[SIZE="4"]’طالبان فوج بھائی بھائی‘
عبدالحئی کاکڑ
بی بی سی اردو ڈاٹ کام، صوابی
’ آصف علی زرداری نے روٹی کپڑا اور مکان کا وعدہ کیا تھا اور اب انہوں نے ہم سے یہ تینوں چیزیں چھین لی ہیں۔ عوامی نیشنل پارٹی کا نعرہ ہے اپنی دھرتی اپنا اختیار مگر اس نے ہمیں بے گھر کرکے ہم سے ہماری دھرتی چھین لی ہے، طالبان اور فوج بھائی بھائی ہیں، اگر آپکو اس قسم کی باتیں سننے کا شوق ہے توجنگ زدہ ضلع بونیر سے نقل مکانی کرنے والے افراد کے لیے قائم کیےگئے کیمپوں میں تشریف لےجائیے۔
جب سے فوج نے بونیر میں کارروائی شروع کی ہے تب سے اب تک چھ لاکھ آبادی کے اس ضلع سے صوابی کے ناظم شہرام خان کے بقول غیر سرکاری اعداد و شمار کے مطابق ڈیڑھ لاکھ لوگ صوابی آئے ہیں۔ جبکہ سرکاری تعداد چالیس ہزار کے لگ بھگ ہے۔
ضلع بونیر سے متصل صوابی میں درجن بھر سے زیادہ کیمپ قائم ہیں جن میں ایک اسلام آباد پشاور موٹروے پر چھوٹا لاہور جہاں پر اٹھارہ سو پچاس جبکہ باقی صوابی کے شیوے اڈہ اور آس پاس کے علاقوں میں قائم ہیں۔ زیادہ تر کیمپ صوابی کے ناظم شہرام خان کا خاندان اپنی ذاتی خرچ سے چلا رہے ہیں جن میں بقول ولایت خان ترکئی کے پانچ ہزار افراد پناہ گزین ہیں۔
چھوٹا لاہور میں قائم بنگلہ کیمپ قدرے منظم ہے جہاں یو این ایچ سی آر کی فراہم کردہ خیمے قطار در قطار کھڑے نظر آتے ہیں۔ صحت کا مرکز اور لڑکوں اور لڑکیوں کے سکول خیموں میں کھول دیئےگئے ہیں۔اس کیمپ کے منتظم کبیر خان کے مطابق ’انہیں خیموں کی کمی کا سامنا ہے اور وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ انہیں کھانے پینے کی اشیاء کی بھی اشد ضروت اس لیے زیادہ پڑ سکتی ہے کیونکہ بونیر سے مہاجرین کے آمد کا سلسلہ اب بھی جاری و ساری ہے۔اقوام متحدہ کے ادارے یونیسیف، الخدمت فاونڈیشن، برطانیہ کی ایک غیر سرکاری تنظیم اُمہ ویلفیئر ٹرسٹ، لیاقت علی ٹرسٹ اور خوارک کا عالمی ادارہ ڈبلیو ایف پی حکومت کی مدد میں مصروف ہیں۔‘
نقل مکانی کرنے والوں سے بات کی جائے تو وہ رہائش، کھانے پینے، اور دیگر ضروریات زندگی کی فراہمی پر اطمینان کا اظہارکریں گے لیکن وہ آپ سے الٹا سوال کریں گے ’ کہ آپ بتائیں ہم کب تک ان کیمپوں میں مہاجرین کی طرح زندگی بسر کریں گے، ہمیں امن چاہیے۔’ بونیر کے چینو علاقے کے ایک نوجوان بختی رحمان کا کہنا تھا کہ ہمارا مسئلہ یہاں نہیں ہے بلکہ بونیر میں ہے ہمیں اگر بنگلے بھی مہیا کیے جائیں تو ہمارا مسئلہ حل نہیں ہوگا۔ مسئلے کا حل مذاکرات ہے۔
