کون کہتا ہے کہ وہ جو اس خاک دان سے چلے گئے، ان کا فیض اور نور بھی تمام ہوا۔ نصف شب کی خاموشی اور تاریکی میں، طالبِ علم خود سے سوال کرتا ہے کہ کب کب اور کہاں کہاں اقبال نے رہنمائی نہیں کی۔ قندیل نہیں جلا دی اور راستے کی تاریکی سمیٹ نہیں دی۔ نہیں نورِ ازل کی روشنی کبھی نہیں بجھتی ، کبھی تمام نہیں ہوتی۔
عجیب ماجرا ہوا۔ فجر کی اذان کے ساتھ آنکھ کھلی اور ایک سجدے کی آرزو تڑپ اٹھی۔ سات برس ہوتے ہیں، لاہور میں کسی نے اقبال کا قطعہ عطا کیا۔ اچانک جس سے ملاقات ہوئی تھی۔ شعیب بن عزیز کے طرح طرح کے ملاقاتی۔ شاعر ، ادیب ، بھانڈ، تاجر، افسر اور دانشور مگر وہ ایک خوش نویس تھا۔ شاعر نے تعارف کرایا تو اس کی آنکھیں چمک اٹھیں۔ کہا: دو تحفے آپ کے لیے سنبھال رکھے ہیں۔ ایک شیخ ہجویر کے مزار کا اکھڑا ہوا پتھر اور دوسرے اقبال کا ایک قطعہ
تو غنی از ہر دو عالم من فقیر
روزِ محشر عذر ہائے من پذیر
گر حسا بم را تو بینی ناگزیر
ازنگاہِ مصطفی پنہاں بگیر
مبہوت کردینے والی دلآویز کتابت۔ راولپنڈی اور اسلام آباد کے فریم سازوں میں سے کوئی نہ تھا، جو چوکھٹا بنا سکتا۔ سوچتی ہوئی آنکھوں والا ایک کم کلام باذوق آدمی ملا۔ کہا: ابھی لکڑی کا وہ ٹکڑا اور شیشہ ایجاد نہیں ہوا جو اس کلام کی رفعت سے ہم آہنگ ہو لیکن دیکھو، شاید یہ سنہری مائل کالی لکڑی ان مصرعوں کے مقابل شرمساری سے محفوظ رہے۔ تین برس ہوتے ہیں ، کسی نے قصیدہء بردہ کا متن کمال شوق سے شائع کیا تھا۔ شاعر افتخار عارف نے اس کی ایک جلد عطا کی ۔ کئی دن عالم یہ تھا کبھی شاعری شرابور کرتی ، کبھی سرورق اور کبھی اوراق کے پسِ منظر سے ابھرتے، لو دیتے ہوئے باوقار مدھم نقوش ، جیسے صبحِ صادق کے نور میں گل بوٹے ،سانس لیتے رفتہ رفتہ ، دھیرے دھیرے ابھرتے ہوں۔ ایک شب طالبِ علم بے تاب ہوکر بستر سے اٹھا، کتاب کو چوما اور لائبریری کے طاق میں سجا دیا۔ مطالعے کی میز ایسے نوادرات کی تاب نہیں لا سکتی۔ اقبال کے اس قطعے کا عالم بھی یہ تھا۔ دیوار پر آویزاں کرنے کو جی نہ چاہا اور بالآخر سجدہ گاہ کے مقابل رکھ دیا۔ آنکھ کھلی تو خطا کار نے اس سعادت پر اللہ کا شکر ادا کیا۔ اچانک کیفیات کا ایک عجیب عالم گزر گیا۔ یا خدا، رباعی نہیں، سامنے تو قرآن ِ کریم کی آیت جلوہ گر ہے۔"واللہ الغنی و اَنتم الفقرا" اللہ بے نیاز ہے اور تم سب اس کے دریوزہ گر۔ تو غنی از ہر دو عالم من فقیر۔ دریوزہ گر ہی ہو جائیں میرے مالک ۔جو ہو سکیں ، انہی میں وہ خوش بخت بھی ہوتے ہیں، جو خدا کے ہمسائے ہو جاتے ہیں۔خواجہ حسن بصری سے خواجہ مہر علی شاہ تک کیسے کیسے لوگ۔ ہاں میں نے ان میں ایک کو دیکھا ہے، جس کے دستر خوان سے کبھی کوئی بھوکا نہیں اٹھا۔ بدبختوں کے سوا کوئی نہیں، جو اپنے غم کا ایک حصہ ، اس کی دہلیز پر چھوڑ نہ گیا ہو۔ سفر پہ مجبور مہمان طعام کے بغیر ہی رخصت ہوا تو دیکھنے والوں نے فقیر کو آرزدہ پایا۔ کہا: خوش نصیبی چھو کر گزر گئی۔ مسافر شکم سیر ہوتا تو ہم بھی شادکام ہوتے۔ پھر ایک دن ملال کے ساتھ کہا: مہمان نوازی کی تمنا اور جستجو میں کئی عشرے بیت گئے لیکن پلٹ کر دیکھتا ہوں تو دل یہ کہتاہے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور اصحابِ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی بہت ادھوری سی تقلید بھی ہو نہ سکی۔ ہاں کون ان رفعتوں کو پا سکتا ہے وہ ایک نادر عہد تھا ، جب اللہ کی رحمت ٹوٹ ٹوٹ کر زمین پر برستی تھی۔
کھڑکیوں سے چھن چھن کر آتی سحر کی مدہم روشنی میں ، طالبِ علم رباعی کی سحر انگیز عبارت کو تعجب سے دیکھتا رہا"تو سارے جہانوں سے بے نیاز اور میں گدا۔ روزِ محشر میرا عذر قبول فرمانا، لیکن اگر حساب ہی ناگزیر ہو تو مجھے مصطفیﷺ کی نگاہ سے پوشیدہ رکھنا"۔ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے نام پر اشکبار ہونے والا شاعریہ مصرعے لکھ چکا تو کس طرح تڑپ کر رویا ہوگا۔ نہیں انشاء اللہ اقبال کا حساب نہیں ہوگا۔ خاکمِ بدہن کیا خدا کوئی بنیا ہے۔ وہ بدّو آنے والی صدیوں کے علماء سے زیادہ جانتا تھا، جس نے سرکارصلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا تھا: روزِ جزا فردِ عمل کون دیکھے گا۔ فرمایا: خودخالقِ کون و مکاں ۔ وہ مسکرایا اور کہا: تب فکر کی کوئی بات نہیں۔ اہلِ کرم ، حساب فہمی میں نرم بہت ہوتے ہیں۔ ابھی عالمِ اسلام کے افق پر داڑھیاں ماپنے والے طالبان کے طلوع ہونے میں چودہ سو برس باقی تھے۔علی بخش سے پوچھا گیاتو اس نے بتایا: ایک دن میں دس بارہ مرتبہ ، شاعر قرآن طلب کرتا، پھر اس کے اورا ق میں کھویا رہتا۔ رفتہ رفتہ سکون اس کے چہرے پہ اترنے لگتا۔ وہ آدمی جو وحی سے نور کشیدہ کرتا ہو، کیا دوسرے شاعروں جیسا ایک شاعر ہوتا؟
من اے میرامم داداز توخواہم
مرا یاراں غزل خوانے شمر دند
( اے تمام امتوں کے سردار ، میں آپ ہی سے فریاد کرتا ہوں کہ لوگوں نے مجھے غزل خوانوں میں گنا)۔ نہیں ، وہ غزل خواں نہیں تھا۔ آدمی کی پوری تاریخ ، ایسی کوئی دوسری نظیر پیش کرنے سے قاصر ہے۔ کیسے کیسے شاعر تاریخ میں اٹھے ہیں کہ ابر کی طرح امنڈے اور بارش کی طرح برسے ۔ جل تھل جل تھل ۔ جوصدیوں تک پلکوں پہ موتی اور سینوں میں طوفان اٹھاتے رہے ۔ حروف میں کلیاں چٹخانے اور پات ہرے کردینے والے مگر اس جیسا کوئی دوسرا نہ تھا۔ کوئی شاعرکبھی نہ تھا، جو پوری انسانی تاریخ کے تناظر میں گفتگو کرے ۔ جسے نسوانی لہجے میں تتلاتی ہوئی ایک ادھوری زبان ملی ہو اور تین عشروں میں وہ اس کا لہجہ اور تیور ہی بدل ڈالے ۔ جو ایک نگاہ میں گزرنے اور آنے والے ادوار کو دیکھ سکتا ہو اور ان زمانوں کی خبر دے، جن کا ابھی کوئی نام ہی نہ تھا۔ جنہیں اس کے کلام سے مہک اٹھنا تھا۔ برِ صغیر میں ، ایران میں ، کشمیر، وسطی ایشیا اور افغانستا ن میں ۔ دس لاکھ انسانوں کا نعرہ زن ہجوم دوشنبہ کی پارلیمان کے سامنے کھڑا تھا۔ طلوعِ فجر سے غروبِ آفتاب تک، اقبال کے ایک مصرعے میں انہوں نے ماضی سے مستقبل تک کا سفر طے کرلیا۔
