اسلام علیکم
امید کرتا ہوں سب خیریت سے ہونگے سب سے پہلے بی بی سی کے وسعت اللہ خان
نسبت خدا نے اپنے رسول سے کہا کہ تو جن کو ہدائت کرنا چاہتا ہے ہدائت نہیں کرسکتا۔۔میں نہ مولوی
نہ قاضی ہوں نہ مفتی نہ واعظ اور نہ میری خواہش کے کوئی میری پیروی کرے میں رسولوں کے سوا کسی
کو ایسا منصب نہیں سمجھتا کہ لوگ اس کی پیروی کریں۔
میری نیت خالص اللہ کے ساتھ اگر میں نے برا کیا تو وہ چاہے تو معاف کر دےگا چاہے گا تو نہیں کرے گا
اور اگر میں نے اچھا کیا تو اس کا صلہ بندوں سے نہیں چاہوں گا سو مجھے کافر زندیقی،سوفسطائی کہنے والوں
سے اپنی شفاعت طلب نہ کروں گا
زیر نظر پوسٹ میں وسعت اللہ خان کے تجزیہ کے علاوہ میری ان ادنی سے کوششوں میں سے ایک کوشش
جو میں ایک عرصہ دراز سے کر رہا ہوں غیر اقوام ہماری موجودہ ہیت کذائی کو مجوعہ اسلام لیتی اور اس
پر حقارت سے رائے دیتی سو میرا دل جلتا میں اپنے سیدھے سادے اور سب سے روشن مذہب کے بارے
میں جب ان کی رائے سنتا تو اپنی دانست میں جہاں تک ہوسکے صحیح یا غلط جو کچھ میرے امکان میں ہو اسلام
کی حمایت کروں اور اسلام کے آصلی نورانی چہرے لوگوں کو دکھا سکوں ۔گو کہ میں ہر گز اس لائق نہیں ہوں
یہ فرض یہ منصب مقدس اور صاحب علم لوگوں کا ہے لیکن اپنی استطاعت کے مطابق کوشش نہ کروں تو
میرا کانشئیس مجھ سےکہتا کہ میں خدا کے روبرو گنہگار ٹھہرو گا۔۔
وسعت اللہ خان
دنیا میں 53 فیصد مسلمان 15 ملکوں میں بستے ہیں
انڈونشیا آبادی 25 کروڑ مسلمان 86 فیصد انڈونشیا کے پینک کوڈ کے آرٹیکل 156 اے کے
تحت مذہبی منافرت کی سزا پانچ برس قید
ملائیشا 70 فیصد مسلمان یہاں توہین مذہب کی سزا تین سال قید اور ایک ہزار امریکی ڈالر جرمانہ
بنگلہ دیش کی 83 فیصد آبادی مسلمان یہاں عدالتیں توہین مذہب پہ پانچ سال قید اور جرمانے کی سزا
افغانستان 99 فیصد مسلمان یہاں عدالت جرم کی سنگینی پر موت کی سزا بھی دے سکتی لیکن سزا کے
سنائے جانے کے تین دن کے اندر اندت اگر ملزم اظہار پشیمانی کرے تو سزا ساقط بھی ہو سکتی ہے
ایران میں 99 فیصد مسلمان توہین مذہب کے لیے ایرانی پینک کوڈ میں کوئی الگ سے شق نہیں
بلکہ اسلامی حکومت کی مخالفت، توہین مذہب، اور اکثیرتی عقیدے سے متصادم مواد کی اشاعت پر
سزاوں کو ایک ہی خانے میں ڈال دیا گیا ہے ان میں سے کسی بھی جرم کی سنگینی کے اعتبار سے
سزائے موت تک دی جا سکتی ہے
سعودی عرب 100 فیصد آبادی مسلمان توہین مذہب حدود کے دائرے میں آتا ہے جرم کی سنگینی
کے اعتبار سے کوڑوں قید یا موت کی سزا سنائی جا سکتی ہے بادشاہ پشیمانی ظاہر کرنے پر سزا معاف بھی
کر سکتا ہے
کویت میں قانون سازی کا منبع شریعت ہے توہین مذہب پر قید یا جرمانے کی سزا ہو سکتی ہے