جب میں نے کہا کہ فوجی کاروائی تو مذاکرات کی ناکامی کے بعد شروع ہوئی تو بختی رحمان کی دلیل تھی کہ نہیں مذاکرات تو ادھورے رہ گئے۔ پہلے ہر معاملے میں مولانا صوفی محمد سے مشاورت ہوا کرتی تھی لیکن سوال یہ ہے کہ آخری وقت میں ان سے دارلقضاء پر مشاروت کیوں نہیں کی گئی۔ حکومت نے نفاذ شریعت امن کی خاطر نافذ کیا تھا مگر اسکی منظوری کے بعد اس نے ہمیں جنگ کا تحفہ دیا۔‘
بےگھر ہونے والے ان افراد میں سے زیادہ تر کا کہنا ہے کہ وہ طالبان کے ظلم و ستم سے نہیں بلکہ سکیورٹی فورسز کی بمباری اور گولہ باری سے علاقہ چھوڑ کر آئے ہیں۔
’طالبان ہمارے علاقے میں آئے، انہوں نےاین جی اوز سرکاری حکام اور لوگوں سے گاڑیاں چھینتے رہے اور دھمکیاں دیتے رہے لیکن پھر بھی ہم اتنے تنگ نہیں آئے کہ علاقہ چھوڑ دیتے مگر جب فوج آئی اور اندھا دھند بمباری شروع کی تب ہمیں وہاں سے نکلنا پڑا۔‘
نویں جماعت کے طالبعلم ناصر علی
زیادہ تر لوگوں کا کہنا ہے کہ انہیں وہاں سے نکلنے کا موقع بھی نہیں مل رہا تھا جب ملا تو خواتین اور بچوں کے ہمراہ کئی کئی گھنٹے پیدل سفر کرکے محفوظ مقامات تک پہنچے ہیں۔ان میں سے رحیم خان بھی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ’جب بمباری شدید ہوگئی، بچے اور خواتین رونے لگیں، مارٹر گولےگرتے رہے تو ہمارے گاؤں چینو کے پندرہ سو میں سے ہزار کے قریب لوگوں نے موقع پاکر کر نکلنا شروع کردیا۔ ہمارے گاؤں میں کچھ لوگ مرگئے اور بڑی تعداد میں زخمی ہوگئے تھے۔‘
ان کے مطابق وہ حواس باختہ حالت میں سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر اپنی فیملی کے ہمراہ نکل پڑے۔ صرف تن پر کپڑے اور پاؤں میں چپل اور جوتے لیکر صوابی پہنچے ہیں۔’ ہم اپنی بوڑھی ماں کے ہمراہ تین گھنٹے تک پیدل چل کریہاں پہنچے ہیں۔ ہمارے پاؤں میں چھالے پڑگئے ہیں اور ایک وقت ایسا آیا کہ ہم سے چلا بھی نہیں جا رہا تھا۔‘
بے گھر افراد سے گفتگو کے دوران مجھے ایسا کوئی شخص نہیں ملا جس نے یہ نہ کہا ہو کہ ’دراصل فوج اور طالبان ایک ہیں۔‘ شیوے اڈہ کے ایک کیمپ میں شاہ داد خان کا جن کے تین بیٹے نقل مکانی کے دوران غائب ہوگئے تھے لیکن بالاخر انہوں نے تینوں کو کیمپوں میں ڈھونڈ لیا ہے کہا کہ پاکستانی فوج نے ہم پر بہت ظلم کیا۔ فوجی آپریشن کے دوران میں قسم کھا کر کہتا ہوں کہ میں نے ایک طالب کو بھی ہلاک ہوتے نہیں دیکھا ہے کیونکہ طالب اور فوجی تو تو آپس میں بھائی بھائی ہیں۔‘
ساتھ کھڑے ایک دوسرے شخص سراج نے لقمہ دیا کہ’ فوجی کارروائی تو عوام کےخلاف شروع کی گئی تھی اب ہم نے جب پورا علاقہ خالی کروا دیا ہے اب دیکھیں گے کہ وہ طالبان کا صفایا کرتے ہیں کہ نہیں۔ یہ حکومت کی ہی سیاست ہے کہ وہ طالبان کو ہمارے علاقے میں لے آئے، ان کے آپس میں خفیہ تعلقات ہیں۔
