رحمت عالم کے حضور (۱)
مرد بزرگ سرکار مدینہ سے باتیں کررہا تھا۔ وہ پڑھا لکھا نہیں تھا۔ اس کے ہاتھ میں دعاؤں والا کوئی کتابچہ بھی نہ تھا۔ بس وہ اپنی دُھن میں مگن دھیمے ، میٹھے اور پُریقین لہجے میں بولے جارہا تھا۔ یہی اس کی دعائیں تھیں، یہی مناجات، یہی ہدیہ درودو سلام۔ اُس کا طرز کلام ایسا تھا جیسے وہ حضور کے دربار میں سرجھکائے دوزانو بیٹھا ہو۔ حضور کے ہونٹوں پہ ہلکا سا تبسم ہو۔ وہ باتیں سن رہے ہوں اور اپنے عظیم رفقا، صدیق و عمرکی طرف دیکھ کر تبسم فرما رہے ہوں۔
تو برائے وصل کردن آمدی
نے برائے فصل کردن آمدی
نے برائے فصل کردن آمدی
ادب گاہیست زیر آسماں ازعرش نازک تر
نفس گم کردہ می آید جنید وبایزید ایں جا
نفس گم کردہ می آید جنید وبایزید ایں جا
میں نے محبت کی پوٹلی کو پکی گرہ ڈال رکھی تھی اور ہولے ہولے قدم اٹھاتا آگے بڑھ رہا تھا۔ سوئے ادب کے خوف نے مجھے بیڑیاں ڈال رکھی تھیں۔ جوں جوں میں روضہ رسول کے قریب جارہا تھا، میری دھڑکنیں تیز ہورہی تھیں اور میری سانسیں جیسے اکھڑنے کو تھیں۔ میں جیسے گردوپیش سے کٹ کر کھوسا گیا۔ ہجوم نہ تھا کہ دھکم پیل کی کیفیت ہوتی اور میں کہیں سے کہیں پہنچ جاتا۔ صرف اوسان بحال نہ تھے اور حواس میں خلل سا پڑ گیا تھا۔ مجھے یہ اندازہ ضرور تھا کہ میں چل رہا ہوں۔
پھر یکایک مجھے یوں لگا جیسے میں چل نہیں رہا بلکہ کوئی مقناطیسی کشش مجھے اپنی طرف کھینچ رہی ہے۔ سنبھلا تو سنہری جالیاں عین میری نگاہوں کے سامنے تھیں اور شفقت کا ایک نورانی ہالہ جیسے میرا حلقہ کئے ہوئے تھا۔ اندر سے کوئی خودکار سسٹم آن ہوگیا اور ہونٹوں سے درودوسلام کی نغمگی پھوٹنے لگی۔ پل بھر میں کوئی اجنبی ہاتھ ساری اجنبیت ، ساری جھجک اور سارے تکلفات اچک لے گیا۔ مجھے محسوس ہوا جیسے میں برسوں کی جلاوطنی کے بعد اپنے گھر لوٹ آیا ہوں۔ جیسے دشت بے اماں کی سلگتی ریت کے لمبے سفر کے بعد یکایک مخملی گھاس اور گھنے سایہ دار درختوں والے نخلستان میں نکل آیا ہوں۔ جیسے بے مہر موسموں کی اذیتوں کے بعد آغوش مادر کر نرم و گداز ممتا نے اپنی باہوں میں سمیٹ لیا ہو۔
جیسے بیمار کو بے وجہ قرار آجائے
پھر یکایک مجھے یوں لگا جیسے میں چل نہیں رہا بلکہ کوئی مقناطیسی کشش مجھے اپنی طرف کھینچ رہی ہے۔ سنبھلا تو سنہری جالیاں عین میری نگاہوں کے سامنے تھیں اور شفقت کا ایک نورانی ہالہ جیسے میرا حلقہ کئے ہوئے تھا۔ اندر سے کوئی خودکار سسٹم آن ہوگیا اور ہونٹوں سے درودوسلام کی نغمگی پھوٹنے لگی۔ پل بھر میں کوئی اجنبی ہاتھ ساری اجنبیت ، ساری جھجک اور سارے تکلفات اچک لے گیا۔ مجھے محسوس ہوا جیسے میں برسوں کی جلاوطنی کے بعد اپنے گھر لوٹ آیا ہوں۔ جیسے دشت بے اماں کی سلگتی ریت کے لمبے سفر کے بعد یکایک مخملی گھاس اور گھنے سایہ دار درختوں والے نخلستان میں نکل آیا ہوں۔ جیسے بے مہر موسموں کی اذیتوں کے بعد آغوش مادر کر نرم و گداز ممتا نے اپنی باہوں میں سمیٹ لیا ہو۔
جیسے بیمار کو بے وجہ قرار آجائے
Comment