پاکستانی عوام، مجبور یا بے حس
فرقوں ،مسلکوں ،ذات، برادریوں اور لسانی ٹکڑوں میں منقسم ، جاگیرداروں کی چکی میں پستے ہاری ،صنعت کاروں کی بھٹیوں میں جھلستے مزدور،وڈیروں کی نجی جیلوں میں قید مزارع ،طبقاتی نظام تعلیم کے خانوں میں بٹے طلبہ و طالبات، ،چینی مافیا ، آٹا مافیا اور ذخیرہ اندوزوں کے چنگل میں پھسنی اپنے حال سے بے خبر اور مستقبل سے بے بہرہ اپنے حال میں بد مست عوام کو اب تک اپنے آپ میں مگن دیکھ کر مجھے ایک پرانا لطیفہ یاد آرہا ہے جو اگرچہ نہایت گھس چکا ہے لیکن پاکستانی قوم پر ہمیشہ فٹ بیٹھتا ہے۔ ''بادشاہ ظل الٰہی نے ٹیکسوں میں بے پناہ اضافہ کر دیا۔
عوام نے احتجاج تک نہ کیا۔ بادشاہ نے سوچا کہ عوام ٹیکسوں کے لگنے پر احتجاج نہیں کر رہی کیوں نہ ان کی عزت نفس پر حملہ کیا جائے ۔ بادشاہ نے حکم دیا کہ شہر کے دروازے پر موجود پہریدار ہر آنے جانے والے کو دو دو جوتے ماریں۔ بادشاہ کے حکم کی تعمیل ہوئی۔ دو دن بعد بادشاہ سے ملنے شہر کے معززین کا ایک وفد آیا۔ بادشاہ خوش ہوا کہ چلو کسی کو تو خیال آیا کہ ظلم ہورہا ہے مگر وفد نے بادشاہ سے بعد از مناجات یہ عرضداشت کی کہ بادشاہ سلامت شہر کے دروازے پر عوام کو جوتے مارنے کیلئے جو پہریدار مقرر کئے گئے ہیں وہ کم ہیں، ان کی تعداد بڑھائی جائے کیونکہ عوام کا قیمتی وقت ضائع ہوتا ہے''۔ آج ملک بھرمیں گزشتہ ایک ہفتے کے دوران مہنگائی کی شرح میں 1فیصداضافہ ہوا اور رمضان المبارک کے موقع پر دالوں،گھی، چاول ،چکن، مٹن ،بیف ،آلو ،پیاز، ٹماٹر اور پھلوں سمیت پچیس سے زائد اشیائے خوردونوش کی قیمتوں میں غیر معمولی اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔یوٹیلیٹی اسٹورز پرحکومت کی جانب سے 14اشیاء پر فراہم کی جانے والی 2.10ارب روپے کی سبسڈی کے باوجود چینی اور آٹے کی قلت پائی گئی جبکہ فروخت ہونے والی اشیاء بلخصوص دالوں ،چاول اورآٹے کامعیارخاطر خواہ حد تک گر چکا ہے۔ اس ضمن میں وفاقی ترقیاتی ادارہ سمیت پنجاب حکومت کی جانب سے مہنگائی کم کرنے کیلئے قائم کردہ ہفتہ وار اور سستا بازار بھی رمضان المبارک کی آمد سے قبل مہنگائی کم کرنے میں ناکام ہو گئے لیکن اس کے باوجود ملک بھر میں کہیں سے بھی اس کیخلاف صدائے احتجاج بلند نہیں ہو رہی کیونکہ آج ہم پاکستانی بھی ظلم سہنے کے اتنے عادی ہو چکے ہیں کہ کہیں سے کوئی ایک آواز بھی نہیں اٹھی۔ لگتا ہے کہ جیسے یہ عوام انسان نہیں بلکہ چلتے پھرتے مردے ہیں ۔
