پاکستان گیس کے تناظر میں
وطن عزیز پاکستان ایسے خطے میں واقع ہے جہاں متعدد اقسام کے قدرتی ذخائر پائے جاتے ہیں، جن کا فائدہ اٹھاتے ہوئے نہ صرف ملکی ضروریات بلکہ ذخائر کو بیرون ممالک کوفروخت کر کے قیمتی زرمبادلہ کمایا جا سکتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان آج متعدد بحران خاص کر بجلی اور گیس کے بحران میں گھرا ہوا ہے اورمستقبل میں ان سے نکلنے کے کوئی آثار دکھائی نہیں دیتے۔ ملک میں بجلی کا بحران تو عوام کی پریشانی کا سبب تھا ہی اب سردی میں اضافے کے ساتھ ساتھ گیس کا بحران بھی شدید ہوتا جارہا ہے۔ ملک بھر میں گیس کی لوڈشیڈنگ اور کم دباﺅ کی وجہ سے لوگوں کو سخت مشکلات کا سامنا ہے۔ گیس کی لوڈ شیڈنگ سے ملک بھر کی صنعتوں سے وابستہ ہزاروں افراد کی معاشی سرگرمیاں بھی معطل ہوگئی ہیں جبکہ سیمنٹ، کھاد اور بجلی سمیت دیگر مصنوعات کا بھی بحران وقت کے ساتھ پیدا ہو رہا ہے۔
وزارت پیٹرولیم اور قدرتی وسائل میں ڈائریکٹریٹ جنرل پیٹرولیم کنسیشن کے مطابق اس وقت پاکستان میں خالص اور مکس گیس کے ذخائر کی تعداد 166 ہے، ان میں سے 12 بڑے گیس کے ذخائر کا مجموعی حجم تنتالیس اعشاریہ ایک ٹریلین کیوبک فٹ ہے جو دریافت ہونے والے کل ذخائر کا اسی فیصد ہے۔ پاکستان میں گیس کے سب سے بڑے ذخیرے کا حجم بارہ اعشاریہ چھ ٹریلین کیوبک فٹ ہے جو بلوچستان میں سوئی اور سوئی ڈیپ کے مقام پر دریافت ہوا تھا جس میں تمام ملک کے ذخائر کی تیئس اعشاریہ پانچ فیصد گیس موجود ہے۔ جبکہ نئے ذخائر سے گیس کی دریافت جاری ہے۔
ملک میں اس وقت گیس کی پیداوارتین اعشاریہ چھ سے تین اعشاریہ آٹھ بلین کیوبک فٹ یومیہ ہے جبکہ گیس کی اوسطً طلب 6 بلین کیوبک فٹ ہے۔ اس اعتبار سے دو ارب چالیس کروڑکیوبک فٹ گیس کی یومیہ کمی ہے جسے پورا کرنے کے لئے صنعتوں، سی این جی ، اور گھریلو صارفین سمیت تمام عوام کوپریشان کیا جارہا ہے۔ گیس کی حالیہ کمی سے اندازے ہوتا ہے کہ اربوں ڈالر کے نئے منصوبوں کی بروقت تکمیل کے باوجود آئندہ سال گیس کا بحران مزید پروان چڑھے گا۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق آئندہ سال سوئی سدرن گیس کمپنی کے اعشاریہ سات پانچ ارب کیوبک فیٹ ایل این جی اور نجی کمپنیوں کے ایک ارب کیوبک فٹ ایل این جی کی پیداوار 2014ء میں پاک ایران گیس پائپ لائن تکمیل، اس سے اعشاریہ سات پانچ ارب گیس کے حصول اور 2015ء میں ترکمانستان گیس پائپ لائن منصوبے سے ایک ارب 35 کروڑ کیوبک فیٹ گیس کے حصول کے باوجود آئندہ سالوں میں قدرتی گیس کے شعبہ میں عدم توازن ختم نہیں ہوگا۔ 2015ء میں گیس کا عدم توازن چار ارب کیو بک فٹ سے زائد تک پہنچ جانے کا خدشہ ہے۔
