پاکستانی بحریہ کے حکام کا کہنا ہے کہ بائیس مئی کو کراچی میں مہران بیس پر حملہ کرنے والے دہشتگردوں کا اصل ہدف پی تھری سی اورائن طیارے ہی تھے۔
ادھر لاہور سے خفیہ ایجنسیوں نے مبینہ طور پر اس حملے میں ملوث ہونے کے شبہ میں نیوی کے سابق کمانڈو کو ان کے ایک بھائی سمیت گرفتار کیا ہے۔
پیر کو پاکستانی بحریہ کے حکام کی جانب سے مقامی ذرائع ابلاغ کو جائے وقوعہ کا دورہ کروایا گیا اور بریفنگ دی گئی۔
سرکاری خبر رساں ادارے اے پی پی کے مطابق بریفنگ کے دوران نیوی حکام کا کہنا تھا کہ حملہ آور جدید ہتھیاروں سے مسلح تھے اور ان کے پاس دیگر جدید آلات بھی تھے۔
کراچی میں پی این ایس مہران پر ایک ہفتے پہلے حملہ کیا گیا تھا
ان کا کہنا تھا کہ حملہ آور جس مقام سے فوجی اڈے میں داخل ہوئے وہ نیوی کے تصرف میں نہیں بلکہ اس علاقے کی نگرانی کی ذمہ داری پاکستانی فضائیہ کی ہے۔ انہوں نے بتایا کہ حملہ آور اڈے کے اندر قریباً آٹھ سو میٹر کا فاصلہ طے کر کے مہران بیس پر پہنچے تھے۔
حکام کا کہنا تھا کہ حملے کی اطلاع ملتے ہیں نیوی کے کمانڈوز نے نہ صرف گیارہ چینیوں اور چھ امریکیوں پر مشتمل غیر ملکی تکنیکی عملے کو بلٹ پروف گاڑیوں میں سوار کر کے محفوظ مقام پر پہنچایا بلکہ ٹارمک پر موجود ایک اور طیارے کو بھی دہشتگردوں کی پہنچ سے دور منتقل کیا۔
پاکستانی بحریہ کے حکام کا یہ بھی کہنا تھا کہ پاکستانی بحریہ، پولیس اور رینجرز کے حکام پر مشتمل تحقیقاتی ٹیم آنے والے چند دن میں اپنی رپورٹ پیش کر دے گی۔
سابق کمانڈو کی گرفتاری
حراست میں لیے گئے افراد کے بھائی عمران ملک
حراست میں لیے گئے نیوی کے سابق کمانڈو کامران احمد ملک کو دس سال قبل جبری طور پر ملازمت سے نکال دیا گیا تھا اور اب انہیں ان کے بھائی سمیت تحقیقات کے لیے نامعلوم مقام پر منتقل کر دیا گیا ہے۔
کامران ملک کے بھائی عمران احمد ملک نے بی بی سی کو بتایا ہے کہ جس وقت ان کے بھائیوں کو حراست میں لیا گیا تھا اس وقت وہ اور ان کے والد اپنے کام پر تھے اور علاقے کے لوگوں نے بتایا کہ جن لوگوں نے ان کے بھائیوں کو پکڑا ہے ان میں سے دس کے قریب افراد سفید کپڑوں میں تھے جبکہ ایک شخص یونیفارم میں تھا ۔
عمران ملک نے بتایا کہ انہوں نے اپنے بھائیوں کی حراست کے حوالے سے پولیس سے بھی رابطہ کیا ہے تاہم ان کے بقول پولیس حکام کا کہنا ہے کہ کامران اور زمان پولیس کی تحویل میں نہیں ہیں ۔
کامران کے بھائی نے بتایا کہ انہوں نے اپنے بھائیوں کے اغوا کے الزام میں مقدمہ کے اندراج کے لیے درخواست دے دی ہے کیونکہ ان کو یہ معلوم نہیں ہے کہ وہ کون لوگ تھے جو ان کے بھائیوں کو اپنے ساتھ لے گئے اور نہ ہی ان لوگوں نے کسی کو اپنی شاخت کروائی تھی۔
انہوں نے بتایا کہ پولیس نے ان کی درخواست پر ابھی کوئی کارروائی نہیں کی ۔
