پیپلز پارٹی کو ادراک کرنا چاہیے کہ یہ خودکشی کا راستہ ہے ۔ دوسرے تو محض مشور ہ ہی دے سکتے ہیں۔ اندمال ان کی ذمہ داری ہے جنہیں ہیجان نے دیوانہ کردیا۔ اگر مریض خود کو مارنے پر تل جائے تو کوئی معالج اس کی مدد نہیں کر سکتا۔ہیجان کا لمحہ آتا ہے تو آدمی کے باطن کی خبر دیتا ہے۔ مشکل آپڑتی ہے تو پتہ چلتا ہے کہ شخصیت کا تانا بانا در حقیقت کس دھاگے اور کن رنگوں سے بنا ہے۔ گاندھی جی نے کہا: آدمی کتنا اجلا ہے، یہ قمیض سے نہیں بنیان سے معلوم ہوتا ہے- اور امیرالمومنین علی ابنِ ابی طالب کرّم اللہ وجہہ کا قول یہ ہے : اقتدار آدمی کو بدل نہیں دیتا بلکہ اسے منکشف کرتا ہے۔
بحران کے ہنگام حکمران ٹولہ بے نقاب ہے۔ ملک مصائب میں گھرا تھا، جب اسے اقتدار ملا۔ دردمندی اور خلوص کے ساتھ جھگڑے نمٹانے اور قومی اتفاقِ رائے پیدا کرنے کی بجائے اس نے جوڑ توڑ اور چالاکی سے حکومت کرنے کی کوشش کی۔ افراتفری تھی اور امن درکار تھا مگر انہوں نے بے چینی کو برقرار رکھا اور اتھلے پانیوں میں مچھلیاں پکڑنے کی کوشش کرتے رہے۔ خانہ جنگی تھی اور مصالحت کا مطالبہ کرتی تھی مگر وہ امریکی ایجنڈے پر گامزن رہے۔ خون چوستی ہوئی مہنگائی اور نڈھال کر دینے والی بے روزگاری تھی مگر حکمرانوں کے اردگرد خون چوسنے والے ذخیرہ اندوز اور کاروبار کے نام پرنوسربازی کرنے والے دکھائی دیے۔ اخبار نویس تحقیق کریں کہ میاں محمد نواز شریف اور جناب آصف علی زرداری کے درمیان آخری ملاقاتوں میں تیسرا کون تھا اور اس کے کارنامے کیا ہیں؟
اب ایک نیا گل کھلا ہے۔ ٹیلی ویژن پر بار بار دیکھ ااور اخبارات میں پڑھا کہ یہ پنجاب ہے جو تمام بحرانوں کا ذمہ دار ہے۔ پنجابیوں نے لیاقت علی خان، ذوالفقار علی بھٹو اور محترمہ بے نظیر بھٹو کو قتل کیا اور وہ ایک سندھی کی حکومت برداشت کرنے پر آمادہ نہیں ۔ آدمی رفعت پذیر ہوتاہے تو کن رفعتوں کو چھوتاہے ا ور گرتاہے تو کس قدر گر جاتاہے۔ حکمران جماعت کے فلسفہ سازوں کو ادراک نہیں کہ رہنما وہ شخص ہوتاہے ، جو معاشرے کی تقسیم اور تعصبات سے بالا ہو۔ ہر آدمی کا تعلق کسی نسل ، زبان ، علاقے اور خاندان سے ہوتاہے مگر لیڈر کی پہچان یہ ہے کہ وہ ان رشتوں سے اوپر اٹھتاہے ۔ اس کی پہچان ادنیٰ وابستگیوں سے نہیں بلکہ برتر اصولوں سے ہوتی ہے ۔ وہ خاندان، قبیلے، نسل اور علاقے کو اپنی شناخت نہیں بناتا۔ اللہ کے آخری رسولﷺ نے ارشاد کیا تھا"وہ ہم میں سے نہیں جوعصبیت پر آواز دے "۔ پوچھا گیا کہ کیا اپنے قبیلے کی مدد کرنا گناہ ہے۔ فرمایا:ہر گز نہیں ، بلکہ ظلم پر اپنے لوگوں کی تائید کرنا۔ رسول اللہﷺ کی امت پر افسوس کہ فرطِ محبت سے عید میلاد النبیﷺ کے جلوسوں میں ، وہ خود کو نڈھال کر لیتے ہیں مگر ان کے ارشادات پر غور کرنے کی زحمت نہیں فرماتے۔ نسلوں اور علاقوں میں رشتے کی نوعیت بس اتنی ہے، جتنی کہ عالی مرتبتﷺ نے ارشاد فرمادی ۔ لبرل جمہوریت کی تعریف بھی فقط یہ ہے کہ مختلف طبقوں، گروہوں اور علاقوں کو اپنے حقوق کی آواز بلند کرنے کا پورا حق ہے مگر کسی کو ظلم پر دوسرے کی تائید نہ کرنی چاہیے۔ یہیں سے فساد کا آغاز ہوتا ہے اور پھیلتا چلا جاتاہے۔
