طالبانائزیشن ایک آ ئیڈیالوجی کا نام ہے اور اس کے ماننے والے وحشی ،درندے ، انتہاپسند،تشدد پسند ، دہشت گرد اور تنگ نظر ، نظریات و افکار پر یقین رکھتے ہیں اور صرفنام کے مسلمان ہیں، جن کے ہاتھ پاکستان کے معصوم اور بے گناہ شہریوں،طلبا و طالبات،اساتذہ اور ہر شعبہ ہائے زندگی کے لوگوں کے اغوا اور خون میں رنگے ہوئے ہیں۔ بقولطالبان کے وہ پاکستان مین نام نہاد اسلامی مملکت کے قیام کے لئے مسلح جدوجہد کر رےہیں۔ اسلامی مملکت کے خلاف مسلح جدوجہد اسلامی شریعت کے تقاضوں کے سراسر منافیہے۔طالبان معصوم مسلمانوں اور پاکستانیوں کا دائیں و بائیں ، بے دریغ قتل عام،خودکش دھماکوں اور دہشت گردی کے ذریعہ کر رہے ہیں۔
طالبان ملک میں خودکش حملوںمیں استعمال کرنے کیلئے معصوم بچوں کو اغوا کرتے ہیں اور انہیں خودکش حملوں کیلئےتیار کیا جاتا ہے اس قسم کا ایک واقعہ پشاور میں پیش آیا جہاں تیسری جماعت کی طالبہسوہانہ کو پشاور سے اغوا کیا گیا اور اسے لوئر دیر لے جاکر اسلام درہ چیک پوسٹ پرخودکش حملے میں استعمال کرنے کی کوشش کی گئی تاہم بچی نے شور مچا کر منصوبہ ناکامبنایا۔ پولیس اور سیکورٹی فورسز نے بچی کو تحویل میں لے کر اسے پہنائی گئی خودکشجیکٹ ناکارہ بنا دی اور بچی کو نامعلوم مقام پر منتقل کیا گیا۔ متاثرہ بچی نےصحافیوں کو بتایا کہ وہ تیسری جماعت کی طالبہ ہے گزشتہ روز پشاور سے دو خواتین اورایک مرد نے اسے بے ہوش کرکے اغوا کیا اور اس کے ساتھ موجود لوگوں نے چیک پوسٹ پرحملہ کرنے کا کہا تھا لیکن جیسے ہی ان لوگوں نے اسے چھوڑ دیا اس نے شور مچا کر اپنیجان بچائی۔
اس خوفناک خبر اور واقعہ کے سامنے آنے کے بعد اندازہ کیا جاسکتا ہےکہ ملک دشمن طاقتیں اور گروہ کس قدر سفاکیت اور درندگی پر اتر آئے ہیں اور کس طرحانسانیت کی تذلیل اور ظلم روا رکھے ہوئے ہیں کہ ا پنے شیطانی منصوبوں کیلئے لوگوںکے لخت جگروں کو استعمال کرتے ہیں۔
اگر ان کا مقصد اسلام کی سربلندی ہوتی تو یہاسلامی اصولوں کی خلاف ورزی کرتے ہوئے درندگی کی انتہائوں پر پہنچ کر معصوم بچوں کواغوا کرکے خودکش حملے نہ کرواتے۔ الغرض اب یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہوچکی ہے کہپاکستان میں یہ مسلح گروہ اسلام کیلئے نہیں اسلام اور پاکستان دشمن طاقتوں کے ناپاکمنصوبوں کی تکمیل کیلئے لڑ رہے ہیں۔ اور یہ لوگ درندگی کی انتہائوں کو پہنچ کر وہہتھکنڈے استعمال کر رہے ہیں جس کی اسلام میں تو کیا دنیا کے کسی مذہب اور سماج میںگنجائش نہیں۔
اسلام کے معنی ہیں سلامتی کے۔ چونکہ ہم مسلمان ہین اور امن اورسلامتی کی بات کرتے ہین۔ ہمارا دین ہمیں امن اور سلامتی کا درس دیتا ہے ہم چاہتےہیں کہ دنیا بھر کے لوگوں کو امن اور سلامتی نصیب ہو اور امن اور چین کی بنسری بجے۔آ نحضرت صلعم دنیا میں رحمت العالمین بن کر آ ئے۔
اسلام خود کشی کو حرام قراردیتا ہے جو کہ دہشت گردی کی ایک شکل ہے۔ یہ گمراہ گروہ اسلام کے نام پر خود کش حملہآور کی فوج تیار کر رہا ہے۔اسلام دوسروں کی جان و مال کی حفاظت کا حکم دیتا ہے یہدوسروں کا مال لوٹنے اور بے گناہوں کی جان سے کھیلنے کو ثواب کا نام دیتے ہیں۔اسلامخواتین کا احترام سکھاتا ہے یہ دہشت گرد ،عورتوں کو بھیڑ بکریوں سے بھی برا سمجھتےہیں۔بچیوں کے اسکول جلاتے ہیں اور سکول کے بچوں اور بچیوں کو اغوا کر کے انہیںخودکش حملہ آور بناتے ہین۔
کسی بھی انسا ن کی نا حق جان لینا اسلام میں حرام ہے۔دہشت گردی قابل مذمت ہے، اس میں دو آراء نہیں ہو سکتیں۔دہشت گردی کا کوئی مذہب نہیںیہ بھی مسلم ہے۔ اور نہ ہی کوئی مذہب اس کی اجازت دے سکتا ہے۔
اللہ تعالیٰفرماتے ہیں:جس نے کسی شخص کو بغیر قصاص کے یا زمین میں فساد (پھیلانے کی سزا) کے (بغیر، ناحق) قتل کر دیا تو گویا اس نے (معاشرے کے) تمام لوگوں کو قتل کر ڈالا۔( المائدة، ۳۲-۵
