مالاکنڈ آپریشن: عام شہری کتنے متاثر
شائستہ، سوات
دس سالہ شائستہ مارٹر گولہ لگنے سے ایک ٹانگ سے محروم ہو گئی ہیں۔’ ہم راستے میں آ رہے تھے اور میرے ساتھ میری امی، تین بہنیں اور ایک بھائی بھی تھا۔ مارٹر گولہ لگا اور میری امی، بھائی اور تین بہنیں ہلاک ہو گئے۔ میرے ابو درگئی میں کام کرتے ہیں لیکن انہیں اس بارے میں شاید معلوم بھی نہیں۔
فریدون، کوٹ انڈاکی، سوات
ہم گھر میں تیس لوگ تھے اور علاقے میں کرفیو لگا ہوا تھا۔ ہم علاقہ چھوڑنے والے تھے لیکن شیلنگ ہوئی اور مارٹر گولہ میرے گھر پر گرا۔ میرے تین بیٹے جاں بحق ہو گئے۔ مجھے نہیں علم مارٹر گولہ کہاں سے آیا۔ جب ہم اپنے بچوں کو دفنانے لگے تو دوبارہ شیلنگ شروع ہو گئی اور بھگدڑ مچ گئی۔ اس کے بعد فوج کا ایک کپتان آیا اور اسے ہم نے بتایا تب اس نے ہمیں بچوں کو دفنانے کی اجازت دی۔ میری بیوی بچ گئی ہے اور میرا بھائی مجھے یہاں ہسپتال لے کر آیا۔ میرے گھر کی دیواریں گر گئی ہیں۔ راستے میں میں نے کئی تباہ گھر دیکھے۔ چار پانچ لوگوں کی لاشیں بھی سڑک پر پڑی نظر آئیں۔ لوگ پیدل ہی وہاں سے نکل رہے تھے۔
روبینہ، نامسیر کلے، بونیر
سات سالہ روبینہ کا ایک بازو کٹ چکا ہے۔ ان کے ساتھ بیٹھیں ان کی والدہ نے بتایا: اوپر سے جہاز نے فائرنگ اور ہم تو سب ادھر ادھر بھاگے۔ فائرنگ سے میری بیٹی زخمی ہو گئی۔ میرے آٹھ بچے ہیں۔ میں چھ دن پہلے انہیں وہیں چھور آئی تھی لیکن مجھے نہیں پتہ کہ وہ سب کس حال میں ہیں۔ میرا شوہر بھی وہیں ہے۔ اس کا فون آیا تھا کہ وہ زندہ ہے۔
جلالہ کیمپ، تخت بائی، مردان
گل بہار، مینگورہ
میرے گھر میں گیارہ لوگ ہیں۔ میری بیوی جنوری میں ایک بم دھماکے میں جاں بحق ہو گئی تھی۔ ہیلی کاپٹر کی شیلنگ سے میرے گھر کو کافی نقصان پہنچا ہے۔ ایک میزائل ہمارے قریبی ایک گھر پر گرا تھا۔ گھر میں کھانا کھاتے ہوئے چھ افراد زخمی ہوئے۔ مینگورہ، سیدو شریف، شگئی اور بری کوٹ تک اتنی شیلنگ ہوئی ہے کہ ماں کو بیٹے کا پتہ نہیں، کسی کو باپ کا پتہ نہیں سب لوگ بکھر گئے۔ ہم ایک ٹرک پر بیٹھ کر یہاں پہنچے۔ گھروں میں نہ کوئی آٹا ہے نہ روٹی نہ لکڑی ، وہاں کچھ بھی نہیں تھا۔ طالبان ہیں تو بہت زیادہ لیکن فائرنگ کرتے ہوئے کوئی یہ نہیں دیکھتا کہ وہاں طالبان ہیں بھی یا نہیں۔ طالبان نے معاہدے کی خلاف ورزی کی۔ ہم ان کے بارے میں کچھ نہیں کہہ سکتے کیونکہ گردن کٹتی ہے اور نہ حکومت کے خلاف کوئی بول سکتا ہے۔ یہاں کیمپ میں تو بھیک والا حال ہے۔
ابراہیم، مینگورہ
ہم مجبوری کی وجہ سے یہاں آئے ہیں۔ اوپر سے جہاز گولہ باری کرتے ہیں اور نیچے طالبان۔ حالات بہت خراب ہو گئے تھے۔ ہمارے محلے میں دس دن میں کوئی پندرہ گھر شیلنگ سے تباہ ہو گئے اور ان میں رہنے والے بھی ختم ہو گئے۔ آج کل تو وہاں طالبان عوام سے بھی زیادہ ہو گئے ہیں۔ مجھے نہیں علم کہ وہ کہاں سے آئے لیکن حکومت بالکل ٹھیک کر رہی ہے۔ کتنے طالبان مرے، یہ مجھے نہیں لیکن عام لوگ بہت مرے ہیں۔
