گلگت بلتستان کی قانون ساز اسمبلی نے جمعہ کے روز پیپلز پارٹی کے سید مہدی شاہ کو بلامقابلہ وزیراعلیٰ منتخب کر لیا ہے۔ گلگت بلتستان کے قائم مقام گورنر قمرالزماں کائرہ نے سید مہدی سے ان کے عہدے کا حلف لیا۔
قانون ساز اسمبلی کے سپیکر کے عہدے پر وزیر بیگ جب کہ ڈپٹی سپیکر کے عہدے کے لیے جمیل احمد بھی بلامقابلہ منتخب ہو گئے ہیں۔
12 نومبر کو گلگت بلتستان کی قانون ساز اسمبلی کے انتخابات میں پیپلز پارٹی کو واضح برتری حاصل ہوئی تھی۔ تاہم حزب اختلاف کی جماعتوں نے پیپلز پارٹی پر انتخابات میں دھاندلی کے الزامات لگائے تھے جنھیں حکمران پیپلز پارٹی بے بنیاد قرار دے کر رد کرتی آئی ہے۔
قانون ساز اسمبلی کی 24 میں سے 23 نشستوں پر براہ راست انتخابات ہوئے تھے جب کہ ایک اُمیدوار کے انتقال کے باعث ایک نشست پر انتخاب ملتوی کر دیے گئے تھے۔
ان انتخابات میں پیپلز پارٹی نے 12، مسلم لیگ (ن) ، مسلم لیگ (ق) اور جمعیت علماء اسلام نے دو دو نشستوں جب کہ متحدہ قومی موومنٹ نے ایک نشست پر کامیابی حاصل کی تھی اور چار نشستوں پر آزاد اُمیدوار کامیاب ہو ئے تھے۔ گلگت بلتستان کی کل نشستوں کی تعداد 33 ہے جن میں سے 24 کا براہ راست بالغ حق رائے دہی کے ذریعے انتخاب ہوتا ہے جب کہ خواتین کے لیے چھ اور ٹیکنوکریٹس کے لیے تین نشستیں مخصوص ہیں۔
ماضی کے برعکس اس بار گلگت بلتستان میں انتخابات رواں سال اگست میں وفاقی حکومت کی طرف سے اس علاقے کے لیے اعلان کردہ نئی انتظامی و سیاسی اصلاحات کے تحت منعقد کیے گئے جس کے تحت منتخب ہونے والی قانون ساز اسمبلی نے پہلی مرتبہ صوبے کی طرز پر وزیراعلیٰ کو منتخب کیا ہے۔ علاقے میں مرکزی حکومت کی نمائندگی کے لیے گورنر مقرر کیا جائے گا اس وقت وفاقی وزیر اطلاعا ت قمر الزمان کائرہ گلگت بلتستان کے قائم مقام گورنر کے طور پر کام کررہے ہیں۔
قیام پاکستان سے قبل یہ علاقہ ریاست جموں و کشمیر کا حصہ تھا لیکن 1947ء میں اس نے پاکستان کے ساتھ الحاق کے لیے ووٹ دیا تھا۔ تاہم اقوام متحدہ کی قراردادوں میں کشمیر کے ساتھ اس علاقے کے مستقبل کا فیصلہ ہونا ابھی باقی ہے اس لیے مقامی آبادی کے باربار مطالبات کے باوجود پاکستانی حکومت اسے صوبے کا درجہ نہ دینے کی پابند ہے۔
قانون ساز اسمبلی کے سپیکر کے عہدے پر وزیر بیگ جب کہ ڈپٹی سپیکر کے عہدے کے لیے جمیل احمد بھی بلامقابلہ منتخب ہو گئے ہیں۔
12 نومبر کو گلگت بلتستان کی قانون ساز اسمبلی کے انتخابات میں پیپلز پارٹی کو واضح برتری حاصل ہوئی تھی۔ تاہم حزب اختلاف کی جماعتوں نے پیپلز پارٹی پر انتخابات میں دھاندلی کے الزامات لگائے تھے جنھیں حکمران پیپلز پارٹی بے بنیاد قرار دے کر رد کرتی آئی ہے۔
قانون ساز اسمبلی کی 24 میں سے 23 نشستوں پر براہ راست انتخابات ہوئے تھے جب کہ ایک اُمیدوار کے انتقال کے باعث ایک نشست پر انتخاب ملتوی کر دیے گئے تھے۔
ان انتخابات میں پیپلز پارٹی نے 12، مسلم لیگ (ن) ، مسلم لیگ (ق) اور جمعیت علماء اسلام نے دو دو نشستوں جب کہ متحدہ قومی موومنٹ نے ایک نشست پر کامیابی حاصل کی تھی اور چار نشستوں پر آزاد اُمیدوار کامیاب ہو ئے تھے۔ گلگت بلتستان کی کل نشستوں کی تعداد 33 ہے جن میں سے 24 کا براہ راست بالغ حق رائے دہی کے ذریعے انتخاب ہوتا ہے جب کہ خواتین کے لیے چھ اور ٹیکنوکریٹس کے لیے تین نشستیں مخصوص ہیں۔
ماضی کے برعکس اس بار گلگت بلتستان میں انتخابات رواں سال اگست میں وفاقی حکومت کی طرف سے اس علاقے کے لیے اعلان کردہ نئی انتظامی و سیاسی اصلاحات کے تحت منعقد کیے گئے جس کے تحت منتخب ہونے والی قانون ساز اسمبلی نے پہلی مرتبہ صوبے کی طرز پر وزیراعلیٰ کو منتخب کیا ہے۔ علاقے میں مرکزی حکومت کی نمائندگی کے لیے گورنر مقرر کیا جائے گا اس وقت وفاقی وزیر اطلاعا ت قمر الزمان کائرہ گلگت بلتستان کے قائم مقام گورنر کے طور پر کام کررہے ہیں۔
قیام پاکستان سے قبل یہ علاقہ ریاست جموں و کشمیر کا حصہ تھا لیکن 1947ء میں اس نے پاکستان کے ساتھ الحاق کے لیے ووٹ دیا تھا۔ تاہم اقوام متحدہ کی قراردادوں میں کشمیر کے ساتھ اس علاقے کے مستقبل کا فیصلہ ہونا ابھی باقی ہے اس لیے مقامی آبادی کے باربار مطالبات کے باوجود پاکستانی حکومت اسے صوبے کا درجہ نہ دینے کی پابند ہے۔
Comment