وہشخص جو کسی مومن کو جان بوجھ کر قتل کرے تو اس کی سزا جہنم ہے جس میں وہ ہمیشہ رہےگا۔ اس پر اللہ کا غضب اور لعنت ہے اور اللہ نے اُسکے لیے سخت عذاب مہیا کر رکھاہے۔(سورۃ النساء۔۹۳)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے خطبہ حجۃ الوداعمیں فرمایا۔ تم (مسلمانوں) کے خون، اموال اور عزتیں ایک دوسرے پر حرام ہیں، اِس دن (عرفہ)، اس شہر (ذوالحجۃ) اور اس شہر(مکہ) کی حرمت کی مانند۔ کیا میں نے تم تک باتپہنچا دی؟ صحابہ نے کہا جی ہاں۔
مسلمان کو گالی دینا فسق ہے اور اس سےقتال کرنا کفر ہے۔
مسلمان کو قتل کر دینا جہنم میں داخلے کا سبب ہے لیکناس کا مصمم ارادہ بھی آگ میں داخل کر سکتا ہے۔
جب دو مسلمان اپنی تلواریںلے کر ایک دوسرے سے لڑ پڑیں تو وہ دونوں جہنم میں جائیں گے۔ صحابہ نے دریافت کیاکہ اے اللہ کے رسول! ایک تو قاتل ہے (اس لیے جہنم میں جائے گا) لیکن مقتول کا کیاقصور؟ فرمایا اس لیے کہ اس نے اپنے (مسلمان) ساتھی کے قتل کا ارادہ کیاتھا۔
مندرجہ آیت اور احادیث کی روشنی میں کسی پاکستانی اور مسلمان کو شکنہیں ہونا چاہیے کہ پاکستان میں مسلمانوں اور بے گناہ لوگوں پر خود کش حملے کرنےوالے گمراہ لوگ ہیں جن کا دین اسلام کے ساتھ کوئی تعلق اور واسطہ نہیں ہے۔ ان کی یہحرکت دشمنان اسلام اور دشمنان پاکستان کے لیے خوشیاں لے کر آئی ہے۔ پاکستان اوراسلام کے دشمن چاہتے ہیں کہ یہاں کا امن تباہ کر دیا جائے اور بدامنی کی آگ بڑھکاکر ملک کو ٹکڑے ٹکڑے کر دیا جائے۔ یہ لوگ پوری انسانیت کے قاتل ہیں اس لیے کہ اللہتعالیٰ نے فرمایا ہے۔
جس نے کسی انسان کو خون کے بدلے یا زمین میں فسادپھیلانے کے سوا کسی اور وجہ سے قتل کیا گویا اس نے سارے انسانوں کو قتل کر دیا اورجس نے کسی کی جان بچائی اس نے گویا تمام انسانوں کو زندگی بخشدی۔(المائدۃ۔۳۲)۔
اسلام کسی حالت میں بھی دہشتگردی اور عام شہریوں کے قتل کیاجازت نہیں دیتا۔ دنیا بھر کے مسلمانوں کی اکثریت اسلام کےانہی سنہری اصولوں پرکاربند ہے۔ دہشت گردی و خود کش حملے اسلام کے بنیادی اصولوں سےانحراف اور رو گردانیہے۔
بے گناہ لوگوں کو قتل کرنا کہاں کا انصاف ہے؟ معصوم انسانی جانوں سے کھیلنےوالے درندے ہیں ان کا نہ تو اسلام اور نہ ہی پاکستان سے کوئی تعلق ہے۔ ایسےدرندوں سے آہنی ہاتھوں سے نمٹا جانا چاہیے۔دہشت گردی کی وجہ سے انسانوں کی جان، مالاور آبرو کو خطرے میں نہیں ڈالاجاسکتا ہے ۔ولا تقتلوا النفس التی حرم اللہ الابالحق ۔( اور جس نفس کو خداوند عالم نے حرام قرار دیا ہے اس کو بغیر حق قتل نہکرو)(سورہ اعراف ، آیت ۱۵۱)کی بنیاد پر تمام انسانوں کی جانیں محتر م ہیں چاہے وہشیعہ ہوں یا اہل سنت،مسلمان ہوں یا غیر مسلمان۔
صوبائی وزیر اطلاعات میاںافتخارحسین نے کہا ہے کہ اغوا کے نام پر معصوم بچوں کو خودکش حملہ آور بنایا جا رہاہے اور طالبان کمانڈر خودکش بچوں کی بازار میں بکنے والی جنس کی طرح لین دین کرتےہیں۔Dunya News: پاکستان:-اغوا کے نام پر معصوم بچوں کو خود کش حملہ آور بنایا جا رہا ہے، میاں افتخار
طالبان نے سوات کے سکولوں اورمدرسوں سے ، ۱۱ سال عمر کے ۱۵۰۰ طلبا کو خودکش بمبار بنانے کے لئے اغوا کیا۔[ٹائمزروپورٹ2009 / Daily Times January 24 th,2011]طالبان نے دوسرے دہشت گردوں اورگروپوں کو ، ۷ سال عمر کے بچے ،خود کش بمبار بنانے کے لئے ۷۰۰۰ سے لیکر ۱۴۰۰۰ ڈالرمین فروخت کئیے۔
پاکستان کی فوجی کمان نے بیان دیا ہے کہ طالبان بچوں کو اغوا کرکے ان کو خصوصی کیمپوں میں تربیت دے رہے ہیں تاکہ ان بچوں کو خودکش حملوں کے لیےاستعمال کریں-
طالبان کی طرف سے بچوں کو خودکش حملہ آوروں کے طور پر استعمال کاچرچا پہلے بھی ہوا تھا- لیکن شاید ہی کسی کو خیال آ سکتا تھا کہ ایسے جرم کا پیمانہکس قدر وسیع ہے- پاکستانی فوجی جو وادی سوات اور صوبہ سرحد کے دیگر علاقوں میںطالبان کے خلاف آپریشن جاری رکھے ہوئے ہیں، اس جرم کے عینی گواہ ٹھہرے- طالبان کےایک کیمپ سے کم از کم 200 لڑکے برآمد ہوئے جن کو خودکش حملوں کے لیے تیار کیا گیاتھا-
