السلام علیکم
درجہ ذیل مضمون کو تمام تر حقارت اور بغض سے پاک رہ کر پڑھیے، ورنہ یہی سے واپس ہو جائیں!!!!!!!
کچھ روز قبل میں نے ایک لفظ استعمال کیا تھا:پاکستانیت!
میرے چند محبِ وطن دستوں کو اس لفظ سے بہت تکلیف ہوئی اور وطن سے اپنی محبت کا اظہار مجھ سے بیزارگی کی صورت میں کیا۔
دو روز قبل پاکستانی کرکٹ ٹیم کے سپرسٹارز، سلمان بٹ، محمد آصف اور محمد عامر کو برطانیہ میں میچ سکینڈل کیس میں جیل کی سزا سنائی گئی ہے۔ ایک بار پھر پاکستان کو دنیا بھرکے سامنے بے آبرو کر دیا گیا ہے۔ 1992 سے لیکر آج تک پاکستانی ٹیم کرپشن کے بدکار اور گھنوؤنے جرم میں ملوث ہے، مگر ہمارے ہاں کبھی بھی اس پر سنجیدگی سے کوئی قانون نہیں بنا اور نہ ہی کسی نے اس کرپشن کو ختم کرنے کی کوشش کی ہے۔ بلکہ پی سی بی خود اس کرپشن میں شامل رہا ہے۔ کئی کھلاڑیوں کی مثال ایسی ملتی ہے جنہوں نے اس بڑھتی ہوئی کرپشن کے خلاف آواز اٹھا مگر انہیں راستے سے ہٹا دیا گیا۔ سلمان بٹ جیسے بے ہودہ اور دو ٹکے کے کھلاڑی کو جسے میں کسی بھی سنجیدہ ، کلب لیول ٹیم میں کھیلنے کے قابل نہیں سمجھتا تھا، اسے کپتان بنانا بذاتِ خود کرپشن کی ایک مثال ہے۔
آسٹریلیا کے دورے میں اسی کرپشن نے ہمیں جیتی ہوئی سیریز ہار دی۔
جب 1992 سے پاکستانی کرکٹ ٹیم بری طرح کرپشن میں پھنسی ہوئی ہے، اور جب پچھلے کئی ایک برس سے پاکستانی کرکٹ سیاست کی بھینٹ چڑھی ہوئی ہے توپھر یہ بات کسی بھی طور سمجھ میں نہیں آتی کہ ان بے غیرتوں کو رتی برابر بھی شرم نہ آئی کہ کس طرح دولت کے آگےیہ اپنے ملک کا وقار داؤ پر لگاررہے ہیں؟ آج اگر اِن کے خاندان والے بک رہے ہیں کہ اِ ن کے خلاف سازش ہوئی ہے تو یہ ایک انتہائی شرم اور بد بختگی کا مقام ہے۔ جب تک ہمارے لوگوں کے گھروں میں دولت آتی رہتی ہے، ہمیں اس بات کی فکر نہیں ہوتی کہ یہ دولت کیسے آتی ہے، اور جب ہمارے ہاتھ تنگ ہوتے ہیں تو ہم مگر مچھ کے آنسو رونا شروع کر دیتے ہیں، ایسے لوگوں سے کوئی ہمدردی رکھنا ملک دشمنی کے برابر ہے۔ مجرموں کو سزا ملی اور درست ملی مگر بدنامی، رسوائی، ہتک اور بےعزتی کس کی ہوئی: پاکستان کی!