یحیٰی خان، تحصیل لال قلعہ، لوئر دیر
کچھ عرصے سے ہمارے ہاں طالبان سرعام اسلحے کے ساتھ گھوم رہے تھے۔ پولیس انہیں کچھ نہیں کہتی تھی۔ پھر فوج آئی۔ پہلے انہوں نے گن شپ ہیلی کاپٹر استعمال کیے، پھر ٹینک اور توپیں استعمال کیں۔ جب طالبان اور فوج کا آمنا سامنا ہوتا ہے تو عوام مرتے ہیں۔ بعد میں طالبان بھی امن سے نکل جاتے ہیں اور فوج بھی امن سے واپس چلی جاتی ہے۔ فوج جب ہمارے علاقے میں آئی تو کہنے لگی کہ ہم آپ کو کچھ نہیں کہیں گے، طالبان کا صفایا کریں گے۔ لیکن بعد میں دراصل عام لوگوں کا صفایا ہو گیا ہے اور طالبان وہیں کے وہیں ہیں۔
چھوٹا لاہور، صوابی
فیاض حسین، پیر بابا، بونیر
مجھے صوابی آئے ہوئے ایک ہفتہ ہوا ہے۔ میرے گھر میں بارہ لوگ ہیں اور میرے ایک دوست نے ہمیں اپنے گھر میں جگہ دی ہے۔ میں رکشہ چلاتا تھا۔ طالبان آئے تو حالات خراب ہو گئے۔ فوج آئی تو اس نے گولہ باری کی اور ہمارے گھر بھی نشانہ بن رہے تھے۔ طالبان ہم جیسے لوگ ہوتے ہیں لیکن ان کی داڑھی ہوتی ہے اور ان کی بندوق ہوتی ہے۔ ہمیں وہ کچھ نہیں کہتے تھے اور ان کی لڑائی فوج کے ساتھ تھی۔ان دونوں کی لڑائی میں ہم خراب ہو رہے تھے۔ اس لیے ہمیں اپنا علاقہ چھوڑنا پڑا۔
عدنان، چملہ، بونیر
حکومت کو آپریشن کرنا تھا تو سوچ سمجھ کے کرتی۔ پہلے مقامی لوگوں کو تحفظ اور سہولتیں دینی چاہیے تھیں۔ میں یکم مئی کو صوابی آیا ہوں۔ میں نے راستے میں ایک بچے کو دفناتے ہوئے دیکھا۔ کئی لوگ ابھی تک لاپتہ ہیں۔ جو نہیں چل سکتے تھے انہیں وہیں چھوڑ آئے اور اب ان کا کوئی پتہ نہیں۔ میں ایک سو کلومیٹر دو دن میں پیدل چل کر آیا ہوں۔
شاہ خالد، چملہ، بونیر
ہمارے علاقوں میں جو کچھ بھی ہو رہا ہے وہ سب طالبان اور فوج کا کھیل ہے۔ عام لوگ مر رہے ہیں۔ پہلے تو پہاڑوں پر شیلنگ ہوئی۔ بعد میں کرفیو لگ گیا اور کسی کو اس کا علم نہیں تھا۔ لوگ گھوم پھر رہے تھے اور مارے گئے۔ ہمارے سکول کا ایک پرنسپل (بخت کریم شاہ) تھا۔ وہ امتحانوں کی ڈیوٹی سے واپس آ رہا تھا تو امبیلہ کے قریب فائرنگ شروع ہو گئی۔ وہ اسی میں مارا گیا۔ بعد میں اسے انہوں نے دہشت گرد کہہ دیا۔ ہمارے گھر کے قریب ایک شخص کے گھر پر مارٹر گولہ گرا۔ اس کا ایک بیٹا مر گیا اور دوسرے کے پاؤں کٹ گئے۔
سرکاری ٹیچر، چملہ، بونیر (نام بتانے سے گریز کیا)
ہمارے خاندان میں پینتالیس افراد ہیں۔ مجھے اپریل کے مہینے کی تنخواہ بھی نہیں ملی۔ یہاں صوابی میں ایک دوست نے اپنا گھر دیا ہے رہنے کے لیے لیکن عورتیں بچے سب بیمار ہیں۔ وہ روتے ہیں تو مجھے بھی رونا آتا ہے۔ بھوک سے اپنے گھر میں ہی مریں تو بہتر ہے۔ میں اُن پرنسپل کو جانتا ہوں جو شیلنگ میں ہلاک ہوئے۔ میں نے ان کا جنازہ پڑھا تھا۔ ان کی لاش سڑک پر پڑی رہی تھی۔ ان کا ایک بازو کٹ گیا تھا اور ان کے ہونٹ چیونٹیوں نے کھا لیے تھے۔
