سپریم کورٹ میں متنازع قومی مصالحتی آرڈیننس کے خلاف درخواست کی پیروی کرنے والے سینئروکیل عبدالحفیظ پیرزادہ کا کہنا ہے کہ انھیں توقع ہے کہ عدالت عظمیٰ ایک دو روز کے اندر اس مقدمے کا فیصلے سنا دے گی۔
سابق فوجی صدر پرویز مشرف کی طرف سے 2007ء میں جاری ہونے والے این آر او کے تحت صدر آصف علی زرداری سمیت آٹھ ہزار سے زائد افراد کے خلاف بدعنوانی اور فوجداری مقدمات ختم کیے گئے تھے۔ اب اس صدارتی حکم نامے کی معیاد ختم ہوچکی ہے اور اس کے خلاف دائر درخواستوں کی سماعت عدالت عظمیٰ کا 17رکنی بنچ چیف جسٹس افتخارمحمد چوہدری کی سربراہی میں کر رہا ہے۔
منگل کے روز سماعت کے بعد صحافیوں سے باتیں کرتے ہوئے عبدالحفیظ پیرزادہ نے کہا کہ کیس میں شریک تمام وکلاء کا اس بات پر اتفاق ہے کہ این آر او غیر آئینی ہے اور حکومتی وکلاء بھی اس کا دفاع نہیں کررہے۔انھوں نے بتایا کہ وفاق کے وکیل کمال اظفر نے عدالت میں اپنا یہ وضاحت بھی دائر کی ہے کہ گزشتہ روز ان کا یہ بیان کہ این آر او کے تحت مستفید ہونے والے افراد کو سیاسی منصب کے لیے نااہل قرار دینے سے نظام عدم استحکام کا شکار ہوسکتا ہے، ان کی ذاتی رائے تھااور اس سے وفاق کا کوئی تعلق نہیں تھا۔
اس سوال پر کہ کیا این آر او کے خلاف فیصلہ آنے کی صورت میں صدر زرداری اپنے منصب پر برقرار رہنے کے اہل ہوں گے، عبدالحفیظ پیرزادہ نے کہا اس کا انحصار اس بات پر ہے کہ سپریم کورٹ اس معاملے پرآئین کی متعلقہ شقوں کی کس طرح تشریح کرتی ہے۔
جب کہ دوسری طرف پنجاب کے پراسیکیوٹر جنرل سید زاہد بخاری نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ صدر کو آئین کے تحت مکمل تحفظ حاصل ہے اور جب تک وہ اپنے عہدے پر فائز ہیں ان کے خلاف کوئی کارروائی عمل میں نہیں لائی جاسکتی ۔ ان کامطابق اگر نامزدگی کے وقت کسی نے پاکستانی صدر کی اہلیت کو چیلنج نہیں کیا تو عہدے پر فائز ہونے کے بعد بھی انھیں آئین کی رو سے نااہل نہیں قراردیا جاسکتا۔
اس سے قبل سماعت کے دوران قومی احتساب بیورو کے حکام نے عدالت کو بتایا کہ گزشتہ برسوں کے دوران بدعنوانی سے حاصل کیے گئے تقریباً دو ارب ڈالر کی غیر قانونی طور پربیرون ملک منتقلی کے حوالے سے تحقیقات کی جارہی ہے اور اس میں سابق مقتول وزیراعظم بے نظیر بھٹو اور ان کی والدہ نصرت بھٹو سمیت دوسرے سیاست دان اور بیوروکریٹس ملزمان ہیں۔ادارے نے عدالت کو یہ بھی بتایا کہ صدر زرداری سمیت بعض دوسرے ملزمان پر سوئس بینکوں میں تقریباً چھ کروڑ ڈالر کی رقم منتقل کرنے کا الزام ہے ۔ یہ وہ کیس ہے جسے این آر او جاری ہونے کے بعد ختم کیا گیا تھا اور اس سلسلے میں اُس وقت کے اٹارنی جنرل ملک قیوم نے سوئٹزلینڈ کے اٹارنی جنرل سے ملاقات بھی کی تھی۔
سپریم کورٹ نے اس معاملے پر استفسار کے لیے ملک قیوم کو بھی طلب کیا ہے جن کا کہنا تھا کہ انھوں نے اپنے ہم منصب سے یہ بات چیت سندھ ہائی کورٹ کے ایک فیصلے اور سابق صدر مشرف کے کہنے پر کی تھی۔ تفصیلات پوچھنے پر انھوں نے بتایا کہ صدر زرداری نے سندھ ہائی کورٹ میں ایک درخواست دائر کی تھی جس میں استدعا کی گئی تھی کہ عدالت عالیہ این آر او پر عمل درآمد کروائے۔