(یہاں پر ایک مثال دینا چاہتا ہوں کہ یہاں ڈنمارک میں 18 سالہ پاکستان قتل ہوا، تفتیش پر پتہ چلا کہ وہ منشیات کے کاروبارمیں ملوث تھا اور جہاں قتل ہوا، وہاں وہ منشیات ہی بیچنے گیا تھا، اس کے گھروالوں نے آسمان سر پر اٹھا لیاکہ ہمارا صرف اٹھارہ سال کا بچہ! بدبختو!اس وقت بچہ یاد نہیں تھا جب وہ غلط راہوں پر چل رہا تھااور حرام کے پیسے کما رہا تھا، یہاں بدنامی کس کی ہوئی پاکستان کی )۔
یہ خبیث الصفت کھلاڑی جنہیں ہم اپنے قومی ہیرو مانتے ہیں، ان کو تو پہلے ہی اتنا کچھ ملتا ہے جتنا اُن لاکھوں افراد کے نصیبوں سے دور دور ہے، جو دو وقت کی روٹی سے بھی محروم ہیں، تو پھر ان کا یہ فعل کس بات کی غمازی کرتا ہے؟ یہ فعل اس بات سوچ کا منہ بولتا ثبوت ہے کہ جب تک جہاں تک ممکن ہوفائدہ اٹھاؤ۔
اور اس میں حیرانگی کی بات بھی کیا ہے؟ جس ملک کاصدر کرپشن کا سب سے بڑا اور گھنواؤنا نمونہ ہو،جس ملک میں اپوزیشن کرپشن کا منہ بولتا ثبوت ہو(نوازشریف کے باپ میاں شریف کا اپنے لختِ جگر کو مشورہ تھا کہ بیٹا کبھی کسی عہدے سے انکار نہ کرنا، جو عہدہ ملے اس سے فائدہ اٹھاؤ)، جس ملک کا عدالتی نظام کرپشن کا سرغنہ ہو، جس ملک کے ادارے کرپشن میں ملوث ہوں، جس ملک کا بال بال کرپشن میں ڈوبا ہوا ہو، اس ملک کے لوگوں سے سوائے کرپشن کے اور کیا امید کی جاسکتی ہے؟
زمانے میں کسی بھی ملک، کسی بھی معاشرے، کسی بھی قوم کی پہچان اس کے لوگوں کے رہنے سہنے، اٹھنے بیٹھنے، ملنے جھلنے، علم و فن اور عالمگیری سلوک سے ہوتی ہے۔ ملک کے نام نہاد لوگ ملک کے ایمبیسڈرز ہوتے جنہیں دیکھ کر دوسری قومیں ان کے نسبت قیاس آرائیاں کرتی ہیں، یہ کسی عظیم الشان، عاقل و بالغ، تمام تر برائیوں سے پاک صاف نتھو خان، خیروخان، قیدوخان، شیداں بی بی، بھاگ بھری وغیرہ کی وطن محبت سے نہیں لگائی جاتی۔ایسے لوگ نہ تین میں ہوتے ہیں نہ تیرہ میں۔ پاکستان کے علمبرادار لوگ پاکستانیت کا چہرہ ہیں اور یہ انتہائی دکھ، افسوس اور دل تڑپانے والی بات ہے کہ فی الحال یہ چہرہ انتہائی مہلک اور بد صورت ہے۔
دولت نے ہمارے ضمیروں کو معاؤف کر دیا ہے، ہمارے ہاں انسان اسے سمجھا جاتا ہے جس کی جیب گرم ہو، چاہے وہ انتہائی بدکار و بد دیانت ہی کیوں نہ ہو۔ ہمارا معیارِ زندگی پیسے سے شروع ہو کر پیسے پر ختم ہو جاتا ہے چاہے وہ حلال کا ہو یا حرام کا! پیغام کے کچھ معتبر ممبرز کا کہنا ہے کہ اگر مجھے اپنے مفاد کے لئے قانون بھی خریدنا پڑے تو میں اس سے بھی دریغ نہیں کرونگا! جس ملک میں ایک عام پاکستانی کا یہ عالم ہو، وہاں آپ قومی اقتدار کا اندازہ لگا سکتے ہیں۔
پاکستانیت پر تڑپنے کی بجائے ذرا پاکستانیوں کے ان چہروں کو دیکھیے جنہیں دنیا کے سامنے پیش کیا جاتا ہے اور جن پر ہمارے ملک کی پہچان ہوتی ہے اور پھر دیکھیے کہ پاکستانیت کہاں کھڑی ہے!!!
