کوے کی چالاکی کے تو آپ نے بہت سے قصے سن رکھے ہوں گے۔ سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ وہ اتنا ذہین پرندہ ہے کہ محض تصویر دیکھ کر سوفی صد درستگی کے ساتھ بتاسکتا ہے کہ یہ عورت ہے یا مرد۔ آپ تصویر میں بھیس یا حلیہ بدل کر بھی کوئے کو جل نہیں دے سکتے۔
آپ نے اس پیاسے کوے کی قدیم چینی کہانی بھی پڑھ رکھی ہوگی جسے ایک گھڑے کے پیندے میں تھوڑا سا پانی تو مل گیا ، مگر پانی تک اس کی چونچ نہیں پہنچ رہی تھی۔ پانی کی سطح بلند کرنے کے لیے اس نے گھڑے میں کچھ کنکریاں ڈالیں اور پیاس بجھاکر چلاگیا۔ پچھلے سال کیمبرج یونیورسٹی کے کرسٹوفر برڈ اور اس کی ٹیم نے اپنے ایک سائنسی تجربے میں اس کہانی کو کوے پر آزمایا تو وہ سوفی صد درست ثابت ہوئی۔
اسی طرح برمنگھم یونیورسٹی کے ماہرین کی ایک ٹیم کوجنگلی کوؤں پر 1800 گھنٹوں سے زیادہ کی ویڈیو ریکارڈنگ کے ذریعے یہ معلوم ہوا کہ وہ درختوں کے تنوں اور چھوٹے سوراخوں سے اپنی خوراک نکالنے کے لیے کئی طرح کے اوزار استعمال کرتا ہے۔ اس کے اوزار نوکدار تنکے اور اسی طرح کی دوسری چیزیں ہوتی ہیں اور وہ خوب اچھی طرح جانتا ہے کہ کس جگہ کے لیے کس سائز کا اوزار مناسب رہے گا۔
بچوں کے ہاتھ سے کھانے کی چیزیں چھین کر اڑ جانا، اور کسی تنہاشخص پر غول کی شکل میں حملہ کرنا کوؤں کے لیے ایک عام سی بات ہے۔
کوے کا ذکر ہر معاشرے کے قصے کہانیوں میں اکثر ملتا ہے۔کئی شاعروں نے اسے اپنے کلام کا حصہ بنایا ہے،اور ہمارے ہاں کئی لوگ گیتوں اور فلمی گانوں میں اس کا ذکر موجود ہے۔
کوے کی ذہانت سائنس دانوں کی توجہ کا خاص مرکز ہے اور دنیا بھر کی مختلف یونیورسٹیوں میں اس حوالے سے اس پر تجربات کیے جاتے ہیں۔ حال ہی میں جاپان کی ٹوکیو یونیورسٹی آف ایگریکلچر میں ماہرین کی ایک ٹیم نے کوؤں پر دلچسپ تجربات کیے۔
اپنے تجربات کے لیے انہوں نے سدھائے ہوئے کوؤں کی بجائے جاپان کے شہروں اور قصبوں میں پائے جانے والے چار جنگلی کوے لیے۔
کوے کا ذکر ہر معاشرے کے قصے کہانیوں میں اکثر ملتا ہے۔کئی شاعروں نے اسے اپنے کلام کا حصہ بنایا ہے،اور ہمارے ہاں کئی لوگ گیتوں اور فلمی گانوں میں اس کا ذکر موجود ہے۔
کوے کی ذہانت سائنس دانوں کی توجہ کا خاص مرکز ہے اور دنیا بھر کی مختلف یونیورسٹیوں میں اس حوالے سے اس پر تجربات کیے جاتے ہیں۔ حال ہی میں جاپان کی ٹوکیو یونیورسٹی آف ایگریکلچر میں ماہرین کی ایک ٹیم نے کوؤں پر دلچسپ تجربات کیے۔