پاکستان کے صوبے پنجاب میں گیس کا بحران شدت اختیار کر گیا ہے، گیس نہ ملنے کی وجہ سے سینکڑوں کارخانوں میں کام بند ہو چکا ہے اور ہزاروں مزدور بے روزگار ہو گئے ہیں۔ کئی علاقوں میں گاڑیوں کے لیئے سی این جی بھی دستیاب نہیں۔ ایوان صنعت و تجارت لاہور کی طرف سے جاری کئے جانے والے اعداد و شمار کے مطابق گیس نہ ملنے کی وجہ سے صوبے میں 13 سو سے زائد کارخانوں میں کام بند ہو چکا ہے اور روزانہ کی اجرت پر کام کرنے والے لگ بھگ 25 ہزار مزدور روزی کمانے سے محروم ہو چکے ہیں۔ حکومت گھریلو صارفین کے نام پر صنعتوں اور سی این جی اسٹیشنز کی گیس بند کر رہی ہے جبکہ گھریلو صارفین کو بھی گیس کم پریشر کے ساتھ دستیاب ہے جس سے نہ تو روٹی بنتی ہے اور نہ سالن بس پیسے خرچ ہوتے ہیں۔ سوئی ناردرن گیس کمپنی ذرائع کے مطابق گیس کا بحران شدیدترہوگیا ہے اور روزانہ 5 سو سے 7 سو ملین کیوبک فٹ کی کمی کا سامنا ہے جبکہ اس میں مزید اضافے کا امکان ہے۔
سوئی ناردرن گیس کے منیجنگ ڈائریکٹر عارف حمید کی جانب سے بیان کردہ موسم سرما کیلئے گیس لوڈ شیڈنگ پلان کے مطابق توانائی کے شعبے کو فراہم کی جانے والی گیس میں 76 ملین کیوبک فٹ کی کمی کر دی گئی ہے جبکہ کھاد تیار کرنے والی فیکٹریوں کو گیس تسلسل کے ساتھ فراہم کی جائے گی تاکہ کھاد کی پیداوار میں کمی سے کسان متاثر نہ ہوں، گھریلو اور کمرشل صارفین کو بھی گیس کی لوڈ شیڈنگ سے مستثنیٰ قرار دیا جاچکا ہے۔ اس کے علاوہ سی این جی اور صنعتوں کو گیس کی فراہمی بھی ہفتے میں تین روز کیلئے بند رکھنے کا اعلان کیا گیا تھا جسے سی این جی ایسوسی ایشنز نے ماننے سے انکار کر دیا۔ اب سپریم کورٹ کی جانب سے دارلحکومت میں سی این جی گیس کی فراہمی یقینی بنانے کا حکم دیا گیا ہے۔
میڈیا پر جاری منصوبہ بندی کمیشن کی رپورٹ کے مطابق ملک میں بجلی و گیس کے بحران کی وجہ سے غیر ملکی سرمایہ کاری کی حوصلہ شکنی ہوئیہے اور اس میں کمی آئی ہے۔ بجلی و گیس کی وجہ سے سب سے زیادہ نقصان صنعتوں کو ہوا ہے۔ پاکستان میں بجلی و گیس کے بحران کے باعث متعدد صنعتکاروں نے اپنی صنعتیں بنگلہ دیش اور دوسرے ممالک منتقل کرنا شروع کر دی ہیں۔
آل پاکستان ٹیکسٹائل مینوفیکچرنگ ایسوسی ایشن کے چیئر مین گوہر اعجاز کے مطابق ملک کی نصف سے زائد برآمدت ٹیکسٹائل مصنوعات پر مشتمل ہیں۔ یورپ اور امریکہ جیسی منڈیوں میں بھیجے جانے والی مصنوعات گیس کی لوڈشیڈنگ کے نتیجے میں وقت پر بھیجی نہیں جاتی۔ ایسوسی ایشن کے مطابق گزشتہ سال 14 ارب ڈالر مالیت کی ٹیکسٹائل مصنوعات برآمد کی گئی تھیں لیکن رواں سال برآمدی ہدف کا حصول مشکل دکھائی دیتا ہے۔ گیس اور بجلی کی عدم فراہمی کے باعث خریدار ہمیں آڈر دینے میں ہچکچا رہے ہیں یہ ہماری بدقسمتی ہے کہ ہم نے صنعت کو اپنی ترجیہات میں نہیں رکھا، اس کا نتیجہ کیا نکلے گا بڑے پیمانے پر لوگ بے روزگار ہوں گے صنعتیں بند ہوں گی اور قرضوں کو ادائیگی میں مسئلہ ہو گا۔