شائستہ، سوات
دس سالہ شائستہ مارٹر گولہ لگنے سے ایک ٹانگ سے محروم ہو گئی ہیں۔’ ہم راستے میں آ رہے تھے اور میرے ساتھ میری امی، تین بہنیں اور ایک بھائی بھی تھا۔ مارٹر گولہ لگا اور میری امی، بھائی اور تین بہنیں ہلاک ہو گئے۔ میرے ابو درگئی میں کام کرتے ہیں لیکن انہیں اس بارے میں شاید معلوم بھی نہیں۔
فریدون، کوٹ انڈاکی، سوات
ہم گھر میں تیس لوگ تھے اور علاقے میں کرفیو لگا ہوا تھا۔ ہم علاقہ چھوڑنے والے تھے لیکن شیلنگ ہوئی اور مارٹر گولہ میرے گھر پر گرا۔ میرے تین بیٹے جاں بحق ہو گئے۔ مجھے نہیں علم مارٹر گولہ کہاں سے آیا۔ جب ہم اپنے بچوں کو دفنانے لگے تو دوبارہ شیلنگ شروع ہو گئی اور بھگدڑ مچ گئی۔ اس کے بعد فوج کا ایک کپتان آیا اور اسے ہم نے بتایا تب اس نے ہمیں بچوں کو دفنانے کی اجازت دی۔ میری بیوی بچ گئی ہے اور میرا بھائی مجھے یہاں ہسپتال لے کر آیا۔ میرے گھر کی دیواریں گر گئی ہیں۔ راستے میں میں نے کئی تباہ گھر دیکھے۔ چار پانچ لوگوں کی لاشیں بھی سڑک پر پڑی نظر آئیں۔ لوگ پیدل ہی وہاں سے نکل رہے تھے۔
روبینہ، نامسیر کلے، بونیر
سات سالہ روبینہ کا ایک بازو کٹ چکا ہے۔ ان کے ساتھ بیٹھیں ان کی والدہ نے بتایا: اوپر سے جہاز نے فائرنگ اور ہم تو سب ادھر ادھر بھاگے۔ فائرنگ سے میری بیٹی زخمی ہو گئی۔ میرے آٹھ بچے ہیں۔ میں چھ دن پہلے انہیں وہیں چھور آئی تھی لیکن مجھے نہیں پتہ کہ وہ سب کس حال میں ہیں۔ میرا شوہر بھی وہیں ہے۔ اس کا فون آیا تھا کہ وہ زندہ ہے۔
جلالہ کیمپ، تخت بائی، مردان
گل بہار، مینگورہ
میرے گھر میں گیارہ لوگ ہیں۔ میری بیوی جنوری میں ایک بم دھماکے میں جاں بحق ہو گئی تھی۔ ہیلی کاپٹر کی شیلنگ سے میرے گھر کو کافی نقصان پہنچا ہے۔ ایک میزائل ہمارے قریبی ایک گھر پر گرا تھا۔ گھر میں کھانا کھاتے ہوئے چھ افراد زخمی ہوئے۔ مینگورہ، سیدو شریف، شگئی اور بری کوٹ تک اتنی شیلنگ ہوئی ہے کہ ماں کو بیٹے کا پتہ نہیں، کسی کو باپ کا پتہ نہیں سب لوگ بکھر گئے۔ ہم ایک ٹرک پر بیٹھ کر یہاں پہنچے۔ گھروں میں نہ کوئی آٹا ہے نہ روٹی نہ لکڑی ، وہاں کچھ بھی نہیں تھا۔ طالبان ہیں تو بہت زیادہ لیکن فائرنگ کرتے ہوئے کوئی یہ نہیں دیکھتا کہ وہاں طالبان ہیں بھی یا نہیں۔ طالبان نے معاہدے کی خلاف ورزی کی۔ ہم ان کے بارے میں کچھ نہیں کہہ سکتے کیونکہ گردن کٹتی ہے اور نہ حکومت کے خلاف کوئی بول سکتا ہے۔ یہاں کیمپ میں تو بھیک والا حال ہے۔
ابراہیم، مینگورہ
ہم مجبوری کی وجہ سے یہاں آئے ہیں۔ اوپر سے جہاز گولہ باری کرتے ہیں اور نیچے طالبان۔ حالات بہت خراب ہو گئے تھے۔ ہمارے محلے میں دس دن میں کوئی پندرہ گھر شیلنگ سے تباہ ہو گئے اور ان میں رہنے والے بھی ختم ہو گئے۔ آج کل تو وہاں طالبان عوام سے بھی زیادہ ہو گئے ہیں۔ مجھے نہیں علم کہ وہ کہاں سے آئے لیکن حکومت بالکل ٹھیک کر رہی ہے۔ کتنے طالبان مرے، یہ مجھے نہیں لیکن عام لوگ بہت مرے ہیں۔