اپنے تجربات کے لیے انہوں نے سدھائے ہوئے کوؤں کی بجائے جاپان کے شہروں اور قصبوں میں پائے جانے والے چار جنگلی کوے لیے۔
تجربات کے دوران چاروں کوؤں کو ایسی عورتوں اور مردوں کی رنگیں تصویریں دکھائی گئیں، جن کے سرکے بال چھپا دیے گئے تھے، تاکہ ان کے جنس کے تعین میں مشکل پیش آئے۔ اکثر جاپانی مردوں کی داڑھی مونچھ نہیں ہوتی اور اگرجاپانی مردوں اور عورتوں کے سر کے بال ڈھانپ دیے جائیں تو ان کی شناخت میں دقت پیش آسکتی ہے۔
سائنس دانوں نے دو دو کوؤں کے دو گروپ بنائے ۔ ایک گروپ کو عورت کی تصویر جب کہ دوسرے کو مرد کی تصویر چننے کی تربیت دی۔
اس تربیت کے دوران جب کوئے صحیح تصویر چنتے تھے تو انعام کے طورپر انہیں پنیر کا ایک ٹکڑا کھانے کے لیے دیا جاتا تھا۔
سائنس دانوں نے دو دو کوؤں کے دو گروپ بنائے ۔ ایک گروپ کو عورت کی تصویر جب کہ دوسرے کو مرد کی تصویر چننے کی تربیت دی۔
اس تربیت کے دوران جب کوئے صحیح تصویر چنتے تھے تو انعام کے طورپر انہیں پنیر کا ایک ٹکڑا کھانے کے لیے دیا جاتا تھا۔
اس کے بعد ان تصویروں میں مزید بہت سی تصویریں شامل کردی گئیں اور انہیں تاش کے پتوں کی طرح پھینٹ دیا گیاتاکہ کوئے ان کی ترتیب بھول جائیں۔
تجربے کے دوران چار میں سے تین کوؤں نے ہر بار صحیح تصویر کا انتخاب کیا اور ان کی شناخت سو فی صد تک درست رہی جب کہ چوتھے کوئے نے دس میں سے سات بار بالکل درست انتخاب کیا۔
تجربے کے دوران چار میں سے تین کوؤں نے ہر بار صحیح تصویر کا انتخاب کیا اور ان کی شناخت سو فی صد تک درست رہی جب کہ چوتھے کوئے نے دس میں سے سات بار بالکل درست انتخاب کیا۔
یہ تجربات ٹوکیو یونیورسٹی آف ایگریکلچر اینڈ ٹیکنالوجی کے بزاورک افورک اور اوسونومیا یونیورسٹی کی پروفیسر شوئی سوگیتاپر مشتمل ایک ٹیم نے کیے۔ ان کا کہنا ہے کہ ان تجربات سے انہیں یہ معلوم ہوا ہے کہ کوئے عورت اور مرد میں ، چاہے ان کاحلیہ بدل ہی کیوں نہ دیا جائےبخوبی تمیز کرسکتے ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ اس تجربات کے نتائج کوؤں کی نفسیات اور دماغی صلاحیتوں کو سمجھنے میں مزید مدد فراہم کرسکتے ہیں اور یہ کہ ان کی اس صلاحیت سے انسان کیا فائدہ اٹھا سکتا ہے۔
کوا اپنی تمام تر دانائی اور ہوشیاری کے باوجود کوئل کے ہاتھوں میں مات کھاجاتا ہے جو اپنے انڈے کوؤں کے گھونسلے میں دیتی ہے ۔ کوا انڈوں کوسہتا اور ان سے نکلنے والے بچوں کی پروش کرتا ہے۔ اور جب بچے بڑے ہوکر بولنا شروع کرتے ہیں تو بے چارے کوئے کو پتا چلتا ہے کہ اس کے ساتھ ہاتھ ہوگیا ہے۔
Comment