ترکی مین مسلمان 85 فیصد اڑٹیکل 301 کے تحت قوم اس کی اقدار ریاست پارلیمنٹ عدلیہ
اور فوج کی تواہین پر 6 ماہ سے دو برس تک قید
مصر کی 90 فیصد آبادی مسلمان توہین مذہب کے تحت 6 ماہ تک 5 برس قید اور جرمانے
کی سزا ہو سکتی ہے یا پھر ایک ہزار پاونڈ جرمانہ
پاکستان 97 فیصد مسلمان پاکتسان کے پینک کوڈ کی دفعہ 153 اے کے تحت توہین مذہب
اور مذہبی منافرت پھیلانے زیادہ سے زیادہ سزا پانچ برس قید ہے
دفعہ 295 کے تحت مذہبی مقامات عبادت گاہوں کی بے حرمتی قابل تعزیر جرم ہے
تیسرے فوجی آمر نے 295 بی کا اضافہ کیا جس کے تحت قران کریم کی براہ راست یا بالواسطہ
اشاروں کنایوں میں توہین کی سزا عمر قید ( زبور، توارات انجیل وغیرہ کی توہین اس قانون کی زد میں نہیں )
اور 295 سی کے تحت رسول اکرم صلی علیہ والہ وسلم کی براہ راست یا اشارہ کنایوں میں توہین
کی کم از کم سزا سزائے موت رکھی گئی( دیگر انبیا کی توہین اس قانون میں شامل نہیں)
اور 1927 سے 1983 تک جو تاہین رسالت کا قانون لاگو تھا اس کے تحت صرف ایک
کیس درج ہوا اور 1983 سے آج تک 1200 سے زاید مقدمات درج ہو چکے ہیں
جن مین سے 1050 صرف مسلمانوں پہ ہیں اور حیرت کی بات یہ پوسٹر پھاڑنے یا اترنے
پہ مسجد کا چندہ دینے نہ دینے پر بھی توہین رسالت کے زمرے میں اجاتا
ضیا الحق کی اس امینڈمنٹ کو اگر الہامی سمجھا جائے تو پھر سعودی عرب ایران کویت مصر ترکی
انڈونشیا نے اسے اپنایا کیوں نہیں کیا؟ کیا ہم سب سے افضل مسلمان ؟ یا ان کا عقیدہ ہمارے عقیدے سے
کمزور؟
..............................
روشنی
( عامر احمد خان )
حقیقت میں ہمارے قوم کا حال سب سے زیادہ بدتر ہے اگر ہماری قوم میں صرف جہالت
ہی ہوتی تو اصلاح کچھ مشکل نہ تھی لیکن مشکل یہ ہے قوم کی قوم جہل مرکب میں مبتلا
غلط اور غیر حقیقی بے آصل باتوں کی پیروی کرنا اور بے اصل اور خود پیدا کئے ہوئے
خیالات کو اومر واقعی اور حقیقی سمجھ لینا اور پھر ان پر فرضی بحثیں بڑھانا اور دوسرے کی بات کو
گو وہ کیسی ہی سچ اور واقعی کیوں نہ ہو نہ ماننا لفظی بحثوں پر علم و ٍفضلیت کا دارو مدار ان کا نتیجہ ہے
اسلام میں تمام قانون قدرت کے قانون کے مطابق اور عمل در امد کے لائق ہیں جہاں تک کہ
قانون قدرت اجازت دیتا ہے رحم ہےمعافی کی جگہ اسی کے آصول پر معافی ہے بدلے کی جگہ
کے مطابق بدلہ ہے لڑائی کی جگہ ملاپ کی جگہ اسی کے بنا پر ملاپ اسلام دغا فساد اور خون ریزی
کی اجازت نہیں دیتا اس کے بانی رحمتہ اللعالمین کہلاتے ہیں جو ساری دنیا کے لیے رحمت بنا کر بھیجے گئے
اس معصوم سیدھے سادے سچے اور نیک طبعیت والے پیغمبر نے جو اللہ تعالی کے احکام بہت سدھاوٹ و صفائی
و بے تکلفی سے جاہل اور ان پڑھ بادیہ نشین عرب قوم کو پہنچائے تھے اس میں وہ نکتہ چینیاں باریکیاں
گھسیڑی اور وہ دلائل منطقیہ کہ اس مذہب میں صفائی
اور سدھاوٹ اور سادہ پن جاتا رہا
پڑھے لکھے لوگ تاویل کے چکروں میں پڑے ہوئے ہیں مذہب کی روح یعنی عقیدہ اور جذبہ غائب
ہوچکے ہیں چھلکا باقی ہے اور مغز باقی نہیں رہا اخلاق کا رابطہ عمل سے منقطع ہوچکا ہے جو شخص
ظاہری رسوم عبادت ادا کرتا ہے وہ اچھا ہے خواہ اس کے اعمال کتنے ہی برے ہو جو آدمی ان رسوم کو
ترک کر دیتا ہے وہ برا ہے خواہ وہ کتنا ہی اچھا آدمی ہو۔۔اہل مذہب ظاہر داری، ریاکاری اور تاویل آرائی
سے کام لے رہے ہیں۔۔ملک میں جہالت کے سونامی اور جھکڑ چل رہے ہیں 18کروڑ کی آبادی میں سے
ہوں کہ گوجرانولہ کا ھافظہ قران ہو کہ وہ گورنر ہو اگر خود ہی مدعی بننا خود ہی عدالت خود ہی جلاد تو
حضور والا یہ عدالتوں ئی آئینوں پولیس اسٹیشنوں کے چونچلے کیوں پالے جہاں بھی برائی نظر آتی
بلا دریغ اس کی گردن مار دو۔۔
مسلمانوں نے اپنا رواں رواں مذہب سے ایسا جکڑ دیا دیا ہے کہ کوئی بات بھی مسلمانوں کے
حق میں بغیر مذہبی بحث کے نہیں کی جا سکتی بحث کی جاتی ہے کہ
سر کے بال کس قدر رکھنا جائز ہے ؟ اور کس قدر ناجائز؟ مانگ کس طرح پرکھنی جائز اور کس طرح ناجائز؟
مونچھ اتنی باریک کتروانی واجب ہے یا بالکل استرے سے منڈوانی ؟ مونچھ قنچی سے کتروائی جائے یا چاقو سے
مسواک پر رکھ کر کاٹی جائے ؟ بالوں میں کنگھی کتنی بار کی جائے ؟ سرمہ آنکھ میں کیونکر لگایا جائے؟ مسواک کس چیز کی ہو؟
سر پر عمامہ کس وضع کا باندھا ہو؟ شملہ کس قدر لمبا ہو؟ کس رنگ کا ہو؟ کافروں کے ہاں کا کپڑا پہننا چاہیے؟ کرتا کس قطعہ
کا ہو ، تہنبد کسیا ہو ؟ ازار پہننی جائز ہے یا نہیں ؟ احجار کے سوا اور کس چیز سے استنجا جائز ہے ؟ کون سی وضع بیٹھنے کی جائز ہے
کھانا کھانے میں ہاتھ ٹیک کر کھانا مکروہ ہے کہ نہیں، نماز کے دوران ہاتھ پیٹ پہ باندھو کہ سینے پہ؟ اکڑوں بیٹھ کر کھانا کھایا
جائے کہ دوزانو ہو کر؟ کس طرح لیٹا جائے؟ پلنگ بچھاوے گدا سخت ہو کہ نرم، کتنے پانی سے نہائےِ کس قطع کا مکان جائز اور کس
قطع کا ناجائز کن لوگوں سے ملنا جائز کن سے ناجائز؟ کافروں سے سچی دوستی اور محبت جائز ہے کہ ناجائز؟وغیرہ وغیرہ ۔
کیا ہمارا کوئی فعل کوئی پیشہ کوئی قانون کوئی نوکری بغیر مذہبی بحث کے کبھی ہوا؟؟ کیا ہمارے
احباب معترض نے وہ تحریریں نہیں دیکھیں جو اس کچھ عرصہ پہلے بڑے بڑے مقدس لوگوں
نے کی تھیں اور کیا بحثیں اور کیا واقعات انہیں نہیں معلوم ہیں جب مولوی رشید الدین خان
نے مدرسی گورنمنٹ کالج دہلی اختیار کیا تھا اور کیا ان عہدوں کے اختیار کرنے پر اس آیت
کریمہ پر تاویل کر کےبحث نہیں کی گئی تھی : من لم یحکم بما انزل اللہ فاولئک ھم الفاسقون(5 :47) ہمارے
احباب معترض اس سے کیا نواقف ہیں ۔۔