پاکستان میں سی این جی اور ٹیکسٹائل کی صنعت ایک دوسرے کے بالکل متوازی چل رہی ہیں۔ آئل اینڈ گیس ریگولیٹری اتھارٹی کی ایک رپورٹ کے مطابق سی این جی اسٹیشن اور ٹیکسٹائل کی صنعت سوئی گیس کی ایک جیسی مقدار سالانہ 200 ملین کیوبک فٹ خرچ کرتے ہیں۔ دونوں شعبوں میں گذشتہ برسوں کے دوران سرمایہ کاری بھی یکساں کی گئی۔ تاہم ٹیکسٹائل کی صنعت سے وابستہ افراد کی تعداد سی این جی اسٹیشنوں پر کام کرنے والے ملازمین کے مقابلے میں کہیں زیادہ ہے۔ آئل اینڈ گیس ریگولیٹری اتھارٹی کی رپورٹ کے مطابق سی این جی اسٹیشنوں پر ایک لاکھ کے قریب ملازمین کام کرتے ہیں جبکہ ٹیکسٹائل کی صنعت سے 40 لاکھ لوگوں کا روز گار وابستہ ہے۔ ملک بھر میں 2214 سے زائد سی این جی اسٹیشن جبکہ ٹیکسٹائل یونٹس کی تعداد سی این جی اسٹیشنزسے کہیں زیادہ ہے۔ اس کے علاوہ گھریلوں صارفین کی تعداد 53 لاکھ سے زائد ہے اس تمام تجزیہ سے اندازہ ہو تا ہے کہ گیس کی لوڈشیڈنگ کے باعث پاکستان کو کتنا نقصان برداشت کرنا پڑ ھ رہا ہے ۔
وطن عزیز پاکستان ایسے خطے میں واقع ہے جہاں متعدد اقسام کے قدرتی ذخائر پائے جاتے ہیں، جن کا فائدہ اٹھاتے ہوئے نہ صرف ملکی ضروریات بلکہ ذخائر کو بیرون ممالک کوفروخت کر کے قیمتی زرمبادلہ کمایا جا سکتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان آج متعدد بحران خاص کر بجلی اور گیس کے بحران میں گھرا ہوا ہے اورمستقبل میں ان سے نکلنے کے کوئی آثار دکھائی نہیں دیتے۔ ملک میں بجلی کا بحران تو عوام کی پریشانی کا سبب تھا ہی اب سردی میں اضافے کے ساتھ ساتھ گیس کا بحران بھی شدید ہوتا جارہا ہے۔ ملک بھر میں گیس کی لوڈشیڈنگ اور کم دباﺅ کی وجہ سے لوگوں کو سخت مشکلات کا سامنا ہے۔ گیس کی لوڈ شیڈنگ سے ملک بھر کی صنعتوں سے وابستہ ہزاروں افراد کی معاشی سرگرمیاں بھی معطل ہوگئی ہیں جبکہ سیمنٹ، کھاد اور بجلی سمیت دیگر مصنوعات کا بھی بحران وقت کے ساتھ پیدا ہو رہا ہے۔
وزارت پیٹرولیم اور قدرتی وسائل میں ڈائریکٹریٹ جنرل پیٹرولیم کنسیشن کے مطابق اس وقت پاکستان میں خالص اور مکس گیس کے ذخائر کی تعداد 166 ہے، ان میں سے 12 بڑے گیس کے ذخائر کا مجموعی حجم تنتالیس اعشاریہ ایک ٹریلین کیوبک فٹ ہے جو دریافت ہونے والے کل ذخائر کا اسی فیصد ہے۔ پاکستان میں گیس کے سب سے بڑے ذخیرے کا حجم بارہ اعشاریہ چھ ٹریلین کیوبک فٹ ہے جو بلوچستان میں سوئی اور سوئی ڈیپ کے مقام پر دریافت ہوا تھا جس میں تمام ملک کے ذخائر کی تیئس اعشاریہ پانچ فیصد گیس موجود ہے۔ جبکہ نئے ذخائر سے گیس کی دریافت جاری ہے۔
