Announcement

Collapse
No announcement yet.

Unconfigured Ad Widget

Collapse

Herf-e-Akhir

Collapse
X
 
  • Filter
  • Time
  • Show
Clear All
new posts

  • Herf-e-Akhir

    اسلام علکیم



    کیسے مزاج ہیں سب دوستوں کے امید کرتا ہوں سب بخیریت ہونگے۔۔اس پوسٹ کےساتھ ہی پیغام پہ میرے سو تھریڈ مکلمل ہو جائیں گے۔۔ فلسفہ سائینس، ادبیات، تاریخ موسیقی، سیاسیات مذہبیات طنز و مزاح اور مابعد الطبعیات پہ لکھے گئیں میری ہر تحریر پہ اس فلسفہ کی مہر ثبت پائیں گے کہ عدم تیقن اور قدامت کا یہ پاس و لحاظ ہماری راہ میں رکاوٹ نہیں بن سکتا ہم بوسیدہ
    سانچوں کو خواہ وہ کیسے ہی خوبصورت کیوں نہ ہوں نظر انداز نہیں کر سکتے۔۔ہم توصرف حق و صداقت کی پیروی کر سکتے ہیں خواہ وہ ہمیں کہیں بھی لے جائے اور خواہ اس کا نتیجہ کچھ بھی ہو کہ صداقت ہی وہ تابناک ستارہ ہے جو ہماری راہنمائی کر سکتا ہے۔۔





    گو مجھے آج حرف اخر لکھتے ایک بچنپا سا ایک غیر سنجیدہ سا کام لگ رہا لیکن
    میں پیغام فورمز کی ایڈمن شپ کی طرف سے مزید کسی توہین کا متحمل نہیں ہو سکتا یہ لفظ یہ تحریریں مجھے ہر چیز سے افضل ہیں کہ میں نے ساری عمر یہ دیا اپنے خون سے جلایا ہے۔۔







    حرف اخر۔۔۔



    انسان کی آرزوئیں، حسرتیں تمنائیں ہر کہیں ایک جیسی رہی ہیں ۔۔اس لیے اس سے ان کی تکمیل اور تشفی کے لیے جو وسائل اختیار کئے ہیں وہ بھی ملتے جلتے ہیں۔۔۔یہ کہا جاسسکتا ہے کہ اس مقصد کے لیےپہلے اس نےجادو اور پھر مذہب کے توسط سے سائینس تک جا پہنچا۔۔۔ پہلے پہل اس نے ایک بچے کی طرح یہ جانا کہ اس کی مجرد خواہش ہی اس کی تشفی کا سامان فراہم کر دیتی ہے جیسے بچے کو بھوک لگے تو وہ روتا ہےتو اسے فورا دودھ مل جاتا ہے لیکن گزرت وقت کے ساتھ ہی اسے احساس ہوا کے ہر خواہش لازمی تشفی مہیا نہیں کرتی توا س ھے غیرمرئی ہستیوں کا سہارا لیا جو مظاہر فطرت کے عقب میں کار فرما ہیں اور جنہیں اس نے اپنی ہی طرح کے مگر اپنے سے بہت بڑے انسان تصور کر لیا اور انہیں دیوتا بنا کر ان سے حاجات طلب کرنے لگا،اس مرحلے پرمذہب نے جادو کی جگہ لے لی لیکن وقت گزرنے کے ساتھ اس کا شعور بیدار ہوا تو اسے معلوم ہواکہ یہ فوق الطبع ہستیاں اس کے اپنے ہی تخیل کی مخلوق ہیں اور اس کے بگڑے کام سنوارنے سے عاجز ہیں تو اس نے فطری مظاہر پر دوبارہ غور کیا اور قانون سبب و مسبب دریافت کیا جس پر تحقیقی علوم کی بنیادیں رکھی گئیں اسے معلوم ہوگیا تھا کہ کائنات پر چند ایسے قوانین ھاوی ہیں جو غیر متبدل ہیں اور جنہیں بخوبی سمجھ لینے ہی سے وہ اپنے مقاصد کی تکمیل کر سکتا ہے۔۔یہ مرحلہ سائنس کا ہے اور سائنس ہی کے ساتھ انسان کا مستقبل وابسطہ ہے،،،،،،،،۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔



    جدید ہیت اور سائنس نے کائنات کی بے کراں وسعتوں اور اتھاہ گہرائیوں کا نکشاف کیا ہے لیکن اب انسان اس سے خوفزدہ نہیں ہے بلکہ مردانہ وار اس کا مشاہدہ کرنا چاہتا ہے اب وہ اپنی ذات کئ سوا کسی مافوق الفطرت ہستی کا سہارا لینے کے بارے میں نہیں سوچتا۔۔وہ جانتا ہے کہ موت اٹل ہے اس لیے وہ اپنی زندگی سے فیض یاب ہنے کا متمنی ہے جہاں سائنس نے اس سے خیالی سہارے اور جذباتی بیساکھیاں چھین لیں وہاں اسے اپنی ذات پہ بھروسہ کرنے کی ہمت بھی دلائی ہے اسے معلوم ہو گیا ہے کہ اب وہ جذباتی لہاظ سے بچہ نہیں رہا بلکہ بالغ ہو ؂گیا ہے۔۔ظاہر ایک بالغ شخص اپنی ذات کے سوا کسی دوسرے کا سہارا تلاش نہیں کرتا،۔گزشتہ ہزاروں برسوں کے توہمات اس کے ذہن اور قلب میں اس طرح راسخ ہو چکے ہیں کہ ان سے پیچھا چھڑانا گویا گوشت کو ناخن سے جدا کرنا ہے لیکن وہ جانتا ہے کہ خواہ کتنے ہی عذاب ناک ذہنی کرب سے گزرنا پڑے ایک نہ ایک دن حقائق کا سامنا کرنا ہی پڑتا ہے انسان کو امید واثق ہے کہ وہ ایک نہ اہک دن اپنے، سیاسی،معاشی ور عمرانی عقدے سلجھانے میں کامیاب ہو جائے گا۔۔


    روحوں کامت جادو، دیو مالا، مذہب اور مثالیت پسندی موت اور فنا کی پروردہ تھے۔ سائنس نے حیات سے جنم لیا تھا۔۔سائنس کا تعلق موت کی تاریکی سے نہیں حیات کی روشنی سے ہے اور قرین دانش یہہی ہے کہ موت
    کے گھور اندھیروں میں کھو جانے سے پہلے آدمی حیات کی روشنی سمیٹنے پر آمادہ ہو جائے اور پھولوں کی طرح مرجھانے سے پہلے اپنے چاروں طرف مہک اور مسکراہٹیں بکھیرتا رہے کہ اس دارفانی میں یہی اس کااصل مقام ہے۔۔۔۔




    عامر احمد خان


    خدا حافظ
    :(

  • #2
    Re: Herf-e-Akhir

    Originally posted by ڈاکٹر لکیر الدین View Post
    اسلام علکیم



    کیسے مزاج ہیں سب دوستوں کے امید کرتا ہوں سب بخیریت ہونگے۔۔اس پوسٹ کےساتھ ہی پیغام پہ میرے سو تھریڈ مکلمل ہو جائیں گے۔۔ فلسفہ سائینس، ادبیات، تاریخ موسیقی، سیاسیات مذہبیات طنز و مزاح اور مابعد الطبعیات پہ لکھے گئیں میری ہر تحریر پہ اس فلسفہ کی مہر ثبت پائیں گے کہ عدم تیقن اور قدامت کا یہ پاس و لحاظ ہماری راہ میں رکاوٹ نہیں بن سکتا ہم بوسیدہ
    سانچوں کو خواہ وہ کیسے ہی خوبصورت کیوں نہ ہوں نظر انداز نہیں کر سکتے۔۔ہم توصرف حق و صداقت کی پیروی کر سکتے ہیں خواہ وہ ہمیں کہیں بھی لے جائے اور خواہ اس کا نتیجہ کچھ بھی ہو کہ صداقت ہی وہ تابناک ستارہ ہے جو ہماری راہنمائی کر سکتا ہے۔۔