سینئر صوبائی وزیر بیشر احمد بلور نے صحافیوں کو بتایا کہ سب سے چھوٹے بچےکی عمر صرف 6 سال ہے- وزیر موصوف کے مطابق بچوں کے ساتھ بہلی بات چیت سے کوئی نتیجہنہیں نکلا- بشیر احمد بلور نے کہا: "یہ بچے کسی کی بات نہیں سننا چاہتے، ان پر دہشتگردوں کے اصلی مقاصد واضح کرنا نا ممکن ہے"- بچوں پر سخت نفسیاتی دباؤ ڈالا گیا تھااور انہیں یقین ہے کہ خودکش حملے کے بعد وہ سیدھے جنت میں جائیں گے- ان کی اس حد تکبرین واشنگ کی گئی تھی کہ بچے اپنے والدین کو بھی قتل کرنے کے لیے تیار ہو گئے تھے-
طالبان کی طرف سے بچوں کو خود کش حملوں کے لیے دی جانے والی تربیت۔: صدائے روس
پاکستان کے وفاق کے زیر انتظام شورش زدہ قبائلی علاقے شمالیوزیرستان میں اس وقت طالبان جنگجو مبینہ طور پر کم سے کم چارسو نو عمر لڑکوں کوخودکش بم حملوں کے لیے تربیت دے رہے ہیں جنہیں تربیتی عمل مکمل ہونے کے بعد ملک کےمختلف علاقوں میں بم دھماکوں کے لیے بھیجا جائے گا۔
اس بات کا انکشافپاکستان کے چاروں صوبوں پنجاب ، خیبر پختونوا ، بلوچستان اور سندھ کے سنگم پر واقعضلع ڈیرہ غازی خان میں بزرگ صوفی حضرت سخی سرور کے دربار پر چار روز پہلے خودکش بمحملے میں ناکامی کے بعد گرفتار کیے گئے ایک کم سن فدائی حملہ آور نے کیاہے۔
عمر فدائی نامی اس چودہ سالہ حملہ آور نے بے گناہ شہریوں کو قتل کرنے پرافسوس اظہار کیا ہے اور اپنے اس جرم عظیم پر معافی مانگی ہے۔وہ چار اپریل کو حضرتسخی سرور کے مزار پر بم دھماکوں کے وقت شدید زخمی ہوگیا تھا اور پولیس نے اسے اسیحالت میں حراست میں لے لیا تھا۔اس وقت وہ ڈیرہ غازی خان کے ڈسٹرکٹ ہیڈ کوارٹراسپتال میں پولیس حراست میں زیر علاج ہے۔
اس خودکش بمبارعمر نے مقامیصحافیوں سے جمعہ کے روز گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ''انہیں بتایا گیا کہ ڈیرہ غازی خانمیں لوگ مردوں کو پوجتے ہیں اور کفر کے مرتکب ہو رہے ہیں جس پر وہ اپنے دیگرساتھیوں کے ہمراہ خودکش حملہ کرنے کے لیے دربار سخی سرور پہنچا تھا جہاں اس کے ایکساتھی اسماعیل نے تو خودکش حملہ کردیا لیکن وہ پکڑا گیا تھا''۔
عمرفدائی کییہ آن کیمرا گفتگو چار پانچ پاکستانی ٹی چینلز نے نشر کی ہے۔ اس نے بتایا کہ وہنویں جماعت کا طالب علم تھا لیکن وہ کسی طرح اپنے اسکول ہی سے موت کے سوداگروں کےہتھے چڑھ گیا جو اسے افغان سرحد کے قریب واقع شمالی وزیرستان کی تحصیل میرعلی کےنزدیک واقع ایک تربیت گاہ میں لے گئے جہاں اس نے دوماہ تک دیگر کم عمرنوجوانوں کےہمراہ خودکش بم حملے کے لیے تربیت حاصل کی۔اس کے بہ قول اس وقت وہاں ساڑھے تین سوسے چار سو کے درمیان خودکش حملہ آور زیرتربیت تھے۔
اس نے بتایا کہ پاکستاناور افغانستان میں جنگجوٶں کی تمام تربیت گاہوں کی نگرانی کمانڈر سنگین خان نامیایک شخص کرتاہے۔اس نے اپنے سابقہ ساتھی تمام فدائیوں سے مطالبہ کیا کہ وہ بے گناہشہریوں کی جانیں لینے کے لیے خودکش حملے نہ کریں کیونکہ یہ اسلام میں حرام ہیں ۔عمرکا کہنا تھا کہ اسے بے گناہ شہریوں ،بچوں اور خواتین کے قتل پر افسوس ہے اور وہ اسپر معافی مانگتا ہے۔
اس کم سن فدائی نے اپنے ٹی وی انٹرویو میں مزید بتایاکہ اسے ابتدائی طورپر افغانستان میں غیر مسلموں کے خلاف لڑائی کے لیے بھرتی کیا گیاتھا اور اسے تربیت مکمل ہونے کے بعد وہاں اسمگل کیا جانا تھا.اس کا کہنا تھا کہ ''لیکن وہ مجھے یہاں ڈیرہ غازی خاں لے آئے اور میں نے جب ان سے کہا کہ یہاں کوئیکافر نہیں ہے تو انہوں نے کہا کہ یہ لوگ کافروں سے بھی بدتر ہیں''۔
عمرفدائی نے بتایا کہ ''قاری ظفر نامی ایک جنگجو نے مجھے جہادی زندگی اختیار کرنے کےلیے آمادہ کیا تھا۔اس نے مجھ سے کہا کہ یہ تمام تعلیم بے کار ہے۔ تم خودکش حملہ آوربن جاٶ اور سیدھے جنت میں جاٶگے''۔