عبدالحئی کاکڑ
بی بی سی اردو ڈاٹ کام، صوابی
’ آصف علی زرداری نے روٹی کپڑا اور مکان کا وعدہ کیا تھا اور اب انہوں نے ہم سے یہ تینوں چیزیں چھین لی ہیں۔ عوامی نیشنل پارٹی کا نعرہ ہے اپنی دھرتی اپنا اختیار مگر اس نے ہمیں بے گھر کرکے ہم سے ہماری دھرتی چھین لی ہے، طالبان اور فوج بھائی بھائی ہیں، اگر آپکو اس قسم کی باتیں سننے کا شوق ہے توجنگ زدہ ضلع بونیر سے نقل مکانی کرنے والے افراد کے لیے قائم کیےگئے کیمپوں میں تشریف لےجائیے۔
جب سے فوج نے بونیر میں کارروائی شروع کی ہے تب سے اب تک چھ لاکھ آبادی کے اس ضلع سے صوابی کے ناظم شہرام خان کے بقول غیر سرکاری اعداد و شمار کے مطابق ڈیڑھ لاکھ لوگ صوابی آئے ہیں۔ جبکہ سرکاری تعداد چالیس ہزار کے لگ بھگ ہے۔
ضلع بونیر سے متصل صوابی میں درجن بھر سے زیادہ کیمپ قائم ہیں جن میں ایک اسلام آباد پشاور موٹروے پر چھوٹا لاہور جہاں پر اٹھارہ سو پچاس جبکہ باقی صوابی کے شیوے اڈہ اور آس پاس کے علاقوں میں قائم ہیں۔ زیادہ تر کیمپ صوابی کے ناظم شہرام خان کا خاندان اپنی ذاتی خرچ سے چلا رہے ہیں جن میں بقول ولایت خان ترکئی کے پانچ ہزار افراد پناہ گزین ہیں۔
چھوٹا لاہور میں قائم بنگلہ کیمپ قدرے منظم ہے جہاں یو این ایچ سی آر کی فراہم کردہ خیمے قطار در قطار کھڑے نظر آتے ہیں۔ صحت کا مرکز اور لڑکوں اور لڑکیوں کے سکول خیموں میں کھول دیئےگئے ہیں۔اس کیمپ کے منتظم کبیر خان کے مطابق ’انہیں خیموں کی کمی کا سامنا ہے اور وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ انہیں کھانے پینے کی اشیاء کی بھی اشد ضروت اس لیے زیادہ پڑ سکتی ہے کیونکہ بونیر سے مہاجرین کے آمد کا سلسلہ اب بھی جاری و ساری ہے۔اقوام متحدہ کے ادارے یونیسیف، الخدمت فاونڈیشن، برطانیہ کی ایک غیر سرکاری تنظیم اُمہ ویلفیئر ٹرسٹ، لیاقت علی ٹرسٹ اور خوارک کا عالمی ادارہ ڈبلیو ایف پی حکومت کی مدد میں مصروف ہیں۔‘
نقل مکانی کرنے والوں سے بات کی جائے تو وہ رہائش، کھانے پینے، اور دیگر ضروریات زندگی کی فراہمی پر اطمینان کا اظہارکریں گے لیکن وہ آپ سے الٹا سوال کریں گے ’ کہ آپ بتائیں ہم کب تک ان کیمپوں میں مہاجرین کی طرح زندگی بسر کریں گے، ہمیں امن چاہیے۔’ بونیر کے چینو علاقے کے ایک نوجوان بختی رحمان کا کہنا تھا کہ ہمارا مسئلہ یہاں نہیں ہے بلکہ بونیر میں ہے ہمیں اگر بنگلے بھی مہیا کیے جائیں تو ہمارا مسئلہ حل نہیں ہوگا۔ مسئلے کا حل مذاکرات ہے۔
