سعودی عرب میں خواتین سے اپیل کی گئی ہے کہ وہ زیرجاموں کی ان دکانوں کا بائیکاٹ کر دیں جہاں دکاندار مرد ہیں۔
یہ مہم چلانے والوں کا کہنا ہے کہ یہ ایک تضاد ہے کہ سعودی عرب جیسے انتہائی قدامت پسند اسلامی ملک میں خواتین کو اپنے زیرجاموں کا ناپ ایسے مردوں کو بتانا پڑتا ہے جنہیں وہ جانتی تک نہیں ہیں۔
اشتہار میں یہ امید بھی ظاہر کی گئی ہے کہ اس بائیکاٹ مہم میں کم از کم چالیس ہزار خواتین حصہ لیں گی۔
خیال رہے کہ سعودی وزارتِ محنت سنہ 2005 میں یہ حکم جاری کر چکی ہے کہ خواتین کے زیرجاموں کی دکانوں میں خواتین کو ہی دکاندار ہونا چاہیے لیکن تاحال اس حکم پر عملدرآمد نہیں ہو سکا ہے اور ایسی دکانوں کے مالکان کا کہنا ہے کہ ایسا کرنا لازمی نہیں بلکہ یہ ان کی اپنی مرضی پر منحصر ہے۔
سعودی عرب کے اسلامی مفکرین کا کہنا ہے کہ وہ اس مقاطعے کی حمایت کرتے ہیں جبکہ سعودی مذہبی پولیس نے کہا ہے کہ وہ اس صورت میں خواتین دکانداروں کے خلاف نہیں کہ اگر وہ صرف ایسے بازاروں میں کام کریں جہاں صرف عورتوں کو آنے کی اجازت ہو۔
یہ مہم چلانے والوں کا کہنا ہے کہ یہ ایک تضاد ہے کہ سعودی عرب جیسے انتہائی قدامت پسند اسلامی ملک میں خواتین کو اپنے زیرجاموں کا ناپ ایسے مردوں کو بتانا پڑتا ہے جنہیں وہ جانتی تک نہیں ہیں۔
اشتہار میں یہ امید بھی ظاہر کی گئی ہے کہ اس بائیکاٹ مہم میں کم از کم چالیس ہزار خواتین حصہ لیں گی۔
خیال رہے کہ سعودی وزارتِ محنت سنہ 2005 میں یہ حکم جاری کر چکی ہے کہ خواتین کے زیرجاموں کی دکانوں میں خواتین کو ہی دکاندار ہونا چاہیے لیکن تاحال اس حکم پر عملدرآمد نہیں ہو سکا ہے اور ایسی دکانوں کے مالکان کا کہنا ہے کہ ایسا کرنا لازمی نہیں بلکہ یہ ان کی اپنی مرضی پر منحصر ہے۔
سعودی عرب کے اسلامی مفکرین کا کہنا ہے کہ وہ اس مقاطعے کی حمایت کرتے ہیں جبکہ سعودی مذہبی پولیس نے کہا ہے کہ وہ اس صورت میں خواتین دکانداروں کے خلاف نہیں کہ اگر وہ صرف ایسے بازاروں میں کام کریں جہاں صرف عورتوں کو آنے کی اجازت ہو۔
Comment