میں کہ عالمی کفر نے ہی ان بغاوتوں کو متحرک کیا ہے ، جس کے نتائج آئندہ دنوں میں خود اُس کےلئے بدتر ہوں گے۔ یہ اور باقی کو، سب سے زیادہ بہتر اللہ تعالی ہی جانتا ہے ۔
اسے عاشق القاعدہ نے لکھا۔
Comment