سکولوں کی تباہی
صوابی/نوشہرہ۔صوابی اور نوشہرہ میں تعلیم دشمن عناصر نے دوسکولوںکو بارودی مواد سے اڑادیا۔صوابی کے علاقے شیوہ اڈہ میں رات گئے نامعلوم شر پسندوں نے گورنمنٹ گرلز پرائمری سکول کو نصب شدہ بارودی مواد سے تباہ کیا،دھماکے میں کوئی جانی نقصان نہیں ہوا۔ پولیس کے مطابق واقعہ دہشت گردی کی کارروائی ہے۔نوشہرہ کے علاقے تاروجبہ میں بھی گونمنٹ بوائز پرائمری سکول میں نصب شدہ بارودی مواد کا دھماکہ ہوا پولیس کے مطابق دھماکہ سے سکول کی عمارت کو جزوی نقصان پہنچا۔http://www.dailyaaj.com.pk
تعلیم کسی بھی معاشرے کی ترقی میں بے حد اہم کردار ادا کرتی ہے ۔ 21صدی مین تعلیم کی اہمیت پہلے کی نسبت زیادہ تسلیم کی جا رہی ہے ۔ آج کے ترقیاتی دور میں تعلیم کے بغیر انسان ادھورا ہے ۔ تعلیم انسان کو اپنی صلاحیت پہچانے اور ان کی بہترسے بہتر تربیت کرنے میں معاون ثابت و مدد گار ہوتی ہے تقیناً تعلیم یافتہ لوگ ہی ایک بہتر سماج اور ایک ترقی یافتہ ملک و قوم کی تعمیر کرتے ہیں اور معاشی مسابقت کیلئے اس کی اہمیت ناگزیر ہے۔ قوموں کے عروج و زوال کی کہانی میں تعلیم کا کردار بڑی اہمیت کا حامل رہا ہے۔ جس قوم نے اس میدان میں عروج حاصل کیا، باقی دنیااس قوم کے سامنے سرنگوں ہوتی چلی گئی ۔ طالبان نے ستمبر ۲۰۱۰ تک ۱۰۰۰ سے زیادہ طلبہ و طالبات کے سکولون کو تباہ و برباد کر کے قرآن ،رسول اکرم کی احادیث اور آیمہ کرام کے احکامات کی صریحا خلاف ورزی کے مرتکب ہوئے ہیں۔ طالبان درندوں نے اپنے حملوں کے دوران سکولوں کے بچوں ، بچیوں اور اساتذہ کو بھی نہین بخشا۔ طالبان کے مذید حملوں کے خوف کی وجہ سے صوبہ کے ۲۰۵ پرائمری سکول بند کر دئیے گئے جس سے ہزاروں بچیاں تعلیم سے محروم ہو گئیں۔
اقوام متحدہ کے کمشنر مہاجرین کی ایک روپورٹ کے مطابق ۱۔۸ ملین آبادی کے علاقہ مین ۳ سال پہلے ۱۲۰،۰۰۰ لڑکیاں سکولوں اور کالجوں میں زیر تعلیم تھین جو ، اب کم ہو کر صرف ۴۰،۰۰۰رہ گئیں۔ ۳۰ فیصد سے زیادہ لڑکیاں سن ۲۰۰۶ اور ۲۰۰۷ مین مولوی فضل اللہ کی دہمکی آمیز ریڈیو تقریروں کی وجہ سے سوات کے سکول چھوڑ گئیں۔طالبان نے سوات مین سکول کی بچیوں کے سکول جانے پر پابندی عائد کر دی۔
طالبان نے اکتوبر ۲۰۰۹ مین انٹرنیشنل اسلامک یونیورسٹی اسلام آباد مین خود کش حملہ کیا جس میں ۶ افراد بشمول ۳ طالبات ہلاک ہو گئیں ۔طالبان کے دھماکوں کی وجہ سے ہزاروں طلبہ و طالبات تعلیم کےحصول سے محروم ہوچکے ہیں۔ طالبان خیبر پختونخواہ اور فاٹا ایریا مین 1۵۰۰ سے زیادہ سکول تباہ کر چکے ہیں۔
