منگل کو عدالت عظمیٰ میں سٹیٹ بینک آف پاکستان نے ان 19ہزار افراد اور تنظیموں کی فہرست چیف جسٹس افتخارمحمد چوہدری کی سربراہی میں تین رکنی بنچ کے سامنے پیش کی جنہوں نے 1997ء سے 2009ء کے دوران بینکوں سے قرضے لیے جنہیں بعد میں معاف کردیا گیا۔ ان قرضوں کی مجموعی مالیت اصل بمع سود 193ارب روپے ہے۔
واضح رہے کہ سپریم کورٹ نے 2007ء کے اواخر میں از خود نوٹس لیتے ہوئے بینکوں اور مالیاتی اداروں سے قرضے معاف کرانے کے اس متنازع قانون کی وضاحت سٹیٹ بینک آف پاکستان سے طلب کی تھی لیکن اسی سال سابق صدر پرویز مشرف کی طرف سے ایمرجنسی لگا کر ججوں کو برطرف کرنے کے بعد اس مقدمے کی مزید سماعت نہ ہوسکی۔ اب عدالت عظمیٰ نے ایک بار پھر اس مقدمے کی کارروائی شروع کی ہے اور منگل کو ہونے والی سماعت میں سٹیٹ بینک کے وکیل نے عدالت کے حکم پر قرض معاف کرانے والوں کی فہرست پیش کی۔عدالت میں پیش کی گئی فہرست ان افراد پر مشتمل ہے جن کے ذمے کم سے کم پانچ لاکھ یا اس سے زائد رقم واجب الادا تھی۔
سٹیٹ بینک کے وکیل نے عدالت عظمیٰ کو بتایا کہ 1971ء سے 1997ء تک معاف کیے جانے والے قرضوں کی فہرست بھی تیار کی جارہی ہے۔ سپریم کورٹ کی ہدایت پر انھوں نے وعدہ کیا کہ دو فروری کو دوبارہ سماعت کے موقع پر عدالت کے سامنے ان 19ہزار افراد کے ناموں کی تفصیلات بھی پیش کی جائیں گی جنہوں نے پچھلی ایک دہائی کے دوران قرض معاف کرائے۔
عدالتی کارروائی کے بارے میں عدالتی معاون بیرسٹر عبدالحفیظ پیرزادہ نے صحافیوں کو بتایا کہ چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری نے سماعت کے دوران کہا کہ جس طرح بینک قرض دیتے اور انہیں معاف کرتے ہیں وہ امتیازی قانون ہے اور فہرست کا جائزہ لینے کے بعد جن لوگوں نے قرضے معاف کرائے ان سے رقوم واپس لی جائیں۔
بیرسٹر پیرزادہ نے کہا کہ جب انھوں نے عدالت کو بتایا کہ اس پر بینکوں اور مالیاتی اداروں کی طرف سے مزاحمت درپیش ہوسکتی ہے تو جج صاحبان کا کہنا تھا کہ وہ اس کا مقابلہ کرنے کو تیار ہیں۔
گزشتہ ہفتے متنازع قومی مصالحتی آرڈیننس کو سپریم کورٹ نے کالعدم قرار دینے کے بعد اس قانون کے تحت فائدہ اٹھانے والے آٹھ ہزار سے زائد افراد کے خلاف بدعنوانی اور فوجداری کے مقدمات دوبارہ بحال کردیے تھے ۔ ملک کی اعلیٰ عدلیہ کے اس فیصلے کو خاصی پذیرائی ملنے کے ساتھ ساتھ ان مطالبات میں بھی تیزی آگئی ہے کہ سیاسی اثرورسوخ استعمال کرکے قرضے معاف کرانے والوں کے ناموں سے بھی قوم کو آگاہ کیا جائے۔
واضح رہے کہ سپریم کورٹ نے 2007ء کے اواخر میں از خود نوٹس لیتے ہوئے بینکوں اور مالیاتی اداروں سے قرضے معاف کرانے کے اس متنازع قانون کی وضاحت سٹیٹ بینک آف پاکستان سے طلب کی تھی لیکن اسی سال سابق صدر پرویز مشرف کی طرف سے ایمرجنسی لگا کر ججوں کو برطرف کرنے کے بعد اس مقدمے کی مزید سماعت نہ ہوسکی۔ اب عدالت عظمیٰ نے ایک بار پھر اس مقدمے کی کارروائی شروع کی ہے اور منگل کو ہونے والی سماعت میں سٹیٹ بینک کے وکیل نے عدالت کے حکم پر قرض معاف کرانے والوں کی فہرست پیش کی۔عدالت میں پیش کی گئی فہرست ان افراد پر مشتمل ہے جن کے ذمے کم سے کم پانچ لاکھ یا اس سے زائد رقم واجب الادا تھی۔
سٹیٹ بینک کے وکیل نے عدالت عظمیٰ کو بتایا کہ 1971ء سے 1997ء تک معاف کیے جانے والے قرضوں کی فہرست بھی تیار کی جارہی ہے۔ سپریم کورٹ کی ہدایت پر انھوں نے وعدہ کیا کہ دو فروری کو دوبارہ سماعت کے موقع پر عدالت کے سامنے ان 19ہزار افراد کے ناموں کی تفصیلات بھی پیش کی جائیں گی جنہوں نے پچھلی ایک دہائی کے دوران قرض معاف کرائے۔
عدالتی کارروائی کے بارے میں عدالتی معاون بیرسٹر عبدالحفیظ پیرزادہ نے صحافیوں کو بتایا کہ چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری نے سماعت کے دوران کہا کہ جس طرح بینک قرض دیتے اور انہیں معاف کرتے ہیں وہ امتیازی قانون ہے اور فہرست کا جائزہ لینے کے بعد جن لوگوں نے قرضے معاف کرائے ان سے رقوم واپس لی جائیں۔
بیرسٹر پیرزادہ نے کہا کہ جب انھوں نے عدالت کو بتایا کہ اس پر بینکوں اور مالیاتی اداروں کی طرف سے مزاحمت درپیش ہوسکتی ہے تو جج صاحبان کا کہنا تھا کہ وہ اس کا مقابلہ کرنے کو تیار ہیں۔
گزشتہ ہفتے متنازع قومی مصالحتی آرڈیننس کو سپریم کورٹ نے کالعدم قرار دینے کے بعد اس قانون کے تحت فائدہ اٹھانے والے آٹھ ہزار سے زائد افراد کے خلاف بدعنوانی اور فوجداری کے مقدمات دوبارہ بحال کردیے تھے ۔ ملک کی اعلیٰ عدلیہ کے اس فیصلے کو خاصی پذیرائی ملنے کے ساتھ ساتھ ان مطالبات میں بھی تیزی آگئی ہے کہ سیاسی اثرورسوخ استعمال کرکے قرضے معاف کرانے والوں کے ناموں سے بھی قوم کو آگاہ کیا جائے۔
Comment