ملک میں اس وقت گیس کی پیداوارتین اعشاریہ چھ سے تین اعشاریہ آٹھ بلین کیوبک فٹ یومیہ ہے جبکہ گیس کی اوسطً طلب 6 بلین کیوبک فٹ ہے۔ اس اعتبار سے دو ارب چالیس کروڑکیوبک فٹ گیس کی یومیہ کمی ہے جسے پورا کرنے کے لئے صنعتوں، سی این جی ، اور گھریلو صارفین سمیت تمام عوام کوپریشان کیا جارہا ہے۔ گیس کی حالیہ کمی سے اندازے ہوتا ہے کہ اربوں ڈالر کے نئے منصوبوں کی بروقت تکمیل کے باوجود آئندہ سال گیس کا بحران مزید پروان چڑھے گا۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق آئندہ سال سوئی سدرن گیس کمپنی کے اعشاریہ سات پانچ ارب کیوبک فیٹ ایل این جی اور نجی کمپنیوں کے ایک ارب کیوبک فٹ ایل این جی کی پیداوار 2014ء میں پاک ایران گیس پائپ لائن تکمیل، اس سے اعشاریہ سات پانچ ارب گیس کے حصول اور 2015ء میں ترکمانستان گیس پائپ لائن منصوبے سے ایک ارب 35 کروڑ کیوبک فیٹ گیس کے حصول کے باوجود آئندہ سالوں میں قدرتی گیس کے شعبہ میں عدم توازن ختم نہیں ہوگا۔ 2015ء میں گیس کا عدم توازن چار ارب کیو بک فٹ سے زائد تک پہنچ جانے کا خدشہ ہے۔
پاکستان کے صوبے پنجاب میں گیس کا بحران شدت اختیار کر گیا ہے، گیس نہ ملنے کی وجہ سے سینکڑوں کارخانوں میں کام بند ہو چکا ہے اور ہزاروں مزدور بے روزگار ہو گئے ہیں۔ کئی علاقوں میں گاڑیوں کے لیئے سی این جی بھی دستیاب نہیں۔ ایوان صنعت و تجارت لاہور کی طرف سے جاری کئے جانے والے اعداد و شمار کے مطابق گیس نہ ملنے کی وجہ سے صوبے میں 13 سو سے زائد کارخانوں میں کام بند ہو چکا ہے اور روزانہ کی اجرت پر کام کرنے والے لگ بھگ 25 ہزار مزدور روزی کمانے سے محروم ہو چکے ہیں۔ حکومت گھریلو صارفین کے نام پر صنعتوں اور سی این جی اسٹیشنز کی گیس بند کر رہی ہے جبکہ گھریلو صارفین کو بھی گیس کم پریشر کے ساتھ دستیاب ہے جس سے نہ تو روٹی بنتی ہے اور نہ سالن بس پیسے خرچ ہوتے ہیں۔ سوئی ناردرن گیس کمپنی ذرائع کے مطابق گیس کا بحران شدیدترہوگیا ہے اور روزانہ 5 سو سے 7 سو ملین کیوبک فٹ کی کمی کا سامنا ہے جبکہ اس میں مزید اضافے کا امکان ہے۔
