پاکستانی اور امریکی حکام کا کہنا ہے کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں دونوں ملکوں کی افواج کے درمیان اعتماد کا فقدان کم ہوا ہے جب کہ دہشت گردی کے خطرے کو شکست دینے کے لیے ضروری ہے کہ افواج باہمی تعاون کی سطح کو مزید بڑھائیں۔
پاکستان کے دورے پر آنے والے امریکی کمانڈر جنرل سٹینلی میکرسٹل کے مقامی اخبارات میں شائع شدہ بیانا ت کے مطابق پاکستانی افواج عسکریت پسندوں کے خلاف لڑائی میں قابل ستائش کردار ادا کررہی ہیں اور ان کے عزم پر کسی شک وشبے کی گنجائش نہیں ہے۔
افغانستان میں امریکی اور اتحادی فوج کے کمانڈر کے اس دورے کے بارے میں کراچی میں ایک نیوز کانفرنس کے دوران وزیرخارجہ شاہ محمود قریشی نے کہا کہ جنرل میکرسٹل کا بیان اس بات کی غمازی کرتا ہے کہ امریکہ اب پہلے کی طرح پاکستان سے محض کارروائیاں تیز کرنے ہی کے مطالبے نہیں کررہا بلکہ اس کی ضروریات کا پورا پورا احساس کرتے ہوئے ملک کی تمام ممکن مدد کے لیے بھی تیار ہے۔
وزیر خارجہ کے بقول واشنگٹن دہشت گردی کے خلاف جنگ میں اسلام آبادکے مئوقف کو پہلے سے بہتر طور پر سمجھتے ہوئے اپنے قریبی اتحادی کے ساتھ ایک طویل المعیاداور دیرپا پارٹنر شپ قائم رکھنے کا خواہاں ہے۔
ایک سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ پاکستانی حکام افغانستان کے حوالے سے امریکی صدر کی نئی حکمت عملی کا جائزہ لے رہے ہیں اور اس ضمن میں آٹھ تاریخ کو ایک اہم اجلاس بھی منعقد ہورہا ہے جس میں ملک کے لیے اس حکمت عملی کے منفی یا مثبت نتائج کو مدنظر رکھ کر پالیسی وضع کی جائے گی۔وزیر خارجہ نے بتایا کہ بین الاوزارتی سطح پر منعقد ہونے والے اس اجلاس میں ملک کے سکیورٹی اداروں کے نمائندگان بھی شرکت کریں گے۔
خیال رہے کہ صدر اوباما کی نئی حکمت عملی کے تحت افغانستان میں مزید 30ہزار امریکی فوجیوں کی تعیناتی پر پاکستان تشویش کا اظہار کرتا آیا ہے کہ کیونکہ اسے خدشہ ہے کہ اس اقدام سے مزید عسکریت پسند سرحد عبور کرکے پاکستانی علاقوں میں داخل ہوں گے۔
پاکستان کے دورے پر آنے والے امریکی کمانڈر جنرل سٹینلی میکرسٹل کے مقامی اخبارات میں شائع شدہ بیانا ت کے مطابق پاکستانی افواج عسکریت پسندوں کے خلاف لڑائی میں قابل ستائش کردار ادا کررہی ہیں اور ان کے عزم پر کسی شک وشبے کی گنجائش نہیں ہے۔
افغانستان میں امریکی اور اتحادی فوج کے کمانڈر کے اس دورے کے بارے میں کراچی میں ایک نیوز کانفرنس کے دوران وزیرخارجہ شاہ محمود قریشی نے کہا کہ جنرل میکرسٹل کا بیان اس بات کی غمازی کرتا ہے کہ امریکہ اب پہلے کی طرح پاکستان سے محض کارروائیاں تیز کرنے ہی کے مطالبے نہیں کررہا بلکہ اس کی ضروریات کا پورا پورا احساس کرتے ہوئے ملک کی تمام ممکن مدد کے لیے بھی تیار ہے۔
وزیر خارجہ کے بقول واشنگٹن دہشت گردی کے خلاف جنگ میں اسلام آبادکے مئوقف کو پہلے سے بہتر طور پر سمجھتے ہوئے اپنے قریبی اتحادی کے ساتھ ایک طویل المعیاداور دیرپا پارٹنر شپ قائم رکھنے کا خواہاں ہے۔
ایک سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ پاکستانی حکام افغانستان کے حوالے سے امریکی صدر کی نئی حکمت عملی کا جائزہ لے رہے ہیں اور اس ضمن میں آٹھ تاریخ کو ایک اہم اجلاس بھی منعقد ہورہا ہے جس میں ملک کے لیے اس حکمت عملی کے منفی یا مثبت نتائج کو مدنظر رکھ کر پالیسی وضع کی جائے گی۔وزیر خارجہ نے بتایا کہ بین الاوزارتی سطح پر منعقد ہونے والے اس اجلاس میں ملک کے سکیورٹی اداروں کے نمائندگان بھی شرکت کریں گے۔
خیال رہے کہ صدر اوباما کی نئی حکمت عملی کے تحت افغانستان میں مزید 30ہزار امریکی فوجیوں کی تعیناتی پر پاکستان تشویش کا اظہار کرتا آیا ہے کہ کیونکہ اسے خدشہ ہے کہ اس اقدام سے مزید عسکریت پسند سرحد عبور کرکے پاکستانی علاقوں میں داخل ہوں گے۔
Comment