شمالی وزیرستان میں کم سے کم 400 خودکش بمبار زیرتربیت
ت - ۱۹ - ۲۰۱۱بالغ ٹرینر کیمرے کے سامنے آکربلند آواز میں اعلان کرتا ہےکہ یہ مسلمانکے بچے ہیں،جنھیں ہتھیاروں کے استعمال کی خصوصی تربیت دی جاتی ہے۔طالبان کی جانبسےکمسن بچوں کو جنگی تربیت دینےکا انکشاف ہواہےبرطانوی اخباردی مررکیمطابق دل دہلادینےوالی ویڈیو سے انکشاف ہواکہ طالبان اپنے مخالفین کوقتل کرنے کیلئے آٹھ سال کےبچوں کو تربیت دےرہے ہیں۔اخبار کیمطابق طالبان کیطرف سے معصوم بچوں کو مغربی مملککیخلاف جنگ کیلئے بھرتی کیا گیاہے اور انہیں جنگی تربیت دی جارہی ہے،اخبار کہتاہےکہجنونی کوچ انہیں حقیقی بندوقیں اور اصلی گولیاں استعمال کرنا سکھاتے ہیں،اخبارکیمطابق یہ سات مینٹ کی نئی وڈیو جہادی ویب سائٹس نےسنگین تصاویر کیساتھ نشرکی ہےجسمیں دکھایا گیا ہے کہبچے اِتنے چھوٹے ہیں کہ وہ ان ہتھیاروں کے پیچھے چھپ جائیںتونظرنہیں آتے،اخبار لکھتا ہے کہ بالغ ٹرینر کیمرے کے سامنے آکربلند آواز میں اعلانکرتا ہےکہ یہ مسلمان کے بچے ہیں،جنھیں ہتھیاروں کے استعمال کی خصوصی تربیت دی جاتیہے
۔حالات حاضرہ | میزان نیوز
اسلام جبر کا نہیں امن محبت اورسلامتی کا مذہب ہے اور دہشت گردی مسلمانوں کا کبھی بھی شیوہ نہیں رہا۔ جو لوگ حالیہدور میں اپنے آپ کو مسلمان کہہ کر دہشت گردی کر رہے ہیں وہ تو بھیڑ کی کھال میںبھیڑیے ہیں اور اسلام دشمن ہین ،ہمین ان کی چالوں مین نہ آنا چاہیے۔
طالبان،سپاہصحابہ،لشکر جھنگوی اور القائدہ سے ملکر پاکستان بھر مین دہشت گردی کی کاروائیاں کرہے ہین۔یہ اسلام اور پاکستان کے دشمن ہین اور ان کو مسلمان تو کجا انسان کہنا بھیدرست نہ ہے اور یہ لوگ جماعت سے باہر ہیں۔ ہمیں ان سب کا مل کر مقابلہ کرنا ہو گا۔یہ بزدل قاتل اور ٹھگ ہیں اور بزدلوں کی طرح نہتے معصوم لوگوں پر اور مسجدوں میںنمازیوں پر آ گ اور بارود برساتے ہیں اور مسجدوں کے تقدس کو پامال کرتے ہین۔ اسطرح یہ پاکستان کے دشمنوں کی خدمت کر رہے ہین۔ ان کی مذموم کاروائیوں کی وجہ سے کئیعورتوں کا سہاگ لٹ گیا،کئی بچے یتیم ہو گئے اور کیئی بہنیں اپنے بھائیوں سے بچھڑگئیں اور لوگ اپنے پیاروں سے جدا ہو گئے۔
اسلام دنیا میں حسن اخلاق ،نیکی اوراچھے کردار کی وجہ سے پھیلا ہے نہ کہ تلوار کے زور پر۔ تاہم اسلام کی تلوار انلوگوں کی گردنیں کاٹنے میں ضرور تیز ہے جو اسلام اور مسلمانوں کو مٹانے کی کوششکرتے ہیں یا اللہ کی زمین میں فتنہ و فساد پھیلاتے ہیں۔ طالبان اور القائدہ موت کےفرشتے بن کر معصوم انسانوں کا ناحق خون بہانے میں دن رات مصروف ہیں اور غیر مسلموںکو اسلام سے دور رکھنے میں خاصے کامیاب ہیں۔اپنے مذموم سیاسی مقاصد کے حصول کے لئےطالبان اسلام کا نام بدنام کر رہےہیں۔
دہشت گردوں نے ہمارے ملک کو جہنم بنا دیا۔۳۵ہزار سے زیادہ لوگ مرگئے ۔ سرمایہ اور ذہانتیں ہمارے ملک سے ہجرت کر گئیں۔کاروبار اجڑ گئے۔ بازاروں اور شہروں کی رونقیں ہم سے جدا ہوگئیں۔ عام پاکستانی کادن کا چین اور رات کا سکون غارت ہوا اور ہم سب حیرت و یاس کی تصویر بن کر رہ گئےہیں۔ بیرونی سرمایہ کاری صفر سے نیچے چلی گئی، ملازمتین ختم ہوئیں ،بیروزگاری میںاضافہ ہوا، دنیا میں ہم اور ہمارا ملک رسوا ہوگئے ۔نفرتوں اور تعصبات نے ہمارےمعاشرے تار و پود کو تباہ کرکے رکھ دیا اور ہمارا معاشرتی ڈھانچہ تباہ ہوکر رہ گیا۔ہماری مسجد، پگڑی اور داڑھی کا تقدس پامال ہوگیا اور تو اور داڑھی اور پگڑی والےبھی محفوظ نہ ہیں ۔
طالبان بچوں کو اغوا کرکے اور انہیں خودکش حملہ آور بناکرجنگ کا ایندہن بنا رہے اور اس طرح ہماری نئی نسل کو تباہ کرنے کے مرتکب ہو رہے ہینجو کہ مملکت خداداد پاکستان کے ساتھ ظلم ہے اور ایک ناقابل معافی جرم ہے۔