سوئی ناردرن گیس کے منیجنگ ڈائریکٹر عارف حمید کی جانب سے بیان کردہ موسم سرما کیلئے گیس لوڈ شیڈنگ پلان کے مطابق توانائی کے شعبے کو فراہم کی جانے والی گیس میں 76 ملین کیوبک فٹ کی کمی کر دی گئی ہے جبکہ کھاد تیار کرنے والی فیکٹریوں کو گیس تسلسل کے ساتھ فراہم کی جائے گی تاکہ کھاد کی پیداوار میں کمی سے کسان متاثر نہ ہوں، گھریلو اور کمرشل صارفین کو بھی گیس کی لوڈ شیڈنگ سے مستثنیٰ قرار دیا جاچکا ہے۔ اس کے علاوہ سی این جی اور صنعتوں کو گیس کی فراہمی بھی ہفتے میں تین روز کیلئے بند رکھنے کا اعلان کیا گیا تھا جسے سی این جی ایسوسی ایشنز نے ماننے سے انکار کر دیا۔ اب سپریم کورٹ کی جانب سے دارلحکومت میں سی این جی گیس کی فراہمی یقینی بنانے کا حکم دیا گیا ہے۔
میڈیا پر جاری منصوبہ بندی کمیشن کی رپورٹ کے مطابق ملک میں بجلی و گیس کے بحران کی وجہ سے غیر ملکی سرمایہ کاری کی حوصلہ شکنی ہوئیہے اور اس میں کمی آئی ہے۔ بجلی و گیس کی وجہ سے سب سے زیادہ نقصان صنعتوں کو ہوا ہے۔ پاکستان میں بجلی و گیس کے بحران کے باعث متعدد صنعتکاروں نے اپنی صنعتیں بنگلہ دیش اور دوسرے ممالک منتقل کرنا شروع کر دی ہیں۔
آل پاکستان ٹیکسٹائل مینوفیکچرنگ ایسوسی ایشن کے چیئر مین گوہر اعجاز کے مطابق ملک کی نصف سے زائد برآمدت ٹیکسٹائل مصنوعات پر مشتمل ہیں۔ یورپ اور امریکہ جیسی منڈیوں میں بھیجے جانے والی مصنوعات گیس کی لوڈشیڈنگ کے نتیجے میں وقت پر بھیجی نہیں جاتی۔ ایسوسی ایشن کے مطابق گزشتہ سال 14 ارب ڈالر مالیت کی ٹیکسٹائل مصنوعات برآمد کی گئی تھیں لیکن رواں سال برآمدی ہدف کا حصول مشکل دکھائی دیتا ہے۔ گیس اور بجلی کی عدم فراہمی کے باعث خریدار ہمیں آڈر دینے میں ہچکچا رہے ہیں یہ ہماری بدقسمتی ہے کہ ہم نے صنعت کو اپنی ترجیہات میں نہیں رکھا، اس کا نتیجہ کیا نکلے گا بڑے پیمانے پر لوگ بے روزگار ہوں گے صنعتیں بند ہوں گی اور قرضوں کو ادائیگی میں مسئلہ ہو گا۔
پاکستان میں سی این جی اور ٹیکسٹائل کی صنعت ایک دوسرے کے بالکل متوازی چل رہی ہیں۔ آئل اینڈ گیس ریگولیٹری اتھارٹی کی ایک رپورٹ کے مطابق سی این جی اسٹیشن اور ٹیکسٹائل کی صنعت سوئی گیس کی ایک جیسی مقدار سالانہ 200 ملین کیوبک فٹ خرچ کرتے ہیں۔ دونوں شعبوں میں گذشتہ برسوں کے دوران سرمایہ کاری بھی یکساں کی گئی۔ تاہم ٹیکسٹائل کی صنعت سے وابستہ افراد کی تعداد سی این جی اسٹیشنوں پر کام کرنے والے ملازمین کے مقابلے میں کہیں زیادہ ہے۔ آئل اینڈ گیس ریگولیٹری اتھارٹی کی رپورٹ کے مطابق سی این جی اسٹیشنوں پر ایک لاکھ کے قریب ملازمین کام کرتے ہیں جبکہ ٹیکسٹائل کی صنعت سے 40 لاکھ لوگوں کا روز گار وابستہ ہے۔ ملک بھر میں 2214 سے زائد سی این جی اسٹیشن جبکہ ٹیکسٹائل یونٹس کی تعداد سی این جی اسٹیشنزسے کہیں زیادہ ہے۔ اس کے علاوہ گھریلوں صارفین کی تعداد 53 لاکھ سے زائد ہے اس تمام تجزیہ سے اندازہ ہو تا ہے کہ گیس کی لوڈشیڈنگ کے باعث پاکستان کو کتنا نقصان برداشت کرنا پڑ ھ رہا ہے ۔
Comment