از خواب گراں، خواب گراں، خواب گراں خیز
استعمار کی ماری ہوئی محتاج اور مفلس قوم میں وہ پیدا ہوا۔ ہر چہرے اور ہر دل میں احساسِ کمتری ۔ اپنے کلام کی قندیل اس نے آسمانوں کی طرف بلند کی اور دیکھتے دیکھتے زمین بقعہء نور ہوگئی۔ ان کے لیے اس نے ایک آزاد وطن کا خواب دیکھا۔ ایک جماعت اور رہنما کا انتخاب کیا اور یہ کہا "میں تمہارا لیڈر نہیں لیکن اگر میری بات غور سے سنو گے تومیں تمہاراراستہ منور کر دوں گا"۔ کیوں نہ کر دیتا۔ یہ اسی نے کہا تھا"اے میرے پروردگار، اگر میری فکر کا سر چشمہ تیری کتاب نہیں ہے ، تو مجھے رسوا کردے"۔ کون ہے ، جس نے کبھی یہ کہنے کی جسارت کی ہو مگر وہ کہ زمین سے نہیں ، زندگی کو آسمان سے دیکھتا تھا
نسیمے از حجاز آید کہ نہ آید
سرود رفتہ باز آید کہ نہ آید
سر آمد روزگارے ایں فقیرے
دگر دانائے راز آید کہ نہ آید
لاہور کی مٹی اوڑھے اب وہ گہری نیند سوتا ہے اور اس کی قوم بھی جس نے قندیل کی طرف پشت کرلی ہے اور تاریکیوں میں بھٹکتی پھرتی ہے ۔ جس کے گھرمیں خزانہ رکھا ہے مگر وہ تاریخ کے چوراہے پر بھیک مانگتی ہے۔
کون کہتا ہے کہ وہ جو اس خاک دان سے چلے گئے، ان کا فیض اور ان کا نور تمام ہوا۔ نہیں ، مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کے چراغ سے مستعار روشنی کبھی نہیں بجھتی، کبھی تمام نہیں ہوتی۔ بدقسمت تو وہ ہیں جن پر داتاکا در کھلا ہو اور وہ بھکاری کے کشکول سے حصہ بٹانے کے آرزومند ہوں ۔ جنہیں اللہ نے اقبال عطا کیا مگر وہ آدم سمتھ اور کارل مارکس کی دہلیزوں پر دریوزہ گر ہیں ۔ اہلِ سخا کے جانشین مگر بھکاریوں کے بھکاری۔ چراغ تلے اندھیرا۔
عجیب ماجرا ہوا۔ فجر کی اذان کے ساتھ آنکھ کھلی اور ایک سجدے کی آرزو تڑپ اٹھی۔ سات برس ہوتے ہیں، لاہور میں کسی نے اقبال کا قطعہ عطا کیا۔ اچانک جس سے ملاقات ہوئی تھی۔ شعیب بن عزیز کے طرح طرح کے ملاقاتی۔ شاعر ، ادیب ، بھانڈ، تاجر، افسر اور دانشور مگر وہ ایک خوش نویس تھا۔ شاعر نے تعارف کرایا تو اس کی آنکھیں چمک اٹھیں۔ کہا: دو تحفے آپ کے لیے سنبھال رکھے ہیں۔ ایک شیخ ہجویر کے مزار کا اکھڑا ہوا پتھر اور دوسرے اقبال کا ایک قطعہ
تو غنی از ہر دو عالم من فقیر
روزِ محشر عذر ہائے من پذیر
گر حسا بم را تو بینی ناگزیر
ازنگاہِ مصطفی پنہاں بگیر
مبہوت کردینے والی دلآویز کتابت۔ راولپنڈی اور اسلام آباد کے فریم سازوں میں سے کوئی نہ تھا، جو چوکھٹا بنا سکتا۔ سوچتی ہوئی آنکھوں والا ایک کم کلام باذوق آدمی ملا۔ کہا: ابھی لکڑی کا وہ ٹکڑا اور شیشہ ایجاد نہیں ہوا جو اس کلام کی رفعت سے ہم آہنگ ہو لیکن دیکھو، شاید یہ سنہری مائل کالی لکڑی ان مصرعوں کے مقابل شرمساری سے محفوظ رہے۔ تین برس ہوتے ہیں ، کسی نے قصیدہء بردہ کا متن کمال شوق سے شائع کیا تھا۔ شاعر افتخار عارف نے اس کی ایک جلد عطا کی ۔ کئی دن عالم یہ تھا کبھی شاعری شرابور کرتی ، کبھی سرورق اور کبھی اوراق کے پسِ منظر سے ابھرتے، لو دیتے ہوئے باوقار مدھم نقوش ، جیسے صبحِ صادق کے نور میں گل بوٹے ،سانس لیتے رفتہ رفتہ ، دھیرے دھیرے ابھرتے ہوں۔ ایک شب طالبِ علم بے تاب ہوکر بستر سے اٹھا، کتاب کو چوما اور لائبریری کے طاق میں سجا دیا۔ مطالعے کی میز ایسے نوادرات کی تاب نہیں لا سکتی۔ اقبال کے اس قطعے کا عالم بھی یہ تھا۔ دیوار پر آویزاں کرنے کو جی نہ چاہا اور بالآخر سجدہ گاہ کے مقابل رکھ دیا۔ آنکھ کھلی تو خطا کار نے اس سعادت پر اللہ کا شکر ادا کیا۔ اچانک کیفیات کا ایک عجیب عالم گزر گیا۔ یا خدا، رباعی نہیں، سامنے تو قرآن ِ کریم کی آیت جلوہ گر ہے۔"واللہ الغنی و اَنتم الفقرا" اللہ بے نیاز ہے اور تم سب اس کے دریوزہ گر۔ تو غنی از ہر دو عالم من فقیر۔ دریوزہ گر ہی ہو جائیں میرے مالک ۔جو ہو سکیں ، انہی میں وہ خوش بخت بھی ہوتے ہیں، جو خدا کے ہمسائے ہو جاتے ہیں۔خواجہ حسن بصری سے خواجہ مہر علی شاہ تک کیسے کیسے لوگ۔ ہاں میں نے ان میں ایک کو دیکھا ہے، جس کے دستر خوان سے کبھی کوئی بھوکا نہیں اٹھا۔ بدبختوں کے سوا کوئی نہیں، جو اپنے غم کا ایک حصہ ، اس کی دہلیز پر چھوڑ نہ گیا ہو۔ سفر پہ مجبور مہمان طعام کے بغیر ہی رخصت ہوا تو دیکھنے والوں نے فقیر کو آرزدہ پایا۔ کہا: خوش نصیبی چھو کر گزر گئی۔ مسافر شکم سیر ہوتا تو ہم بھی شادکام ہوتے۔ پھر ایک دن ملال کے ساتھ کہا: مہمان نوازی کی تمنا اور جستجو میں کئی عشرے بیت گئے لیکن پلٹ کر دیکھتا ہوں تو دل یہ کہتاہے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور اصحابِ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی بہت ادھوری سی تقلید بھی ہو نہ سکی۔ ہاں کون ان رفعتوں کو پا سکتا ہے وہ ایک نادر عہد تھا ، جب اللہ کی رحمت ٹوٹ ٹوٹ کر زمین پر برستی تھی۔
کھڑکیوں سے چھن چھن کر آتی سحر کی مدہم روشنی میں ، طالبِ علم رباعی کی سحر انگیز عبارت کو تعجب سے دیکھتا رہا"تو سارے جہانوں سے بے نیاز اور میں گدا۔ روزِ محشر میرا عذر قبول فرمانا، لیکن اگر حساب ہی ناگزیر ہو تو مجھے مصطفیﷺ کی نگاہ سے پوشیدہ رکھنا"۔ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے نام پر اشکبار ہونے والا شاعریہ مصرعے لکھ چکا تو کس طرح تڑپ کر رویا ہوگا۔ نہیں انشاء اللہ اقبال کا حساب نہیں ہوگا۔ خاکمِ بدہن کیا خدا کوئی بنیا ہے۔ وہ بدّو آنے والی صدیوں کے علماء سے زیادہ جانتا تھا، جس نے سرکارصلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا تھا: روزِ جزا فردِ عمل کون دیکھے گا۔ فرمایا: خودخالقِ کون و مکاں ۔ وہ مسکرایا اور کہا: تب فکر کی کوئی بات نہیں۔ اہلِ کرم ، حساب فہمی میں نرم بہت ہوتے ہیں۔ ابھی عالمِ اسلام کے افق پر داڑھیاں ماپنے والے طالبان کے طلوع ہونے میں چودہ سو برس باقی تھے۔علی بخش سے پوچھا گیاتو اس نے بتایا: ایک دن میں دس بارہ مرتبہ ، شاعر قرآن طلب کرتا، پھر اس کے اورا ق میں کھویا رہتا۔ رفتہ رفتہ سکون اس کے چہرے پہ اترنے لگتا۔ وہ آدمی جو وحی سے نور کشیدہ کرتا ہو، کیا دوسرے شاعروں جیسا ایک شاعر ہوتا؟
