ہنگو میں جمعہ کو ایک خودکش بم دھماکے میں چار خواتین سمیت 12 افراد ہلاک اور 30 زخمی ہوگئے ہیں، ٹل سول ہسپتال کے ڈاکٹر محمد ہارون کے مطابق 13 کی حالت تشویش ناک ہے۔
کوہاٹ کے کمشنر خالد خان نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ گاڑیوں کا ایک قافلہ ہنگو سے کرم ایجنسی کے علاقے پاراچنار سے جارہا تھا کہ ایک پیدل خودکش بمبار نے دو گاڑیوں کے درمیان خود کو جسم سے بندھے دھماکا خیز مواد سے اُڑا دیا ۔ عینی شاہدین کے مطابق گاڑیوں میں سوار مسافروں کا تعلق اقلیتی شعیہ برادری سے بتایا گیا ہے۔ خالد خان نے بتایا کہ درجنوں گاڑیوں پر مشتمل اس قافلے کی نگرانی پویس اور ایف سی اہلکارکررہے تھے۔
جس وقت یہ بم دھماکا کیا گیا قریب ہی ایک سکول میں چھٹی ہونے کے بعد بڑی تعداد میں بچے وہاں جمع تھے۔ عینی شاہدین نے بتایا کہ زخمیوں میں سکول کے طالب علم بھی شامل ہیں۔
کرم ایجنسی میں فرقہ ورانہ کشیدگی اور علاقے میں دہشت گردانہ واقعات کے باعث شیعہ مسلک سے تعلق رکھنے والوں کو اپنے قبائلی علاقے سے دیگر شہروں تک پہنچنے میں مشکلات کا سامنا رہا ہے اور اب حکام نے ان کے تحفظ کے اقدامات اُٹھاتے ہوئے شیعہ برادری سے تعلق رکھنے والوں کے لیے قافلوں میں سفر کرنے کے اقدامات کررکھے ہیں۔
اُدھر قبائلی علاقے مہمندایجنسی کے علاقے پنڈیالی میں حکام نے سکیورٹی فورسز کی ایک فضائی کارروائی میں 30 جنگجوؤں کو ہلاک کرنے کا دعویٰ کیا ہے ۔ ہلاک ہونے والوں میں چار غیر ملکی اور تین اہم طالبان کمانڈر بتائے جاتے ہیں تاہم آزاد ذرائع سے کمانڈروں کی ہلاکت کی تصدیق نہیں ہو سکی ہے۔
ایک روز قبل اسی علاقے میں حکام نے سکیورٹی فورسز کی ایک چوکی پرعسکریت پسندوں کے حملوں کو پسپا کر کے 30 جنگجوؤں کو ہلاک کرنے کا دعویٰ کیا تھا۔
کوہاٹ کے کمشنر خالد خان نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ گاڑیوں کا ایک قافلہ ہنگو سے کرم ایجنسی کے علاقے پاراچنار سے جارہا تھا کہ ایک پیدل خودکش بمبار نے دو گاڑیوں کے درمیان خود کو جسم سے بندھے دھماکا خیز مواد سے اُڑا دیا ۔ عینی شاہدین کے مطابق گاڑیوں میں سوار مسافروں کا تعلق اقلیتی شعیہ برادری سے بتایا گیا ہے۔ خالد خان نے بتایا کہ درجنوں گاڑیوں پر مشتمل اس قافلے کی نگرانی پویس اور ایف سی اہلکارکررہے تھے۔
جس وقت یہ بم دھماکا کیا گیا قریب ہی ایک سکول میں چھٹی ہونے کے بعد بڑی تعداد میں بچے وہاں جمع تھے۔ عینی شاہدین نے بتایا کہ زخمیوں میں سکول کے طالب علم بھی شامل ہیں۔
کرم ایجنسی میں فرقہ ورانہ کشیدگی اور علاقے میں دہشت گردانہ واقعات کے باعث شیعہ مسلک سے تعلق رکھنے والوں کو اپنے قبائلی علاقے سے دیگر شہروں تک پہنچنے میں مشکلات کا سامنا رہا ہے اور اب حکام نے ان کے تحفظ کے اقدامات اُٹھاتے ہوئے شیعہ برادری سے تعلق رکھنے والوں کے لیے قافلوں میں سفر کرنے کے اقدامات کررکھے ہیں۔
اُدھر قبائلی علاقے مہمندایجنسی کے علاقے پنڈیالی میں حکام نے سکیورٹی فورسز کی ایک فضائی کارروائی میں 30 جنگجوؤں کو ہلاک کرنے کا دعویٰ کیا ہے ۔ ہلاک ہونے والوں میں چار غیر ملکی اور تین اہم طالبان کمانڈر بتائے جاتے ہیں تاہم آزاد ذرائع سے کمانڈروں کی ہلاکت کی تصدیق نہیں ہو سکی ہے۔
ایک روز قبل اسی علاقے میں حکام نے سکیورٹی فورسز کی ایک چوکی پرعسکریت پسندوں کے حملوں کو پسپا کر کے 30 جنگجوؤں کو ہلاک کرنے کا دعویٰ کیا تھا۔
Comment