یہ آگکل کو ہمارے گھروں تک بھی پہنچ سکتی ہے جس طرح پشاور سے آٹھ سالہ سوہانہ کو اغواکرکے خودکش جیکٹ پہنائی گئی اسی طرح ہمارے بچوں کے ساتھ بھی ہوسکتا ہے اس لئے قومکے ہر فرد کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس اندھی جنگ سے ملک و ملت کو بچانے کیلئے اپناکردار ادا کرے۔ اس جنگ کو جیتنے کیلئے ہم سب کو جاگنا ہوگا اور سیکورٹی اداروں کےشانہ بشانہ کھڑے ہوکر اپنے ملک و قوم کی حفاظت کرنا ہوگی۔
طالبان ملک میں خودکش حملوںمیں استعمال کرنے کیلئے معصوم بچوں کو اغوا کرتے ہیں اور انہیں خودکش حملوں کیلئےتیار کیا جاتا ہے اس قسم کا ایک واقعہ پشاور میں پیش آیا جہاں تیسری جماعت کی طالبہسوہانہ کو پشاور سے اغوا کیا گیا اور اسے لوئر دیر لے جاکر اسلام درہ چیک پوسٹ پرخودکش حملے میں استعمال کرنے کی کوشش کی گئی تاہم بچی نے شور مچا کر منصوبہ ناکامبنایا۔ پولیس اور سیکورٹی فورسز نے بچی کو تحویل میں لے کر اسے پہنائی گئی خودکشجیکٹ ناکارہ بنا دی اور بچی کو نامعلوم مقام پر منتقل کیا گیا۔ متاثرہ بچی نےصحافیوں کو بتایا کہ وہ تیسری جماعت کی طالبہ ہے گزشتہ روز پشاور سے دو خواتین اورایک مرد نے اسے بے ہوش کرکے اغوا کیا اور اس کے ساتھ موجود لوگوں نے چیک پوسٹ پرحملہ کرنے کا کہا تھا لیکن جیسے ہی ان لوگوں نے اسے چھوڑ دیا اس نے شور مچا کر اپنیجان بچائی۔
اس خوفناک خبر اور واقعہ کے سامنے آنے کے بعد اندازہ کیا جاسکتا ہےکہ ملک دشمن طاقتیں اور گروہ کس قدر سفاکیت اور درندگی پر اتر آئے ہیں اور کس طرحانسانیت کی تذلیل اور ظلم روا رکھے ہوئے ہیں کہ ا پنے شیطانی منصوبوں کیلئے لوگوںکے لخت جگروں کو استعمال کرتے ہیں۔
اگر ان کا مقصد اسلام کی سربلندی ہوتی تو یہاسلامی اصولوں کی خلاف ورزی کرتے ہوئے درندگی کی انتہائوں پر پہنچ کر معصوم بچوں کواغوا کرکے خودکش حملے نہ کرواتے۔ الغرض اب یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہوچکی ہے کہپاکستان میں یہ مسلح گروہ اسلام کیلئے نہیں اسلام اور پاکستان دشمن طاقتوں کے ناپاکمنصوبوں کی تکمیل کیلئے لڑ رہے ہیں۔ اور یہ لوگ درندگی کی انتہائوں کو پہنچ کر وہہتھکنڈے استعمال کر رہے ہیں جس کی اسلام میں تو کیا دنیا کے کسی مذہب اور سماج میںگنجائش نہیں۔
اسلام کے معنی ہیں سلامتی کے۔ چونکہ ہم مسلمان ہین اور امن اورسلامتی کی بات کرتے ہین۔ ہمارا دین ہمیں امن اور سلامتی کا درس دیتا ہے ہم چاہتےہیں کہ دنیا بھر کے لوگوں کو امن اور سلامتی نصیب ہو اور امن اور چین کی بنسری بجے۔آ نحضرت صلعم دنیا میں رحمت العالمین بن کر آ ئے۔
اسلام خود کشی کو حرام قراردیتا ہے جو کہ دہشت گردی کی ایک شکل ہے۔ یہ گمراہ گروہ اسلام کے نام پر خود کش حملہآور کی فوج تیار کر رہا ہے۔اسلام دوسروں کی جان و مال کی حفاظت کا حکم دیتا ہے یہدوسروں کا مال لوٹنے اور بے گناہوں کی جان سے کھیلنے کو ثواب کا نام دیتے ہیں۔اسلامخواتین کا احترام سکھاتا ہے یہ دہشت گرد ،عورتوں کو بھیڑ بکریوں سے بھی برا سمجھتےہیں۔بچیوں کے اسکول جلاتے ہیں اور سکول کے بچوں اور بچیوں کو اغوا کر کے انہیںخودکش حملہ آور بناتے ہین۔
کسی بھی انسا ن کی نا حق جان لینا اسلام میں حرام ہے۔دہشت گردی قابل مذمت ہے، اس میں دو آراء نہیں ہو سکتیں۔دہشت گردی کا کوئی مذہب نہیںیہ بھی مسلم ہے۔ اور نہ ہی کوئی مذہب اس کی اجازت دے سکتا ہے۔
اللہ تعالیٰفرماتے ہیں:جس نے کسی شخص کو بغیر قصاص کے یا زمین میں فساد (پھیلانے کی سزا) کے (بغیر، ناحق) قتل کر دیا تو گویا اس نے (معاشرے کے) تمام لوگوں کو قتل کر ڈالا۔( المائدة، ۳۲-۵
وہشخص جو کسی مومن کو جان بوجھ کر قتل کرے تو اس کی سزا جہنم ہے جس میں وہ ہمیشہ رہےگا۔ اس پر اللہ کا غضب اور لعنت ہے اور اللہ نے اُسکے لیے سخت عذاب مہیا کر رکھاہے۔(سورۃ النساء۔۹۳)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے خطبہ حجۃ الوداعمیں فرمایا۔ تم (مسلمانوں) کے خون، اموال اور عزتیں ایک دوسرے پر حرام ہیں، اِس دن (عرفہ)، اس شہر (ذوالحجۃ) اور اس شہر(مکہ) کی حرمت کی مانند۔ کیا میں نے تم تک باتپہنچا دی؟ صحابہ نے کہا جی ہاں۔