یحیٰی خان، تحصیل لال قلعہ، لوئر دیر
کچھ عرصے سے ہمارے ہاں طالبان سرعام اسلحے کے ساتھ گھوم رہے تھے۔ پولیس انہیں کچھ نہیں کہتی تھی۔ پھر فوج آئی۔ پہلے انہوں نے گن شپ ہیلی کاپٹر استعمال کیے، پھر ٹینک اور توپیں استعمال کیں۔ جب طالبان اور فوج کا آمنا سامنا ہوتا ہے تو عوام مرتے ہیں۔ بعد میں طالبان بھی امن سے نکل جاتے ہیں اور فوج بھی امن سے واپس چلی جاتی ہے۔ فوج جب ہمارے علاقے میں آئی تو کہنے لگی کہ ہم آپ کو کچھ نہیں کہیں گے، طالبان کا صفایا کریں گے۔ لیکن بعد میں دراصل عام لوگوں کا صفایا ہو گیا ہے اور طالبان وہیں کے وہیں ہیں۔
چھوٹا لاہور، صوابی
فیاض حسین، پیر بابا، بونیر
مجھے صوابی آئے ہوئے ایک ہفتہ ہوا ہے۔ میرے گھر میں بارہ لوگ ہیں اور میرے ایک دوست نے ہمیں اپنے گھر میں جگہ دی ہے۔ میں رکشہ چلاتا تھا۔ طالبان آئے تو حالات خراب ہو گئے۔ فوج آئی تو اس نے گولہ باری کی اور ہمارے گھر بھی نشانہ بن رہے تھے۔ طالبان ہم جیسے لوگ ہوتے ہیں لیکن ان کی داڑھی ہوتی ہے اور ان کی بندوق ہوتی ہے۔ ہمیں وہ کچھ نہیں کہتے تھے اور ان کی لڑائی فوج کے ساتھ تھی۔ان دونوں کی لڑائی میں ہم خراب ہو رہے تھے۔ اس لیے ہمیں اپنا علاقہ چھوڑنا پڑا۔
عدنان، چملہ، بونیر
حکومت کو آپریشن کرنا تھا تو سوچ سمجھ کے کرتی۔ پہلے مقامی لوگوں کو تحفظ اور سہولتیں دینی چاہیے تھیں۔ میں یکم مئی کو صوابی آیا ہوں۔ میں نے راستے میں ایک بچے کو دفناتے ہوئے دیکھا۔ کئی لوگ ابھی تک لاپتہ ہیں۔ جو نہیں چل سکتے تھے انہیں وہیں چھوڑ آئے اور اب ان کا کوئی پتہ نہیں۔ میں ایک سو کلومیٹر دو دن میں پیدل چل کر آیا ہوں۔
شاہ خالد، چملہ، بونیر
ہمارے علاقوں میں جو کچھ بھی ہو رہا ہے وہ سب طالبان اور فوج کا کھیل ہے۔ عام لوگ مر رہے ہیں۔ پہلے تو پہاڑوں پر شیلنگ ہوئی۔ بعد میں کرفیو لگ گیا اور کسی کو اس کا علم نہیں تھا۔ لوگ گھوم پھر رہے تھے اور مارے گئے۔ ہمارے سکول کا ایک پرنسپل (بخت کریم شاہ) تھا۔ وہ امتحانوں کی ڈیوٹی سے واپس آ رہا تھا تو امبیلہ کے قریب فائرنگ شروع ہو گئی۔ وہ اسی میں مارا گیا۔ بعد میں اسے انہوں نے دہشت گرد کہہ دیا۔ ہمارے گھر کے قریب ایک شخص کے گھر پر مارٹر گولہ گرا۔ اس کا ایک بیٹا مر گیا اور دوسرے کے پاؤں کٹ گئے۔
سرکاری ٹیچر، چملہ، بونیر (نام بتانے سے گریز کیا)
ہمارے خاندان میں پینتالیس افراد ہیں۔ مجھے اپریل کے مہینے کی تنخواہ بھی نہیں ملی۔ یہاں صوابی میں ایک دوست نے اپنا گھر دیا ہے رہنے کے لیے لیکن عورتیں بچے سب بیمار ہیں۔ وہ روتے ہیں تو مجھے بھی رونا آتا ہے۔ بھوک سے اپنے گھر میں ہی مریں تو بہتر ہے۔ میں اُن پرنسپل کو جانتا ہوں جو شیلنگ میں ہلاک ہوئے۔ میں نے ان کا جنازہ پڑھا تھا۔ ان کی لاش سڑک پر پڑی رہی تھی۔ ان کا ایک بازو کٹ گیا تھا اور ان کے ہونٹ چیونٹیوں نے کھا لیے تھے۔
Comment