ہفتے کی شام ہنگامی طور پر تشکیل دیے گئے عدالت عظمیٰ کے ایک تین رکنی خصوصی بنچ نے لاہور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس خواجہ محمد شریف کو سپریم کور ٹ کا جج بنانے اور ان کی جگہ جسٹس ثاقب نثار کو قائم مقام صوبائی چیف جسٹس مقرر کرنے کے صدارتی حکم نامے کو کالعدم قرار دے کر معطل کر نے کا فیصلہ جاری کیا ہے۔ عدالت نے اپنے فیصلے میں دونوں ججوں کو حلف لینے سے روکنے کا حکم بھی دیا ہے اور کیس کی مزید سماعت 18 فروری تک ملتوی کر دی ہے۔
یہ امر قابلِ ذکر ہے کہ اپنے آئینی اختیارات استعمال کرتے ہوئے چیف جسٹس افتخار محمد چودھری نے صدر آصف علی زرداری کو کچھ عرصے قبل یہ سفارش بھیجی تھی کہ لاہور ہائی کورٹ کے جسٹس ثاقب نثار کو ترقی دے کر عدالت عظمیٰ میں تعینات کر دیا جائے۔
لیکن ہفتے کی شام وفاقی وزارت قانون کی طرف سے جاری کیے گئے ایک نوٹی فیکیشن میں چیف جسٹس کی سفارش کے برعکس جسٹس ثاقب نثار کو لاہور ہائی کورٹ کا قائم مقام چیف جسٹس بنا کر موجودہ چیف جسٹس خواجہ محمد شریف کو سپریم کورٹ کا جج بنانے کا اعلان کر دیا گیا۔
اس سرکاری اعلان کے چند گھنٹوں بعد ہی از خود نوٹس لیتے ہوئے عدالت عظمیٰ کے چیف جسٹس افتخار محمد چودھری نے جسٹس شاکر اللہ جان کی سربراہی میں ایک خصوصی تین رکن بنچ تشکیل دیا جس نے ایک مختصر فیصلے میں سپریم کورٹ کy جج کو چیف جسٹس کی مشاورت کے بغیر تقرر کرنے کے اقدام کو خلاف آئین قرار دے دیا۔
خیال رہے کہ چیف جسٹس افتخار چودھری کی سفارش پر عمل درآمد میں تاخیر کے خلاف سپریم کورٹ میں دائر ایک درخواست پر ایک روز قبل سماعت کرتے ہوئے عدالت نے حکم جاری کیا تھا کہ وفاق اور دیگر فریقین 18 فروری کو ججوں کی تعیناتی میں تاخیر کی عدالت عظمیٰ کے سامنے وضاحت پیش کریں۔
آئینی ماہرین کا کہنا ہے کہ سپریم کورٹ میں ججوں کی تعیناتی میں چیف جسٹس آف پاکستان کی مشاورت لازمی ہے۔ لیکن حکومت کا مؤقف ہے کہ سپریم کورٹ میں ججوں کی تعیناتی کا فیصلہ صدر زرداری نے اعلیٰ عدلیہ کے اپنے ہی ایک فیصلے کو سامنے رکھ کر کیا ہے جس میں سب سے سینئر ترین جج کو سپریم کورٹ میں تعینات کیا جاتا ہے اس لیے لاہور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس خواجہ محمد شریف کو سپریم کورٹ کا جج تعینات کیا گیا ہے۔
یہ امر قابلِ ذکر ہے کہ اپنے آئینی اختیارات استعمال کرتے ہوئے چیف جسٹس افتخار محمد چودھری نے صدر آصف علی زرداری کو کچھ عرصے قبل یہ سفارش بھیجی تھی کہ لاہور ہائی کورٹ کے جسٹس ثاقب نثار کو ترقی دے کر عدالت عظمیٰ میں تعینات کر دیا جائے۔
لیکن ہفتے کی شام وفاقی وزارت قانون کی طرف سے جاری کیے گئے ایک نوٹی فیکیشن میں چیف جسٹس کی سفارش کے برعکس جسٹس ثاقب نثار کو لاہور ہائی کورٹ کا قائم مقام چیف جسٹس بنا کر موجودہ چیف جسٹس خواجہ محمد شریف کو سپریم کورٹ کا جج بنانے کا اعلان کر دیا گیا۔
اس سرکاری اعلان کے چند گھنٹوں بعد ہی از خود نوٹس لیتے ہوئے عدالت عظمیٰ کے چیف جسٹس افتخار محمد چودھری نے جسٹس شاکر اللہ جان کی سربراہی میں ایک خصوصی تین رکن بنچ تشکیل دیا جس نے ایک مختصر فیصلے میں سپریم کورٹ کy جج کو چیف جسٹس کی مشاورت کے بغیر تقرر کرنے کے اقدام کو خلاف آئین قرار دے دیا۔
خیال رہے کہ چیف جسٹس افتخار چودھری کی سفارش پر عمل درآمد میں تاخیر کے خلاف سپریم کورٹ میں دائر ایک درخواست پر ایک روز قبل سماعت کرتے ہوئے عدالت نے حکم جاری کیا تھا کہ وفاق اور دیگر فریقین 18 فروری کو ججوں کی تعیناتی میں تاخیر کی عدالت عظمیٰ کے سامنے وضاحت پیش کریں۔
آئینی ماہرین کا کہنا ہے کہ سپریم کورٹ میں ججوں کی تعیناتی میں چیف جسٹس آف پاکستان کی مشاورت لازمی ہے۔ لیکن حکومت کا مؤقف ہے کہ سپریم کورٹ میں ججوں کی تعیناتی کا فیصلہ صدر زرداری نے اعلیٰ عدلیہ کے اپنے ہی ایک فیصلے کو سامنے رکھ کر کیا ہے جس میں سب سے سینئر ترین جج کو سپریم کورٹ میں تعینات کیا جاتا ہے اس لیے لاہور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس خواجہ محمد شریف کو سپریم کورٹ کا جج تعینات کیا گیا ہے۔
Comment