مسلمان کو گالی دینا فسق ہے اور اس سےقتال کرنا کفر ہے۔
مسلمان کو قتل کر دینا جہنم میں داخلے کا سبب ہے لیکناس کا مصمم ارادہ بھی آگ میں داخل کر سکتا ہے۔
جب دو مسلمان اپنی تلواریںلے کر ایک دوسرے سے لڑ پڑیں تو وہ دونوں جہنم میں جائیں گے۔ صحابہ نے دریافت کیاکہ اے اللہ کے رسول! ایک تو قاتل ہے (اس لیے جہنم میں جائے گا) لیکن مقتول کا کیاقصور؟ فرمایا اس لیے کہ اس نے اپنے (مسلمان) ساتھی کے قتل کا ارادہ کیاتھا۔
مندرجہ آیت اور احادیث کی روشنی میں کسی پاکستانی اور مسلمان کو شکنہیں ہونا چاہیے کہ پاکستان میں مسلمانوں اور بے گناہ لوگوں پر خود کش حملے کرنےوالے گمراہ لوگ ہیں جن کا دین اسلام کے ساتھ کوئی تعلق اور واسطہ نہیں ہے۔ ان کی یہحرکت دشمنان اسلام اور دشمنان پاکستان کے لیے خوشیاں لے کر آئی ہے۔ پاکستان اوراسلام کے دشمن چاہتے ہیں کہ یہاں کا امن تباہ کر دیا جائے اور بدامنی کی آگ بڑھکاکر ملک کو ٹکڑے ٹکڑے کر دیا جائے۔ یہ لوگ پوری انسانیت کے قاتل ہیں اس لیے کہ اللہتعالیٰ نے فرمایا ہے۔
جس نے کسی انسان کو خون کے بدلے یا زمین میں فسادپھیلانے کے سوا کسی اور وجہ سے قتل کیا گویا اس نے سارے انسانوں کو قتل کر دیا اورجس نے کسی کی جان بچائی اس نے گویا تمام انسانوں کو زندگی بخشدی۔(المائدۃ۔۳۲)۔
اسلام کسی حالت میں بھی دہشتگردی اور عام شہریوں کے قتل کیاجازت نہیں دیتا۔ دنیا بھر کے مسلمانوں کی اکثریت اسلام کےانہی سنہری اصولوں پرکاربند ہے۔ دہشت گردی و خود کش حملے اسلام کے بنیادی اصولوں سےانحراف اور رو گردانیہے۔
بے گناہ لوگوں کو قتل کرنا کہاں کا انصاف ہے؟ معصوم انسانی جانوں سے کھیلنےوالے درندے ہیں ان کا نہ تو اسلام اور نہ ہی پاکستان سے کوئی تعلق ہے۔ ایسےدرندوں سے آہنی ہاتھوں سے نمٹا جانا چاہیے۔دہشت گردی کی وجہ سے انسانوں کی جان، مالاور آبرو کو خطرے میں نہیں ڈالاجاسکتا ہے ۔ولا تقتلوا النفس التی حرم اللہ الابالحق ۔( اور جس نفس کو خداوند عالم نے حرام قرار دیا ہے اس کو بغیر حق قتل نہکرو)(سورہ اعراف ، آیت ۱۵۱)کی بنیاد پر تمام انسانوں کی جانیں محتر م ہیں چاہے وہشیعہ ہوں یا اہل سنت،مسلمان ہوں یا غیر مسلمان۔
صوبائی وزیر اطلاعات میاںافتخارحسین نے کہا ہے کہ اغوا کے نام پر معصوم بچوں کو خودکش حملہ آور بنایا جا رہاہے اور طالبان کمانڈر خودکش بچوں کی بازار میں بکنے والی جنس کی طرح لین دین کرتےہیں۔Dunya News: پاکستان:-اغوا کے نام پر معصوم بچوں کو خود کش حملہ آور بنایا جا رہا ہے، میاں افتخار
طالبان نے سوات کے سکولوں اورمدرسوں سے ، ۱۱ سال عمر کے ۱۵۰۰ طلبا کو خودکش بمبار بنانے کے لئے اغوا کیا۔[ٹائمزروپورٹ2009 / Daily Times January 24 th,2011]طالبان نے دوسرے دہشت گردوں اورگروپوں کو ، ۷ سال عمر کے بچے ،خود کش بمبار بنانے کے لئے ۷۰۰۰ سے لیکر ۱۴۰۰۰ ڈالرمین فروخت کئیے۔
پاکستان کی فوجی کمان نے بیان دیا ہے کہ طالبان بچوں کو اغوا کرکے ان کو خصوصی کیمپوں میں تربیت دے رہے ہیں تاکہ ان بچوں کو خودکش حملوں کے لیےاستعمال کریں-
طالبان کی طرف سے بچوں کو خودکش حملہ آوروں کے طور پر استعمال کاچرچا پہلے بھی ہوا تھا- لیکن شاید ہی کسی کو خیال آ سکتا تھا کہ ایسے جرم کا پیمانہکس قدر وسیع ہے- پاکستانی فوجی جو وادی سوات اور صوبہ سرحد کے دیگر علاقوں میںطالبان کے خلاف آپریشن جاری رکھے ہوئے ہیں، اس جرم کے عینی گواہ ٹھہرے- طالبان کےایک کیمپ سے کم از کم 200 لڑکے برآمد ہوئے جن کو خودکش حملوں کے لیے تیار کیا گیاتھا-