من اے میرامم داداز توخواہم
مرا یاراں غزل خوانے شمر دند
( اے تمام امتوں کے سردار ، میں آپ ہی سے فریاد کرتا ہوں کہ لوگوں نے مجھے غزل خوانوں میں گنا)۔ نہیں ، وہ غزل خواں نہیں تھا۔ آدمی کی پوری تاریخ ، ایسی کوئی دوسری نظیر پیش کرنے سے قاصر ہے۔ کیسے کیسے شاعر تاریخ میں اٹھے ہیں کہ ابر کی طرح امنڈے اور بارش کی طرح برسے ۔ جل تھل جل تھل ۔ جوصدیوں تک پلکوں پہ موتی اور سینوں میں طوفان اٹھاتے رہے ۔ حروف میں کلیاں چٹخانے اور پات ہرے کردینے والے مگر اس جیسا کوئی دوسرا نہ تھا۔ کوئی شاعرکبھی نہ تھا، جو پوری انسانی تاریخ کے تناظر میں گفتگو کرے ۔ جسے نسوانی لہجے میں تتلاتی ہوئی ایک ادھوری زبان ملی ہو اور تین عشروں میں وہ اس کا لہجہ اور تیور ہی بدل ڈالے ۔ جو ایک نگاہ میں گزرنے اور آنے والے ادوار کو دیکھ سکتا ہو اور ان زمانوں کی خبر دے، جن کا ابھی کوئی نام ہی نہ تھا۔ جنہیں اس کے کلام سے مہک اٹھنا تھا۔ برِ صغیر میں ، ایران میں ، کشمیر، وسطی ایشیا اور افغانستا ن میں ۔ دس لاکھ انسانوں کا نعرہ زن ہجوم دوشنبہ کی پارلیمان کے سامنے کھڑا تھا۔ طلوعِ فجر سے غروبِ آفتاب تک، اقبال کے ایک مصرعے میں انہوں نے ماضی سے مستقبل تک کا سفر طے کرلیا۔
از خواب گراں، خواب گراں، خواب گراں خیز
استعمار کی ماری ہوئی محتاج اور مفلس قوم میں وہ پیدا ہوا۔ ہر چہرے اور ہر دل میں احساسِ کمتری ۔ اپنے کلام کی قندیل اس نے آسمانوں کی طرف بلند کی اور دیکھتے دیکھتے زمین بقعہء نور ہوگئی۔ ان کے لیے اس نے ایک آزاد وطن کا خواب دیکھا۔ ایک جماعت اور رہنما کا انتخاب کیا اور یہ کہا "میں تمہارا لیڈر نہیں لیکن اگر میری بات غور سے سنو گے تومیں تمہاراراستہ منور کر دوں گا"۔ کیوں نہ کر دیتا۔ یہ اسی نے کہا تھا"اے میرے پروردگار، اگر میری فکر کا سر چشمہ تیری کتاب نہیں ہے ، تو مجھے رسوا کردے"۔ کون ہے ، جس نے کبھی یہ کہنے کی جسارت کی ہو مگر وہ کہ زمین سے نہیں ، زندگی کو آسمان سے دیکھتا تھا
نسیمے از حجاز آید کہ نہ آید
سرود رفتہ باز آید کہ نہ آید
سر آمد روزگارے ایں فقیرے
دگر دانائے راز آید کہ نہ آید
لاہور کی مٹی اوڑھے اب وہ گہری نیند سوتا ہے اور اس کی قوم بھی جس نے قندیل کی طرف پشت کرلی ہے اور تاریکیوں میں بھٹکتی پھرتی ہے ۔ جس کے گھرمیں خزانہ رکھا ہے مگر وہ تاریخ کے چوراہے پر بھیک مانگتی ہے۔
کون کہتا ہے کہ وہ جو اس خاک دان سے چلے گئے، ان کا فیض اور ان کا نور تمام ہوا۔ نہیں ، مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کے چراغ سے مستعار روشنی کبھی نہیں بجھتی، کبھی تمام نہیں ہوتی۔ بدقسمت تو وہ ہیں جن پر داتاکا در کھلا ہو اور وہ بھکاری کے کشکول سے حصہ بٹانے کے آرزومند ہوں ۔ جنہیں اللہ نے اقبال عطا کیا مگر وہ آدم سمتھ اور کارل مارکس کی دہلیزوں پر دریوزہ گر ہیں ۔ اہلِ سخا کے جانشین مگر بھکاریوں کے بھکاری۔ چراغ تلے اندھیرا۔
Comment