دنیا بھر کے دہشت گرد پاکستانمیںموجود ہین اور پاکستان دہشت گردی کا گڑہ کہلاتا ہے۔"ہر کوئی شمالی وزیرستان میں ہے،وہان عرب ہین ،ازبک ہین ،تاجک ،انڈونیشی ،بنگالی، پنجابی ،افغان ، چیچن اور سفید جہادی ۔ یورپین جہادی" کامران خان ممبر پارلیمنٹ، میران شاہ۔ "تقریبا ۱۰ ہزار غیر ملکی جہادی شمالی وزیرستان میں ہیں"( ڈیلی ڈان) وہان القائدہ ہے،طالبان ہین، پنجابی طالبان ہین ،حقانی نیٹ ورک ہے،حرکت جہاد اسلامی ہے،لشکر جھنگوی ہے وغیرہ وغیرہ ۔غیرملکی دہشت گرد شمالی وزیرستان پر قبضہ کئے بیٹھے ہیں اور انہون نے پاکستان کی خود مختاری اور سالمیت کو خطرے مین ڈال دیا ہےمگر انشاء اللہ ایسا نہیں ہو گا اور جلد شمالی وزیرستان پر دوبارہ پاکستان کی عملداری قائم کی ہو گی۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ نے نہ صرف ہماری معیشت بلکہ پاکستان کے سماجی و معاشرتی ڈھانچے کو بھی شدید نقصان پہنچایا ہے۔ اکنامک سروے آف پاکستان کےمطابق:
پاکستانی معیشت وار آن ٹیرر کے شدید دباؤ تلے ہے جو پچھلے چار سالوں میں افغانستان میں شدت اختیار کر چکی ہے 2006ء سے یہ جنگ پاکستان کے منتظم علاقوں (Settled Areas) میں متعدی وباء کی طرح پھیلی ہے جو اب تک پاکستان کے 35000 شہریوں اور 3500 سیکورٹی اہلکاروں کو کھا چکی ہے جس کی وجہ سے بڑے پیمانے پر انفرااسٹرکچر کی تباہی ہوئی، جس کی وجہ سے شمال مغربی پاکستان میں لاکھوں افراد نقل مکانی پر مجبور ہوئے، جس کی وجہ سے سرمایہ کاری کا ماحول غارت ہوا۔ جس کی وجہ سے ملکی پیداوار تیزی کے ساتھ پستیوں کی طرف لڑھکی، جس کے باعث بے روزگاری میں اضافہ ہوا اور سب سے بڑھ کر یہ کہ ملک کے بیشتر حصوں میں اقتصادی سرگرمیاں کلی طور پر جامد ہو کے رہ گئیں۔ پاکستان نے کبھی اس پیمانے کی سماجی، معاشی اور صنعتی تباہ کاری نہیں دیکھی تھی حتیٰ کہ اس وقت بھی نہیں جب ایک براہ راست جنگ کے نتیجے میں پاکستان دولخت ہو گیا تھا۔ پاکستان نے اس جنگ کی بہت بھاری معاشی معاشرتی اور اخلاقی قیمت چکائی ہے اور خدا جانے کب تک چکاتے رہیں گے۔ معیشت جو پہلے ہچکیاں لے رہی تھی دہشت گردی کے عذاب نے اس کو موت کے منہ میں دھکیل دیا ہے کاروبار تباہ ہو گئے ہیں نئی صنعت لگ نہیں رہی پرانی فیکٹریاں دھڑا دھڑ بند ہو رہی ہیں اور ہزاروں کے حساب سے لوگ بے روزگار ہو رہے ہیں۔ سیاحت تباہ ہو کر رہ گئی ہے، معاشرتی اور فوجی انفرا سٹرکچر کو زبردست نقصان پہنچا ہے۔ ملک ترقی معکوس کی طرف گامزن ہے۔ پاکستان نے ان لوگوں کے ہاتھون ۳۵۰۰۰ قیمتی جانوں کا نقصان اٹھایا ہے اور ہماری معشت کو ۶۸ بلین ڈالر کا نقصان اٹھانا پڑا ہے۔ ان نو سالوں کی دہشت گردی، خودکش دھماکوں اور دہشت گردی کے خلاف لڑی جانے والی جنگ بہت تباہیاں ل و بربادیاں ے کر آئی ہے کتنے لوگوں کی خوشیاں اور ارمان خاک میں مل گئے، کتنے لوگ اس دہشت گردی کی آگ کے بھینٹ چڑھ گئے، اب تک ہونے والے خودکش دھماکوں کے متاثرین پر کیا گزر رہی ہے؟ ہرصبح طلوع ہونے والا سورج ان کےلئے امید کی کرنلاتا ہے یا نہیں؟ دہشت گردی کی وجہ سے فاٹا کے بہت سے لوگ اور کاروبار فاٹا ایریا چھوڑ گئے ہین اور غربت مین اضافہ ہو گیا ہے، نئی انڈسٹریاں نہ لگ رہی ہیں، کاروبار برباد ہو گئے ہین ۔ دہشت گردوں کے ہاتھوں لوگوں کی زندگیاں اجیرن ہو چکی ہین۔ آج ہمارے پاس اس علاقہ مین مخبری کا ایک اچھا نظام بھی موجود نہ ہے اور ہمیں علم نہ ہے کہ وہاں کیا ہو رہا ہے۔ ملک میں معاشی ترقی اور صنعتیں تب ہی لگیں گی اور غیر ملکی سرمایہ کاری تب ہو گی جب ملک میں امن و امان ہو گا ۔اس وقت ملک کو دہشت گردی کا سامنا ہے اور دہشت گردی کی وجہ سے ملک کی معاشی حالت دگرگوں ہو چکی ہے۔پاکستان بدحالی کے دھانے پر کھڑا ہے۔ معیشت بند گلی مین داخل ہو گئی ہے اور کوئی ملک پاکستان کو بیل آوٹ پلان دینے کے لئے تیار نہیں۔ حکومت اپنے انتظامی اخراجات پورے نہیں کر پا رہی۔ سنگین حالات سے نکالنے کے لئے قومی یکجہتی سے مشترکہ حکمت عملی اپنانا ہو گی۔ لہذا عوام دل و جان سے دہشت گردی کے خاتمے کے لئے اور ملکی معاشی بہتری کے لئے حکومت سے تعاون کریں۔دہشت گردی جیسے فتنے سے نمٹنا تو ہر مسلمان اور پاکستانی کی اولین ذمہ داری ہے۔ ملکی معاشی ترقی رک گئی ہے۔ غیر ملکی سرمایہ کاری نہ ہونے کے برابر ہے۔ قر ضوں کا بوجھ ناقابل برداشت حد تک بڑھ چکا ہے۔ ۲۰۱۰ مین غیر ملکی سرمایہ کاری مین 54.6 فیصد کی کمی واقع ہوئی ۔ افراط زر ۲۰۱۰ مین15.48 فیصد رہا اور بیروز گاری کی شرح مین اظافہ ہوا۔بے روز گاری کی شرح جو ۲۰۰۹ مین 11.2 فیصد تھی بڑہ کر ۲۰۱۰ مین 14.20 فیصد ہو گئی۔ پاکستا ن عالمی مالیاتی اداروں کے قرضوں اور سود کی ادائیگی کے لئے اپنی معیشت کا نو ئے فیصد حصہ اپنےقرضوں کی ادائیگی اور اسلحے کی خریداری پر خرچ کرتا ہے۔ پاکستان کے قرضوں کا حجم ۶۴ ارب روپے تک پہنچ چکا ہے اور غیر ملکی زر مبادلہ کے ذخائر میں تیزی سے کمی واقع ہو رہی ہے اور پاکستانی معیشت دیوالیہ پن کی سر حدوں کو چھو رہی ہے۔ دہشت گردی کی وجہ سے پاکستان کی معیشت کو اب تک68 ارب ڈالر کو نقصان ہوا۔ اس پہ سونے پر سہاگہ بےجامہنگائی ،لا قانونیت ،غنڈہ گردی اور بڑہتے ہوءے افراط زر نے لوگوں کا جینا دوبھر کر دیا ہے۔ معاشی حالت اس قدر ابتر ہو چکی ہے کی ملک کے استحکام اور سلامتی کو چدید خطرات لاحق ہو چکے ہین۔ گیلپ اور پیو سروے کے مطابق بے شمار معاشی مشکلات منہ کھولے کھڑی ہین اور عوام کی اکثریت معاشی حالات کے بارے مین نا امید ہے۔ یہ ہماری خام خیالی ہے کہ گفت و شنید سے ہم ان لوگوں کو رام کر لین گے۔ یہ لاتوں کے بھوت باتوں سے نہین مانین گے، انکو، اس علاقہ سے طاقت کے بل بوتے پر نکال باہر کرنا ہو گا۔ تشدد اور دہشت گردی کا راستہ کبھی آزادی اور امن کی طرف نہیں لے جاتا۔ تشدد کرنے والے بھی اسی طرح کے انجام اور سلوک سے دوچار ہوتے ہیں جو وہ اپنے مخالفوں کے ساتھ روا ر کھتے ہیں۔ جیسا کرو گے ویسا بھرو گے۔دہشت گردں کا کام تمام ہونا پاکستان اور ہمارے شہریوں کے مفاد میں ہے۔ ڈرون حملوں سے عام شہریوں کو خطرہ نہیں ہے اور اگر کسی کو انسے خطرہ ہے، وہ یا تو دہشت گرد و شدت پسند ہیں یا ان کے حامی، جن کی نظریں ہر وقت اآسمان کی طرف لگی رہتی ہین۔ لوگ چاہتے ہیں کہ القاعدہ اور طالبان کے مراکز ختم ہوں، ان کا نیٹ ورک وہاں نہ رہے اور لوگ ان کے ہاتھوں یرغمال نہ رہیں کیونکہ لوگ طالبان اور القائدہ کے دہشت گردوں کے ہاتھوں سخت تنگ ہین۔ڈرونز کی افادیت دشوار گزار اور مشکل ترین علاقوں مین دہشت گردوں کی خفیہ پناہ گاہوں کو تباہ کرنے اور دہشت گردوں کو ہلاک کرنے کے ضمن مین مسلمہ ہے۔ عورتوں بچوں اور بوڑھوں کو بطور ڈھال استعمال کرنا دہشت گردوں کے جنگی حربوں کا حصہ ہے۔ وہ عموماً جس گھر پہ قبضہ کرتے ہیں یا جس غار کے اندر پناہ لیتے ہیں اس کی چھت کے اوپر بنائے گئے گھر میں بال بچوں والے خاندانوں کو رہنے پر مجبور کرتے ہیں تاکہ جب ان کی کمیں گاہ کو ہدف بنایا جائے تو ساتھ یہ بے گناہ بھی شہید ہوں اور پھر وہ اپنی لاشیں غائب کر دیتے ہیں اور ان بے گناہوں کی لاشوں کی تصویریں اتار کے میڈیا میں پھیلاتے ہیں اور ان تصویروں کو دیکھ کر پاکستان کے سیاستدانوں اور میڈیا میں طالبان کے حمایتیوں کو ڈرون فوبیا ہو جاتا ہے اور وہ دانستہ یا نادانستہ دہشت گردوں کے حق میں مہم چلانے لگتے ہیں۔بے گناہ لوگوں کو قتل کرنا کہاں کا انصاف ہے؟ معصوم انسانی جانوں سے کھیلنے والے درندے ہیں ان کا نہ تو اسلام اور نہ ہی پاکستان سے کوئی تعلق ہے۔ ایسے درندوں سے آہنی ہاتھوں سے نمٹا جانا چاہیے۔دہشت گردی کی وجہ سے انسانوں کی جان، مال اور آبرو کو خطرے میں نہیں ڈالاجاسکتا ہے ۔ولا تقتلوا النفس التی حرم اللہ الا بالحق ۔( اور جس نفس کو خداوند عالم نے حرام قرار دیا ہے اس کو بغیر حق قتل نہ کرو)(سورہ اعراف ، آیت ۱۵۱)کی بنیاد پر تمام انسانوں کی جانیں محتر م ہیں چاہے وہ شیعہ ہوں یا اہل سنت،مسلمان ہوں یا غیر مسلمان۔ دہشت گردی ایک غیر ملکی نہین بلکہ پاکستانی ایشو ہے۔ ہمارےعوام کی سلامتی اور ترقی کے لئے یہ امر انتہائی اہم اور ضروری ہے اوریہ ہماری موجودہ اور آیندہ نسلوں کے وسیع تر مفاد میں ہے کہ دہشت گردی اور انتہاپسندی کو ہر ممکن طریقے سے اور ہر قیمت پر روکا اور ناکام بنایا جائے۔ہم کب تک دہشت گردوں کے ہاتھوں یرغمال بنے رہیں گے؟القاعدہ اور طالبان کی اعلیٰ قیادت اس وقت بھاگ رہی ہے یا فرار کا راستہ اختیار کیے ہوئے ہے۔اسامہ بن لادن کے کمپاونڈ سے برآمد شدہ کمپیوٹر ڈاٹا اور دوسری دستاویزات کی مدد سے دہشت گردوں کا پتہ چلانا آسان ہو گیا ہے، نیز دہشت گرد اب خود بول رہے ہین اور دوسرے دہشت گردوں کے بارہ میں بتا رہے ہین۔ لہذا شمالی وزیرستان جو پاکستان میں شدت پسندوں کا سب سے محفوظ ٹھکانہ تصور ہوتا تھا ، وہاں کے شدت پسندوں کے حوصلے بلاشبہ ٹھنڈے یا کم پڑ گئے ہین۔ اور اب پاکستان کے قبائلی علاقوں میں شدت پسندوں کے لیے زمین سکڑنا و تنگ ہونا شروع ہو گئی ہے اور میرے خیال میں شدت پسند گروپ اپنے آپ کو کسی دوسرے علاقوں میں منتقل نہ کر پائیں گے۔
پاکستانی معیشت وار آن ٹیرر کے شدید دباؤ تلے ہے جو پچھلے چار سالوں میں افغانستان میں شدت اختیار کر چکی ہے 2006ء سے یہ جنگ پاکستان کے منتظم علاقوں (Settled Areas) میں متعدی وباء کی طرح پھیلی ہے جو اب تک پاکستان کے 35000 شہریوں اور 3500 سیکورٹی اہلکاروں کو کھا چکی ہے جس کی وجہ سے بڑے پیمانے پر انفرااسٹرکچر کی تباہی ہوئی، جس کی وجہ سے شمال مغربی پاکستان میں لاکھوں افراد نقل مکانی پر مجبور ہوئے، جس کی وجہ سے سرمایہ کاری کا ماحول غارت ہوا۔ جس کی وجہ سے ملکی پیداوار تیزی کے ساتھ پستیوں کی طرف لڑھکی، جس کے باعث بے روزگاری میں اضافہ ہوا اور سب سے بڑھ کر یہ کہ ملک کے بیشتر حصوں میں اقتصادی سرگرمیاں کلی طور پر جامد ہو کے رہ گئیں۔ پاکستان نے کبھی اس پیمانے کی سماجی، معاشی اور صنعتی تباہ کاری نہیں دیکھی تھی حتیٰ کہ اس وقت بھی نہیں جب ایک براہ راست جنگ کے نتیجے میں پاکستان دولخت ہو گیا تھا۔ پاکستان نے اس جنگ کی بہت بھاری معاشی معاشرتی اور اخلاقی قیمت چکائی ہے اور خدا جانے کب تک چکاتے رہیں گے۔ معیشت جو پہلے ہچکیاں لے رہی تھی دہشت گردی کے عذاب نے اس کو موت کے منہ میں دھکیل دیا ہے کاروبار تباہ ہو گئے ہیں نئی صنعت لگ نہیں رہی پرانی فیکٹریاں دھڑا دھڑ بند ہو رہی ہیں اور ہزاروں کے حساب سے لوگ بے روزگار ہو رہے ہیں۔ سیاحت تباہ ہو کر رہ گئی ہے، معاشرتی اور فوجی انفرا سٹرکچر کو زبردست نقصان پہنچا ہے۔ ملک ترقی معکوس کی طرف گامزن ہے۔ پاکستان نے ان لوگوں کے ہاتھون ۳۵۰۰۰ قیمتی جانوں کا نقصان اٹھایا ہے اور ہماری معشت کو ۶۸ بلین ڈالر کا نقصان اٹھانا پڑا ہے۔ ان نو سالوں کی دہشت گردی، خودکش دھماکوں اور دہشت گردی کے خلاف لڑی جانے والی جنگ بہت تباہیاں ل و بربادیاں ے کر آئی ہے کتنے لوگوں کی خوشیاں اور ارمان خاک میں مل گئے، کتنے لوگ اس دہشت گردی کی آگ کے بھینٹ چڑھ گئے، اب تک ہونے والے خودکش دھماکوں کے متاثرین پر کیا گزر رہی ہے؟ ہرصبح طلوع ہونے والا سورج ان کےلئے امید کی کرنلاتا ہے یا نہیں؟ دہشت گردی کی وجہ سے فاٹا کے بہت سے لوگ اور کاروبار فاٹا ایریا چھوڑ گئے ہین اور غربت مین اضافہ ہو گیا ہے، نئی انڈسٹریاں نہ لگ رہی ہیں، کاروبار برباد ہو گئے ہین ۔ دہشت گردوں کے ہاتھوں لوگوں کی زندگیاں اجیرن ہو چکی ہین۔ آج ہمارے پاس اس علاقہ مین مخبری کا ایک اچھا نظام بھی موجود نہ ہے اور ہمیں علم نہ ہے کہ وہاں کیا ہو رہا ہے۔ ملک میں معاشی ترقی اور صنعتیں تب ہی لگیں گی اور غیر ملکی سرمایہ کاری تب ہو گی جب ملک میں امن و امان ہو گا ۔اس وقت ملک کو دہشت گردی کا سامنا ہے اور دہشت گردی کی وجہ سے ملک کی معاشی حالت دگرگوں ہو چکی ہے۔پاکستان بدحالی کے دھانے پر کھڑا ہے۔ معیشت بند گلی مین داخل ہو گئی ہے اور کوئی ملک پاکستان کو بیل آوٹ پلان دینے کے لئے تیار نہیں۔ حکومت اپنے انتظامی اخراجات پورے نہیں کر پا رہی۔ سنگین حالات سے نکالنے کے لئے قومی یکجہتی سے مشترکہ حکمت عملی اپنانا ہو گی۔ لہذا عوام دل و جان سے دہشت گردی کے خاتمے کے لئے اور ملکی معاشی بہتری کے لئے حکومت سے تعاون کریں۔دہشت گردی جیسے فتنے سے نمٹنا تو ہر مسلمان اور پاکستانی کی اولین ذمہ داری ہے۔ ملکی معاشی ترقی رک گئی ہے۔ غیر ملکی سرمایہ کاری نہ ہونے کے برابر ہے۔ قر ضوں کا بوجھ ناقابل برداشت حد تک بڑھ چکا ہے۔ ۲۰۱۰ مین غیر ملکی سرمایہ کاری مین 54.6 فیصد کی کمی واقع ہوئی ۔ افراط زر ۲۰۱۰ مین15.48 فیصد رہا اور بیروز گاری کی شرح مین اظافہ ہوا۔بے روز گاری کی شرح جو ۲۰۰۹ مین 11.2 فیصد تھی بڑہ کر ۲۰۱۰ مین 14.20 فیصد ہو گئی۔ پاکستا ن عالمی مالیاتی اداروں کے قرضوں اور سود کی ادائیگی کے لئے اپنی معیشت کا نو ئے فیصد حصہ اپنےقرضوں کی ادائیگی اور اسلحے کی خریداری پر خرچ کرتا ہے۔ پاکستان کے قرضوں کا حجم ۶۴ ارب روپے تک پہنچ چکا ہے اور غیر ملکی زر مبادلہ کے ذخائر میں تیزی سے کمی واقع ہو رہی ہے اور پاکستانی معیشت دیوالیہ پن کی سر حدوں کو چھو رہی ہے۔ دہشت گردی کی وجہ سے پاکستان کی معیشت کو اب تک68 ارب ڈالر کو نقصان ہوا۔ اس پہ سونے پر سہاگہ بےجامہنگائی ،لا قانونیت ،غنڈہ گردی اور بڑہتے ہوءے افراط زر نے لوگوں کا جینا دوبھر کر دیا ہے۔ معاشی حالت اس قدر ابتر ہو چکی ہے کی ملک کے استحکام اور سلامتی کو چدید خطرات لاحق ہو چکے ہین۔ گیلپ اور پیو سروے کے مطابق بے شمار معاشی مشکلات منہ کھولے کھڑی ہین اور عوام کی اکثریت معاشی حالات کے بارے مین نا امید ہے۔ یہ ہماری خام خیالی ہے کہ گفت و شنید سے ہم ان لوگوں کو رام کر لین گے۔ یہ لاتوں کے بھوت باتوں سے نہین مانین گے، انکو، اس علاقہ سے طاقت کے بل بوتے پر نکال باہر کرنا ہو گا۔ تشدد اور دہشت گردی کا راستہ کبھی آزادی اور امن کی طرف نہیں لے جاتا۔ تشدد کرنے والے بھی اسی طرح کے انجام اور سلوک سے دوچار ہوتے ہیں جو وہ اپنے مخالفوں کے ساتھ روا ر کھتے ہیں۔ جیسا کرو گے ویسا بھرو گے۔دہشت گردں کا کام تمام ہونا پاکستان اور ہمارے شہریوں کے مفاد میں ہے۔ ڈرون حملوں سے عام شہریوں کو خطرہ نہیں ہے اور اگر کسی کو انسے خطرہ ہے، وہ یا تو دہشت گرد و شدت پسند ہیں یا ان کے حامی، جن کی نظریں ہر وقت اآسمان کی طرف لگی رہتی ہین۔ لوگ چاہتے ہیں کہ القاعدہ اور طالبان کے مراکز ختم ہوں، ان کا نیٹ ورک وہاں نہ رہے اور لوگ ان کے ہاتھوں یرغمال نہ رہیں کیونکہ لوگ طالبان اور القائدہ کے دہشت گردوں کے ہاتھوں سخت تنگ ہین۔ڈرونز کی افادیت دشوار گزار اور مشکل ترین علاقوں مین دہشت گردوں کی خفیہ پناہ گاہوں کو تباہ کرنے اور دہشت گردوں کو ہلاک کرنے کے ضمن مین مسلمہ ہے۔ عورتوں بچوں اور بوڑھوں کو بطور ڈھال استعمال کرنا دہشت گردوں کے جنگی حربوں کا حصہ ہے۔ وہ عموماً جس گھر پہ قبضہ کرتے ہیں یا جس غار کے اندر پناہ لیتے ہیں اس کی چھت کے اوپر بنائے گئے گھر میں بال بچوں والے خاندانوں کو رہنے پر مجبور کرتے ہیں تاکہ جب ان کی کمیں گاہ کو ہدف بنایا جائے تو ساتھ یہ بے گناہ بھی شہید ہوں اور پھر وہ اپنی لاشیں غائب کر دیتے ہیں اور ان بے گناہوں کی لاشوں کی تصویریں اتار کے میڈیا میں پھیلاتے ہیں اور ان تصویروں کو دیکھ کر پاکستان کے سیاستدانوں اور میڈیا میں طالبان کے حمایتیوں کو ڈرون فوبیا ہو جاتا ہے اور وہ دانستہ یا نادانستہ دہشت گردوں کے حق میں مہم چلانے لگتے ہیں۔بے گناہ لوگوں کو قتل کرنا کہاں کا انصاف ہے؟ معصوم انسانی جانوں سے کھیلنے والے درندے ہیں ان کا نہ تو اسلام اور نہ ہی پاکستان سے کوئی تعلق ہے۔ ایسے درندوں سے آہنی ہاتھوں سے نمٹا جانا چاہیے۔دہشت گردی کی وجہ سے انسانوں کی جان، مال اور آبرو کو خطرے میں نہیں ڈالاجاسکتا ہے ۔ولا تقتلوا النفس التی حرم اللہ الا بالحق ۔( اور جس نفس کو خداوند عالم نے حرام قرار دیا ہے اس کو بغیر حق قتل نہ کرو)(سورہ اعراف ، آیت ۱۵۱)کی بنیاد پر تمام انسانوں کی جانیں محتر م ہیں چاہے وہ شیعہ ہوں یا اہل سنت،مسلمان ہوں یا غیر مسلمان۔ دہشت گردی ایک غیر ملکی نہین بلکہ پاکستانی ایشو ہے۔ ہمارےعوام کی سلامتی اور ترقی کے لئے یہ امر انتہائی اہم اور ضروری ہے اوریہ ہماری موجودہ اور آیندہ نسلوں کے وسیع تر مفاد میں ہے کہ دہشت گردی اور انتہاپسندی کو ہر ممکن طریقے سے اور ہر قیمت پر روکا اور ناکام بنایا جائے۔ہم کب تک دہشت گردوں کے ہاتھوں یرغمال بنے رہیں گے؟القاعدہ اور طالبان کی اعلیٰ قیادت اس وقت بھاگ رہی ہے یا فرار کا راستہ اختیار کیے ہوئے ہے۔اسامہ بن لادن کے کمپاونڈ سے برآمد شدہ کمپیوٹر ڈاٹا اور دوسری دستاویزات کی مدد سے دہشت گردوں کا پتہ چلانا آسان ہو گیا ہے، نیز دہشت گرد اب خود بول رہے ہین اور دوسرے دہشت گردوں کے بارہ میں بتا رہے ہین۔ لہذا شمالی وزیرستان جو پاکستان میں شدت پسندوں کا سب سے محفوظ ٹھکانہ تصور ہوتا تھا ، وہاں کے شدت پسندوں کے حوصلے بلاشبہ ٹھنڈے یا کم پڑ گئے ہین۔ اور اب پاکستان کے قبائلی علاقوں میں شدت پسندوں کے لیے زمین سکڑنا و تنگ ہونا شروع ہو گئی ہے اور میرے خیال میں شدت پسند گروپ اپنے آپ کو کسی دوسرے علاقوں میں منتقل نہ کر پائیں گے۔
Comment