والسلام: مسعود
درجہ ذیل مضمون کو تمام تر حقارت اور بغض سے پاک رہ کر پڑھیے، ورنہ یہی سے واپس ہو جائیں!!!!!!!
کچھ روز قبل میں نے ایک لفظ استعمال کیا تھا:پاکستانیت!
میرے چند محبِ وطن دستوں کو اس لفظ سے بہت تکلیف ہوئی اور وطن سے اپنی محبت کا اظہار مجھ سے بیزارگی کی صورت میں کیا۔
دو روز قبل پاکستانی کرکٹ ٹیم کے سپرسٹارز، سلمان بٹ، محمد آصف اور محمد عامر کو برطانیہ میں میچ سکینڈل کیس میں جیل کی سزا سنائی گئی ہے۔ ایک بار پھر پاکستان کو دنیا بھرکے سامنے بے آبرو کر دیا گیا ہے۔ 1992 سے لیکر آج تک پاکستانی ٹیم کرپشن کے بدکار اور گھنوؤنے جرم میں ملوث ہے، مگر ہمارے ہاں کبھی بھی اس پر سنجیدگی سے کوئی قانون نہیں بنا اور نہ ہی کسی نے اس کرپشن کو ختم کرنے کی کوشش کی ہے۔ بلکہ پی سی بی خود اس کرپشن میں شامل رہا ہے۔ کئی کھلاڑیوں کی مثال ایسی ملتی ہے جنہوں نے اس بڑھتی ہوئی کرپشن کے خلاف آواز اٹھا مگر انہیں راستے سے ہٹا دیا گیا۔ سلمان بٹ جیسے بے ہودہ اور دو ٹکے کے کھلاڑی کو جسے میں کسی بھی سنجیدہ ، کلب لیول ٹیم میں کھیلنے کے قابل نہیں سمجھتا تھا، اسے کپتان بنانا بذاتِ خود کرپشن کی ایک مثال ہے۔
آسٹریلیا کے دورے میں اسی کرپشن نے ہمیں جیتی ہوئی سیریز ہار دی۔
جب 1992 سے پاکستانی کرکٹ ٹیم بری طرح کرپشن میں پھنسی ہوئی ہے، اور جب پچھلے کئی ایک برس سے پاکستانی کرکٹ سیاست کی بھینٹ چڑھی ہوئی ہے توپھر یہ بات کسی بھی طور سمجھ میں نہیں آتی کہ ان بے غیرتوں کو رتی برابر بھی شرم نہ آئی کہ کس طرح دولت کے آگےیہ اپنے ملک کا وقار داؤ پر لگاررہے ہیں؟ آج اگر اِن کے خاندان والے بک رہے ہیں کہ اِ ن کے خلاف سازش ہوئی ہے تو یہ ایک انتہائی شرم اور بد بختگی کا مقام ہے۔ جب تک ہمارے لوگوں کے گھروں میں دولت آتی رہتی ہے، ہمیں اس بات کی فکر نہیں ہوتی کہ یہ دولت کیسے آتی ہے، اور جب ہمارے ہاتھ تنگ ہوتے ہیں تو ہم مگر مچھ کے آنسو رونا شروع کر دیتے ہیں، ایسے لوگوں سے کوئی ہمدردی رکھنا ملک دشمنی کے برابر ہے۔ مجرموں کو سزا ملی اور درست ملی مگر بدنامی، رسوائی، ہتک اور بےعزتی کس کی ہوئی: پاکستان کی!
