چریا ابا کی عید
جب تک آپ کو نئے کپڑے پہننے کے شوق میں رات بھر نیند نہ آئے، یہ خیال تنگ کرتا رہے کہ اس سال ماں باپ، ماموں، چچی، خالہ، داد دادی، نانا نانی اور ہمسائیوں سے کتنی عیدی ملے گی، اس عیدی سے کیا کیا کھلونے اور چٹپٹی چیزیں خریدنے کی آزادی ہوگی۔ گھر میں پکنے والی سویاں، شیر خرما یا پلاؤ بلا روک ٹوک کتنی دفعہ کھانے کو ملے گا۔ سیر کو کہاں کہاں جائیں گے، گھر میں کون کون آئے گا سمجھ لیجیے کہ آپ کی عید ہے۔
لیکن جب آپ کو رات بھر اس خیال سے نیند نہ آئے کہ صبح کتنے چھوٹوں کو عیدی دینی پڑے گی، اولاد کو کیسے قائل کروں گا یا کروں گی کہ بیٹا بڑوں کے لیے ضروری تو نہیں کہ وہ بھی بچوں کی طرح ہر سال نئے کپڑے پہنیں۔ گھر میں کونسی ایسی ایک میٹھی چیز اور ایک نمکین ڈش بنے کہ رمضان کی مہنگائی سے ادھڑ جانے والی جیب پر زیادہ بار نا پڑے، ہمسائیوں کے بچوں سے کس طرح نظریں بچا کر نکلا جائے مبادا عیدی مانگ بیٹھیں۔
ایسے کون کون سے رشتے دار و احباب ہیں جن کے گھر جانا زیادہ ضروری نہیں، ایسے کون کون سے عزیز و اقربا ہیں جو اپنے سب بچوں کو ساتھ لے کر ہمارے گھر آ دھمک سکتے ہیں۔ ایسا کیا کیا جائے کہ وہ نہ آئیں اور ان میں سے زیادہ تر صرف عید مبارک کے ایس ایم ایس پر ہی ٹل جائیں۔ اس طرح کے خدشاتی خیالات آنے کا سیدھا سیدھا مطلب ہے کہ آپ عید منانے کے دور اور عمر سے گذر چکے ہیں۔
ہم عید کے دن کہیں اور جائیں نہ جائیں لیکن ابا کے ساتھ ایسے رشتے داروں اور محلے داروں کے ہاں ضرور جاتے تھے جنہیں ابا سفید پوش کہا کرتے تھے۔ اس زمانے میں ہمیں یہ اصطلاح سمجھ میں نہ آتی تھی لیکن آج خوب خوب آتی ہے۔ بلکہ دیکھتے ہی دیکھتے سفید پوش آبادی اس قدر ہوگئی ہے کہ اب تو یہ اصطلاح ہی متروک لگتی ہے۔
عید کی صبح جتنی سویاں ہم محلے میں بھیجتے ان سے زیادہ سویاں ہمارے گھر آتی تھیں، ابا جتنی عیدی محلے کے بچوں میں بانٹتے تھے اس سے کہیں زیادہ عیدی محلے والے ہمیں دیتے تھے۔
چاند رات کے وقت کائنات کا سب سے اہم شخص درزی ہوا کرتا تھا جو بہت منت سماجت کے بعد احسان کرتے ہوئے ہمارے نئے کپڑے بمشکل فجر کی اذان تک امی کے حوالے کرتا تھا اور ہم ان کپڑوں کو دیکھتے ہی حالتِ رقص میں آجاتے تھے اور ابا کی ڈانٹ سن کر ہی رکتے تھے۔
ہاں یہ ضرور ہے کہ اب ہمیں سفید پوشوں کے ہجوم میں ماضی کے برعکس سیاہ پوش بھی اچھی خاصی تعداد میں نظر آنے لگے ہیں۔اس کے معنی کراچی، بلوچستان اور قبائلی علاقے والوں کو بتانے کی ضرورت نہیں اور دیگر علاقوں کے لوگوں کو جاننے کی ضرورت نہیں۔ بس آپ سب کو عید مبارک ہو۔..پیغام دوستو اپنے تاثرات ضرر شئیر کیجئے گا شکریہ
لیکن جب آپ کو رات بھر اس خیال سے نیند نہ آئے کہ صبح کتنے چھوٹوں کو عیدی دینی پڑے گی، اولاد کو کیسے قائل کروں گا یا کروں گی کہ بیٹا بڑوں کے لیے ضروری تو نہیں کہ وہ بھی بچوں کی طرح ہر سال نئے کپڑے پہنیں۔ گھر میں کونسی ایسی ایک میٹھی چیز اور ایک نمکین ڈش بنے کہ رمضان کی مہنگائی سے ادھڑ جانے والی جیب پر زیادہ بار نا پڑے، ہمسائیوں کے بچوں سے کس طرح نظریں بچا کر نکلا جائے مبادا عیدی مانگ بیٹھیں۔
ایسے کون کون سے رشتے دار و احباب ہیں جن کے گھر جانا زیادہ ضروری نہیں، ایسے کون کون سے عزیز و اقربا ہیں جو اپنے سب بچوں کو ساتھ لے کر ہمارے گھر آ دھمک سکتے ہیں۔ ایسا کیا کیا جائے کہ وہ نہ آئیں اور ان میں سے زیادہ تر صرف عید مبارک کے ایس ایم ایس پر ہی ٹل جائیں۔ اس طرح کے خدشاتی خیالات آنے کا سیدھا سیدھا مطلب ہے کہ آپ عید منانے کے دور اور عمر سے گذر چکے ہیں۔
ہم عید کے دن کہیں اور جائیں نہ جائیں لیکن ابا کے ساتھ ایسے رشتے داروں اور محلے داروں کے ہاں ضرور جاتے تھے جنہیں ابا سفید پوش کہا کرتے تھے۔ اس زمانے میں ہمیں یہ اصطلاح سمجھ میں نہ آتی تھی لیکن آج خوب خوب آتی ہے۔ بلکہ دیکھتے ہی دیکھتے سفید پوش آبادی اس قدر ہوگئی ہے کہ اب تو یہ اصطلاح ہی متروک لگتی ہے۔
عید کی صبح جتنی سویاں ہم محلے میں بھیجتے ان سے زیادہ سویاں ہمارے گھر آتی تھیں، ابا جتنی عیدی محلے کے بچوں میں بانٹتے تھے اس سے کہیں زیادہ عیدی محلے والے ہمیں دیتے تھے۔
چاند رات کے وقت کائنات کا سب سے اہم شخص درزی ہوا کرتا تھا جو بہت منت سماجت کے بعد احسان کرتے ہوئے ہمارے نئے کپڑے بمشکل فجر کی اذان تک امی کے حوالے کرتا تھا اور ہم ان کپڑوں کو دیکھتے ہی حالتِ رقص میں آجاتے تھے اور ابا کی ڈانٹ سن کر ہی رکتے تھے۔
ہاں یہ ضرور ہے کہ اب ہمیں سفید پوشوں کے ہجوم میں ماضی کے برعکس سیاہ پوش بھی اچھی خاصی تعداد میں نظر آنے لگے ہیں۔اس کے معنی کراچی، بلوچستان اور قبائلی علاقے والوں کو بتانے کی ضرورت نہیں اور دیگر علاقوں کے لوگوں کو جاننے کی ضرورت نہیں۔ بس آپ سب کو عید مبارک ہو۔..پیغام دوستو اپنے تاثرات ضرر شئیر کیجئے گا شکریہ
Comment