سینئر صوبائی وزیر بیشر احمد بلور نے صحافیوں کو بتایا کہ سب سے چھوٹے بچےکی عمر صرف 6 سال ہے- وزیر موصوف کے مطابق بچوں کے ساتھ بہلی بات چیت سے کوئی نتیجہنہیں نکلا- بشیر احمد بلور نے کہا: "یہ بچے کسی کی بات نہیں سننا چاہتے، ان پر دہشتگردوں کے اصلی مقاصد واضح کرنا نا ممکن ہے"- بچوں پر سخت نفسیاتی دباؤ ڈالا گیا تھااور انہیں یقین ہے کہ خودکش حملے کے بعد وہ سیدھے جنت میں جائیں گے- ان کی اس حد تکبرین واشنگ کی گئی تھی کہ بچے اپنے والدین کو بھی قتل کرنے کے لیے تیار ہو گئے تھے-
طالبان کی طرف سے بچوں کو خود کش حملوں کے لیے دی جانے والی تربیت۔: صدائے روس
پاکستان کے وفاق کے زیر انتظام شورش زدہ قبائلی علاقے شمالیوزیرستان میں اس وقت طالبان جنگجو مبینہ طور پر کم سے کم چارسو نو عمر لڑکوں کوخودکش بم حملوں کے لیے تربیت دے رہے ہیں جنہیں تربیتی عمل مکمل ہونے کے بعد ملک کےمختلف علاقوں میں بم دھماکوں کے لیے بھیجا جائے گا۔
اس بات کا انکشافپاکستان کے چاروں صوبوں پنجاب ، خیبر پختونوا ، بلوچستان اور سندھ کے سنگم پر واقعضلع ڈیرہ غازی خان میں بزرگ صوفی حضرت سخی سرور کے دربار پر چار روز پہلے خودکش بمحملے میں ناکامی کے بعد گرفتار کیے گئے ایک کم سن فدائی حملہ آور نے کیاہے۔
عمر فدائی نامی اس چودہ سالہ حملہ آور نے بے گناہ شہریوں کو قتل کرنے پرافسوس اظہار کیا ہے اور اپنے اس جرم عظیم پر معافی مانگی ہے۔وہ چار اپریل کو حضرتسخی سرور کے مزار پر بم دھماکوں کے وقت شدید زخمی ہوگیا تھا اور پولیس نے اسے اسیحالت میں حراست میں لے لیا تھا۔اس وقت وہ ڈیرہ غازی خان کے ڈسٹرکٹ ہیڈ کوارٹراسپتال میں پولیس حراست میں زیر علاج ہے۔
اس خودکش بمبارعمر نے مقامیصحافیوں سے جمعہ کے روز گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ''انہیں بتایا گیا کہ ڈیرہ غازی خانمیں لوگ مردوں کو پوجتے ہیں اور کفر کے مرتکب ہو رہے ہیں جس پر وہ اپنے دیگرساتھیوں کے ہمراہ خودکش حملہ کرنے کے لیے دربار سخی سرور پہنچا تھا جہاں اس کے ایکساتھی اسماعیل نے تو خودکش حملہ کردیا لیکن وہ پکڑا گیا تھا''۔
عمرفدائی کییہ آن کیمرا گفتگو چار پانچ پاکستانی ٹی چینلز نے نشر کی ہے۔ اس نے بتایا کہ وہنویں جماعت کا طالب علم تھا لیکن وہ کسی طرح اپنے اسکول ہی سے موت کے سوداگروں کےہتھے چڑھ گیا جو اسے افغان سرحد کے قریب واقع شمالی وزیرستان کی تحصیل میرعلی کےنزدیک واقع ایک تربیت گاہ میں لے گئے جہاں اس نے دوماہ تک دیگر کم عمرنوجوانوں کےہمراہ خودکش بم حملے کے لیے تربیت حاصل کی۔اس کے بہ قول اس وقت وہاں ساڑھے تین سوسے چار سو کے درمیان خودکش حملہ آور زیرتربیت تھے۔
اس نے بتایا کہ پاکستاناور افغانستان میں جنگجوٶں کی تمام تربیت گاہوں کی نگرانی کمانڈر سنگین خان نامیایک شخص کرتاہے۔اس نے اپنے سابقہ ساتھی تمام فدائیوں سے مطالبہ کیا کہ وہ بے گناہشہریوں کی جانیں لینے کے لیے خودکش حملے نہ کریں کیونکہ یہ اسلام میں حرام ہیں ۔عمرکا کہنا تھا کہ اسے بے گناہ شہریوں ،بچوں اور خواتین کے قتل پر افسوس ہے اور وہ اسپر معافی مانگتا ہے۔
اس کم سن فدائی نے اپنے ٹی وی انٹرویو میں مزید بتایاکہ اسے ابتدائی طورپر افغانستان میں غیر مسلموں کے خلاف لڑائی کے لیے بھرتی کیا گیاتھا اور اسے تربیت مکمل ہونے کے بعد وہاں اسمگل کیا جانا تھا.اس کا کہنا تھا کہ ''لیکن وہ مجھے یہاں ڈیرہ غازی خاں لے آئے اور میں نے جب ان سے کہا کہ یہاں کوئیکافر نہیں ہے تو انہوں نے کہا کہ یہ لوگ کافروں سے بھی بدتر ہیں''۔
عمرفدائی نے بتایا کہ ''قاری ظفر نامی ایک جنگجو نے مجھے جہادی زندگی اختیار کرنے کےلیے آمادہ کیا تھا۔اس نے مجھ سے کہا کہ یہ تمام تعلیم بے کار ہے۔ تم خودکش حملہ آوربن جاٶ اور سیدھے جنت میں جاٶگے''۔
شمالی وزیرستان میں کم سے کم 400 خودکش بمبار زیرتربیت
