گلگت بلتستان کے ایک دوردراز گاؤں عطا آباد میں ایک روز قبل زمین کھسکنے کے واقعہ میں ہلاک ہونے والوں کی تعدا د 15 ہوگئی ہے جن میں خواتین اوربچے بھی شامل ہیں۔ حال ہی میں ضلع کا درجہ حاصل کرنے والے ہنزہ نگر سے مقامی قانون ساز اسمبلی کے رکن محمد علی اختر نے وائس آف امریکہ کو بتایا ہے کہ حادثے کے فوراً بعد آٹھ لاشیں مل گئی تھیں جب کہ مزید سات افراد کی لاشیں امدادی کارکن رات دیر گئے ملبے تلے سے نکالنے میں کامیاب ہو گئے۔
اُنھوں نے بتایا کہ کم از کم سات افراد اب بھی لاپتہ ہیں جن کی تلاش کے لیے امدادی سرگرمیاں جاری ہیں اور اس عمل میں فوجی اہلکار بھی مقامی انتظامیہ کی مدد کر رہے ہیں۔ تاہم محمد علی اختر کا ماننا ہے کہ اتنا وقت گزر جانے کے بعد ملبے تلے دبے افراد میں سے کسی کے زندہ بچ جانے کے امکانات نہ ہونے کے برابر ہیں۔
مقامی لوگوں نے بتایا ہے کہ عطا آباد میں زمین سرکنے سے 20 گھر تباہ ہو گئے تھے اور علاقے میں موجود اسماعیلی فرقے کی ایک عبادت گاہ بھی، جسے جماعت خانہ کہتے ہیں، ملبے تلے دب گئی۔ اس علاقے میں پہلے بھی تودے گرنے اور زمین کھسکنے کے معمولی نوعیت کے واقعات پیش آتے رہے ہیں تاہم مقامی رہائیشیوں کے مطابق اتنے بڑے پیمانے پرہلاکتیں اور تباہی پہلی مرتبہ ہوئی ہے۔
مقامی عہدیداروں کے مطابق زمین کھسکنے سے پاکستان اور چین کو ملانے والی شاہراہ قراقرم کے علاوہ دریائے ہنزہ بھی بند ہو گیا ہے جس سے نشیبی علاقوں میں دریا کا پانی داخل ہونے سے وہاں کی آبادی کو بھی خطرات لاحق ہو گئے ہیں۔
اُنھوں نے بتایا کہ کم از کم سات افراد اب بھی لاپتہ ہیں جن کی تلاش کے لیے امدادی سرگرمیاں جاری ہیں اور اس عمل میں فوجی اہلکار بھی مقامی انتظامیہ کی مدد کر رہے ہیں۔ تاہم محمد علی اختر کا ماننا ہے کہ اتنا وقت گزر جانے کے بعد ملبے تلے دبے افراد میں سے کسی کے زندہ بچ جانے کے امکانات نہ ہونے کے برابر ہیں۔
مقامی لوگوں نے بتایا ہے کہ عطا آباد میں زمین سرکنے سے 20 گھر تباہ ہو گئے تھے اور علاقے میں موجود اسماعیلی فرقے کی ایک عبادت گاہ بھی، جسے جماعت خانہ کہتے ہیں، ملبے تلے دب گئی۔ اس علاقے میں پہلے بھی تودے گرنے اور زمین کھسکنے کے معمولی نوعیت کے واقعات پیش آتے رہے ہیں تاہم مقامی رہائیشیوں کے مطابق اتنے بڑے پیمانے پرہلاکتیں اور تباہی پہلی مرتبہ ہوئی ہے۔
مقامی عہدیداروں کے مطابق زمین کھسکنے سے پاکستان اور چین کو ملانے والی شاہراہ قراقرم کے علاوہ دریائے ہنزہ بھی بند ہو گیا ہے جس سے نشیبی علاقوں میں دریا کا پانی داخل ہونے سے وہاں کی آبادی کو بھی خطرات لاحق ہو گئے ہیں۔
Comment