عمران ملک نے یہ بھی بتایا کہ ان کے بھائی کامران ملک جب نیوی میں تھے تو اس وقت انہوں نے ڈاڑھی رکھی ہوئی تھی لیکن نیوی چھوڑنے کے بعد سے ڈاڑھی مونڈ دی تھی ۔
نیوی کے سابق کمانڈو کامران احمد ملک کو دس سال قبل جبری طور پر ملازمت سے نکال دیا گیا تھا
ان کے بقول ان کے بھائی کا کسی تنظیم سے کوئی تعلق نہیں ہے اور ان کا مذہبی رحجان بھی اس حد تک ہے کہ وہ صرف نماز ادا کرتے ہیں ۔
کامران ملک کے والد صدرالدین کا کہنا ہے کہ جمعہ کو ان کے دونوں بیٹوں کامران ملک اور زمان ملک کو ان کے گھر کے قریب سے حراست میں لیا گیا تھا۔
نامہ نگار عبادالحق کا کہنا ہے کہ سابق کمانڈو کے والد کے بقول انہیں جب اپنے بیٹوں کی حراست کی اطلاع ملی تو انہوں اپنے بیٹے کامران ملک کے موبائل فون پر کال کی اور تین بار بیل بجنے کے بعد ایک نامعلوم شخص نے فون پر ان سے بات کی اور انہیں بتایا کہ فکرمند ہونے کی ضرورت نہیں ہے اور ان دونوں کو مخبر کی اطلاع پر چھاپہ مار کر گرفتار کیا گیا ہے۔
کامران کے والد کا کہنا ہے کہ اتنی ہی بات کر کے فون بند کر دیا گیا اور فون پر دوبارہ کوئی رابطہ نہیں ہو سکا ہے۔
انھوں نے بتایا کہ کامران احمد ملک سنہ انیس سو ترانوے میں نیوی میں بھرتی ہوئے تھے تاہم دس سال قبل ایک اعلیٰ افسر سے جھگڑے کی وجہ سے انہیں کورٹ مارشل کے بعد ملازمت سے نکال دیا گیا تھا۔
صدر الدین کا کہنا ہے کہ کامران ملک پرائز بانڈز کا کاروبار کرتا تھا جبکہ ان کا دوسرا بیٹا زمان ملک محکمہ سوئی گیس میں آنے والے افراد کے لیے درخواستیں لکھ کر روزگار کماتا تھا۔
ادھر لاہور سے خفیہ ایجنسیوں نے مبینہ طور پر اس حملے میں ملوث ہونے کے شبہ میں نیوی کے سابق کمانڈو کو ان کے ایک بھائی سمیت گرفتار کیا ہے۔
پیر کو پاکستانی بحریہ کے حکام کی جانب سے مقامی ذرائع ابلاغ کو جائے وقوعہ کا دورہ کروایا گیا اور بریفنگ دی گئی۔
سرکاری خبر رساں ادارے اے پی پی کے مطابق بریفنگ کے دوران نیوی حکام کا کہنا تھا کہ حملہ آور جدید ہتھیاروں سے مسلح تھے اور ان کے پاس دیگر جدید آلات بھی تھے۔
کراچی میں پی این ایس مہران پر ایک ہفتے پہلے حملہ کیا گیا تھا
ان کا کہنا تھا کہ حملہ آور جس مقام سے فوجی اڈے میں داخل ہوئے وہ نیوی کے تصرف میں نہیں بلکہ اس علاقے کی نگرانی کی ذمہ داری پاکستانی فضائیہ کی ہے۔ انہوں نے بتایا کہ حملہ آور اڈے کے اندر قریباً آٹھ سو میٹر کا فاصلہ طے کر کے مہران بیس پر پہنچے تھے۔
حکام کا کہنا تھا کہ حملے کی اطلاع ملتے ہیں نیوی کے کمانڈوز نے نہ صرف گیارہ چینیوں اور چھ امریکیوں پر مشتمل غیر ملکی تکنیکی عملے کو بلٹ پروف گاڑیوں میں سوار کر کے محفوظ مقام پر پہنچایا بلکہ ٹارمک پر موجود ایک اور طیارے کو بھی دہشتگردوں کی پہنچ سے دور منتقل کیا۔
پاکستانی بحریہ کے حکام کا یہ بھی کہنا تھا کہ پاکستانی بحریہ، پولیس اور رینجرز کے حکام پر مشتمل تحقیقاتی ٹیم آنے والے چند دن میں اپنی رپورٹ پیش کر دے گی۔