جب میں نے کہا کہ فوجی کاروائی تو مذاکرات کی ناکامی کے بعد شروع ہوئی تو بختی رحمان کی دلیل تھی کہ نہیں مذاکرات تو ادھورے رہ گئے۔ پہلے ہر معاملے میں مولانا صوفی محمد سے مشاورت ہوا کرتی تھی لیکن سوال یہ ہے کہ آخری وقت میں ان سے دارلقضاء پر مشاروت کیوں نہیں کی گئی۔ حکومت نے نفاذ شریعت امن کی خاطر نافذ کیا تھا مگر اسکی منظوری کے بعد اس نے ہمیں جنگ کا تحفہ دیا۔‘
بےگھر ہونے والے ان افراد میں سے زیادہ تر کا کہنا ہے کہ وہ طالبان کے ظلم و ستم سے نہیں بلکہ سکیورٹی فورسز کی بمباری اور گولہ باری سے علاقہ چھوڑ کر آئے ہیں۔
’طالبان ہمارے علاقے میں آئے، انہوں نےاین جی اوز سرکاری حکام اور لوگوں سے گاڑیاں چھینتے رہے اور دھمکیاں دیتے رہے لیکن پھر بھی ہم اتنے تنگ نہیں آئے کہ علاقہ چھوڑ دیتے مگر جب فوج آئی اور اندھا دھند بمباری شروع کی تب ہمیں وہاں سے نکلنا پڑا۔‘
نویں جماعت کے طالبعلم ناصر علی
زیادہ تر لوگوں کا کہنا ہے کہ انہیں وہاں سے نکلنے کا موقع بھی نہیں مل رہا تھا جب ملا تو خواتین اور بچوں کے ہمراہ کئی کئی گھنٹے پیدل سفر کرکے محفوظ مقامات تک پہنچے ہیں۔ان میں سے رحیم خان بھی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ’جب بمباری شدید ہوگئی، بچے اور خواتین رونے لگیں، مارٹر گولےگرتے رہے تو ہمارے گاؤں چینو کے پندرہ سو میں سے ہزار کے قریب لوگوں نے موقع پاکر کر نکلنا شروع کردیا۔ ہمارے گاؤں میں کچھ لوگ مرگئے اور بڑی تعداد میں زخمی ہوگئے تھے۔‘
ان کے مطابق وہ حواس باختہ حالت میں سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر اپنی فیملی کے ہمراہ نکل پڑے۔ صرف تن پر کپڑے اور پاؤں میں چپل اور جوتے لیکر صوابی پہنچے ہیں۔’ ہم اپنی بوڑھی ماں کے ہمراہ تین گھنٹے تک پیدل چل کریہاں پہنچے ہیں۔ ہمارے پاؤں میں چھالے پڑگئے ہیں اور ایک وقت ایسا آیا کہ ہم سے چلا بھی نہیں جا رہا تھا۔‘
بے گھر افراد سے گفتگو کے دوران مجھے ایسا کوئی شخص نہیں ملا جس نے یہ نہ کہا ہو کہ ’دراصل فوج اور طالبان ایک ہیں۔‘ شیوے اڈہ کے ایک کیمپ میں شاہ داد خان کا جن کے تین بیٹے نقل مکانی کے دوران غائب ہوگئے تھے لیکن بالاخر انہوں نے تینوں کو کیمپوں میں ڈھونڈ لیا ہے کہا کہ پاکستانی فوج نے ہم پر بہت ظلم کیا۔ فوجی آپریشن کے دوران میں قسم کھا کر کہتا ہوں کہ میں نے ایک طالب کو بھی ہلاک ہوتے نہیں دیکھا ہے کیونکہ طالب اور فوجی تو تو آپس میں بھائی بھائی ہیں۔‘
ساتھ کھڑے ایک دوسرے شخص سراج نے لقمہ دیا کہ’ فوجی کارروائی تو عوام کےخلاف شروع کی گئی تھی اب ہم نے جب پورا علاقہ خالی کروا دیا ہے اب دیکھیں گے کہ وہ طالبان کا صفایا کرتے ہیں کہ نہیں۔ یہ حکومت کی ہی سیاست ہے کہ وہ طالبان کو ہمارے علاقے میں لے آئے، ان کے آپس میں خفیہ تعلقات ہیں۔