(یہاں پر ایک مثال دینا چاہتا ہوں کہ یہاں ڈنمارک میں 18 سالہ پاکستان قتل ہوا، تفتیش پر پتہ چلا کہ وہ منشیات کے کاروبارمیں ملوث تھا اور جہاں قتل ہوا، وہاں وہ منشیات ہی بیچنے گیا تھا، اس کے گھروالوں نے آسمان سر پر اٹھا لیاکہ ہمارا صرف اٹھارہ سال کا بچہ! بدبختو!اس وقت بچہ یاد نہیں تھا جب وہ غلط راہوں پر چل رہا تھااور حرام کے پیسے کما رہا تھا، یہاں بدنامی کس کی ہوئی پاکستان کی )۔
یہ خبیث الصفت کھلاڑی جنہیں ہم اپنے قومی ہیرو مانتے ہیں، ان کو تو پہلے ہی اتنا کچھ ملتا ہے جتنا اُن لاکھوں افراد کے نصیبوں سے دور دور ہے، جو دو وقت کی روٹی سے بھی محروم ہیں، تو پھر ان کا یہ فعل کس بات کی غمازی کرتا ہے؟ یہ فعل اس بات سوچ کا منہ بولتا ثبوت ہے کہ جب تک جہاں تک ممکن ہوفائدہ اٹھاؤ۔
اور اس میں حیرانگی کی بات بھی کیا ہے؟ جس ملک کاصدر کرپشن کا سب سے بڑا اور گھنواؤنا نمونہ ہو،جس ملک میں اپوزیشن کرپشن کا منہ بولتا ثبوت ہو(نوازشریف کے باپ میاں شریف کا اپنے لختِ جگر کو مشورہ تھا کہ بیٹا کبھی کسی عہدے سے انکار نہ کرنا، جو عہدہ ملے اس سے فائدہ اٹھاؤ)، جس ملک کا عدالتی نظام کرپشن کا سرغنہ ہو، جس ملک کے ادارے کرپشن میں ملوث ہوں، جس ملک کا بال بال کرپشن میں ڈوبا ہوا ہو، اس ملک کے لوگوں سے سوائے کرپشن کے اور کیا امید کی جاسکتی ہے؟
زمانے میں کسی بھی ملک، کسی بھی معاشرے، کسی بھی قوم کی پہچان اس کے لوگوں کے رہنے سہنے، اٹھنے بیٹھنے، ملنے جھلنے، علم و فن اور عالمگیری سلوک سے ہوتی ہے۔ ملک کے نام نہاد لوگ ملک کے ایمبیسڈرز ہوتے جنہیں دیکھ کر دوسری قومیں ان کے نسبت قیاس آرائیاں کرتی ہیں، یہ کسی عظیم الشان، عاقل و بالغ، تمام تر برائیوں سے پاک صاف نتھو خان، خیروخان، قیدوخان، شیداں بی بی، بھاگ بھری وغیرہ کی وطن محبت سے نہیں لگائی جاتی۔ایسے لوگ نہ تین میں ہوتے ہیں نہ تیرہ میں۔ پاکستان کے علمبرادار لوگ پاکستانیت کا چہرہ ہیں اور یہ انتہائی دکھ، افسوس اور دل تڑپانے والی بات ہے کہ فی الحال یہ چہرہ انتہائی مہلک اور بد صورت ہے۔
دولت نے ہمارے ضمیروں کو معاؤف کر دیا ہے، ہمارے ہاں انسان اسے سمجھا جاتا ہے جس کی جیب گرم ہو، چاہے وہ انتہائی بدکار و بد دیانت ہی کیوں نہ ہو۔ ہمارا معیارِ زندگی پیسے سے شروع ہو کر پیسے پر ختم ہو جاتا ہے چاہے وہ حلال کا ہو یا حرام کا! پیغام کے کچھ معتبر ممبرز کا کہنا ہے کہ اگر مجھے اپنے مفاد کے لئے قانون بھی خریدنا پڑے تو میں اس سے بھی دریغ نہیں کرونگا! جس ملک میں ایک عام پاکستانی کا یہ عالم ہو، وہاں آپ قومی اقتدار کا اندازہ لگا سکتے ہیں۔
پاکستانیت پر تڑپنے کی بجائے ذرا پاکستانیوں کے ان چہروں کو دیکھیے جنہیں دنیا کے سامنے پیش کیا جاتا ہے اور جن پر ہمارے ملک کی پہچان ہوتی ہے اور پھر دیکھیے کہ پاکستانیت کہاں کھڑی ہے!!!
والسلام: مسعود
Comment