یہ ملک پاکستان نہیں بلکہ زندوں کا قبرستان ہے جہاں عوام پیٹ و کچن سے آگے کچھ دیکھنے کو تیار نہیں ۔ہر ایک چاہتا ہے کہ اس کا مسئلہ حل ہو جائے اسے روٹی مل جائے ،اسے کسی طرح پیسہ مل جائے، پانی نہیں ہے تو ٹینکر ڈلوا لیا، بجلی نہیں ہے تو یو پی ایس یا جرنیٹر خرید لیا ،آٹا مہنگا ہوا تو وہ بھی خرید لیا ،چینی مہنگی ہوئی تو وہ بھی خرید لی لیکن کبھی آٹا،چینی، بجلی و پانی کا بحران پیدا کرنیوالوں سے باز پرس نہیں کی۔ جو ہورہا ہے ہونے دو ،جو چل رہا ہے چلنے دو، ہر ایک کو صرف اپنی فکر ہے ،ان کا دھیان کسی اور طرف نہیں جارہا۔اپنا ضمیر ،اپنی غیرت اور اب آخر میں اپنے بچے ،گردے و دیگر جسمانی اعضاء فروخت کرنے کی آواز لگا رہے ہیں مگر کوئی ظلم و ناانصافی کیخلاف بولنے کو تیار نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ آج ملک میں ہر تیسرا نوجوان بیروزگاری کے اندھیروں میں بھٹک رہا ہے۔بے روزگاری اور مہنگائی کا عفریت اپنے خونی جبڑے کھولے نئی نسل کو نگلنے کیلئے تیار ہے۔تعلیم یافتہ ڈگری ہولڈر نوجوانوں کی مجرمانہ سرگرمیوں و سینکڑوں مجبور و بے بس لڑکیوں کی عصمت فروشی کے واقعات نے نام نہاد اسلامی جمہوریہ پاکستان کے کھوکھلا پن کو بے نقاب کر دیا ہے۔ آج ضرورت اس امر کی ہے کہ سب سے پہلے قوم اپنے اندر سادگی لائے ۔ہم اپنے غیر ضروری اخراجات کو ختم کریں اور اپنی ضرورتوں کو محدود کر کے دوسروں کی مدد کریں اور علاقائی سطح پر محلہ کمیٹیاں بنا کر احتساب کا عمل شروع کریں۔ سب سے پہلے اپنا احتساب کریں پھر محلے کے اس دکاندار کا جو گرانفروشی کرتا ہے اور اس کے بعد معاشرے کو بدلنے کیلئے جدوجہد کریں ۔اگر آپ دوسروں کی مدد کر رہے ہیں تو یہ آپ اپنے اوپر احسان کر رہے ہیں کیونکہ حقوق اللہ تو معاف ہو سکتے ہیں حقوق العباد نہیں۔ ہمیں اس استحصالی نظام کو بدلنے کیلئے خود جدوجہد کرنا ہوگی۔ یاد رہے کہ جس معاشرے میں بے حسی بڑھ جائے وہاں انقلاب نہیں عذاب آتے ہیں۔
عوام نے احتجاج تک نہ کیا۔ بادشاہ نے سوچا کہ عوام ٹیکسوں کے لگنے پر احتجاج نہیں کر رہی کیوں نہ ان کی عزت نفس پر حملہ کیا جائے ۔ بادشاہ نے حکم دیا کہ شہر کے دروازے پر موجود پہریدار ہر آنے جانے والے کو دو دو جوتے ماریں۔ بادشاہ کے حکم کی تعمیل ہوئی۔ دو دن بعد بادشاہ سے ملنے شہر کے معززین کا ایک وفد آیا۔ بادشاہ خوش ہوا کہ چلو کسی کو تو خیال آیا کہ ظلم ہورہا ہے مگر وفد نے بادشاہ سے بعد از مناجات یہ عرضداشت کی کہ بادشاہ سلامت شہر کے دروازے پر عوام کو جوتے مارنے کیلئے جو پہریدار مقرر کئے گئے ہیں وہ کم ہیں، ان کی تعداد بڑھائی جائے کیونکہ عوام کا قیمتی وقت ضائع ہوتا ہے''۔ آج ملک بھرمیں گزشتہ ایک ہفتے کے دوران مہنگائی کی شرح میں 1فیصداضافہ ہوا اور رمضان المبارک کے موقع پر دالوں،گھی، چاول ،چکن، مٹن ،بیف ،آلو ،پیاز، ٹماٹر اور پھلوں سمیت پچیس سے زائد اشیائے خوردونوش کی قیمتوں میں غیر معمولی اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔یوٹیلیٹی اسٹورز پرحکومت کی جانب سے 14اشیاء پر فراہم کی جانے والی 2.10ارب روپے کی سبسڈی کے باوجود چینی اور آٹے کی قلت پائی گئی جبکہ فروخت ہونے والی اشیاء بلخصوص دالوں ،چاول اورآٹے کامعیارخاطر خواہ حد تک گر چکا ہے۔ اس ضمن میں وفاقی ترقیاتی ادارہ سمیت پنجاب حکومت کی جانب سے مہنگائی کم کرنے کیلئے قائم کردہ ہفتہ وار اور سستا بازار بھی رمضان المبارک کی آمد سے قبل مہنگائی کم کرنے میں ناکام ہو گئے لیکن اس کے باوجود ملک بھر میں کہیں سے بھی اس کیخلاف صدائے احتجاج بلند نہیں ہو رہی کیونکہ آج ہم پاکستانی بھی ظلم سہنے کے اتنے عادی ہو چکے ہیں کہ کہیں سے کوئی ایک آواز بھی نہیں اٹھی۔ لگتا ہے کہ جیسے یہ عوام انسان نہیں بلکہ چلتے پھرتے مردے ہیں ۔
یہ ملک پاکستان نہیں بلکہ زندوں کا قبرستان ہے جہاں عوام پیٹ و کچن سے آگے کچھ دیکھنے کو تیار نہیں ۔ہر ایک چاہتا ہے کہ اس کا مسئلہ حل ہو جائے اسے روٹی مل جائے ،اسے کسی طرح پیسہ مل جائے، پانی نہیں ہے تو ٹینکر ڈلوا لیا، بجلی نہیں ہے تو یو پی ایس یا جرنیٹر خرید لیا ،آٹا مہنگا ہوا تو وہ بھی خرید لیا ،چینی مہنگی ہوئی تو وہ بھی خرید لی لیکن کبھی آٹا،چینی، بجلی و پانی کا بحران پیدا کرنیوالوں سے باز پرس نہیں کی۔ جو ہورہا ہے ہونے دو ،جو چل رہا ہے چلنے دو، ہر ایک کو صرف اپنی فکر ہے ،ان کا دھیان کسی اور طرف نہیں جارہا۔اپنا ضمیر ،اپنی غیرت اور اب آخر میں اپنے بچے ،گردے و دیگر جسمانی اعضاء فروخت کرنے کی آواز لگا رہے ہیں مگر کوئی ظلم و ناانصافی کیخلاف بولنے کو تیار نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ آج ملک میں ہر تیسرا نوجوان بیروزگاری کے اندھیروں میں بھٹک رہا ہے۔بے روزگاری اور مہنگائی کا عفریت اپنے خونی جبڑے کھولے نئی نسل کو نگلنے کیلئے تیار ہے۔تعلیم یافتہ ڈگری ہولڈر نوجوانوں کی مجرمانہ سرگرمیوں و سینکڑوں مجبور و بے بس لڑکیوں کی عصمت فروشی کے واقعات نے نام نہاد اسلامی جمہوریہ پاکستان کے کھوکھلا پن کو بے نقاب کر دیا ہے۔ آج ضرورت اس امر کی ہے کہ سب سے پہلے قوم اپنے اندر سادگی لائے ۔ہم اپنے غیر ضروری اخراجات کو ختم کریں اور اپنی ضرورتوں کو محدود کر کے دوسروں کی مدد کریں اور علاقائی سطح پر محلہ کمیٹیاں بنا کر احتساب کا عمل شروع کریں۔ سب سے پہلے اپنا احتساب کریں پھر محلے کے اس دکاندار کا جو گرانفروشی کرتا ہے اور اس کے بعد معاشرے کو بدلنے کیلئے جدوجہد کریں ۔اگر آپ دوسروں کی مدد کر رہے ہیں تو یہ آپ اپنے اوپر احسان کر رہے ہیں کیونکہ حقوق اللہ تو معاف ہو سکتے ہیں حقوق العباد نہیں۔ ہمیں اس استحصالی نظام کو بدلنے کیلئے خود جدوجہد کرنا ہوگی۔ یاد رہے کہ جس معاشرے میں بے حسی بڑھ جائے وہاں انقلاب نہیں عذاب آتے ہیں۔
Comment