ت - ۱۹ - ۲۰۱۱بالغ ٹرینر کیمرے کے سامنے آکربلند آواز میں اعلان کرتا ہےکہ یہ مسلمانکے بچے ہیں،جنھیں ہتھیاروں کے استعمال کی خصوصی تربیت دی جاتی ہے۔طالبان کی جانبسےکمسن بچوں کو جنگی تربیت دینےکا انکشاف ہواہےبرطانوی اخباردی مررکیمطابق دل دہلادینےوالی ویڈیو سے انکشاف ہواکہ طالبان اپنے مخالفین کوقتل کرنے کیلئے آٹھ سال کےبچوں کو تربیت دےرہے ہیں۔اخبار کیمطابق طالبان کیطرف سے معصوم بچوں کو مغربی مملککیخلاف جنگ کیلئے بھرتی کیا گیاہے اور انہیں جنگی تربیت دی جارہی ہے،اخبار کہتاہےکہجنونی کوچ انہیں حقیقی بندوقیں اور اصلی گولیاں استعمال کرنا سکھاتے ہیں،اخبارکیمطابق یہ سات مینٹ کی نئی وڈیو جہادی ویب سائٹس نےسنگین تصاویر کیساتھ نشرکی ہےجسمیں دکھایا گیا ہے کہبچے اِتنے چھوٹے ہیں کہ وہ ان ہتھیاروں کے پیچھے چھپ جائیںتونظرنہیں آتے،اخبار لکھتا ہے کہ بالغ ٹرینر کیمرے کے سامنے آکربلند آواز میں اعلانکرتا ہےکہ یہ مسلمان کے بچے ہیں،جنھیں ہتھیاروں کے استعمال کی خصوصی تربیت دی جاتیہے
۔حالات حاضرہ | میزان نیوز
اسلام جبر کا نہیں امن محبت اورسلامتی کا مذہب ہے اور دہشت گردی مسلمانوں کا کبھی بھی شیوہ نہیں رہا۔ جو لوگ حالیہدور میں اپنے آپ کو مسلمان کہہ کر دہشت گردی کر رہے ہیں وہ تو بھیڑ کی کھال میںبھیڑیے ہیں اور اسلام دشمن ہین ،ہمین ان کی چالوں مین نہ آنا چاہیے۔
طالبان،سپاہصحابہ،لشکر جھنگوی اور القائدہ سے ملکر پاکستان بھر مین دہشت گردی کی کاروائیاں کرہے ہین۔یہ اسلام اور پاکستان کے دشمن ہین اور ان کو مسلمان تو کجا انسان کہنا بھیدرست نہ ہے اور یہ لوگ جماعت سے باہر ہیں۔ ہمیں ان سب کا مل کر مقابلہ کرنا ہو گا۔یہ بزدل قاتل اور ٹھگ ہیں اور بزدلوں کی طرح نہتے معصوم لوگوں پر اور مسجدوں میںنمازیوں پر آ گ اور بارود برساتے ہیں اور مسجدوں کے تقدس کو پامال کرتے ہین۔ اسطرح یہ پاکستان کے دشمنوں کی خدمت کر رہے ہین۔ ان کی مذموم کاروائیوں کی وجہ سے کئیعورتوں کا سہاگ لٹ گیا،کئی بچے یتیم ہو گئے اور کیئی بہنیں اپنے بھائیوں سے بچھڑگئیں اور لوگ اپنے پیاروں سے جدا ہو گئے۔
اسلام دنیا میں حسن اخلاق ،نیکی اوراچھے کردار کی وجہ سے پھیلا ہے نہ کہ تلوار کے زور پر۔ تاہم اسلام کی تلوار انلوگوں کی گردنیں کاٹنے میں ضرور تیز ہے جو اسلام اور مسلمانوں کو مٹانے کی کوششکرتے ہیں یا اللہ کی زمین میں فتنہ و فساد پھیلاتے ہیں۔ طالبان اور القائدہ موت کےفرشتے بن کر معصوم انسانوں کا ناحق خون بہانے میں دن رات مصروف ہیں اور غیر مسلموںکو اسلام سے دور رکھنے میں خاصے کامیاب ہیں۔اپنے مذموم سیاسی مقاصد کے حصول کے لئےطالبان اسلام کا نام بدنام کر رہےہیں۔
دہشت گردوں نے ہمارے ملک کو جہنم بنا دیا۔۳۵ہزار سے زیادہ لوگ مرگئے ۔ سرمایہ اور ذہانتیں ہمارے ملک سے ہجرت کر گئیں۔کاروبار اجڑ گئے۔ بازاروں اور شہروں کی رونقیں ہم سے جدا ہوگئیں۔ عام پاکستانی کادن کا چین اور رات کا سکون غارت ہوا اور ہم سب حیرت و یاس کی تصویر بن کر رہ گئےہیں۔ بیرونی سرمایہ کاری صفر سے نیچے چلی گئی، ملازمتین ختم ہوئیں ،بیروزگاری میںاضافہ ہوا، دنیا میں ہم اور ہمارا ملک رسوا ہوگئے ۔نفرتوں اور تعصبات نے ہمارےمعاشرے تار و پود کو تباہ کرکے رکھ دیا اور ہمارا معاشرتی ڈھانچہ تباہ ہوکر رہ گیا۔ہماری مسجد، پگڑی اور داڑھی کا تقدس پامال ہوگیا اور تو اور داڑھی اور پگڑی والےبھی محفوظ نہ ہیں ۔
طالبان بچوں کو اغوا کرکے اور انہیں خودکش حملہ آور بناکرجنگ کا ایندہن بنا رہے اور اس طرح ہماری نئی نسل کو تباہ کرنے کے مرتکب ہو رہے ہینجو کہ مملکت خداداد پاکستان کے ساتھ ظلم ہے اور ایک ناقابل معافی جرم ہے۔
یہ آگکل کو ہمارے گھروں تک بھی پہنچ سکتی ہے جس طرح پشاور سے آٹھ سالہ سوہانہ کو اغواکرکے خودکش جیکٹ پہنائی گئی اسی طرح ہمارے بچوں کے ساتھ بھی ہوسکتا ہے اس لئے قومکے ہر فرد کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس اندھی جنگ سے ملک و ملت کو بچانے کیلئے اپناکردار ادا کرے۔ اس جنگ کو جیتنے کیلئے ہم سب کو جاگنا ہوگا اور سیکورٹی اداروں کےشانہ بشانہ کھڑے ہوکر اپنے ملک و قوم کی حفاظت کرنا ہوگی۔
Comment