سوات کی طالبہ کہاں گئیں؟
سوات میں آپریشن شروع ہونے کے بعد سے اب تک تیرہ لاکھ افراد بے گھر ہو چکے ہیں
سوات میں فوجی آپریشن نے جہاں لاکھوں لوگوں کو بےگھر کردیا ہے وہاں بی بی سی اردو ڈاٹ کام کے لیے ڈائری لکھنے والی پانچویں جماعت کی طالبہ ’گل مکئی‘ سے بھی اپنا گھر بار چھین لیا ہے۔ وہ کہتی ہیں ’میں نے سوات نہیں بلکہ اپنی پہچان اور زندگی چھوڑ دی اور انہیں واپس پانے کے لیے ایک دن ضرور سوات واپس جاؤں گی۔‘
سکیورٹی کے خدشے کے پیش نظر’گل مکئی‘ کے فرضی نام سے ڈائری لکھنے والی طالبہ نے نقل مکانی کی اپنی روداد پشاور میں ہمارے نمائندے عبدالحئی کاکڑ سے کچھ یوں سنائی۔
منگل کی رات تھی کہ ہرطرف سے شدید فائرنگ کی آوازیں آنا شروع ہوئیں۔ہم سبھی خوف کے مارے فرش پر لیٹ گئے۔ پتہ چلا کہ فوج اور طالبان کے درمیان فائرنگ ہورہی ہے۔ ہمارا گھر فوجی مرکز سرکٹ ہاؤس کے قریب واقع ہے۔ ہمارے خوف میں اور بھی اضافہ ہوا کیونکہ اگر فوجی مرکز میں کچھ ہوتا ہے تو ہمیں بھی ضرور نقصان پہنچ سکتا تھا۔
ہم سب نے اگلے دن ہی سوات چھوڑنے کا فیصلہ کیا۔ ہم نے ضرورت کی اشیاء تیار کر لیں کہ اس دوران خبر آئی کہ سوات میں کرفیو نافذ ہوگیا ہے۔ ہم تین دن تک گھر میں پھنسے رہے۔ جب کرفیو میں نرمی کی گئی تو ہم سامان گاڑی میں رکھ کر سوات سے روانہ ہوگئے۔ مجھے اس وقت بہت دکھ ہورہا تھا جب میں اپنا سکول بیگ جس میں میری کتابیں تھیں نہیں اٹھا سکی۔ میں نے آیت الکرسی اور قل پڑھ کر بیگ پر پھونک دیا تاکہ وہ طالبان اور فوج کی لڑائی میں محفوظ رہے۔
مینگورہ سے نکلتے وقت ہم نے قمبر کے علاقے میں طالبان کو دیکھا جو لوگوں کو گاڑیوں کی لائن درست کرنے کی ہدایات دے رہے تھے۔ طالبان کا حکم سنتے ہی لوگ ٹھیک ہوجاتے تھے۔ میں نے اور میری سہیلی نے انہیں' ٹریفک طالبان' کا نام دیا۔
جب ہم باہر آئے تو لوگوں کا ایک بہت بڑا ہجوم سڑکوں پر نکل آیا تھا۔ ایسا لگ رہا تھا کہ انسانوں کا ایک سیلاب آگے بڑھ رہا ہے۔ کسی کے پاؤں میں جوتے نہیں تھے تو کسی کا دوپٹہ۔کسی نے گٹھڑی اٹھائی تھی تو کوئی خالی ہاتھ جارہا تھا۔ پہلے تو ہم نے سوچا کہ ہماری حالت بری ہے مگر لوگوں کی یہ حالت دیکھ اپنے حال پر شکر کیا۔
میں نے ایسے لوگ بھی دیکھے جن کے پاس کرایہ تک نہیں تھا۔ مینگورہ سے نکلتے وقت ہم نے قمبر کے علاقے میں طالبان کو دیکھا جو لوگوں کو گاڑیوں کی لائن درست کرنے کی ہدایات دے رہے تھے۔ طالبان کا حکم سنتے ہی لوگ ٹھیک ہوجاتے تھے۔ میں نے اور میری سہیلی نے انہیں ’ٹریفک طالبان‘ کا نام دیا۔
میرا بھائی راستے میں بہت خفا تھا کیونکہ ان کے چوزے گھر میں ہی رہ گئے تھے۔ انہوں نے ساتھ لے جانے کی بہت ضد کی مگر امی نے کہا کہ راستے میں مرجائیں گے۔ ہم پشاور سے نوشہرہ پہنچے اور پھر اگلے دن مانسہرہ سے ہوتے ہوئے بشام پہنچ گئے۔ بشام پہنچے تو فوجیوں نےہمیں آگے جانے سے روک دیا۔ میری دادی بیمار تھیں اور شدت درد سے رو رہی تھیں۔ ہم نے بہت منت سماجت کی تو فوجیوں نے جانے کی اجازت دے دی۔ہم پیدل روانہ ہوئے پھر ایک فلائنگ کوچ ملی اور شانگلہ کے لیے روانہ ہوگئے۔