گزشتہ ہفتے نوشہرہ اور صوابی کے اضلاع میں ایک ہی رات میں دو سرکاری سکول شدت پسندوں کے حملے میں تباہ کردیے گئے۔ یہ دونوں واقعات شہری علاقوں میں پیش آئے۔ اس سے پہلے پشاور کے کچھ مضافاتی علاقوں میں بھی سرکاری سکولوں کو بم دھماکوں میں نشانہ بنایا گیا تھا۔ضلع پشاور میں پچھلے دو برسوں کے دوران چالیس کے قریب سکول شدت پسندوں کے حملوں کا نشانہ بنے ہیں۔
مردان میں اس قبل گجرات گاؤں اور مٹی بانڈہ کے علاقے میں قائم گرلز مڈل سکولوں کو بم حملوں کا نشانہ بنایا تھا جس سے دونوں سکول تباہ ہوگئے تھے۔
۲۲ نومبر ۲۰۱۱ کو پاکستان کے قبائلی علاقے خیبرایجنسی کی تحصیل لنڈی کوتل میں شدت پسندوں نے سرکاری اسکول کی عمارت کومواد خیز مواد نصب کرکے تباہ کردیا۔ سرکاری ذرائع کا کہنا ہے کہ علاقہ خیبرذخہ خیل کے علاقہ میں پاک افغان شاہراہ کے قریب واقع گورنمنٹ مڈل اسکول ملک عبداللطیف خان کلے میں نامعلوم شدت پسندوں نے طاقتوربارودی مواد نصب کررکھا تھا جورات 2 بجے کے قریب زورداردھماکے سے پھٹ گیا،دھماکے کی شدید سے قریبا ایک کلومیٹر تک کا علاقہ لرزاٹھا اورمضافات میں واقع گھروں کی الماریوں اور کھڑکیوں کے شیشے ٹوٹ گئے یادرہے کہ مذکورہ اسکول کی عمارت کو 2برس قبل بھی بارودی مواد سے اڑانے کی کوشش کی گئی تھی تاہم اس وقت اسکول کی عمارت محفوظ رہی ۔غیرسرکاری اعداد و شمار کے مطابق خیبرایجنسی میں شدت پسندوں کی جانب سے تباہ کیے گئے سرکاری اسکولوں کی تعداد 72ہوگئی ہے جن میں لڑکیوں کے اسکولز بھی شامل ہیں،اب تک کے تباہ کیے گئے اسکولوں میں سے بیشتر باڑہ سب ڈویژن میں واقع ہیں۔ اسی طرح قبائلی علاقوں میں بھی سرکاری سکول اور عمارات بدستور شدت پسندوں کے نشانے پر ہے۔
اسلام کی ابتدا ہی تعلیم سے ہوئی اور اسلام میں تعلیم کی اہمیت پر بڑا زور دیا گیا ہے۔غارحرا میں سب سے پہلی جو وحی نازل ہوئی وہ سورہ علق کی ابتدائی چند آیتیں ہیں ،جن میں نبی صلعم کو کہا گیا :
. (پڑھ اپنے رب کے نام سے جس نے سب کو پیدا کیا۔ پیدا کیا اس نے انسان کو خون کے لوتھڑے سے ۔ پڑھ ، تیرارب بڑا کریم ہے۔ جس نے سکھایا علم قلم کے زریعہ۔ اس چیز کا علم دیا انسان کو جو وہ نہیں جانتا ۔(العلق:۱-۵) یَرْفَعِ اللَّہُ الَّذِیْنَ آمَنُوا مِنکُمْ وَالَّذِیْنَ أُوتُوا الْعِلْمَ دَرَجَاتٍ وَاللَّہُ بِمَا تَعْمَلُونَ خَبِیْرٌ (تم میں سے جو لوگ ایمان لائے اور جن کو علم عطا ہواہے ،اللہ اس کے درجات بلند فرمائے گا اورجو عمل تم کرتے ہو اس سے اللہ باخبر ہے۔