اول اول جب جیبی گھڑیا ں رکھنے کا کا مسلمانوں میں رواج پایا تھا تو اس پہ بھی جائز اور ناجائز کا فتوی لیا گیا تھا
کون نہیں جانتا جیب میں گھڑی رکھنا َ صبح کی چائے پینا تنصر میں داخل تھی، انگلش بوٹ پہننا تنصر تھا
کوٹ پتلون پہننا تنصر تھا، جب چھاپہ خانہ بنا تو اس کے خلاف فتوی دیا انگلش، ہسٹری، ہیت، ریاضی، بیالوجی
جعرافیہ کس کس علوم کو خلاف قانون نہیں کہا گیا
مسلمان عالموں نے قدم بہ قدم یہودیوں کی پیروی کی اور تمام دنیاوی احکام کو جو در حقیقت
اسلام سے کچھ تعلق نہیں رکھتے مذہب میں شامل کر لیا اور پھر یہودیوں کی تقلید سے اس
کے مقاصد کو چھوڑ کر صرف لفظی معنوں کی پیروی کرنا اصل مذہب اسلام قرار دیا جیسا کہ عرب
کے متمول سرادر بنظر افتخار اور تکبر و غرور کے ازار کو ٹخنے سے نیچی زمین پر گھسٹتی ہوئی پہنتے تھے
اور یہ امر گویا غرور اور تکبر کو ظاہر کرتا تھا حضرت محمد صلی علیہ والہ وسلم نے ٹخنے سے نیچی ازار پہننے
سے منع فرمایا جس کا مقصد غرور و تکبر سے منع کرنا تھا مگر ہمارے علما نے لفظی پیروی کر کے
ٹخنے سے نیچی ازار والے کو گو وہ کیسا ہی مسکین اور بے غرور منکسر ہو جنم میں ڈال دیا اور لوگوں کو
تعجب میں ڈال دیا یہ کیسا مذہب ہے جس میں دو انگلیاں اونچا ازار پہننے سے بہشت ملتی ہے اور دو انگلیاں نیچے
پہننے سے دوزخ میں ڈالا جاتا ہے مجھے یہ بھی یقین ہے
کہ علما مفسرین نے قران مجید کی تفسیر میں بہت جگہ غلطی یا بے احتیاطی کی ہے اور تمام بے اصل بے قصہ کہانیوں
اور یہودیوں کی بیہودہ روایتوں کو اس میں شامل کر دیا ہے اور تفسیر کی بیناد ان پر قرار دی ہے اور بہت سی
جگہوں یونانی مسائل فلسفہ کو جو اس زمانے میں یقینی سمجھے جاتے تھے اور جواب غلط ثابت ہو گئے ہیں اپنی تفسیروں میں
اس طرح ملا دیا ہے کہ گویا وہی مسائل قران پاک سے بھی ثابت ہوتے ہیں یا قران مجید کے بھی وہی معنی ہیںاور
اس پر عمل درامد نے مذہب اسلام کو شدید نقصان پہنچایا ہے اسی سبب سے مسلمانوں حالت عجیب ہو گئی ہے اور
غیر قومیں ہماری ان غلط فہمیوں یا طببعیتوں کو ہیت مجموعی سمجھ کر اسی مسلک کو اسلام قرار دیتی ہیں اور اس کی نسبت
نہایت حقارت کی رائے دیتی ہیں جیسے کہ ایک انگریزی مورخ نے مفصلہ رائے لکھی
عیسائیت اس سے بڑی سے بڑی خوشی کے جو قادر مطلق نے انسان کو دی یے صرف موافق اور مطابق نہیں ہے
بلکہ اس کو ترقی دینے والی ہے اور برخلاف اس کے اسلام اس کو خراب کرنے والا ہے۔۔
پس اب غیرت کی بات نہیں کیا کہ ہم غیر قوموں سے ایسی حقارت کے الفاظ اپنے روشن اور سچے مذہب کی نسبت سنیں
اور اپنی تہذیب اور شائستگی کی طرف متوجہ نہ ہو
مزید بھی بہت سے موضوعات سپرد قلم کرچکا پھر حاضر ہوگا کسی نئے موضوع کے ساتھ
اپنا بہت سا خیال رکھئے گا
خوش رہیں
خاکسار
عامر احمد