مجھے یقین ہے کہ جنگ تو ہمیشہ کے لیے جاری نہیں رہے گی ایک دن تو اس کو ختم ہونا ہی ہے اور میں واپس جاکر اپنی زندگی اور پہچان کو پا لوں گی۔
ہم اس وقت شانگلہ میں ہیں مگر کیمپوں میں رہنے والے لوگوں کی حالت زار سن کر خدا کا شکر ادا کرتے ہیں کہ ہم تو بہت ہی آرام دہ حالت میں رہ رہے ہیں۔ سوات چھوڑنے کا دکھ ہو رہا ہے کیونکہ میں نے سوات نہیں بلکہ اپنی پہچان اور زندگی وہاں چھوڑی دی ہے۔
مجھے یقین ہے کہ جنگ تو ہمیشہ کے لیے جاری نہیں رہے گی ایک دن تو اس کو ختم ہونا ہی ہے اور میں واپس جاکر اپنی زندگی اور پہچان کو پا لوں گی۔
میری نہ طالبان کے ساتھ ہمدری ہے اور نہ ہی فوج کے ساتھ۔ دونوں نے ہم پر ظلم کیے ہیں۔ طالبان نے ہمیں برباد کر کے رکھ دیا ہے اور فوج ہمارے لوگوں کو قتل کررہی ہے۔ جس وقت ہم سوات چھوڑ کر آرہے تھے تو میرے ایک رشتہ دار کو پیٹھ میں اس وقت گولی لگی جب وہ اپنے بچوں کو فائرنگ سے بچانے کے لیے انہیں باورچی خانے لےجارہے تھے۔
میرے ایک کزن نے بتایا کہ طالبان نے اڈے میں برقعہ پوش خواتین کو جانے سے روکنے کے لیے انہیں دھکے مارے اور وہ زمین پر گر پڑیں۔ طالبان کو اب مزید ایسا نہیں کرنا چاہیے کیونکہ نفاذ شریعت کے بعد تو ان کا مطالبہ حل ہوگیا اب پھر وہ کیوں ایسا کرتے ہیں۔
سوات میں آپریشن شروع ہونے کے بعد سے اب تک تیرہ لاکھ افراد بے گھر ہو چکے ہیں
سوات میں فوجی آپریشن نے جہاں لاکھوں لوگوں کو بےگھر کردیا ہے وہاں بی بی سی اردو ڈاٹ کام کے لیے ڈائری لکھنے والی پانچویں جماعت کی طالبہ ’گل مکئی‘ سے بھی اپنا گھر بار چھین لیا ہے۔ وہ کہتی ہیں ’میں نے سوات نہیں بلکہ اپنی پہچان اور زندگی چھوڑ دی اور انہیں واپس پانے کے لیے ایک دن ضرور سوات واپس جاؤں گی۔‘
سکیورٹی کے خدشے کے پیش نظر’گل مکئی‘ کے فرضی نام سے ڈائری لکھنے والی طالبہ نے نقل مکانی کی اپنی روداد پشاور میں ہمارے نمائندے عبدالحئی کاکڑ سے کچھ یوں سنائی۔
منگل کی رات تھی کہ ہرطرف سے شدید فائرنگ کی آوازیں آنا شروع ہوئیں۔ہم سبھی خوف کے مارے فرش پر لیٹ گئے۔ پتہ چلا کہ فوج اور طالبان کے درمیان فائرنگ ہورہی ہے۔ ہمارا گھر فوجی مرکز سرکٹ ہاؤس کے قریب واقع ہے۔ ہمارے خوف میں اور بھی اضافہ ہوا کیونکہ اگر فوجی مرکز میں کچھ ہوتا ہے تو ہمیں بھی ضرور نقصان پہنچ سکتا تھا۔
ہم سب نے اگلے دن ہی سوات چھوڑنے کا فیصلہ کیا۔ ہم نے ضرورت کی اشیاء تیار کر لیں کہ اس دوران خبر آئی کہ سوات میں کرفیو نافذ ہوگیا ہے۔ ہم تین دن تک گھر میں پھنسے رہے۔ جب کرفیو میں نرمی کی گئی تو ہم سامان گاڑی میں رکھ کر سوات سے روانہ ہوگئے۔ مجھے اس وقت بہت دکھ ہورہا تھا جب میں اپنا سکول بیگ جس میں میری کتابیں تھیں نہیں اٹھا سکی۔ میں نے آیت الکرسی اور قل پڑھ کر بیگ پر پھونک دیا تاکہ وہ طالبان اور فوج کی لڑائی میں محفوظ رہے۔