    گو مجھے آج حرف اخر لکھتے ایک بچنپا سا ایک غیر سنجیدہ سا کام لگ رہا لیکن
    میں پیغام فورمز کی ایڈمن شپ کی طرف سے مزید کسی توہین کا متحمل نہیں ہو سکتا یہ لفظ یہ تحریریں مجھے ہر چیز سے افضل ہیں کہ میں نے ساری عمر یہ دیا اپنے خون سے جلایا ہے۔۔







    حرف اخر۔۔۔



    انسان کی آرزوئیں، حسرتیں تمنائیں ہر کہیں ایک جیسی رہی ہیں ۔۔اس لیے اس سے ان کی تکمیل اور تشفی کے لیے جو وسائل اختیار کئے ہیں وہ بھی ملتے جلتے ہیں۔۔۔یہ کہا جاسسکتا ہے کہ اس مقصد کے لیےپہلے اس نےجادو اور پھر مذہب کے توسط سے سائینس تک جا پہنچا۔۔۔ پہلے پہل اس نے ایک بچے کی طرح یہ جانا کہ اس کی مجرد خواہش ہی اس کی تشفی کا سامان فراہم کر دیتی ہے جیسے بچے کو بھوک لگے تو وہ روتا ہےتو اسے فورا دودھ مل جاتا ہے لیکن گزرت وقت کے ساتھ ہی اسے احساس ہوا کے ہر خواہش لازمی تشفی مہیا نہیں کرتی توا س ھے غیرمرئی ہستیوں کا سہارا لیا جو مظاہر فطرت کے عقب میں کار فرما ہیں اور جنہیں اس نے اپنی ہی طرح کے مگر اپنے سے بہت بڑے انسان تصور کر لیا اور انہیں دیوتا بنا کر ان سے حاجات طلب کرنے لگا،اس مرحلے پرمذہب نے جادو کی جگہ لے لی لیکن وقت گزرنے کے ساتھ اس کا شعور بیدار ہوا تو اسے معلوم ہواکہ یہ فوق الطبع ہستیاں اس کے اپنے ہی تخیل کی مخلوق ہیں اور اس کے بگڑے کام سنوارنے سے عاجز ہیں تو اس نے فطری مظاہر پر دوبارہ غور کیا اور قانون سبب و مسبب دریافت کیا جس پر تحقیقی علوم کی بنیادیں رکھی گئیں اسے معلوم ہوگیا تھا کہ کائنات پر چند ایسے قوانین ھاوی ہیں جو غیر متبدل ہیں اور جنہیں بخوبی سمجھ لینے ہی سے وہ اپنے مقاصد کی تکمیل کر سکتا ہے۔۔یہ مرحلہ سائنس کا ہے اور سائنس ہی کے ساتھ انسان کا مستقبل وابسطہ ہے،،،،،،،،۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔



    جدید ہیت اور سائنس نے کائنات کی بے کراں وسعتوں اور اتھاہ گہرائیوں کا نکشاف کیا ہے لیکن اب انسان اس سے خوفزدہ نہیں ہے بلکہ مردانہ وار اس کا مشاہدہ کرنا چاہتا ہے اب وہ اپنی ذات کئ سوا کسی مافوق الفطرت ہستی کا سہارا لینے کے بارے میں نہیں سوچتا۔۔وہ جانتا ہے کہ موت اٹل ہے اس لیے وہ اپنی زندگی سے فیض یاب ہنے کا متمنی ہے جہاں سائنس نے اس سے خیالی سہارے اور جذباتی بیساکھیاں چھین لیں وہاں اسے اپنی ذات پہ بھروسہ کرنے کی ہمت بھی دلائی ہے اسے معلوم ہو گیا ہے کہ اب وہ جذباتی لہاظ سے بچہ نہیں رہا بلکہ بالغ ہو ؂گیا ہے۔۔ظاہر ایک بالغ شخص اپنی ذات کے سوا کسی دوسرے کا سہارا تلاش نہیں کرتا،۔گزشتہ ہزاروں برسوں کے توہمات اس کے ذہن اور قلب میں اس طرح راسخ ہو چکے ہیں کہ ان سے پیچھا چھڑانا گویا گوشت کو ناخن سے جدا کرنا ہے لیکن وہ جانتا ہے کہ خواہ کتنے ہی عذاب ناک ذہنی کرب سے گزرنا پڑے ایک نہ ایک دن حقائق کا سامنا کرنا ہی پڑتا ہے انسان کو امید واثق ہے کہ وہ ایک نہ اہک دن اپنے، سیاسی،معاشی ور عمرانی عقدے سلجھانے میں کامیاب ہو جائے گا۔۔


    روحوں کامت جادو، دیو مالا، مذہب اور مثالیت پسندی موت اور فنا کی پروردہ تھے۔ سائنس نے حیات سے جنم لیا تھا۔۔سائنس کا تعلق موت کی تاریکی سے نہیں حیات کی روشنی سے ہے اور قرین دانش یہہی ہے کہ موت
    کے گھور اندھیروں میں کھو جانے سے پہلے آدمی حیات کی روشنی سمیٹنے پر آمادہ ہو جائے اور پھولوں کی طرح مرجھانے سے پہلے اپنے چاروں طرف مہک اور مسکراہٹیں بکھیرتا رہے کہ اس دارفانی میں یہی اس کااصل مقام ہے۔۔۔۔





    عامر احمد خان


    خدا حافظ

    محترم لکیرالدین بھائی
    السلامُ علیکم ورحمتہ اللہ
    سب سے پہلے تو اپنے "سو تھریڈ"مکمل کرنے پر مبارکباد قبول فرمائیں
    سر جی معافی چاہوں گا مجھ جیسا ان پڑھ آپ کی باتوںکو شائد اُس پیرائے میں نہیں سمجھ سکا جس پیرائے میں آپ نےبیان کی ہونگی۔محترم آپ کی تحریر سے پہلے تو میں سمجھا کہ شائد آپ کو یہاں کے موڈ ممبرز سے کوئی شکائت ہوگئی ہے تو آپ اُن کی گستاخیاں بیان فرما کر فورم سے رخصت ہونے لگے ہیں (جیسا کہ نام سے ظاہر ہوا "حرف آخر" )۔
    پھر جب آپ کی پوسٹ پر آگے بڑھا تو آپ نے ایک ایسا موضوع گفتگو چھیڑا جس سے مجھے لگا کہ نعوذباللہ آپ خدائی کو جھٹلا رہے ہیں اور بیان کرنا چاہ رہے ہیں کہ انسان کو شعور آتا گیا تو اپنی خواہشات کو پورا کرنے کے لئے جادو سے آگے بڑھا دیوتاوں کے پاوں میں گر گیا اور دیوتاوں سے آگے بڑھا تو اب ادراک کی سیڑھی چڑھتا ہوا سائنس کا بازو تھامے صرف اپنی دنیاوی زندگی کو ہی پیش نظر رکھنا اصل مقصد حیات ہے؟؟؟
    محترم اگر مناسب سمجھیں تو مجھ کند زہن کی گرہیں کھول دیں مہربانی ہوگی
    :star1:

    Comment


    • #3
      Re: Herf-e-Akhir

      اسلام علکیم

      محترم ایس اے زیڈ صاحب بہت شکریہ اپ کا

      معذرت چاہوں گا جواب میں کوتاہی کی اصل میں کافی دنوں بعد پیغام پہ انا ہوا تو محترم پہلی غلط فہمی دور کرتا جاوں کہ حرف اخر میں نے اپنی تحریر کے متن کو قرار نہیں دیا تھا
      بلکہ اس فورم کی انتظامیہ کے غیر سنجیدہ رویہ کی وجہ سے میں نے اپنے اس تھریڈ کو
      سواں اور اخری تھریڈ سمجھ کے ہی حرف اخر لکھا تھا۔۔۔۔۔۔!!!



      میری اس تحریر سے کئی بھی ظاہر نہیں ہو رہا کہ میں نے خدائی کو جھٹلایا ہو ہاں راقم کے خیلال میں سائٹیفک طرز تحقیق کے دامن میں حقیقت پسندی کے زاویہ نگاہ نے پرورش پائی اس لیے
      روح عصر کی صھیح ترمانی اسی صورت میں ممکن ہے جب ہمارے زمانے کے سیاسی اقتصادی، عمرانی، علمی اور فنی مسائل کا جائزہ حقیقت پسندانہ طریقے سے لیا جائے اور راقم
      کی ہر تحریر میں یہی پیغام ہوتا کہ موجودہ عہد میں رومانیت باطینیت ورحانیت وغیرہ وغیرہ خواہ وہ کسی بھی شکل و صورت میں ظاہر ہوں بکار آمد ثابت نہیں ہو سکتیں کیونکہ یہ رخ و رجہان یا روح عصر کے مخالف ہے


      ہر سال اسلامی ممالک میں سینکڑوں کتابیں شایع ہوتیں ان کے موضوعات ہر اسلامی میں نقلی علوم تک محدود ہوکر رہ گئے ہیں فلسفہ اور سائینس کو لامذہبیت اور الحاد کا سرچشمہ
      کہہ کر انہیں رد کر دیا جاتا ہے یہی وجہ ہے کہ مسلمانوں میں سائنسی علوم اور جدید مکاتیب فلسفہ کی اشاعت کی اہمیت اجاگر کرنے کو میں نے اپنی تحریروں میں خرد افروزی اور
      روشن خیالی پھیالنے کی کوشش کی ہے اور میرا سوچا سمجھا ہوا عقیدہ یہی ہے کہ جب تک عقلیت کو تحکمات کی گرفت سے آزاد نہیں کیا جاتا دنیاے اسلام میں سائنس کو فروغ نہیں ہو سکتا۔۔۔۔
      خرد افروزی کی اشاعت ہی سائنسی علوم کی ترقی کا باعث ہو سکتی ہے


      میں نے جہاں بھی لکھا جو بھی لکھا کبھی کسی کے عقائد سے نہیں الجھا کسی کی دل آزاری نہیں
      کی کسی فرقے کی مخصوص سوچ کی عکاسی نہیں کی بس مذہبی منافرت اور جنون کے خلاف۔۔۔
      میرا پیغام انسان دوستی کا فروغ ہے اور اسی سلسے مں میں نے بیسوں مقالات لکھے اور لکھتا رہوں گا کہ پڑھے لکھے لوگوں کے ذہن و دماغ کو روشن کیا جائے انہیں تنگ دلی اور تنگ نظری
      سے نجات دلا کر ایسے معلومات بہم پنچاوں جس سے ان کی نگاہ مں وسعت اور قلب میں کشادگئ
      پیدا ہو اور وہ انفرادی اور اجتماعی مسائل کا جدید سائنس اور فلسفے کی روشنی میہں سامنا کر سکیبں



      خوش رہیں


      عامر احمد خان
      سات اکتوبر٢٠١١
      حاجی شاہ اٹک
      Last edited by Dr Fausts; 7 October 2011, 22:51.
      :(