امید کرتا ہوں سب خیریت سے ہونگے سب سے پہلے بی بی سی کے وسعت اللہ خان
نسبت خدا نے اپنے رسول سے کہا کہ تو جن کو ہدائت کرنا چاہتا ہے ہدائت نہیں کرسکتا۔۔میں نہ مولوی
نہ قاضی ہوں نہ مفتی نہ واعظ اور نہ میری خواہش کے کوئی میری پیروی کرے میں رسولوں کے سوا کسی
کو ایسا منصب نہیں سمجھتا کہ لوگ اس کی پیروی کریں۔
میری نیت خالص اللہ کے ساتھ اگر میں نے برا کیا تو وہ چاہے تو معاف کر دےگا چاہے گا تو نہیں کرے گا
اور اگر میں نے اچھا کیا تو اس کا صلہ بندوں سے نہیں چاہوں گا سو مجھے کافر زندیقی،سوفسطائی کہنے والوں
سے اپنی شفاعت طلب نہ کروں گا
زیر نظر پوسٹ میں وسعت اللہ خان کے تجزیہ کے علاوہ میری ان ادنی سے کوششوں میں سے ایک کوشش
جو میں ایک عرصہ دراز سے کر رہا ہوں غیر اقوام ہماری موجودہ ہیت کذائی کو مجوعہ اسلام لیتی اور اس
پر حقارت سے رائے دیتی سو میرا دل جلتا میں اپنے سیدھے سادے اور سب سے روشن مذہب کے بارے
میں جب ان کی رائے سنتا تو اپنی دانست میں جہاں تک ہوسکے صحیح یا غلط جو کچھ میرے امکان میں ہو اسلام
کی حمایت کروں اور اسلام کے آصلی نورانی چہرے لوگوں کو دکھا سکوں ۔گو کہ میں ہر گز اس لائق نہیں ہوں
یہ فرض یہ منصب مقدس اور صاحب علم لوگوں کا ہے لیکن اپنی استطاعت کے مطابق کوشش نہ کروں تو
میرا کانشئیس مجھ سےکہتا کہ میں خدا کے روبرو گنہگار ٹھہرو گا۔۔
وسعت اللہ خان
دنیا میں 53 فیصد مسلمان 15 ملکوں میں بستے ہیں
انڈونشیا آبادی 25 کروڑ مسلمان 86 فیصد انڈونشیا کے پینک کوڈ کے آرٹیکل 156 اے کے
تحت مذہبی منافرت کی سزا پانچ برس قید
ملائیشا 70 فیصد مسلمان یہاں توہین مذہب کی سزا تین سال قید اور ایک ہزار امریکی ڈالر جرمانہ
بنگلہ دیش کی 83 فیصد آبادی مسلمان یہاں عدالتیں توہین مذہب پہ پانچ سال قید اور جرمانے کی سزا
افغانستان 99 فیصد مسلمان یہاں عدالت جرم کی سنگینی پر موت کی سزا بھی دے سکتی لیکن سزا کے
سنائے جانے کے تین دن کے اندر اندت اگر ملزم اظہار پشیمانی کرے تو سزا ساقط بھی ہو سکتی ہے
ایران میں 99 فیصد مسلمان توہین مذہب کے لیے ایرانی پینک کوڈ میں کوئی الگ سے شق نہیں
بلکہ اسلامی حکومت کی مخالفت، توہین مذہب، اور اکثیرتی عقیدے سے متصادم مواد کی اشاعت پر
سزاوں کو ایک ہی خانے میں ڈال دیا گیا ہے ان میں سے کسی بھی جرم کی سنگینی کے اعتبار سے
سزائے موت تک دی جا سکتی ہے
سعودی عرب 100 فیصد آبادی مسلمان توہین مذہب حدود کے دائرے میں آتا ہے جرم کی سنگینی
کے اعتبار سے کوڑوں قید یا موت کی سزا سنائی جا سکتی ہے بادشاہ پشیمانی ظاہر کرنے پر سزا معاف بھی
کر سکتا ہے
کویت میں قانون سازی کا منبع شریعت ہے توہین مذہب پر قید یا جرمانے کی سزا ہو سکتی ہے
ترکی مین مسلمان 85 فیصد اڑٹیکل 301 کے تحت قوم اس کی اقدار ریاست پارلیمنٹ عدلیہ
