اسلام علکیم
کیسے مزاج ہیں سب دوستوں کے امید کرتا ہوں سب بخیریت ہونگے۔۔اس پوسٹ کےساتھ ہی پیغام پہ میرے سو تھریڈ مکلمل ہو جائیں گے۔۔ فلسفہ سائینس، ادبیات، تاریخ موسیقی، سیاسیات مذہبیات طنز و مزاح اور مابعد الطبعیات پہ لکھے گئیں میری ہر تحریر پہ اس فلسفہ کی مہر ثبت پائیں گے کہ عدم تیقن اور قدامت کا یہ پاس و لحاظ ہماری راہ میں رکاوٹ نہیں بن سکتا ہم بوسیدہ
سانچوں کو خواہ وہ کیسے ہی خوبصورت کیوں نہ ہوں نظر انداز نہیں کر سکتے۔۔ہم توصرف حق و صداقت کی پیروی کر سکتے ہیں خواہ وہ ہمیں کہیں بھی لے جائے اور خواہ اس کا نتیجہ کچھ بھی ہو کہ صداقت ہی وہ تابناک ستارہ ہے جو ہماری راہنمائی کر سکتا ہے۔۔
سانچوں کو خواہ وہ کیسے ہی خوبصورت کیوں نہ ہوں نظر انداز نہیں کر سکتے۔۔ہم توصرف حق و صداقت کی پیروی کر سکتے ہیں خواہ وہ ہمیں کہیں بھی لے جائے اور خواہ اس کا نتیجہ کچھ بھی ہو کہ صداقت ہی وہ تابناک ستارہ ہے جو ہماری راہنمائی کر سکتا ہے۔۔
گو مجھے آج حرف اخر لکھتے ایک بچنپا سا ایک غیر سنجیدہ سا کام لگ رہا لیکن
میں پیغام فورمز کی ایڈمن شپ کی طرف سے مزید کسی توہین کا متحمل نہیں ہو سکتا یہ لفظ یہ تحریریں مجھے ہر چیز سے افضل ہیں کہ میں نے ساری عمر یہ دیا اپنے خون سے جلایا ہے۔۔
میں پیغام فورمز کی ایڈمن شپ کی طرف سے مزید کسی توہین کا متحمل نہیں ہو سکتا یہ لفظ یہ تحریریں مجھے ہر چیز سے افضل ہیں کہ میں نے ساری عمر یہ دیا اپنے خون سے جلایا ہے۔۔
حرف اخر۔۔۔
انسان کی آرزوئیں، حسرتیں تمنائیں ہر کہیں ایک جیسی رہی ہیں ۔۔اس لیے اس سے ان کی تکمیل اور تشفی کے لیے جو وسائل اختیار کئے ہیں وہ بھی ملتے جلتے ہیں۔۔۔یہ کہا جاسسکتا ہے کہ اس مقصد کے لیےپہلے اس نےجادو اور پھر مذہب کے توسط سے سائینس تک جا پہنچا۔۔۔ پہلے پہل اس نے ایک بچے کی طرح یہ جانا کہ اس کی مجرد خواہش ہی اس کی تشفی کا سامان فراہم کر دیتی ہے جیسے بچے کو بھوک لگے تو وہ روتا ہےتو اسے فورا دودھ مل جاتا ہے لیکن گزرت وقت کے ساتھ ہی اسے احساس ہوا کے ہر خواہش لازمی تشفی مہیا نہیں کرتی توا س ھے غیرمرئی ہستیوں کا سہارا لیا جو مظاہر فطرت کے عقب میں کار فرما ہیں اور جنہیں اس نے اپنی ہی طرح کے مگر اپنے سے بہت بڑے انسان تصور کر لیا اور انہیں دیوتا بنا کر ان سے حاجات طلب کرنے لگا،اس مرحلے پرمذہب نے جادو کی جگہ لے لی لیکن وقت گزرنے کے ساتھ اس کا شعور بیدار ہوا تو اسے معلوم ہواکہ یہ فوق الطبع ہستیاں اس کے اپنے ہی تخیل کی مخلوق ہیں اور اس کے بگڑے کام سنوارنے سے عاجز ہیں تو اس نے فطری مظاہر پر دوبارہ غور کیا اور قانون سبب و مسبب دریافت کیا جس پر تحقیقی علوم کی بنیادیں رکھی گئیں اسے معلوم ہوگیا تھا کہ کائنات پر چند ایسے قوانین ھاوی ہیں جو غیر متبدل ہیں اور جنہیں بخوبی سمجھ لینے ہی سے وہ اپنے مقاصد کی تکمیل کر سکتا ہے۔۔یہ مرحلہ سائنس کا ہے اور سائنس ہی کے ساتھ انسان کا مستقبل وابسطہ ہے،،،،،،،،۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جدید ہیت اور سائنس نے کائنات کی بے کراں وسعتوں اور اتھاہ گہرائیوں کا نکشاف کیا ہے لیکن اب انسان اس سے خوفزدہ نہیں ہے بلکہ مردانہ وار اس کا مشاہدہ کرنا چاہتا ہے اب وہ اپنی ذات کئ سوا کسی مافوق الفطرت ہستی کا سہارا لینے کے بارے میں نہیں سوچتا۔۔وہ جانتا ہے کہ موت اٹل ہے اس لیے وہ اپنی زندگی سے فیض یاب ہنے کا متمنی ہے جہاں سائنس نے اس سے خیالی سہارے اور جذباتی بیساکھیاں چھین لیں وہاں اسے اپنی ذات پہ بھروسہ کرنے کی ہمت بھی دلائی ہے اسے معلوم ہو گیا ہے کہ اب وہ جذباتی لہاظ سے بچہ نہیں رہا بلکہ بالغ ہو گیا ہے۔۔ظاہر ایک بالغ شخص اپنی ذات کے سوا کسی دوسرے کا سہارا تلاش نہیں کرتا،۔گزشتہ ہزاروں برسوں کے توہمات اس کے ذہن اور قلب میں اس طرح راسخ ہو چکے ہیں کہ ان سے پیچھا چھڑانا گویا گوشت کو ناخن سے جدا کرنا ہے لیکن وہ جانتا ہے کہ خواہ کتنے ہی عذاب ناک ذہنی کرب سے گزرنا پڑے ایک نہ ایک دن حقائق کا سامنا کرنا ہی پڑتا ہے انسان کو امید واثق ہے کہ وہ ایک نہ اہک دن اپنے، سیاسی،معاشی ور عمرانی عقدے سلجھانے میں کامیاب ہو جائے گا۔۔
روحوں کامت جادو، دیو مالا، مذہب اور مثالیت پسندی موت اور فنا کی پروردہ تھے۔ سائنس نے حیات سے جنم لیا تھا۔۔سائنس کا تعلق موت کی تاریکی سے نہیں حیات کی روشنی سے ہے اور قرین دانش یہہی ہے کہ موت
کے گھور اندھیروں میں کھو جانے سے پہلے آدمی حیات کی روشنی سمیٹنے پر آمادہ ہو جائے اور پھولوں کی طرح مرجھانے سے پہلے اپنے چاروں طرف مہک اور مسکراہٹیں بکھیرتا رہے کہ اس دارفانی میں یہی اس کااصل مقام ہے۔۔۔۔
کے گھور اندھیروں میں کھو جانے سے پہلے آدمی حیات کی روشنی سمیٹنے پر آمادہ ہو جائے اور پھولوں کی طرح مرجھانے سے پہلے اپنے چاروں طرف مہک اور مسکراہٹیں بکھیرتا رہے کہ اس دارفانی میں یہی اس کااصل مقام ہے۔۔۔۔
عامر احمد خان
خدا حافظ
Comment