لیاقت علی خان کو اہلِ پنجاب نے قتل نہ کیا تھا۔ ان سے پنجاب کو کوئی نقصان نہ پہنچا تھا۔ وہ تو ایک افغانی تھا، کرائے کا کارندہ۔ سازشیوں نے اسے خریدا تھا اور مار ڈالا۔ ذوالفقار علی بھٹو، اقتدار کی جنگ میں جان ہارے اور بے شک ان کے خلاف فیصلہ صادر کرنے والے جج پنجابی تھے مگر کیا انہیں پنجاب کے کسانوں ، مزدوروں، کلرکوں اوردوکانداروں کی حمایت حاصل تھی؟ اہلِ لاہور نے علامہ اقبال کے فرزند پر بھٹو کو ترجیح دی۔ 1970 کے الیکشن میں انہیں صرف پنجاب سے اکثریت ملی تھی، سندھ سے بھی نہیں ،جہاں ساٹھ میں سے وہ صرف اٹھائیس نشستیں جیت سکے تھے۔ پھر ان پر کڑا وقت آیا تو سب سے زیادہ مظاہرے پنجاب میں ہوئے۔ خود سوزی کرنے والے سب کے سب لاہور اور گردونواح سے تعلق رکھتے تھے، سندھ ، سرحد اور بلوچستان میں کوئی ایک بھی نہ تھا۔ اپریل 1986میں سرکاری عتاب کی ماری بھٹو کی بیٹی لوٹ کر آئی تو لاہور میں دس لاکھ انسانوں کے سمندر نے اس کا خیر مقدم کیا۔ رہے سندھ اور بلوچستان تو وہ بھٹو سے ناراض تھے۔ ان کی پھانسی نے اس ناراضی کو دھو ڈالا مگر یکسر ختم نہ کیا۔ رگ و ریشے میں وہ باقی رہی۔ بھٹو نے سرحد اور بلوچستان کی منتخب حکومتوں کو برطرف کر ڈالا تھا۔ بلوچستان پر فوج چڑھا دی۔ دونوں صوبوں کے ممتاز اور مقبول لیڈروں کو جیلوں میں ڈالے رکھا اور عبدالولی خان سمیت ، ان سب پر غداری کا مقدمہ چلایا۔ عبدالولی خان کی اہلیہ محترمہ نسیم ولی خان احتجاج کرنے نکلیں تو یہ پنجاب تھا، جس نے انہیں ایک ماں کا سا احترام دیا۔ اگر اے این پی اپنے خول سے باہر نہیں نکلتی اور صوبے کی آدھی آبادی کو نظر انداز کرکے اس کا نام پختون خواہ رکھنے پر مصر ہے تو اس کی ذمہ دار وہ خود ہے، کوئی دوسرا نہیں۔
سبھی کا استحصال ہواہے، سب ظلم کا شکار ہیں ۔ عام لوگ، حکمرانوں اور زرداروں کے ستائے ہوئے۔ عدل سے محروم اور غنڈوں کے رحم و کرم پر۔ لیکن ایک صوبے کے طور پر کسی کاا ستحصال ہوا ہے تو بلوچستان کا ۔ قومی بجٹ کی تقسیم میں تین اصول سامنے رکھے جاتے ہیں۔ آبادی ، رقبہ اور پسماندگی۔ ساری دنیامیں یہ ایک مسلمہ اصول ہے مثلاً مشرقی اور مغربی جرمنی کے اتحاد پر اس اصول کو اپنایا گیا اور مسئلہ ایک عشرے میں حل کر لیا گیا۔ اب بلوچستان کے بارے میں یہ ہے کہ اسے آبادی کے تناسب سے ملتا ہے ۔ تین صوبے اس کا حق ہضم کر جاتے ہیں۔ بلوچ لیڈروں میں اخلاقی جرات نہیں کہ ڈٹ کر یہ بات کہیں۔ وہ صرف پنجاب کو موردِ الزام ٹہراتے ہیں اور اپنا سفر کھوٹا کرتے ہیں۔ وہ سندھ اور سرحد کے قوم پرست رہنماؤں کو ناراض کرنے کی ہمت نہیں رکھتے ۔ کس قدر سطحی اندازِ فکر ہے کہ پنجاب ایک سندھی کی حکومت گوارا نہیں کرتا۔ کیا پیپلز پارٹی کو پنجاب میں اس سے زیادہ حمایت حاصل نہیں ، جتنی کسی بھی پنجابی رہنما کو سندھ میں؟ جھگڑا پنجاب اور دوسرے صوبوں کے درمیان نہیں۔ آزاد عدلیہ کی بحالی پر ہے۔ اگر اس طرح چیزوں کو دیکھا جائے کہ کس پارٹی کو کس صوبے میں کتنی تائید حاصل ہے تو پیپلز پارٹی کو صرف دیہی سندھ سے اکثریت ملی۔ نواز شریف کو انتخابی مہم چلانے کی مختصر سی مہلت ہی ملی، پھر یہ کہ ان کی پارٹی کا ایک بڑا حصہ فوج اور خفیہ ایجنسیوں نے کاٹ کر الگ کردیا اور اسے قاف لیگ بنا دیا۔ سبھی جانتے ہیں کہ اگر آج آزادانہ الیکشن ہوں تو
نواز شریف آسانی سے اکثریت حاصل کر لیں گے بلکہ شاید دو تہائی اکثریت۔ زرداری نامقبول ہیں اور اس لیے نہیں کہ وہ سندھی ہیں بلکہ اس لیے کہ وہ ملک کا کوئی مسئلہ حل نہ کر سکے۔ وہ مشرف کے سرپرست ہیں اور انہی کی طرح امریکہ کے رفیق کار۔ غریبوں مفلسوں اور محتاجو ں کی انہیں کوئی فکر نہیں۔ وہ وعدے کرتے اور توڑ ڈالتے ہیں۔ ادنیٰ مشیروں کا انہوں نے انتخاب کیا اور آزاد عدالتوں کی آرزو کرنے والی قوم کے جذبات کی انہیں کوئی پرواہ نہیں۔ بھٹو مقبول تھے مگر اس لیے نہیں کہ وہ سندھی تھے بلکہ اس لیے کہ گروہی اور علاقائی کی بجائے انہوں نے قومی سیاست کی۔ غلطیاں بھی انہوں نے پہاڑ جیسی کیں، خاص طور پر ان کی خوئے انتقام مگر آخری تجزیے میں وہ پاکستانی عوام کی امنگوں کے ترجمان تھے۔ مفلسوں اور محتاجوں کی زبان، پاکستان کے ازلی و ابدی دشمن بھارت کے مقابلے میں ڈٹ جانے والے اور امریکی استعمار کے مقابل گاہے خوددار۔
پیپلز پارٹی اور نون لیگ کی کشمکش کے ہنگام، یہ سندھ اور پنجاب کا سوال کہاں سے اٹھ کھڑا ہوا ۔ یہ ان احمق مشیروں کی ایجاد ہے جو سمجھتے ہیں کہ سیاست جذبات کے استحصال اور الفاظ کی جادوگری کا نام ہے ۔ جذبات کی جادوگری نہیں، سیاست عوامی امنگوں کے ادراک اور مشکلات میں راستہ ڈھونڈنے کی
مخلصانہ جدوجہد ہے۔ خدا ان لوگوں پر رحم کرے جو سندھی جماعت کا تاثر ابھار کر پیپلز پارٹی کو مقتل کی طرف لے جانے پر تلے ہیں۔ صدر زرداری سے درخواست ہے کہ وہ اپنے مشیروں کا ہاتھ پکڑیں ۔ خود پیپلز پارٹی کو بھی ادراک کرنا چاہیے کہ یہ خودکشی کا راستہ ہے خودکشی کا۔ دوسرے تو محض مشورہ ہی دے سکتے ہیں، اندمال ان کی ذمہ داری ہے جنہیں ہیجان نے دیوانہ کردیا۔ اگر مریض خود کو مارنے پر تل جائے تو کوئی معالج اس کی مدد نہیں کر سکتا۔
Comment