اور فوج کی تواہین پر 6 ماہ سے دو برس تک قید
مصر کی 90 فیصد آبادی مسلمان توہین مذہب کے تحت 6 ماہ تک 5 برس قید اور جرمانے
کی سزا ہو سکتی ہے یا پھر ایک ہزار پاونڈ جرمانہ
پاکستان 97 فیصد مسلمان پاکتسان کے پینک کوڈ کی دفعہ 153 اے کے تحت توہین مذہب
اور مذہبی منافرت پھیلانے زیادہ سے زیادہ سزا پانچ برس قید ہے
دفعہ 295 کے تحت مذہبی مقامات عبادت گاہوں کی بے حرمتی قابل تعزیر جرم ہے
تیسرے فوجی آمر نے 295 بی کا اضافہ کیا جس کے تحت قران کریم کی براہ راست یا بالواسطہ
اشاروں کنایوں میں توہین کی سزا عمر قید ( زبور، توارات انجیل وغیرہ کی توہین اس قانون کی زد میں نہیں )
اور 295 سی کے تحت رسول اکرم صلی علیہ والہ وسلم کی براہ راست یا اشارہ کنایوں میں توہین
کی کم از کم سزا سزائے موت رکھی گئی( دیگر انبیا کی توہین اس قانون میں شامل نہیں)
اور 1927 سے 1983 تک جو تاہین رسالت کا قانون لاگو تھا اس کے تحت صرف ایک
کیس درج ہوا اور 1983 سے آج تک 1200 سے زاید مقدمات درج ہو چکے ہیں
جن مین سے 1050 صرف مسلمانوں پہ ہیں اور حیرت کی بات یہ پوسٹر پھاڑنے یا اترنے
پہ مسجد کا چندہ دینے نہ دینے پر بھی توہین رسالت کے زمرے میں اجاتا
ضیا الحق کی اس امینڈمنٹ کو اگر الہامی سمجھا جائے تو پھر سعودی عرب ایران کویت مصر ترکی
انڈونشیا نے اسے اپنایا کیوں نہیں کیا؟ کیا ہم سب سے افضل مسلمان ؟ یا ان کا عقیدہ ہمارے عقیدے سے
کمزور؟
..............................
روشنی
( عامر احمد خان )
حقیقت میں ہمارے قوم کا حال سب سے زیادہ بدتر ہے اگر ہماری قوم میں صرف جہالت
ہی ہوتی تو اصلاح کچھ مشکل نہ تھی لیکن مشکل یہ ہے قوم کی قوم جہل مرکب میں مبتلا
غلط اور غیر حقیقی بے آصل باتوں کی پیروی کرنا اور بے اصل اور خود پیدا کئے ہوئے
خیالات کو اومر واقعی اور حقیقی سمجھ لینا اور پھر ان پر فرضی بحثیں بڑھانا اور دوسرے کی بات کو
گو وہ کیسی ہی سچ اور واقعی کیوں نہ ہو نہ ماننا لفظی بحثوں پر علم و ٍفضلیت کا دارو مدار ان کا نتیجہ ہے
اسلام میں تمام قانون قدرت کے قانون کے مطابق اور عمل در امد کے لائق ہیں جہاں تک کہ
قانون قدرت اجازت دیتا ہے رحم ہےمعافی کی جگہ اسی کے آصول پر معافی ہے بدلے کی جگہ
کے مطابق بدلہ ہے لڑائی کی جگہ ملاپ کی جگہ اسی کے بنا پر ملاپ اسلام دغا فساد اور خون ریزی
کی اجازت نہیں دیتا اس کے بانی رحمتہ اللعالمین کہلاتے ہیں جو ساری دنیا کے لیے رحمت بنا کر بھیجے گئے
اس معصوم سیدھے سادے سچے اور نیک طبعیت والے پیغمبر نے جو اللہ تعالی کے احکام بہت سدھاوٹ و صفائی
و بے تکلفی سے جاہل اور ان پڑھ بادیہ نشین عرب قوم کو پہنچائے تھے اس میں وہ نکتہ چینیاں باریکیاں