عدالت عظمیٰ نے سماعت بدھ تک ملتوی کردی ہے۔
سابق فوجی صدر پرویز مشرف کی طرف سے 2007ء میں جاری ہونے والے این آر او کے تحت صدر آصف علی زرداری سمیت آٹھ ہزار سے زائد افراد کے خلاف بدعنوانی اور فوجداری مقدمات ختم کیے گئے تھے۔ اب اس صدارتی حکم نامے کی معیاد ختم ہوچکی ہے اور اس کے خلاف دائر درخواستوں کی سماعت عدالت عظمیٰ کا 17رکنی بنچ چیف جسٹس افتخارمحمد چوہدری کی سربراہی میں کر رہا ہے۔
منگل کے روز سماعت کے بعد صحافیوں سے باتیں کرتے ہوئے عبدالحفیظ پیرزادہ نے کہا کہ کیس میں شریک تمام وکلاء کا اس بات پر اتفاق ہے کہ این آر او غیر آئینی ہے اور حکومتی وکلاء بھی اس کا دفاع نہیں کررہے۔انھوں نے بتایا کہ وفاق کے وکیل کمال اظفر نے عدالت میں اپنا یہ وضاحت بھی دائر کی ہے کہ گزشتہ روز ان کا یہ بیان کہ این آر او کے تحت مستفید ہونے والے افراد کو سیاسی منصب کے لیے نااہل قرار دینے سے نظام عدم استحکام کا شکار ہوسکتا ہے، ان کی ذاتی رائے تھااور اس سے وفاق کا کوئی تعلق نہیں تھا۔
اس سوال پر کہ کیا این آر او کے خلاف فیصلہ آنے کی صورت میں صدر زرداری اپنے منصب پر برقرار رہنے کے اہل ہوں گے، عبدالحفیظ پیرزادہ نے کہا اس کا انحصار اس بات پر ہے کہ سپریم کورٹ اس معاملے پرآئین کی متعلقہ شقوں کی کس طرح تشریح کرتی ہے۔
جب کہ دوسری طرف پنجاب کے پراسیکیوٹر جنرل سید زاہد بخاری نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ صدر کو آئین کے تحت مکمل تحفظ حاصل ہے اور جب تک وہ اپنے عہدے پر فائز ہیں ان کے خلاف کوئی کارروائی عمل میں نہیں لائی جاسکتی ۔ ان کامطابق اگر نامزدگی کے وقت کسی نے پاکستانی صدر کی اہلیت کو چیلنج نہیں کیا تو عہدے پر فائز ہونے کے بعد بھی انھیں آئین کی رو سے نااہل نہیں قراردیا جاسکتا۔
اس سے قبل سماعت کے دوران قومی احتساب بیورو کے حکام نے عدالت کو بتایا کہ گزشتہ برسوں کے دوران بدعنوانی سے حاصل کیے گئے تقریباً دو ارب ڈالر کی غیر قانونی طور پربیرون ملک منتقلی کے حوالے سے تحقیقات کی جارہی ہے اور اس میں سابق مقتول وزیراعظم بے نظیر بھٹو اور ان کی والدہ نصرت بھٹو سمیت دوسرے سیاست دان اور بیوروکریٹس ملزمان ہیں۔ادارے نے عدالت کو یہ بھی بتایا کہ صدر زرداری سمیت بعض دوسرے ملزمان پر سوئس بینکوں میں تقریباً چھ کروڑ ڈالر کی رقم منتقل کرنے کا الزام ہے ۔ یہ وہ کیس ہے جسے این آر او جاری ہونے کے بعد ختم کیا گیا تھا اور اس سلسلے میں اُس وقت کے اٹارنی جنرل ملک قیوم نے سوئٹزلینڈ کے اٹارنی جنرل سے ملاقات بھی کی تھی۔
سپریم کورٹ نے اس معاملے پر استفسار کے لیے ملک قیوم کو بھی طلب کیا ہے جن کا کہنا تھا کہ انھوں نے اپنے ہم منصب سے یہ بات چیت سندھ ہائی کورٹ کے ایک فیصلے اور سابق صدر مشرف کے کہنے پر کی تھی۔ تفصیلات پوچھنے پر انھوں نے بتایا کہ صدر زرداری نے سندھ ہائی کورٹ میں ایک درخواست دائر کی تھی جس میں استدعا کی گئی تھی کہ عدالت عالیہ این آر او پر عمل درآمد کروائے۔
عدالت عظمیٰ نے سماعت بدھ تک ملتوی کردی ہے۔
Comment