مغربی بنگال کے ضلع پرولیا کے دور افتادہ گاؤں کی رہنے والی 14سالہ بچی افسانہ خاتون نے بہادری اور جرات مندی کی نئی داستان رقم کی ہے۔ اس کی اس بہادری کا اعتراف نہ صرف مقامی انتظامیہ نے کیا ہے بلکہ قومی سطح پر اس کی جرات کا اعتراف کرتے ہوئے صدر جمہوریہ پرتیبھا دیوی سنگھ پاٹل نے یوم جمہوریہ کے موقع پر اسے بہادری کے اعزاز سے نوازا۔ اس سال جن 21 بچوں کو بہادری کے انعامات و اعزازات ملے ان میں افسانہ خاتون کا نام سر فہرست ہے۔
افسانہ خاتون نے کم عمر کی بچیوں کی شادی کے خلاف اپنے علاقے میں تحریک چلائی جہاں دس بارہ سال کی عمر ہی میں بچیوں کی شادی کر دی جاتی ہے۔ اسی فہرست میں افسانہ خاتون کا نام بھی شامل ہو گیا تھا، لیکن اس نے خاندان اور سماج سے بغاوت کرتے ہوئے اس شادی سے صاف انکار کر دیا اور تعلیم حاصل کرنے کی خواہش ظاہر کی۔ حالانکہ اس کے غریب والدین اس کے لیے تیار نہیں تھے لیکن جب اس نے علاقہ کی بچیوں کو بھی اس کام میں لگا لیا تو اس کے والدین نے بھی حامی بھر دی اور آج افسانہ خاتون پانچویں درجے کی طالبہ ہے۔
افسانہ کا کہنا ہے کہ بلوغت کی عمر 18سال سے قبل کسی بھی بچی کی شادی نہیں ہونی چاہیئے اور جس شادی میں تلک، جہیز کا مطالبہ کیا جائے اسے تو قطعی تسلیم نہیں کیا جا نا چاہیئے،بلکہ اس کے خلاف سماج کو اٹھ کھڑے ہونا چاہیئے۔ اس مقصد کے لیے افسانہ خاتون نے اپنے گاؤں میں نہ صرف باقاعدہ جلسے اور سیمنار کروائے بلکہ ایک سماجی ماحول بھی پید اکر دیا جس سے اس کی عمر کی بہت سی لڑکیاں وابستہ ہو گئی ہیں۔ اب تو اس نے دو درجن سے بھی زائد بچیوں کا ایک جتھا تیار کر لیا ہے جو اس کے دوش بدوش کھڑا ہوتا ہے۔
انعام لینے کے لیے نئی دہلی آئی ہوئی افسانہ خاتون نے نامہ نگاروں سے بات کرتے ہوئے کہا کہ بلوغت کی عمر تک پہنچنے سے قبل کسی بھی بچی کی شادی نہیں ہونی چاہیئے اور اس نے اس بات کا عزم کیا ہے کہ وہ اپنے علاقے کی بچیوں کو ان کے اپنے پیروں پر کھڑا کرے گی۔ اس کے مطالبے کو تسلیم کرتے ہوئے انتظامیہ نے اس دور افتادہ گاؤں میں ایک اسکول بھی کھول دیا ہے۔
افسانہ خاتون کی جرات مندی کی کہانی یہیں پر ختم نہیں ہو تی اس نے اپنا عزم دہراتے ہوئے کہا ہے کہ اگر تلک جہیز لے کر شادیاں کروائی جاتی ہیں تو وہ باقاعدہ اس طرح کی شادیوں کے خلاف تحریک چلائے گی اور سماج کے بڑے طبقے کی اسے حمایت حاصل ہو گی کیونکہ اب سماج بیدار ہو رہا ہے ۔
افسانہ خاتون نے کم عمر کی بچیوں کی شادی کے خلاف اپنے علاقے میں تحریک چلائی جہاں دس بارہ سال کی عمر ہی میں بچیوں کی شادی کر دی جاتی ہے۔ اسی فہرست میں افسانہ خاتون کا نام بھی شامل ہو گیا تھا، لیکن اس نے خاندان اور سماج سے بغاوت کرتے ہوئے اس شادی سے صاف انکار کر دیا اور تعلیم حاصل کرنے کی خواہش ظاہر کی۔ حالانکہ اس کے غریب والدین اس کے لیے تیار نہیں تھے لیکن جب اس نے علاقہ کی بچیوں کو بھی اس کام میں لگا لیا تو اس کے والدین نے بھی حامی بھر دی اور آج افسانہ خاتون پانچویں درجے کی طالبہ ہے۔
افسانہ کا کہنا ہے کہ بلوغت کی عمر 18سال سے قبل کسی بھی بچی کی شادی نہیں ہونی چاہیئے اور جس شادی میں تلک، جہیز کا مطالبہ کیا جائے اسے تو قطعی تسلیم نہیں کیا جا نا چاہیئے،بلکہ اس کے خلاف سماج کو اٹھ کھڑے ہونا چاہیئے۔ اس مقصد کے لیے افسانہ خاتون نے اپنے گاؤں میں نہ صرف باقاعدہ جلسے اور سیمنار کروائے بلکہ ایک سماجی ماحول بھی پید اکر دیا جس سے اس کی عمر کی بہت سی لڑکیاں وابستہ ہو گئی ہیں۔ اب تو اس نے دو درجن سے بھی زائد بچیوں کا ایک جتھا تیار کر لیا ہے جو اس کے دوش بدوش کھڑا ہوتا ہے۔
انعام لینے کے لیے نئی دہلی آئی ہوئی افسانہ خاتون نے نامہ نگاروں سے بات کرتے ہوئے کہا کہ بلوغت کی عمر تک پہنچنے سے قبل کسی بھی بچی کی شادی نہیں ہونی چاہیئے اور اس نے اس بات کا عزم کیا ہے کہ وہ اپنے علاقے کی بچیوں کو ان کے اپنے پیروں پر کھڑا کرے گی۔ اس کے مطالبے کو تسلیم کرتے ہوئے انتظامیہ نے اس دور افتادہ گاؤں میں ایک اسکول بھی کھول دیا ہے۔
افسانہ خاتون کی جرات مندی کی کہانی یہیں پر ختم نہیں ہو تی اس نے اپنا عزم دہراتے ہوئے کہا ہے کہ اگر تلک جہیز لے کر شادیاں کروائی جاتی ہیں تو وہ باقاعدہ اس طرح کی شادیوں کے خلاف تحریک چلائے گی اور سماج کے بڑے طبقے کی اسے حمایت حاصل ہو گی کیونکہ اب سماج بیدار ہو رہا ہے ۔
Comment