گھسیڑی اور وہ دلائل منطقیہ کہ اس مذہب میں صفائی
اور سدھاوٹ اور سادہ پن جاتا رہا
پڑھے لکھے لوگ تاویل کے چکروں میں پڑے ہوئے ہیں مذہب کی روح یعنی عقیدہ اور جذبہ غائب
ہوچکے ہیں چھلکا باقی ہے اور مغز باقی نہیں رہا اخلاق کا رابطہ عمل سے منقطع ہوچکا ہے جو شخص
ظاہری رسوم عبادت ادا کرتا ہے وہ اچھا ہے خواہ اس کے اعمال کتنے ہی برے ہو جو آدمی ان رسوم کو
ترک کر دیتا ہے وہ برا ہے خواہ وہ کتنا ہی اچھا آدمی ہو۔۔اہل مذہب ظاہر داری، ریاکاری اور تاویل آرائی
سے کام لے رہے ہیں۔۔ملک میں جہالت کے سونامی اور جھکڑ چل رہے ہیں 18کروڑ کی آبادی میں سے
ہوں کہ گوجرانولہ کا ھافظہ قران ہو کہ وہ گورنر ہو اگر خود ہی مدعی بننا خود ہی عدالت خود ہی جلاد تو
حضور والا یہ عدالتوں ئی آئینوں پولیس اسٹیشنوں کے چونچلے کیوں پالے جہاں بھی برائی نظر آتی
بلا دریغ اس کی گردن مار دو۔۔
مسلمانوں نے اپنا رواں رواں مذہب سے ایسا جکڑ دیا دیا ہے کہ کوئی بات بھی مسلمانوں کے
حق میں بغیر مذہبی بحث کے نہیں کی جا سکتی بحث کی جاتی ہے کہ
سر کے بال کس قدر رکھنا جائز ہے ؟ اور کس قدر ناجائز؟ مانگ کس طرح پرکھنی جائز اور کس طرح ناجائز؟
مونچھ اتنی باریک کتروانی واجب ہے یا بالکل استرے سے منڈوانی ؟ مونچھ قنچی سے کتروائی جائے یا چاقو سے
مسواک پر رکھ کر کاٹی جائے ؟ بالوں میں کنگھی کتنی بار کی جائے ؟ سرمہ آنکھ میں کیونکر لگایا جائے؟ مسواک کس چیز کی ہو؟
سر پر عمامہ کس وضع کا باندھا ہو؟ شملہ کس قدر لمبا ہو؟ کس رنگ کا ہو؟ کافروں کے ہاں کا کپڑا پہننا چاہیے؟ کرتا کس قطعہ
کا ہو ، تہنبد کسیا ہو ؟ ازار پہننی جائز ہے یا نہیں ؟ احجار کے سوا اور کس چیز سے استنجا جائز ہے ؟ کون سی وضع بیٹھنے کی جائز ہے
کھانا کھانے میں ہاتھ ٹیک کر کھانا مکروہ ہے کہ نہیں، نماز کے دوران ہاتھ پیٹ پہ باندھو کہ سینے پہ؟ اکڑوں بیٹھ کر کھانا کھایا
جائے کہ دوزانو ہو کر؟ کس طرح لیٹا جائے؟ پلنگ بچھاوے گدا سخت ہو کہ نرم، کتنے پانی سے نہائےِ کس قطع کا مکان جائز اور کس
قطع کا ناجائز کن لوگوں سے ملنا جائز کن سے ناجائز؟ کافروں سے سچی دوستی اور محبت جائز ہے کہ ناجائز؟وغیرہ وغیرہ ۔
کیا ہمارا کوئی فعل کوئی پیشہ کوئی قانون کوئی نوکری بغیر مذہبی بحث کے کبھی ہوا؟؟ کیا ہمارے
احباب معترض نے وہ تحریریں نہیں دیکھیں جو اس کچھ عرصہ پہلے بڑے بڑے مقدس لوگوں
نے کی تھیں اور کیا بحثیں اور کیا واقعات انہیں نہیں معلوم ہیں جب مولوی رشید الدین خان
نے مدرسی گورنمنٹ کالج دہلی اختیار کیا تھا اور کیا ان عہدوں کے اختیار کرنے پر اس آیت
کریمہ پر تاویل کر کےبحث نہیں کی گئی تھی : من لم یحکم بما انزل اللہ فاولئک ھم الفاسقون(5 :47) ہمارے
احباب معترض اس سے کیا نواقف ہیں ۔۔
