چیف جسٹس افتخار محمد چودھری کی سربراہی میں عدالت عظمیٰ کے17رکنی بنچ نے بدھ کی شب اپنے مختصر فیصلے میں متنازع قومی مصالحتی آرڈینس یا این آر او کو منسوخ کرنے کا حکم جاری کرتے ہوئے کہا کہ یہ قانون ملک کے آئین سے متصادم ہے اس لیے اس کا کبھی وجود ہی نہیں تھا۔
یہ فیصلہ چیف جسٹس نے پڑھ کر سنایا جس کے بعد سابق صدر پرویز مشرف کے دور اقتدار میں جار ی ہونے والے اس صدارتی حکم نامے کے تحت آٹھ ہزار سے زائد افراد کے خلاف بدعنوانی ، فوجداری سمیت وہ تما م مقدمات بحال ہو گئے ہیں جنہیں ختم کردیا گیاتھا۔ عدالت نے اپنے فیصلے میں ماتحت عدالتوں کو حکم دیا ہے کہ جن لوگوں کے خلاف مقدمات بحال ہوگئے ہیں انھیں قانونی نوٹس جاری کیے جائیں۔
عدالت عظمیٰ نے صدر زرداری کے سوئیٹزرلینڈ میں مبینہ بینکوں کے کھاتوں سے متعلق مقدمات بحال کرنے کی ہدایت کرتے ہوئے حکومت کو یہ حکم بھی دیا ہے کہ ان کھاتوں کے خلاف تحقیقات بند کرانے کے لیے سوئس حکام کو خط لکھنے کی پاداش میں سابق اٹارنی جنرل ملک قیوم کے خلاف کارروائی کی جائے۔
این آر او کا فائدہ اٹھانے والوں میں صدر آصف علی زرداری اور پیپلز پارٹی کی موجودہ حکومت کی کئی وزرا بھی شامل ہیں۔ ایوان صدر کے ترجمان فرحت اللہ بابر نے عدالت کے باہر صحافیوں سے باتیں کرتے ہوئے اپنے فوری ردِعمل میں کہا کہ صدر زرداری اور پیپلز پارٹی عدالتوں کا احترام کرتے ہیں تاہم سپریم کورٹ کا تفصیلی فیصلہ سامنے آنے کے بعد ہی اندرونی مشاورت کر کے پارٹی حتمی بیان جاری کرے گی۔
ا نھوں نے اس تاثر کو رد کیا کہ عدلیہ کے فیصلے سے صدر زرداری کے لیے مشکلات پیدا ہو گئی ہیں ۔ ترجمان نے کہا کہ صدر زرداری کے مستعفی ہونے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا کیونکہ آئین پاکستان عہدہ صدارت پر اپنی مدت کے دوران صدر مملکت کوہر طرح کی عدالتی کارروائی کے خلاف تحفظ فراہم کرتا ہے۔
ایک درخواست گذار ڈاکٹر مبشر حسن اور ان کے وکیل عبد الحفیظ پیرزادہ نے سپریم کورٹ کے فیصلے کو تاریخی قرار دیتے ہوئے کہا کہ نا صرف اس سے عدلیہ پر لوگوں کا اعتماد بحال ہوگا بلکہ یہ تنقید بھی دم توڑ دے گی کہ پاکستان میں بدعنوانی کو روکنے کے لیے کوئی قانون نہیں۔
یہ فیصلہ چیف جسٹس نے پڑھ کر سنایا جس کے بعد سابق صدر پرویز مشرف کے دور اقتدار میں جار ی ہونے والے اس صدارتی حکم نامے کے تحت آٹھ ہزار سے زائد افراد کے خلاف بدعنوانی ، فوجداری سمیت وہ تما م مقدمات بحال ہو گئے ہیں جنہیں ختم کردیا گیاتھا۔ عدالت نے اپنے فیصلے میں ماتحت عدالتوں کو حکم دیا ہے کہ جن لوگوں کے خلاف مقدمات بحال ہوگئے ہیں انھیں قانونی نوٹس جاری کیے جائیں۔
عدالت عظمیٰ نے صدر زرداری کے سوئیٹزرلینڈ میں مبینہ بینکوں کے کھاتوں سے متعلق مقدمات بحال کرنے کی ہدایت کرتے ہوئے حکومت کو یہ حکم بھی دیا ہے کہ ان کھاتوں کے خلاف تحقیقات بند کرانے کے لیے سوئس حکام کو خط لکھنے کی پاداش میں سابق اٹارنی جنرل ملک قیوم کے خلاف کارروائی کی جائے۔
این آر او کا فائدہ اٹھانے والوں میں صدر آصف علی زرداری اور پیپلز پارٹی کی موجودہ حکومت کی کئی وزرا بھی شامل ہیں۔ ایوان صدر کے ترجمان فرحت اللہ بابر نے عدالت کے باہر صحافیوں سے باتیں کرتے ہوئے اپنے فوری ردِعمل میں کہا کہ صدر زرداری اور پیپلز پارٹی عدالتوں کا احترام کرتے ہیں تاہم سپریم کورٹ کا تفصیلی فیصلہ سامنے آنے کے بعد ہی اندرونی مشاورت کر کے پارٹی حتمی بیان جاری کرے گی۔
ا نھوں نے اس تاثر کو رد کیا کہ عدلیہ کے فیصلے سے صدر زرداری کے لیے مشکلات پیدا ہو گئی ہیں ۔ ترجمان نے کہا کہ صدر زرداری کے مستعفی ہونے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا کیونکہ آئین پاکستان عہدہ صدارت پر اپنی مدت کے دوران صدر مملکت کوہر طرح کی عدالتی کارروائی کے خلاف تحفظ فراہم کرتا ہے۔
ایک درخواست گذار ڈاکٹر مبشر حسن اور ان کے وکیل عبد الحفیظ پیرزادہ نے سپریم کورٹ کے فیصلے کو تاریخی قرار دیتے ہوئے کہا کہ نا صرف اس سے عدلیہ پر لوگوں کا اعتماد بحال ہوگا بلکہ یہ تنقید بھی دم توڑ دے گی کہ پاکستان میں بدعنوانی کو روکنے کے لیے کوئی قانون نہیں۔
Comment