ریحانہ بستی والا
بی بی سی اردو ڈاٹ کام، ممبئی
بی بی سی اردو ڈاٹ کام، ممبئی
خورشید یوسف شیخ گزشتہ بیس اپریل سے سیاسی جماعت کے دفتر میں صبح پہنچ جاتی ہیں۔ انہیں مقامی عورت رضیہ انیس نے کام پر لگایا ہے۔ روزانہ دفتر آکر بیٹھنے، جلوس میں گلا پھاڑ کر نعرے لگانے کے لیے انہیں روزانہ دو سو روپے مل جاتے ہیں۔ خورشید کے شوہر یوسف بھی اسی کام پر لگ گئے ہیں۔ وہ دفتر میں لوگوں کو چائے پانی لا کر دیتے ہیں۔اس طرح گھر میں ایک دن میں چار سو روپے آجاتے ہیں۔
میری مرضی میں دن بھر بہو جن سماج پارٹٰی کے لیے کام کرتا ہوں، شام کو ڈھائی سو روپے مل جاتے ہیں۔ اس کے بعد رات میں کانگریس پارٹی کے جلسے میں چلا جاتا ہوں۔ غرض پارٹیوں کی ہے، انہیں بھیڑ چاہیے ہم بھیڑ جمع کرتے ہیں۔
سیاسی کارکنباندرہ مشرق بھارت نگر اور شہر کی دیگر کچی بستیوں میں اکثر اسی طرح لوگوں کی بھیڑ جمع کی جاتی ہے۔ رضیہ انیس اپنے علاقے کی عورتوں کو جمع کرنے کی ذمہ دار ہے۔ اس نے پارٹی کو اپنی پہچان کی بیس عورتیں دی ہیں، اس لیے وہ دفتر میں کرسی پر بیٹھ کر سب کو کام پر لگانے کا کام کرتی ہے کہ کسے کہاں پمفلٹ بانٹنے جانا ہے اور کسے جلوس میں شامل ہو کر نعرے لگانا ہے۔ رضیہ کو اس کے روزانہ تین سو روپے ملتے ہیں۔
رضیہ باندرہ مغرب میں ایک امیر گھر میں گھریلو ملازمہ ہے لیکن اس طرح چند دنوں میں ہزاروں روپیہ کمانے کے لیے اس نے مالکن سے یہ کہہ کر چھٹی لے لی ہے کہ اسے اپنے وطن شادی میں جانا ہے۔ کسی نے بیماری کا بہانہ کیا ہے۔
فاطمہ بی عبدالصمد نوے سالہ خاتون ہیں لیکن جوانوں سے بڑھ کر چاق چوبند ہیں۔ وہ بھی سب کے ساتھ مل کر جلوس میں نعرے لگانے کا کام کرتی ہیں۔ ان کا پوتا ان کا بیٹا اور ان کی بہو سبھی کام پر لگ چکے ہیں۔
خورشید یوسف شیخ گزشتہ بیس اپریل سے سیاسی جماعت کے دفتر میں صبح پہنچ جاتی ہیں
رضیہ باندرہ مغرب میں ایک امیر گھر میں گھریلو ملازمہ ہے لیکن اس طرح چند دنوں میں ہزاروں روپیہ کمانے کے لیے اس نے مالکن سے یہ کہہ کر چھٹی لے لی ہے کہ اسے اپنے وطن شادی میں جانا ہے۔ کسی نے بیماری کا بہانہ کیا ہے۔
فاطمہ بی عبدالصمد نوے سالہ خاتون ہیں لیکن جوانوں سے بڑھ کر چاق چوبند ہیں۔ وہ بھی سب کے ساتھ مل کر جلوس میں نعرے لگانے کا کام کرتی ہیں۔ ان کا پوتا ان کا بیٹا اور ان کی بہو سبھی کام پر لگ چکے ہیں۔
خورشید یوسف شیخ گزشتہ بیس اپریل سے سیاسی جماعت کے دفتر میں صبح پہنچ جاتی ہیں
دلچسپ بات تو یہ ہے کہ ماں کانگریس کے لیے نعرے لگا رہی ہیں تو بیٹے نے بہو جن سماج پارٹی کے لیے کام کرنا منظور کیا ہے کیونکہ اس پارٹی کے لوگ ہفتے نہیں بلکہ روزانہ شام کو سات بجے ڈھائی سو روپے دیتے ہیں اور کھانا بھی اچھا ملتا ہے۔ساتھ میں بیٹا اور بہو بھی رہتے ہیں۔
مہاڈیشور نکم بھارت نگر میں ہی رہتی ہیں اور ہمشہ سے شیو سینا کے لیے کام کرتی آئی تھیں۔ لیکن اس مرتبہ انہوں نے پارٹی بدل دی ہے اور اب وہ راج ٹھاکرے کی مہاراشٹر نو نرمان سینا کی امیدوار شلپا سرپوتدار کے لیے کام کر رہی ہیں۔ وجہ مہاڈیشور کے لیے بھی کچھ زیادہ مختلف نہیں ہے۔ شیوسینا کی آفس میں پہلے سے پرانے لوگ ہیں اور یہاں مہاڈیشور کا تنہا راج چلتا ہے اور انہیں پیسے بھی زیادہ ملتے ہیں۔
مہاڈیشور نکم بھارت نگر میں ہی رہتی ہیں اور ہمشہ سے شیو سینا کے لیے کام کرتی آئی تھیں۔ لیکن اس مرتبہ انہوں نے پارٹی بدل دی ہے اور اب وہ راج ٹھاکرے کی مہاراشٹر نو نرمان سینا کی امیدوار شلپا سرپوتدار کے لیے کام کر رہی ہیں۔ وجہ مہاڈیشور کے لیے بھی کچھ زیادہ مختلف نہیں ہے۔ شیوسینا کی آفس میں پہلے سے پرانے لوگ ہیں اور یہاں مہاڈیشور کا تنہا راج چلتا ہے اور انہیں پیسے بھی زیادہ ملتے ہیں۔
ایسا نہیں ہے کہ یہ ان پڑھ وفادار نہیں ہیں۔ ان میں ایسے بھی ہیں جو پیسے کسی سے بھی لیں، لیکن پارٹی کے ساتھ وفاداری نہیں بدلتے۔ جیسے شمع سلیم جن کے شوہر اور وہ بہو جن سماج پارٹی کے لیےکام کر رہے ہیں، لیکن ووٹ ہمیشہ سے کانگریس کو دیتے آئے ہیں۔ یہی حال مہاڈیشور کا ہے۔ وہ راج ٹھاکرے کی منسے پارٹی کے لیے کام کر رہی ہیں لیکن ووٹ شیوسینا کو ہی دیں گی۔
ایسا نہیں ہے کہ سیاسی پارٹیاں اس بات سے واقف نہیں ہیں۔ اصل میں دونوں ایک دوسرے کی ضرورت بن گئے ہیں۔ پارٹیوں کو کچھ وقت کے لیے لوگوں کی بھیڑ اکٹھا کرنی ہوتی ہے اور وہ چند روپیوں کے عوض انہیں مل جاتی ہے جب کہ ان غریبوں کو چند دنوں کے لیے ہزارہا روپے۔
Comment