صدر آصف علی زرداری نے کہا ہے کہ موجودہ صورتحال میں پاک امریکہ مشترکہ مفادات اس بات کے متقاضی ہیں کہ قریبی دوطرفہ تعاون اور اعتماد کی سطح کو بڑھایا جائے ۔ یہ بات انھوں نے پیر کے روز امریکی کانگریس کے ایک نمائندہ وفد سے اسلام آبادمیں ملاقات کے دوران کہی۔
صدر زرداری نے اس موقع پر عالمی برادری خصوصاً ترقی یافتہ ممالک پر زور دیتے ہوئے کہا کہ وہ عسکریت پسندی کے خاتمے کے لیے پاکستان کے ساتھ سیاسی اور اقتصادی تعاون کریں تاکہ ان کا ملک عالمی اور علاقائی سطح پر درپیش مشکلات پر قابو پاکر اپنا مئوثر کردار ادا کرسکے۔
انھوں نے کہا کہ تاریخ اس بات کی گواہ ہے کہ پاکستان نے ہمیشہ عالمی امن کو درپیش خطرات کو کم کرنے اور آئندہ نسلوں کے بہتر مستقبل کے لیے بڑی بھاری قیمت ادا کی ہے۔ ان کے بقول بدقسمتی سے ماضی میں اس خطے کو تنہا چھوڑ دیا گیا تاہم انھوں نے اس توقع کا اظہار کیا کہ عالمی برادری یہ غلطی نہیں دہرائے گی۔
صدر زرداری نے کہا کہ پاکستان کو گذشتہ آٹھ سالوں میں دہشت گردی کے خلاف جنگ میں 35ارب ڈالر سے زائد کا نقصان ہوا جب کہ اس کی وجہ سے امن وامان کی صورتحال اور قیمتی جانوں کے ضیاع سے ملک کی سماجی اور اقتصادی حالت بھی خراب ہوئی ہے۔
امریکی وفد سے افغانستان کی موجودہ صورتحال کے بارے میں تبادلہ خیال کرتے ہوئے پاکستانی صدر نے کہا کہ ان کا ملک افغانستان اور عالمی برادری کے ساتھ مل کر وہاں امن واستحکام کی بحالی کے لیے اپنا کردار کرنے کے عزم پر قائم ہے۔
امریکی وفد میں سینیٹر میک کاسکل،سینیٹر جیف مرکلے،کانگریس مین بیرن ہل اور مائیکل ٹرنر شامل تھے جب کہ پاکستان میں امریکی سفیر این پیٹرسن بھی اس موقع پر موجود تھیں۔
صدر زرداری نے اس موقع پر پاکستان کے ساتھ شراکت میں امریکی قیادت کے تعاون کو سراہتے ہوئے اس بات پر زور دیا کہ امریکی انتظامیہ دونوں ملکوں کی عوام کے درمیان اعتماد کو ٹھیس پہنچانے والی مختلف پالیسیوں پر نظر ثانی کرے۔
سینیٹر میک کاسکل نے اس موقع پر دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستانی سکیورٹی فورسز کی کوششوں اور عوام کی قربانیوں کو سراہتے ہوئے کہا کہ دہشت گری کی لعنت سے چھٹکارے کے لیے امریکہ تعاون جاری رکھے گا۔
صدر زرداری نے اس موقع پر عالمی برادری خصوصاً ترقی یافتہ ممالک پر زور دیتے ہوئے کہا کہ وہ عسکریت پسندی کے خاتمے کے لیے پاکستان کے ساتھ سیاسی اور اقتصادی تعاون کریں تاکہ ان کا ملک عالمی اور علاقائی سطح پر درپیش مشکلات پر قابو پاکر اپنا مئوثر کردار ادا کرسکے۔
انھوں نے کہا کہ تاریخ اس بات کی گواہ ہے کہ پاکستان نے ہمیشہ عالمی امن کو درپیش خطرات کو کم کرنے اور آئندہ نسلوں کے بہتر مستقبل کے لیے بڑی بھاری قیمت ادا کی ہے۔ ان کے بقول بدقسمتی سے ماضی میں اس خطے کو تنہا چھوڑ دیا گیا تاہم انھوں نے اس توقع کا اظہار کیا کہ عالمی برادری یہ غلطی نہیں دہرائے گی۔
صدر زرداری نے کہا کہ پاکستان کو گذشتہ آٹھ سالوں میں دہشت گردی کے خلاف جنگ میں 35ارب ڈالر سے زائد کا نقصان ہوا جب کہ اس کی وجہ سے امن وامان کی صورتحال اور قیمتی جانوں کے ضیاع سے ملک کی سماجی اور اقتصادی حالت بھی خراب ہوئی ہے۔
امریکی وفد سے افغانستان کی موجودہ صورتحال کے بارے میں تبادلہ خیال کرتے ہوئے پاکستانی صدر نے کہا کہ ان کا ملک افغانستان اور عالمی برادری کے ساتھ مل کر وہاں امن واستحکام کی بحالی کے لیے اپنا کردار کرنے کے عزم پر قائم ہے۔
امریکی وفد میں سینیٹر میک کاسکل،سینیٹر جیف مرکلے،کانگریس مین بیرن ہل اور مائیکل ٹرنر شامل تھے جب کہ پاکستان میں امریکی سفیر این پیٹرسن بھی اس موقع پر موجود تھیں۔
صدر زرداری نے اس موقع پر پاکستان کے ساتھ شراکت میں امریکی قیادت کے تعاون کو سراہتے ہوئے اس بات پر زور دیا کہ امریکی انتظامیہ دونوں ملکوں کی عوام کے درمیان اعتماد کو ٹھیس پہنچانے والی مختلف پالیسیوں پر نظر ثانی کرے۔
سینیٹر میک کاسکل نے اس موقع پر دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستانی سکیورٹی فورسز کی کوششوں اور عوام کی قربانیوں کو سراہتے ہوئے کہا کہ دہشت گری کی لعنت سے چھٹکارے کے لیے امریکہ تعاون جاری رکھے گا۔
Comment