(المجادلہ:۱۱) دوسرے مقام پر فرمایا گیا ہے: (اے نبی،کہہ دیجیے کیاعلم رکھنے والے(عالم) اور علم نہ رکھنے والے (جاہل) برابر ہوسکتے ہیں۔نصیحت تو وہی حاصل کرتے ہیں جو عقل والے ہیں۔(الزمر:۹) تاریکی اور روشنی کی مثال دے کر عالم اور جاہل کے فرق کو واضح کیا گیاہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: (کہہ دیجیے،کیا برابر ہوسکتے ہیں اندھا(جاہل) اور دیکھنے والا(عالم) یا کہیں برابر ہوسکتا ہے اندھیرا اور اجالا۔)(الرعد:۱۶) (اے پیغمبر کہو:اے میرے رب !میرا علم زیادہ کر۔)(طٰہٰ:۱۱۴) اور تجھ کوسکھائیں وہ باتیں جو نہیں جانتا تھااور یہ تیرے رب کا فضل عظیم ہے۔(النساء:۱۱۳) ایک سینئر صحافی کو طالبان کے سابق ترجمان ذیبح اللہ مجاہد کی طرف سے بھیجے گئے ای میل مورخہ ۲۸ مارچ میں ملا عمر کا کہنا ہے کہ طالبان تعلیم و تربیت کی اہمیت کو جانتے ہیں اور وہ دنیا اور آخرت کی کامیابی کا ذریعہ علم کے حصول ہی کو سمجھتے ہیں۔ ملا عمر نے اپنے ردعمل پر مشتمل تفصیلی پشتو بیان میں مزید کہا کہ طالبان کبھی بھی افغان عوام کیلئے بنائے گئے تعلیمی اداروں،اسپتالوں اور عوامی مقامات کو بموں سے اڑانے کا تصور بھی نہیں کر سکتے ہیں۔ ایسا کرنے والوں کا طالبان سے کوئی تعلق نہیں ۔ بموں سے اڑانے والے افغانوں کے دشمن ہیں یا پھر دشمنوں کے ایجنٹ ہیں جو طالبان کو بدنام اور افغانستان کو تباہ کرنے کیلئے ایسا کر رہے ہیں۔ادہر ۱۹ نومبر ۲۰۱۱ کو تحریک طالبان کے ترجمان احسان اللہ احسان نے کہا ہے کہ طالبان کبھی بھی لڑکیوں کی تعلیم کے مخالف نہیں رہے اور طالبان صرف سیکولر اور مغربی تعلیم کے مخالف ہین جس میں ساری توجہ بقول ان کے دنیاوی تعلیم پر دی جاتی ہے۔خیال رہے کہ دو ہزار نو میں جب وادی سوات کے اکثر علاقے طالبان کے کنٹرول میں تھے تو ان دنوں خوف کی وجہ سے لڑکیاں سکول نہیں جاسکتی تھیں۔ یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ خیبر پختون خوا میں سب سے پہلے سرکاری سکولوں پر حملوں کا آغاز بھی سوات سے ہوا تھا۔ سوات میں سب سے زیادہ یعنی چار سو کے قریب سکول بم دھماکوں یا دیگر حملوں کا نشانہ بنے ہیں۔ حکیم اللہ محسود نے ملا عمر کو بیعت دی ہوئی ہے مگرملا عمر TTP کےسکولوں, مساجد کی تباہی اور عام نہتے پاکستانیوں کو خود کش بم حملوں کے ذریعے ہلاک و اغوا کئے جانے اور خلاف شریعہ لوٹ مار کو اس بیعت اور اپنے جاری شدہ code ofconductکی خلاف ورزی تصور کر رہے ہیں۔ اور تحریک طالبان پاکستان ، القائدہ کے اشاروں پر پاکستان کو کمزور کرنے کی کوششوں میں دن رات مصروف ہیں۔