اول اول جب جیبی گھڑیا ں رکھنے کا کا مسلمانوں میں رواج پایا تھا تو اس پہ بھی جائز اور ناجائز کا فتوی لیا گیا تھا
کون نہیں جانتا جیب میں گھڑی رکھنا َ صبح کی چائے پینا تنصر میں داخل تھی، انگلش بوٹ پہننا تنصر تھا
کوٹ پتلون پہننا تنصر تھا، جب چھاپہ خانہ بنا تو اس کے خلاف فتوی دیا انگلش، ہسٹری، ہیت، ریاضی، بیالوجی
جعرافیہ کس کس علوم کو خلاف قانون نہیں کہا گیا
مسلمان عالموں نے قدم بہ قدم یہودیوں کی پیروی کی اور تمام دنیاوی احکام کو جو در حقیقت
اسلام سے کچھ تعلق نہیں رکھتے مذہب میں شامل کر لیا اور پھر یہودیوں کی تقلید سے اس
کے مقاصد کو چھوڑ کر صرف لفظی معنوں کی پیروی کرنا اصل مذہب اسلام قرار دیا جیسا کہ عرب
کے متمول سرادر بنظر افتخار اور تکبر و غرور کے ازار کو ٹخنے سے نیچی زمین پر گھسٹتی ہوئی پہنتے تھے
اور یہ امر گویا غرور اور تکبر کو ظاہر کرتا تھا حضرت محمد صلی علیہ والہ وسلم نے ٹخنے سے نیچی ازار پہننے
سے منع فرمایا جس کا مقصد غرور و تکبر سے منع کرنا تھا مگر ہمارے علما نے لفظی پیروی کر کے
ٹخنے سے نیچی ازار والے کو گو وہ کیسا ہی مسکین اور بے غرور منکسر ہو جنم میں ڈال دیا اور لوگوں کو
تعجب میں ڈال دیا یہ کیسا مذہب ہے جس میں دو انگلیاں اونچا ازار پہننے سے بہشت ملتی ہے اور دو انگلیاں نیچے
پہننے سے دوزخ میں ڈالا جاتا ہے مجھے یہ بھی یقین ہے
کہ علما مفسرین نے قران مجید کی تفسیر میں بہت جگہ غلطی یا بے احتیاطی کی ہے اور تمام بے اصل بے قصہ کہانیوں
اور یہودیوں کی بیہودہ روایتوں کو اس میں شامل کر دیا ہے اور تفسیر کی بیناد ان پر قرار دی ہے اور بہت سی
جگہوں یونانی مسائل فلسفہ کو جو اس زمانے میں یقینی سمجھے جاتے تھے اور جواب غلط ثابت ہو گئے ہیں اپنی تفسیروں میں
اس طرح ملا دیا ہے کہ گویا وہی مسائل قران پاک سے بھی ثابت ہوتے ہیں یا قران مجید کے بھی وہی معنی ہیںاور
اس پر عمل درامد نے مذہب اسلام کو شدید نقصان پہنچایا ہے اسی سبب سے مسلمانوں حالت عجیب ہو گئی ہے اور
غیر قومیں ہماری ان غلط فہمیوں یا طببعیتوں کو ہیت مجموعی سمجھ کر اسی مسلک کو اسلام قرار دیتی ہیں اور اس کی نسبت
نہایت حقارت کی رائے دیتی ہیں جیسے کہ ایک انگریزی مورخ نے مفصلہ رائے لکھی
عیسائیت اس سے بڑی سے بڑی خوشی کے جو قادر مطلق نے انسان کو دی یے صرف موافق اور مطابق نہیں ہے
بلکہ اس کو ترقی دینے والی ہے اور برخلاف اس کے اسلام اس کو خراب کرنے والا ہے۔۔
پس اب غیرت کی بات نہیں کیا کہ ہم غیر قوموں سے ایسی حقارت کے الفاظ اپنے روشن اور سچے مذہب کی نسبت سنیں
اور اپنی تہذیب اور شائستگی کی طرف متوجہ نہ ہو
مزید بھی بہت سے موضوعات سپرد قلم کرچکا پھر حاضر ہوگا کسی نئے موضوع کے ساتھ
اپنا بہت سا خیال رکھئے گا
خوش رہیں
خاکسار
عامر احمد
Comment