سابق کمانڈو کی گرفتاری
حراست میں لیے گئے افراد کے بھائی عمران ملک
حراست میں لیے گئے نیوی کے سابق کمانڈو کامران احمد ملک کو دس سال قبل جبری طور پر ملازمت سے نکال دیا گیا تھا اور اب انہیں ان کے بھائی سمیت تحقیقات کے لیے نامعلوم مقام پر منتقل کر دیا گیا ہے۔
کامران ملک کے بھائی عمران احمد ملک نے بی بی سی کو بتایا ہے کہ جس وقت ان کے بھائیوں کو حراست میں لیا گیا تھا اس وقت وہ اور ان کے والد اپنے کام پر تھے اور علاقے کے لوگوں نے بتایا کہ جن لوگوں نے ان کے بھائیوں کو پکڑا ہے ان میں سے دس کے قریب افراد سفید کپڑوں میں تھے جبکہ ایک شخص یونیفارم میں تھا ۔
عمران ملک نے بتایا کہ انہوں نے اپنے بھائیوں کی حراست کے حوالے سے پولیس سے بھی رابطہ کیا ہے تاہم ان کے بقول پولیس حکام کا کہنا ہے کہ کامران اور زمان پولیس کی تحویل میں نہیں ہیں ۔
کامران کے بھائی نے بتایا کہ انہوں نے اپنے بھائیوں کے اغوا کے الزام میں مقدمہ کے اندراج کے لیے درخواست دے دی ہے کیونکہ ان کو یہ معلوم نہیں ہے کہ وہ کون لوگ تھے جو ان کے بھائیوں کو اپنے ساتھ لے گئے اور نہ ہی ان لوگوں نے کسی کو اپنی شاخت کروائی تھی۔
انہوں نے بتایا کہ پولیس نے ان کی درخواست پر ابھی کوئی کارروائی نہیں کی ۔
عمران ملک نے یہ بھی بتایا کہ ان کے بھائی کامران ملک جب نیوی میں تھے تو اس وقت انہوں نے ڈاڑھی رکھی ہوئی تھی لیکن نیوی چھوڑنے کے بعد سے ڈاڑھی مونڈ دی تھی ۔
نیوی کے سابق کمانڈو کامران احمد ملک کو دس سال قبل جبری طور پر ملازمت سے نکال دیا گیا تھا
ان کے بقول ان کے بھائی کا کسی تنظیم سے کوئی تعلق نہیں ہے اور ان کا مذہبی رحجان بھی اس حد تک ہے کہ وہ صرف نماز ادا کرتے ہیں ۔
کامران ملک کے والد صدرالدین کا کہنا ہے کہ جمعہ کو ان کے دونوں بیٹوں کامران ملک اور زمان ملک کو ان کے گھر کے قریب سے حراست میں لیا گیا تھا۔
نامہ نگار عبادالحق کا کہنا ہے کہ سابق کمانڈو کے والد کے بقول انہیں جب اپنے بیٹوں کی حراست کی اطلاع ملی تو انہوں اپنے بیٹے کامران ملک کے موبائل فون پر کال کی اور تین بار بیل بجنے کے بعد ایک نامعلوم شخص نے فون پر ان سے بات کی اور انہیں بتایا کہ فکرمند ہونے کی ضرورت نہیں ہے اور ان دونوں کو مخبر کی اطلاع پر چھاپہ مار کر گرفتار کیا گیا ہے۔
کامران کے والد کا کہنا ہے کہ اتنی ہی بات کر کے فون بند کر دیا گیا اور فون پر دوبارہ کوئی رابطہ نہیں ہو سکا ہے۔
انھوں نے بتایا کہ کامران احمد ملک سنہ انیس سو ترانوے میں نیوی میں بھرتی ہوئے تھے تاہم دس سال قبل ایک اعلیٰ افسر سے جھگڑے کی وجہ سے انہیں کورٹ مارشل کے بعد ملازمت سے نکال دیا گیا تھا۔
صدر الدین کا کہنا ہے کہ کامران ملک پرائز بانڈز کا کاروبار کرتا تھا جبکہ ان کا دوسرا بیٹا زمان ملک محکمہ سوئی گیس میں آنے والے افراد کے لیے درخواستیں لکھ کر روزگار کماتا تھا۔
Comment