پاکستان کے انڈس واٹرکمشنر جماعت علی شاہ اس استدلال سے متفق نہیں اور وائس آف امریکہ سے خصوصی انٹرویو میں انھوں نے کہا کہ دونوں ملکوں کے درمیان پانی کے تمام تر مسائل کا حل 1960ء کے سندھ طاس معاہدے میں موجود ہے بشرطیکہ اس کے قوائد و ضوابط پر پوری دیانتداری اور ذمے داری سے عمل کیا جائے۔
بشیر ملک کا کہنا ہے کہ موجودہ حالات میں پاکستان کو محض سندھ طاس معاہدے پر ہی اکتفا نہیں کرنا چاہیئے بلکہ اس سلسلے میں بھارت کو ایک سیاسی انتباہ کرتے ہوئے مسئلہ اقوام متحدہ میں لے کر جانا چاہیئے۔ ان کا کہنا ہے کہ پاکستان کو قبل از وقت موٴثر اقدامات اٹھانا ہوں گے کیوں کہ ہر سال ملکی آبادی میں 30لاکھ افراد کا اضافہ ہو رہا ہے جن کے لیے پانی کی دستیابی میں مسلسل کمی ہو رہی ہے اور یوں آئندہ سالوں کے دوران کروڑوں لوگوں کی زندگیاں خطرے میں پڑ سکتی ہیں۔
اپوزیشن جماعت مسلم لیگ (ق) سے تعلق رکھنے والی ممبر قومی اسمبلی ماروی میمن کے خیالات بھی مختلف نہیں ہیں اور ان کے بقول بھارت کی طرف سے سندھ طاس معاہدے کی شرائط سے مبینہ انحراف دونوں ملکوں کو ایک تصادم کی طر ف لے کر جا رہا ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ حکومت کو اپوزیشن کو ساتھ ملا کر بھارت کے ساتھ پانی کے تنازعات کو حل کرنے کے لیے ایک موٴثر اور متحرک لائحہ عمل وضع کرنا چاہیئے تاکہ آگے چل کر کسی بڑے نقصان سے بچا جا سکے۔
پاکستان کے انڈس واٹر کمشنر جماعت علی شاہ کا کہنا ہے کہ ان کا ادارہ بھارت کی طرف سے کی جانے والی مبینہ خلاف ورزیوں کے حوالے سے پوری طرح ہوش مند اور 1960ء کے سندھ طاس معاہدے کے دائرے میں رہ کر معاملات کو طے کر نے کے لیے پوری طرح سرگرم ہے۔
جماعت علی شاہ نے کہا کہ پاکستان کو بھارت کی طرف سے پانی کو بجلی کی پیداوار کے استعمال پر اعتراض نہیں لیکن اس کے بہاؤ کو روکنا یا اس کا رخ تبدیل کرنا سندھ طاس معاہدے کی خلاف ورزی ہے اور یہ معاملہ ابھی تک دونوں ملکوں کے کمیشن کی سطح پر حل نہیں ہو سکا ہے۔ایک سوال کے جواب میں انڈس واٹر کمیشنرکا کہنا تھا کہ تمام تراختلافات کے باوجود 1960ء کا سندھ طاس معاہدہ ہی وہ واحد طریقہ ہے جس سے دونوں ملک اپنے اپنے مسائل کو حل کر سکتے ہیں کیونکہ یہی وہ دستاویز ہے جو دو جنگوں کے باوجود بھی قائم رہا اور پانی کی تقسیم کے حوالے سے دونوں ملکوں کو آج بھی ایک ضابطہ کار فراہم کر رہا ہے۔
بشیر ملک کا کہنا ہے کہ موجودہ حالات میں پاکستان کو محض سندھ طاس معاہدے پر ہی اکتفا نہیں کرنا چاہیئے بلکہ اس سلسلے میں بھارت کو ایک سیاسی انتباہ کرتے ہوئے مسئلہ اقوام متحدہ میں لے کر جانا چاہیئے۔ ان کا کہنا ہے کہ پاکستان کو قبل از وقت موٴثر اقدامات اٹھانا ہوں گے کیوں کہ ہر سال ملکی آبادی میں 30لاکھ افراد کا اضافہ ہو رہا ہے جن کے لیے پانی کی دستیابی میں مسلسل کمی ہو رہی ہے اور یوں آئندہ سالوں کے دوران کروڑوں لوگوں کی زندگیاں خطرے میں پڑ سکتی ہیں۔
اپوزیشن جماعت مسلم لیگ (ق) سے تعلق رکھنے والی ممبر قومی اسمبلی ماروی میمن کے خیالات بھی مختلف نہیں ہیں اور ان کے بقول بھارت کی طرف سے سندھ طاس معاہدے کی شرائط سے مبینہ انحراف دونوں ملکوں کو ایک تصادم کی طر ف لے کر جا رہا ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ حکومت کو اپوزیشن کو ساتھ ملا کر بھارت کے ساتھ پانی کے تنازعات کو حل کرنے کے لیے ایک موٴثر اور متحرک لائحہ عمل وضع کرنا چاہیئے تاکہ آگے چل کر کسی بڑے نقصان سے بچا جا سکے۔
پاکستان کے انڈس واٹر کمشنر جماعت علی شاہ کا کہنا ہے کہ ان کا ادارہ بھارت کی طرف سے کی جانے والی مبینہ خلاف ورزیوں کے حوالے سے پوری طرح ہوش مند اور 1960ء کے سندھ طاس معاہدے کے دائرے میں رہ کر معاملات کو طے کر نے کے لیے پوری طرح سرگرم ہے۔
جماعت علی شاہ نے کہا کہ پاکستان کو بھارت کی طرف سے پانی کو بجلی کی پیداوار کے استعمال پر اعتراض نہیں لیکن اس کے بہاؤ کو روکنا یا اس کا رخ تبدیل کرنا سندھ طاس معاہدے کی خلاف ورزی ہے اور یہ معاملہ ابھی تک دونوں ملکوں کے کمیشن کی سطح پر حل نہیں ہو سکا ہے۔ایک سوال کے جواب میں انڈس واٹر کمیشنرکا کہنا تھا کہ تمام تراختلافات کے باوجود 1960ء کا سندھ طاس معاہدہ ہی وہ واحد طریقہ ہے جس سے دونوں ملک اپنے اپنے مسائل کو حل کر سکتے ہیں کیونکہ یہی وہ دستاویز ہے جو دو جنگوں کے باوجود بھی قائم رہا اور پانی کی تقسیم کے حوالے سے دونوں ملکوں کو آج بھی ایک ضابطہ کار فراہم کر رہا ہے۔
Comment