وائس آف امریکہ سے انٹرویو میں اقلیتی رہنماء اور حکمران پیپلز پارٹی سے تعلق رکھنے والے وفاقی وزیر برائے اقلیتی امور شہباز بھٹی نے بتایا کہ توہین رسالت کے قانون میں ترمیم کے حوالے سے حکومت نے سیاسی جماعتوں،اسلامی سکالروں اور اقلیتی مذاہب کے نمائندوں سے مشاورت کا سلسلہ شروع کررکھا ہے لیکن انھوں نے یہ نہیں بتایا کہ مشاورت کا یہ عمل کب تک تکمیل پا جائے گا اور کب مذکورہ قانون میں تبدیلی لائی جائے گی۔
توہین رسالت کا قانون پاکستان میں ایک انتہائی حساس حیثیت رکھتا ہے اور اس کے تحت جرم ثابت ہونے والے کو سزائے موت دی جاسکتی ہے تاہم ابھی تک کسی مقدمے میں اس سزا پر عمل درآمد نہیں ہوا اور اکثر مقدمات ثبوت وشواہد کے فقدان کی بنا پر خارج بھی کردیے جاتے ہیں۔
آزاد خیال گروپوں اور انسانی حقوق کے کارکنوں کی طرف سے بھی توہین رسالت کے قانون میں ترمیم کے مطالبات سامنے آتے رہے ہیں کیونکہ ان کے مطابق یہ ایک امتیازی قانون جو غیر مسلموں کے خلاف انتقامی کارروائی کے علاوہ معاشرے میں تشدد اور عدم برداشت کا سبب بھی بن رہا ہے۔
تاہم مذہبی جماعتوں کی طرف سے کڑی مخالفت اور دباؤ کی وجہ سے ماضی کی حکومتیں ارادہ ظاہر کرنے کے باوجود بھی اس قانون میں کوئی تبدیلی نہیں لاسکیں۔
توہین رسالت کا قانون 1980ء کی دہائی میں اس وقت کے فوجی صدر جنرل ضیاء الحق کے دور میں نافذ کیا گیا تھا۔
مذہبی جماعتیں اس قانون میں کسی تبدیلی کے اس لیے مخالف ہیں کہ انھیں شبہ ہے کہ اس کے ذریعے مغرب کی حامی قوتیں پاکستان کے اسلامی تشخص کو نقصان پہنچانا چاہتی ہیں ملک کی تقریباً 17کروڑ آبادی میں اقلیتوں کا تناسب چار فیصد ہے جن میں اکثریت مسیحیوں کی ہے۔توہین رسالت کے الزامات کے باعث ماضی میں کئی فسادات ہوچکے ہیں جن میں مشتعل افراد کی طرف سے کئی غیر مسلموں کو مبینہ جرم کی پاداش میں ہلاک کیا گیا۔
جماعت اسلامی کے سینیٹر پروفیسر محمد ابراہیم کا کہنا ہے کہ توہین رسالت کے قانون کے نفاذ کے ضابطے میں اگر کوئی تبدیلی لانے کی تجویز پیش کی گئی تو وہ اُس کی حمایت کریں گے لیکن اس قانون کی توہین کا مرتکب ہونے والے کے لیے پہلے سے طے کردہ موت کی سزا میں تبدیلی کی بھرپور مزاحمت کی جائے گی۔توہین رسالت کا قانون پاکستان میں ایک انتہائی حساس حیثیت رکھتا ہے اور اس کے تحت جرم ثابت ہونے والے کو سزائے موت دی جاسکتی ہے تاہم ابھی تک کسی مقدمے میں اس سزا پر عمل درآمد نہیں ہوا اور اکثر مقدمات ثبوت وشواہد کے فقدان کی بنا پر خارج بھی کردیے جاتے ہیں۔
آزاد خیال گروپوں اور انسانی حقوق کے کارکنوں کی طرف سے بھی توہین رسالت کے قانون میں ترمیم کے مطالبات سامنے آتے رہے ہیں کیونکہ ان کے مطابق یہ ایک امتیازی قانون جو غیر مسلموں کے خلاف انتقامی کارروائی کے علاوہ معاشرے میں تشدد اور عدم برداشت کا سبب بھی بن رہا ہے۔
تاہم مذہبی جماعتوں کی طرف سے کڑی مخالفت اور دباؤ کی وجہ سے ماضی کی حکومتیں ارادہ ظاہر کرنے کے باوجود بھی اس قانون میں کوئی تبدیلی نہیں لاسکیں۔
توہین رسالت کا قانون 1980ء کی دہائی میں اس وقت کے فوجی صدر جنرل ضیاء الحق کے دور میں نافذ کیا گیا تھا۔
مذہبی جماعتیں اس قانون میں کسی تبدیلی کے اس لیے مخالف ہیں کہ انھیں شبہ ہے کہ اس کے ذریعے مغرب کی حامی قوتیں پاکستان کے اسلامی تشخص کو نقصان پہنچانا چاہتی ہیں ملک کی تقریباً 17کروڑ آبادی میں اقلیتوں کا تناسب چار فیصد ہے جن میں اکثریت مسیحیوں کی ہے۔توہین رسالت کے الزامات کے باعث ماضی میں کئی فسادات ہوچکے ہیں جن میں مشتعل افراد کی طرف سے کئی غیر مسلموں کو مبینہ جرم کی پاداش میں ہلاک کیا گیا۔
اُنھوں نے کہا کہ توہین رسالت کے مرتکب ہونے والے کے لیے موت کی سزا متعین ہے اور اس میں کسی بھی قسم کی تبدیلی کی تجویز کی ہر سطح پر مزاحمت کی جائے گی۔
Comment