چونکہ سکولوں کی تباہی کے تمام واقعات صوبہ خیبر پختونخواہ میں ہو رہے ہیں اور اگر طالبان ان واقعات کی ذمہ داری قبول کرنے سے گریزان ہیں، تو یہ ان کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ ان واقعات کی مذمت کریں اور اپنے آپ کو بری الذمہ قرار دیں اور ان لوگوں و گروہوں کو جو ان واقعات کے اصل ذمہ دار ہیں ، بے نقاب کریں ۔
وہ لوگ جو تعلیم کے یکسر مخالف ہیں، اور سکولوں کو تباہ کرنے اور جلانے کے قبیح کاموں میں شریک ہیں ،ان کے بارےمیں مجھے پورا اندازہ ہے کہ وہ اگلے 100 سال کے بعد بھی ترقی کی شاہراہ پر تاریخ کے پتھروں کی مانند وہیں پڑےہوں گے جہاں آج سے 200 سال پہلے پڑے تھے۔
سکولوں کو تباہ کرنے کے نتیجے میں پاکستان مین غربت ، پسماندگی ، جہالت اور انتہا پسندی و دہشت گردی جیسے مسائلمزید گھمبیر ہو جائینگے، تعلیم کے فروغ* سے ہم پاکستان مین دہشتگردی و انتہا پسندی و جہالت کی عفریت پر قابو پا سکتےہیں اور اسی مین پاکستان کی تعمیر و ترقی کی تعبیر مضمر ہے۔
صوابی/نوشہرہ۔صوابی اور نوشہرہ میں تعلیم دشمن عناصر نے دوسکولوںکو بارودی مواد سے اڑادیا۔صوابی کے علاقے شیوہ اڈہ میں رات گئے نامعلوم شر پسندوں نے گورنمنٹ گرلز پرائمری سکول کو نصب شدہ بارودی مواد سے تباہ کیا،دھماکے میں کوئی جانی نقصان نہیں ہوا۔ پولیس کے مطابق واقعہ دہشت گردی کی کارروائی ہے۔نوشہرہ کے علاقے تاروجبہ میں بھی گونمنٹ بوائز پرائمری سکول میں نصب شدہ بارودی مواد کا دھماکہ ہوا پولیس کے مطابق دھماکہ سے سکول کی عمارت کو جزوی نقصان پہنچا۔http://www.dailyaaj.com.pk
پاکستان کے صوبہ خیبر پختونخواہ میں سکولوں کی تباہی ایک معمول سا بنتا جارہا ہے اور طالبان نہایت بے دردی کے ساتھ قومی دولت کو تباہ کر رہے ہیں۔ خیبر پختونخوا کے چوبیس اضلاع میں بہت کم ایسے علاقے ہوں گے جہاں شدت پسندوں نے سکولوں کو نشانہ نہ بنایا ہو ۔ طالبان کی عقل و سمجھ میں یہ نہ آ رہا ہے کہ سکولوں کو تباہ کرنا ملک و قوم کی موجودہ و آئندہ نسلوں سے عظیم دشمنی ہے اور پاکستان کے عوام ان کو اس وطن دشمنی پر کبھی معاف نہیں کریں گے۔
سکول ایک قومی دولت ہیں، جہاں پاکستان کے بچے اور بچیاں اپنے آپ کو زیور تعلیم سے آراستہ کر کے آئندہ ملک و قوم کی خدمت کر نے کی سعی کرتے ہیں۔۔ تعلیم ایک ایسی بنیاد اور ستون ہے جس پر ملک کی سلامتی کا تمام دارومدار و انحصار ہے۔ پاکستان میں پہلے ہی ۲۵ ملین بچے اور بچیاں حصول تعلیم کی نعمتوں سے محروم ہیں اور طالبان سکولوں کو تباہ کرکے اس محرومی میں مزید اضافہ کر رہے ہیں۔