مینگورہ سے نکلتے وقت ہم نے قمبر کے علاقے میں طالبان کو دیکھا جو لوگوں کو گاڑیوں کی لائن درست کرنے کی ہدایات دے رہے تھے۔ طالبان کا حکم سنتے ہی لوگ ٹھیک ہوجاتے تھے۔ میں نے اور میری سہیلی نے انہیں' ٹریفک طالبان' کا نام دیا۔
جب ہم باہر آئے تو لوگوں کا ایک بہت بڑا ہجوم سڑکوں پر نکل آیا تھا۔ ایسا لگ رہا تھا کہ انسانوں کا ایک سیلاب آگے بڑھ رہا ہے۔ کسی کے پاؤں میں جوتے نہیں تھے تو کسی کا دوپٹہ۔کسی نے گٹھڑی اٹھائی تھی تو کوئی خالی ہاتھ جارہا تھا۔ پہلے تو ہم نے سوچا کہ ہماری حالت بری ہے مگر لوگوں کی یہ حالت دیکھ اپنے حال پر شکر کیا۔
میں نے ایسے لوگ بھی دیکھے جن کے پاس کرایہ تک نہیں تھا۔ مینگورہ سے نکلتے وقت ہم نے قمبر کے علاقے میں طالبان کو دیکھا جو لوگوں کو گاڑیوں کی لائن درست کرنے کی ہدایات دے رہے تھے۔ طالبان کا حکم سنتے ہی لوگ ٹھیک ہوجاتے تھے۔ میں نے اور میری سہیلی نے انہیں ’ٹریفک طالبان‘ کا نام دیا۔
میرا بھائی راستے میں بہت خفا تھا کیونکہ ان کے چوزے گھر میں ہی رہ گئے تھے۔ انہوں نے ساتھ لے جانے کی بہت ضد کی مگر امی نے کہا کہ راستے میں مرجائیں گے۔ ہم پشاور سے نوشہرہ پہنچے اور پھر اگلے دن مانسہرہ سے ہوتے ہوئے بشام پہنچ گئے۔ بشام پہنچے تو فوجیوں نےہمیں آگے جانے سے روک دیا۔ میری دادی بیمار تھیں اور شدت درد سے رو رہی تھیں۔ ہم نے بہت منت سماجت کی تو فوجیوں نے جانے کی اجازت دے دی۔ہم پیدل روانہ ہوئے پھر ایک فلائنگ کوچ ملی اور شانگلہ کے لیے روانہ ہوگئے۔
مجھے یقین ہے کہ جنگ تو ہمیشہ کے لیے جاری نہیں رہے گی ایک دن تو اس کو ختم ہونا ہی ہے اور میں واپس جاکر اپنی زندگی اور پہچان کو پا لوں گی۔
ہم اس وقت شانگلہ میں ہیں مگر کیمپوں میں رہنے والے لوگوں کی حالت زار سن کر خدا کا شکر ادا کرتے ہیں کہ ہم تو بہت ہی آرام دہ حالت میں رہ رہے ہیں۔ سوات چھوڑنے کا دکھ ہو رہا ہے کیونکہ میں نے سوات نہیں بلکہ اپنی پہچان اور زندگی وہاں چھوڑی دی ہے۔
مجھے یقین ہے کہ جنگ تو ہمیشہ کے لیے جاری نہیں رہے گی ایک دن تو اس کو ختم ہونا ہی ہے اور میں واپس جاکر اپنی زندگی اور پہچان کو پا لوں گی۔
میری نہ طالبان کے ساتھ ہمدری ہے اور نہ ہی فوج کے ساتھ۔ دونوں نے ہم پر ظلم کیے ہیں۔ طالبان نے ہمیں برباد کر کے رکھ دیا ہے اور فوج ہمارے لوگوں کو قتل کررہی ہے۔ جس وقت ہم سوات چھوڑ کر آرہے تھے تو میرے ایک رشتہ دار کو پیٹھ میں اس وقت گولی لگی جب وہ اپنے بچوں کو فائرنگ سے بچانے کے لیے انہیں باورچی خانے لےجارہے تھے۔
میرے ایک کزن نے بتایا کہ طالبان نے اڈے میں برقعہ پوش خواتین کو جانے سے روکنے کے لیے انہیں دھکے مارے اور وہ زمین پر گر پڑیں۔ طالبان کو اب مزید ایسا نہیں کرنا چاہیے کیونکہ نفاذ شریعت کے بعد تو ان کا مطالبہ حل ہوگیا اب پھر وہ کیوں ایسا کرتے ہیں۔
Comment