      Comment


      • #4
        Re: Herf-e-Akhir

        محترم عامر احمد بھائی
        میرا پہلا خیال درست ثابت ہوا لیکن افسوس بھی ہوا کہ آپ اس فورم پر مزید تھریڈز نہ بنانے کا ارادہ کئے ہوئے ہیںمہربانی فرما کر اپنے فیصلے پر نظر ثانی فرمائے گا
        جہاں تک دوسرے پیرا گراف کے بارے میں ،میں کوتاہی کا مرتکب ہوا تو اس کے لئے معزرت قبول فرمائے،میں آپ کے ان خیالات سے سو فیصد متفق ہوں کہ ہمارے اسلامی ممالک میں سائنس وفلسفہ کو اس سنجیدگی سے نہیں لیا جاتا جس کی ضرورت ہے خدا تعالی تو ہمیں قدم قدم پر تحقیق اور جستجو کی جانب دعوت دے رہے ہیں اور ہم ہیںکہ موجودہ سائنسی ترقی سے فائدہ تو اُٹھا رہے ہیں لیکن سائینس کی دنیا میں خود آگے بڑھ کر کسی بھی میدان میں تخلیق و تحقیق نہیں کر رہے۔
        آپ نے آخر میں فرمایا کہ آپ نے سینکڑوں مقالات تحریر کئے اور آگے بھی کرتے رہیں گے ،تو کیا یہ مناسب ہوگا کہ اس فورم کو آپ اپنی تحریروں سے محروم رکھیں؟؟؟؟؟
        ایک مرتبہ پھر گزارش کروں گا کہ اپنے اس فیصلے پر نظر ثانی کیجئے شکریہ
        :star1:

        Comment


        • #5
          Re: Herf-e-Akhir

          Assalam_O_Alykum!

          Hope so u all r getting on well By the Grace of Allah Pak ...google per yeh post direct open hoyya hai mere pass...jus want to pass sum cpmments here ....take a look on dem ...

          Ager App bandah-e-momin hein , Aakhirat per yaqeen rakhty hein, so how can u say dat ..harf-e- Aakhir..?
          Main just Quran n Sunnah ko follow kerna seekha hai ...jiss ney mujhey yeh sha'oor diyaa hai keh Nabi Pak jab deen kii taraf ya koii naiki ki tableegh jis naik hassti ney kii hai, wo apko polite hii mliye ga, history uthaa ker daikh lo..Islam her jagah yeh bolta miley ga ' deen mein koii jabr nahin .." so u shuld be polite ...Nabi pak mushrikeen key sath kitna narmii sey paish aatey thae, kitney ta'ha'mul sey .., sabr sey apna point of view, ya hukm-e-Elahii logoun tak pohnchaty thae, yeh jo app topic starter ho see wat r u doing ? is it a right way ?

          have to learn deze things...

          aachii baatoun kii talqeen karein, talkh baatoun sey ijtenaab karein jahan kahin apna nukta -e-nazr ba'yaan kerna maqsood ho
          naiki ki dawat , narmii aur shafqat, khush akhlaqii sey daein, ya apna nukta-e-nazr samjhaein jab bhi, nah keh talkh kalaamii sey mahoul mein jabr paida karein,
          her aachi baat kerny wala sabir aur burd'baar ho, keh log uss ko sun sakein,
          jo baat keh raha ho uss per amal bhi kary yaani mubligh ba amaal ho , qol o fail mein tazaad nah ho.,
          jab bhi apni baat samjhaein, daleel key sath aur bhalaii o khair khawahii, muhabbat key anser sey labraiz guftaguu, lehja aur ilfaaz per tawajoh daein, be ja jazbaati aur talkhi ka shikaar nah houn, logoun ko unki nafsiyat key mutabiq paeghaam daein,

          regards
          "Allah is Enough 4 Me"

          Comment

          Working...
          X