اقوام متحدہ کے کمشنر مہاجرین کی ایک روپورٹ کے مطابق ۱۔۸ ملین آبادی کے علاقہ مین ۳ سال پہلے ۱۲۰،۰۰۰ لڑکیاں سکولوں اور کالجوں میں زیر تعلیم تھین جو ، اب کم ہو کر صرف ۴۰،۰۰۰رہ گئیں۔ ۳۰ فیصد سے زیادہ لڑکیاں سن ۲۰۰۶ اور ۲۰۰۷ مین مولوی فضل اللہ کی دہمکی آمیز ریڈیو تقریروں کی وجہ سے سوات کے سکول چھوڑ گئیں۔طالبان نے سوات مین سکول کی بچیوں کے سکول جانے پر پابندی عائد کر دی۔
طالبان نے اکتوبر ۲۰۰۹ مین انٹرنیشنل اسلامک یونیورسٹی اسلام آباد مین خود کش حملہ کیا جس میں ۶ افراد بشمول ۳ طالبات ہلاک ہو گئیں ۔طالبان کے دھماکوں کی وجہ سے ہزاروں طلبہ و طالبات تعلیم کےحصول سے محروم ہوچکے ہیں۔ طالبان خیبر پختونخواہ اور فاٹا ایریا مین 1۵۰۰ سے زیادہ سکول تباہ کر چکے ہیں۔
گزشتہ ہفتے نوشہرہ اور صوابی کے اضلاع میں ایک ہی رات میں دو سرکاری سکول شدت پسندوں کے حملے میں تباہ کردیے گئے۔ یہ دونوں واقعات شہری علاقوں میں پیش آئے۔ اس سے پہلے پشاور کے کچھ مضافاتی علاقوں میں بھی سرکاری سکولوں کو بم دھماکوں میں نشانہ بنایا گیا تھا۔ضلع پشاور میں پچھلے دو برسوں کے دوران چالیس کے قریب سکول شدت پسندوں کے حملوں کا نشانہ بنے ہیں۔
۲۲ نومبر ۲۰۱۱ کو صوبہ خیبر پختونخواہ کے ضلع مردان میں لڑکیوں کے ایک سکول کے باہر ہوئے ایک دھماکے میں ایک پولیس اہلکار ہلاک اور آٹھ افراد زخمی ہو گئے ہیں۔ پولیس کے مطابق طالبات نے ابھی سکول آنا شروع نہیں کیا تھا اس لیے وہ محفوظ رہیں۔ اہلکار کے مطابق سکول کے ارد گرد پولیس کی نفری موجود ہیں اور دھماکے کی خوف سے کوئی بھی لڑکی سکول نہیں پہنچی ہے۔ سکول مکمل طور بند ہے۔
یاد رہے کہ مردان میں کچھ عرصے سے لڑکیوں کے سکولوں پر حملوں میں اضافہ ہوا ہے۔ عیدالضحٰی کے بعد مردان کی تحصیل ڈھیری میں لڑکیوں کے ایک ہائی سکول میں تین دھماکے کرکے سکول کو مکمل طور پر تباہ کردیا تھا۔مردان میں اس قبل گجرات گاؤں اور مٹی بانڈہ کے علاقے میں قائم گرلز مڈل سکولوں کو بم حملوں کا نشانہ بنایا تھا جس سے دونوں سکول تباہ ہوگئے تھے۔
۲۲ نومبر ۲۰۱۱ کو پاکستان کے قبائلی علاقے خیبرایجنسی کی تحصیل لنڈی کوتل میں شدت پسندوں نے سرکاری اسکول کی عمارت کومواد خیز مواد نصب کرکے تباہ کردیا۔ سرکاری ذرائع کا کہنا ہے کہ علاقہ خیبرذخہ خیل کے علاقہ میں پاک افغان شاہراہ کے قریب واقع گورنمنٹ مڈل اسکول ملک عبداللطیف خان کلے میں نامعلوم شدت پسندوں نے طاقتوربارودی مواد نصب کررکھا تھا جورات 2 بجے کے قریب زورداردھماکے سے پھٹ گیا،دھماکے کی شدید سے قریبا ایک کلومیٹر تک کا علاقہ لرزاٹھا اورمضافات میں واقع گھروں کی الماریوں اور کھڑکیوں کے شیشے ٹوٹ گئے یادرہے کہ مذکورہ اسکول کی عمارت کو 2برس قبل بھی بارودی مواد سے اڑانے کی کوشش کی گئی تھی تاہم اس وقت اسکول کی عمارت محفوظ رہی ۔غیرسرکاری اعداد و شمار کے مطابق خیبرایجنسی میں شدت پسندوں کی جانب سے تباہ کیے گئے سرکاری اسکولوں کی تعداد 72ہوگئی ہے جن میں لڑکیوں کے اسکولز بھی شامل ہیں،اب تک کے تباہ کیے گئے اسکولوں میں سے بیشتر باڑہ سب ڈویژن میں واقع ہیں۔ اسی طرح قبائلی علاقوں میں بھی سرکاری سکول اور عمارات بدستور شدت پسندوں کے نشانے پر ہے۔
اسلام کی ابتدا ہی تعلیم سے ہوئی اور اسلام میں تعلیم کی اہمیت پر بڑا زور دیا گیا ہے۔غارحرا میں سب سے پہلی جو وحی نازل ہوئی وہ سورہ علق کی ابتدائی چند آیتیں ہیں ،جن میں نبی صلعم کو کہا گیا :
. (پڑھ اپنے رب کے نام سے جس نے سب کو پیدا کیا۔ پیدا کیا اس نے انسان کو خون کے لوتھڑے سے ۔ پڑھ ، تیرارب بڑا کریم ہے۔ جس نے سکھایا علم قلم کے زریعہ۔ اس چیز کا علم دیا انسان کو جو وہ نہیں جانتا ۔(العلق:۱-۵) یَرْفَعِ اللَّہُ الَّذِیْنَ آمَنُوا مِنکُمْ وَالَّذِیْنَ أُوتُوا الْعِلْمَ دَرَجَاتٍ وَاللَّہُ بِمَا تَعْمَلُونَ خَبِیْرٌ (تم میں سے جو لوگ ایمان لائے اور جن کو علم عطا ہواہے ،اللہ اس کے درجات بلند فرمائے گا اورجو عمل تم کرتے ہو اس سے اللہ باخبر ہے۔(المجادلہ:۱۱) دوسرے مقام پر فرمایا گیا ہے: (اے نبی،کہہ دیجیے کیاعلم رکھنے والے(عالم) اور علم نہ رکھنے والے (جاہل) برابر ہوسکتے ہیں۔نصیحت تو وہی حاصل کرتے ہیں جو عقل والے ہیں۔(الزمر:۹) تاریکی اور روشنی کی مثال دے کر عالم اور جاہل کے فرق کو واضح کیا گیاہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: (کہہ دیجیے،کیا برابر ہوسکتے ہیں اندھا(جاہل) اور دیکھنے والا(عالم) یا کہیں برابر ہوسکتا ہے اندھیرا اور اجالا۔)(الرعد:۱۶) (اے پیغمبر کہو:اے میرے رب !میرا علم زیادہ کر۔)(طٰہٰ:۱۱۴) اور تجھ کوسکھائیں وہ باتیں جو نہیں جانتا تھااور یہ تیرے رب کا فضل عظیم ہے۔(النساء:۱۱۳) ایک سینئر صحافی کو طالبان کے سابق ترجمان ذیبح اللہ مجاہد کی طرف سے بھیجے گئے ای میل مورخہ ۲۸ مارچ میں ملا عمر کا کہنا ہے کہ طالبان تعلیم و تربیت کی اہمیت کو جانتے ہیں اور وہ دنیا اور آخرت کی کامیابی کا ذریعہ علم کے حصول ہی کو سمجھتے ہیں۔ ملا عمر نے اپنے ردعمل پر مشتمل تفصیلی پشتو بیان میں مزید کہا کہ طالبان کبھی بھی افغان عوام کیلئے بنائے گئے تعلیمی اداروں،اسپتالوں اور عوامی مقامات کو بموں سے اڑانے کا تصور بھی نہیں کر سکتے ہیں۔ ایسا کرنے والوں کا طالبان سے کوئی تعلق نہیں ۔ بموں سے اڑانے والے افغانوں کے دشمن ہیں یا پھر دشمنوں کے ایجنٹ ہیں جو طالبان کو بدنام اور افغانستان کو تباہ کرنے کیلئے ایسا کر رہے ہیں۔ادہر ۱۹ نومبر ۲۰۱۱ کو تحریک طالبان کے ترجمان احسان اللہ احسان نے کہا ہے کہ طالبان کبھی بھی لڑکیوں کی تعلیم کے مخالف نہیں رہے اور طالبان صرف سیکولر اور مغربی تعلیم کے مخالف ہین جس میں ساری توجہ بقول ان کے دنیاوی تعلیم پر دی جاتی ہے۔خیال رہے کہ دو ہزار نو میں جب وادی سوات کے اکثر علاقے طالبان کے کنٹرول میں تھے تو ان دنوں خوف کی وجہ سے لڑکیاں سکول نہیں جاسکتی تھیں۔ یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ خیبر پختون خوا میں سب سے پہلے سرکاری سکولوں پر حملوں کا آغاز بھی سوات سے ہوا تھا۔ سوات میں سب سے زیادہ یعنی چار سو کے قریب سکول بم دھماکوں یا دیگر حملوں کا نشانہ بنے ہیں۔ حکیم اللہ محسود نے ملا عمر کو بیعت دی ہوئی ہے مگرملا عمر TTP کےسکولوں, مساجد کی تباہی اور عام نہتے پاکستانیوں کو خود کش بم حملوں کے ذریعے ہلاک و اغوا کئے جانے اور خلاف شریعہ لوٹ مار کو اس بیعت اور اپنے جاری شدہ code ofconductکی خلاف ورزی تصور کر رہے ہیں۔ اور تحریک طالبان پاکستان ، القائدہ کے اشاروں پر پاکستان کو کمزور کرنے کی کوششوں میں دن رات مصروف ہیں۔
چونکہ سکولوں کی تباہی کے تمام واقعات صوبہ خیبر پختونخواہ میں ہو رہے ہیں اور اگر طالبان ان واقعات کی ذمہ داری قبول کرنے سے گریزان ہیں، تو یہ ان کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ ان واقعات کی مذمت کریں اور اپنے آپ کو بری الذمہ قرار دیں اور ان لوگوں و گروہوں کو جو ان واقعات کے اصل ذمہ دار ہیں ، بے نقاب کریں ۔
وہ لوگ جو تعلیم کے یکسر مخالف ہیں، اور سکولوں کو تباہ کرنے اور جلانے کے قبیح کاموں میں شریک ہیں ،ان کے بارےمیں مجھے پورا اندازہ ہے کہ وہ اگلے 100 سال کے بعد بھی ترقی کی شاہراہ پر تاریخ کے پتھروں کی مانند وہیں پڑےہوں گے جہاں آج سے 200 سال پہلے پڑے تھے۔
سکولوں کو تباہ کرنے کے نتیجے میں پاکستان مین غربت ، پسماندگی ، جہالت اور انتہا پسندی و دہشت گردی جیسے مسائلمزید گھمبیر ہو جائینگے، تعلیم کے فروغ* سے ہم پاکستان مین دہشتگردی و انتہا پسندی و جہالت کی عفریت پر قابو پا سکتےہیں اور اسی مین پاکستان کی تعمیر و ترقی کی تعبیر مضمر ہے۔
Comment